ٹورنگ ٹاکیز اور چوری چھپے دیکھی فلمیں


میرے گھر کے نزدیک اس سال خزاں ایک عجب رنگینی لئے ہے۔ سوکھتے پتے پیلے نارنجی ہلکے سرخ گہرے سرخ میں تبدیل ہو ایک آگ سی لگائے ہیں۔ اور پت جھڑ کی سرد ہوا اب نیچے گرا ایک رنگ برنگی چادر بنا چکیں۔ ان پتوں کی طرح جھڑتی عمر کے میرے جیسے لوگ چھڑی کا سہارا لئے جب ان کی رونق دیکھنے نکلے ان کے جوبن کی رنگینیوں کے متعلق سوچتے ہیں۔ تو جو “آرزوئیں پہلے تھیں جو غم سے حسرت بن گئیں” کی یاد لانے کی بجائے گزری ہوئی دل چسپییاں، “بیتے ہوئے دن عیش کے” کی فلم ذہن میں دہراتے کہیں دور ماضی میں کھو جاتے ہیں۔

تین سو ایکڑ کے سابقہ فارم ہاؤس کے ایک سو اسی سال پرانے گھر اور سامنے اتنے ہی عمر رسیدہ درختوں کے گرد بنی اس نئی آبادی کی لمبی سیر کرتے بھول گئے کہ اپنا جسم بھی اسی خزاں کی پت جھڑ لئے ہے۔ اور سونے سے پہلے جب یو ٹیوب کھولتے اس سیر کے بعد شروع ہو جانے والی کمر درد کے کے علاج کی ورزشوں اور یوگا پوائنٹ کی تلاش شروع تھی۔ تو جانے کیسے انگلی ایک پوسٹ سے جا ٹکرائی اور سامنے آنے والی تصویر کا ٹائٹل ”۔ پکار“ اور سہراب مودی کی شاہی لباس میں تصویر اور نیچے لکھا

زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے۔

کہیں اور لے گیا۔ اور یاد آیا یہ ہماری دیکھی پہلی فلم تھی۔

شاید انیس سو انچاس ہو گا۔ چنیوٹ میں شور اٹھا کہ ٹورنگ سنیما آ رہا ہے۔ کندھوں پر فلم پکار کے اشتہاری بورڈ لٹکائے۔ ہاتھوں میں گھنٹیاں اور گھنگرو بجاتے گروہ گلیوں میں گھومنے لگے۔ اور جب چند روز بعد اکثر جوان بوڑھے۔ ”زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے۔ بج رہا ہے اور بے آواز ہے گنگناتے گاتے نظر آئے تو ہمیں بھی فلم دیکھنے کا شوق اٹھا۔ اب ہمارے گھر میں تو انتہائی سختی تھی۔ میں نے اور مجھ سے بڑے بھائی شفیق نے رات بڑی ہمشیرہ کے گھر گزارنے کی اجازت لی اور اپنے مجھ سے دو سال بڑے بھانجے کو ساتھ لیتے فلم دیکھنے چلے گئے۔

چنیوٹ میں بجلی نہیں تھی۔ پورے شہر میں ایک دو بیٹری سے چلنے والے ریڈیو تھے۔ اور ٹورنگ ٹاکیز یعنی موبائل سنیما گھر ایک عجوبہ تھی۔ قناتوں کی چار دیواری۔ صرف پردہ سکرین کے اوپر شامیانہ۔ قناتوں کے ساتھ باہر لگے فلم کے پوسٹر۔ ایک ٹینٹ کے باہر تین کھڑکیوں پہ بنے ٹکٹ گھر۔ پچھلی طرف قنات کے لگے شامیانہ کے نیچے کھڑا بند کمرے والا ٹرک جس کی ایک کھڑی سکرین کی طرف تھی۔ اور ساتھ دوسرا ٹرک جس پر تیل سے چلنے والا بجلی کا جنریٹر۔

سکرین کے قریب دریاں ٹکٹ پانچ آنے ( اکتیس پیسے ) اس کے پیچھے بنچ۔ دس آنے۔ پھر کرسیاں سوا روپیہ۔ پانچ آنے والے ٹکٹ لئے اندھیرا ہونے پہ فلم شروع ہوئی۔ تماشائیوں کے نعرے۔ مکالمے۔ اور ہوٹنگ اور ہائے ہائے۔ اور پری چہرہ نسیم کے ہاتھوں کبوتر اڑنے والے سین پر داد اور اس کی سریلی آواز میں ”زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے“ ۔ بس اتنا ہی یاد ہے۔ مگر اب ہماری زبان بھی یہی گنگناہٹ کہاں چھپاتی۔ بھلا ہو بڑی بہنوں کا ان کو کہانی سنا کر رازدار بنایا اور ماں کے عتاب سے بچے رہے۔

اگلے سال پھر ٹورنگ ٹاکیز لگی۔ اور ہم نے بھی سابق تجربہ کے تحت فلم میلہ دیکھی اور اس کے مدھر گیت زبانی یاد کیے ۔ اور اب تو ویسے بھی ”دھرتی کو آ کاش پکارے“ ”اس دنیا کو چھوڑ کے پیارے۔ جھوٹے بندھن توڑ کے سارے۔ جانا ہی ہوگا“ صادق ہوتے اپنی یاد دلاتا رہتا ہے۔ اسی سال ”چمن“ پنجابی فلم دیکھی اور اس کے چند روز بعد جب دو تین خاندان۔ دریائے چناب کنارے بنے (اب منہدم شدہ مندر کی شمالی طرف بنی بارہ دری میں پکنک منا رہے تھے۔ ساتھ بنی سیڑھیاں دریاں کے پانی میں ڈوبی تھیں کہ ہم بچوں نے ان چوری چھپی دیکھی فلموں کے دلچسپ سین اپنی شاندار ایکٹنگ سے پانی میں ڈوبی سیڑھی پہ دوہرانے شروع کر دیے۔ اب تو ماں کے آگے ماننے کی ضرورت نہ تھی۔ ہاں گھر آ کے ہونے والی کھچائی اور پٹائی کے سین بھی فلموں کی طرح نظارے بن چکے۔

اس کے ساتھ ہی نیا دور شروع ہو چکا تھا۔ وہ لوگ جو پہلے مختلف قصے بنا کر چھپوا کر لہک لہک بازاروں میں کھڑے مجمع لگا سناتے اور ایک آنہ میں بیچتے۔ اب ان فلموں کے گانے چھپے ہوئے ہاتھ میں پکڑے انہی دھنوں پہ گاتے بیچتے نظر آتے۔ ساتھ مکالمے بھی پورے شائع ہوتے۔ اب ساتھ ہی ان گانوں کی دھنوں پر لکھی گئی نعتوں مرثیوں کے کتابچے شروع ہو گئے جن کی ہر نعت وغیرہ سے پہلے لکھا ہوتا۔ مثلاً ”نعت فلاں۔ بر وزن گانا فلاں فلم فلاں“ ( ویسے یہ کام تو ابھی بھی جاری لگتا ہے)۔

ہمارے گھر کے سامنے رہنے والے لمبا خاکی پرانا فوجی چغہ پہنے چھوٹی داڑھی۔ پگڑی پہنے اپنا لکھا قصہ ”“ چار کتاباں نازل ہوئیاں پنجواں آیا سوٹا۔ ( موٹا لمبا ڈنڈا ) جو کجھ وچ کتاباں لکھیا بن سوٹیوں سب کھوٹا ”گھوم گھوم سنانے والا بابا۔ جس کا کوئی آگا پیچھا نہ تھا۔ بھی اب گانوں پہ آ گیا تھا۔ کاش آج بھی وہ بازاروں میں کھڑا ہوتا وہی گاتا ہوتا تو اسے محسوس ہوتا کہ اس کے اس قصے پر عمل کی ضرورت جتنی آج ہے کبھی نہ تھی۔

اگلے سال پھر یہ ٹورنگ ٹاکیز آئی تو ہمارے بچپن کی دیکھی سب سے یادگار فلم ”برسات“ دیکھنے کی باری تھی۔ لال دوپٹہ ململ کا۔ چھوڑ گئے بالم۔ برسات میں۔ جیسے گیت زبان زد عام ہو چکے تھے۔ شدید گرمی میں فلم دیکھی جار ہی تھی۔ وقفہ کے بعد۔ اچانک گھٹا اٹھی اور تیز آندھی شروع ہو گئی قناتیں اور کرسیاں اڑنے لگ گئیں۔ افراتفری مچی۔ شو منسوخ ہو چکا تھا اور تیز بارش میں بھیگتے گھر پہنچے اور فلم ادھوری رہنے کا قلق اور بقیہ دیکھنے کا شوق دل میں رہا۔

یہ ٹورنگ ٹاکیز میں ہماری دیکھی آخری فلم تھی۔ کوئی سات آٹھ سال بعد کہ ہم فیصل آباد منتقل ہو چکے تھے۔ نشاط سنیما میں یہ فلم پھر لگی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں شفیق بھائی آئے ہوئے تھے، تب پھر بڑے بھائی جان سے چوری میٹنی شو میں جا پہنچے تقریباً اتنی ہی فلم چلی تھی جتنی پہلے دیکھی تھی۔ تو بجلی چلی گئی۔ ایک گھنٹہ انتظار کے بعد بھائی کے ڈر سے تیز سائیکل چلاتے گھر آ پہنچے۔ فلم پھر ادھوری تھی۔ اب تو ہم گانا گنگناتے بھی ڈرتے تھے۔

اب ریکس سنیما فیصل آباد میں ہمارے گھر سے کوئی دو منٹ پیدل کے فاصلہ پر چالو ہو چکا تھا۔ جلد ہی ”فلم برسات“ یہاں ہمیں ستانے یہاں آ لگی۔ اب اتفاق سے کہ شفیق بھائی ایم بی بی ایس میں تھے اتفاقاً آئے ہوئے اور ہم میٹرک کا امتحان دے کر فارغ تھے اس مرتبہ سیکنڈ شو میں حسرت پوری کرنے جا پہنچے۔ ابھی وقفہ کی روشنیاں جلی ہی تھیں کہ دیکھتے ہیں بڑے بھائی گیٹ کیپر سے اجازت لے کر اندر آرہے ہیں۔ اب یہ تو انہیں پتہ تھا کہ ہم دس آنہ والی کلاس سے اوپر بیٹھنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔

اور سب سے اگلی قطار میں سے کھڑے ہو کے نکل رہے تھے۔ اپنی جان نکل گئی مجھے کان سے پکڑا شفیق کو ہاتھ سے کھینچا اور چند منٹ بعد ہم گھر بیٹھے ان سے بلا اجازت جانے کی معافی مانگتے رہے۔ مگر ہماری ”برسات“ پھر جھڑ کیوں کی برسات کی نذر ہو چکی تھی۔ اور بمشکل منتیں کرتے ابا جان اور ماں سے نہ بتانے کی درخواست منظور ہو چکی تھی

اب چند سال قبل کوئی ساٹھ سال بعد یو ٹیوب پہ ”برسات“ مکمل کرتے اس بظاہر غصہ کرنے والی مگر سراپا شفقت و محبت ہستی کی یاد رلا رلا گئی۔

انیس سو تریپن میں ملتان گھنٹہ گھر کے سامنے آئل ایجنسی (جہاں حصہ داری تھی۔) میں بنے اوپر ایک فلیٹ میں چھٹیاں گزارے پہنچے ہوئے تھے۔ بھانجا ظفر بھی ہمراہ تھا۔ شفیق بھائی کی دوستی ایک لڑکے سے ہو چکی تھی۔ فلم بابل کے گانوں۔ چھوڑ بابل کا گھر۔ ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا۔ وغیرہ نے دیوانہ بنا دیا تھا۔ اور ہم سب فلم بابل دیکھ کر گھر آئے اور کسی دور کے باغ میں کبڈی دیکھتے دیر ہونے کی کہانی سنا کر مطمئن ہو چلے تھے۔

اگلی شام والد صاحب ہنستے جاتے، ہنستے جاتے۔ سامنے بیٹھے تھے۔ ”ہاں بھئی تو تم لوگوں نے کل شام کبڈی کے خوب مزے لئے۔ ہاں تو کون کون سی ٹیمیں تھی۔ کتنے کتبے پوائنٹ تھے۔ اور گانا کون کون سا تھا“۔ ہماری سٹی گم ہو چکی تھی۔ در اصل اس صبح شفیق بھائی کی اپنے دوست سے کھٹ پٹ ہو گئی تھی۔ اور ہم نے اسے بعد دوپہر ایجنسی کے دفتر میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ والد صاحب نے زندگی میں کبھی پٹائی نہ کی تھی۔ اس لئے سنیما کے نقصانات پیار سے سمجھانے تک ہی ہماری شامت رہی۔

اب اگلے سال ہم سیالکوٹ پہنچ کر علامہ اقبال کے گھر کے ساتھ والے گھر میں مقیم صبح سکول اور شام رام تلائی کے ساتھ واقع لکڑی آرہ اور چارپائیوں کے پائے اور بیلچوں کے دستے وغیرہ بنانے کے خرادوں پر مشتمل کارخانے میں والد صاحب کے ساتھ بیٹھے اپنا فطری کاروباری شوق پورا کرتے۔ زمانہ اور آگے بڑھ چکا تھا۔ ریڈیو خاصا عام تھا۔ کرکٹ مقبول کھیل بن چکا تھا۔ فضل محمود اور اوول کی جیت کا نشہ تھا۔ میچ کے دنوں ٹرنک بازار میں ٹرنکوں کی ایک دوکاں کے باہر اونچی آواز میں ریڈیو لگا ہوتا ساتھ ایک بڑا بلیک بورڈ رکھا ہوتا۔

جس پہ سکور بورڈ ویسے ہی چاک سے سکور لکھا جاتا جیسے سٹیڈیم میں ہوتا۔ سامنے مجمع آج کل کے ٹاک شو کے سیاستدانوں کی طرح اپنی مہارت اور کھلاڑیوں کو داؤ پیچ سکھا رہا ہوتا۔ میچ کے دنوں میں کارخانہ جاتے آتے ہمارا ٹھکانا ضرور ہوتا۔ ہماری رہائش کے سامنے مسجد کے نیچے بابا جی روز سہ پہر تازہ ریوڑیاں گچک اور گڑ کی پت بناتے۔ اور جیسے ہی سوندھی خوشبو کھڑکیوں سے آتی ہمیں تازہ گرم کڑکتی ریوڑیاں لانے کا فریضہ ملتا۔

ہمارے گھر کے نیچے واقعہ سلائی مشین اور مرمت کا دکاندار بازار میں کھڑے اپنی جنرل ضیاءالحق مرحوم کی آنکھوں کے متعلق مشہور میراثیوں کے لطیفے کے مانند اپنی ہیما مالینی جیسی آنکھیں آسمان کی طرف کیے ہجر کے گانے اونچی آواز میں گاتا۔ دور کی مسجد سے نعت فلاں بر وزن گانا فلاں کی لاؤڈ سپیکر پر آوازیں آتیں اور شہر کا مین بازار (آج کل شاید علامہ اقبال کے نام سے منسوب ہے ) ہوتے ہوئے بینڈ باجہ کے ساتھ جانے والی ہر بارات اس بازار سے گزرنا اپنا فرض سمجھتی اور ساتھ فلمی گانوں کی دھنیں چلتیں۔

ایک مرتبہ جیسے ہی بارات ”دھک دھک دھک۔ جیا کرے دھک۔ اکھیوں میں اکھیاں ڈال کے نہ تک“ کی دھن بجاتی قریب پہنچی تو یک دم بارش نے آن لیا اور بینڈ والے دھن جاری رکھے پیسے سمیٹنے کے وقفے بھولتے تقریباً بھاگنے لگے۔ اور ہم کھڑکی سے دیکھتے بتا رہے تھے۔ کہ دیکھیں کتنا با موقعہ گانا بج رہا ہے ”نٹھ نٹھ نٹھ۔ چھیتی چھیتی نٹھ۔ ٹیشن اتے جا کے ہووے گا اکٹھ“ اب اگر ان دنوں فلم بیجو باورا لگ جائے۔ اور ہماری دوستی بھی سب سے زیادہ کبیر احمد۔ ( عرصہ بعد شہزادہ احمد کبیر اکبر۔ شاید ایڈیشنل ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ سرگودھا کی حیثیت میں ملاقات ہوئی) سے ہو تو دیکھنا مجبوری تھی۔ شفیق بھائی اور بہنوں کو پتہ تھا۔ وہ بھی میچ کا بہانہ لگا آیا تھا۔ ”۔ تو گنگا کی موج“ گنگناتے واپس آئے اور اوپر چھت پر جا بھائی اور بہنوں کو لفظ بلفظ کہانی سنا چوری کا کھرا مٹانا پڑا۔

ٹورنگ ٹاکیز اور چوری فلمیں دیکھنے کا زمانہ گزر گیا سمجھتے فرسٹ ائر کے آخری دنوں۔ مارچ میں لگتی منڈی میلہ مویشیاں فیصل آباد دیکھنے چوہدری سلیم اختر ( بعد میں ممبر ضلع کونسل و چیئر مین مارکیٹ کمیٹی ماموں کا نجن۔ ملک رمضان اور عبدالرحمان (دونوں بھائیوں کا ذکر سابقہ ایک مضمون میں ہو چکا) کے ہمراہ نکلے جھال خانوآنہ کے پل پہ پہنچے تو آگے سے پھر رفیق بھائی جان آتے دکھے۔ پھر شکنجے میں آچکے تھے۔ بتایا میلہ دیکھنے جانا ہے۔ خبر دار۔ کوئی ضرورت نہیں۔ چلو واپس۔ اور ہم فلم برسات کو یاد کرتے واپس ہو لئے۔

عرصہ بعد شادی کے فوراً بعد کراچی میں ڈرائیو ان سنیما میں کار میں بیٹھے فلم چندا دیکھتے ہم بیگم کو بتا رہے تھے کہ یہ ٹورنگ ٹاکیز کا جدید ماڈل ہے۔

چونسٹھ سے بہتر سال پہلے کی ٹورنگ ٹاکیز میں اور چوری دیکھی یہ فلمیں آج پھر یاد دلا رہی تھیں۔
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے

آج بھی یہ بے آواز یادیں مسرت کے گزرے لمحے گزرے دکھ کے دن اور کرب کی راتوں کا مداوا بن رہی تھیں۔ اور پت جھڑ کے گرے زمیں پہ پھیلے رنگ برنگ پتوں کی چادر۔ پکار کے کہہ رہی تھی

لے نہ ٹوٹے زندگی کے ساز کی
زندگی آواز ہی آواز ہے۔

جب تک یہ لے قائم ہے۔ گزری ہوئی دلچسپیاں۔ بیتے ہوئے دن عیش کے۔ شمعء زندگی بنتے۔ خوشیاں بکھیرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).