مردوں میں جسم فروشی کے کچھ پہلو


کچھ عرصہ پہلے ایک مضمون لکھا تھا کیا جسم فروشی قانونی ہونی چاہیے؟ یہ عورتوں کی جسم فروشی سے متعلق تھا۔ اس پر کسی نے توجہ دلائی کہ مرد بھی جسم فروشی کرتے ہیں، اس پر بھی لکھیے۔ اندازہ تو تھا لیکن لکھنے بیٹھی تو پتہ چلا کہ صورت حال کہیں زیادہ خوفناک ہے۔

زمانہ قدیم سے ہر معاشرے، تمدن اور ہر سرزمین پر ہم جنسیت موجود رہی ہے۔ کبھی اسے ناپسندیدہ کہا گیا، کبھی برداشت کر لیا گیا، کبھی اور کہیں اسے قابل سزا جرم کہا گیا اور کہیں اس پر قطعی پابندی لگا دی گئی۔

ہم جنسیت قدیم معاشروں میں بھی تھی۔ پرانے یونانی اور رومن معاشروں میں اسے برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ایک مرد کے ایک نوجوان لڑکے سے تعلقات رکھنا ایک عام بات تھی اور اس پر باقاعدہ فخر کیا جاتا تھا۔ ان معاشروں میں عورت سے جنسی تعلق کو صرف نسل میں اضافہ کے لئے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ ساتھ رہنے اور دوستی کے لئے نوخیز نازک اندام لڑکے رکھے جاتے تھے۔

ہر مذہب میں یہ فعل ایک گناہ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ خواہ اہل یہود ہو یا مسیحی، مسلم ہوں یا بت پرست، سب ہی نے اسے ناگوار، ناپسندیدہ اور غیر اخلاقی فعل بلکہ گناہ قرار دیا لیکن اب دنیا کا مزاج بدل رہا ہے۔ اب اس فعل کو بد کاری نہیں بلکہ کچھ لوگوں کی فطری ضرورت مان لیا گیا ہے۔ یہ بے راہروی نہیں ایک فطری تقاضا ہے۔ اور اب مسیحی اور یہودی مذاہب کے مذہبی رہنما اسے جائز اور فطری مان رہے ہیں۔ مسلم معاشرے میں اب بھی یہ غیر فطری، نا پسندیدہ، گھناؤنا کام ہے بلکہ گناہ ہے اور سزا کا حقدار ہے۔

ہر چند کہ مغربی معاشروں میں ہم جنس پرستی کو قبول کر لیا گیا لیکن پھر بھی کچھ مردوں کے لئے اب بھی کھل کر سامنے آنا مشکل ہے۔ وہ چھپ چھپا کر یہ ضرورت پوری کرتے ہیں۔ یہاں مردانہ سیکس ورکرز کا کردار ابھرتا ہے۔ مردانہ سیکس ورکرز بھی کافی حد تک خاموشی سے ڈھکے چھپے انداز میں خود کو بیچ رہے ہیں۔ جسم فروشی کبھی بھی مرضی کا سودا نہیں ہوتا۔ پہلے یہ صرف بھوک اور افلاس ہی تھی جو کسی کو اس حد تک جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن اب دنیا بڑی ہو رہی ہے، دنیا داری بھی پھیل رہی ہے۔ اب جدید فون بھی چاہیے، برانڈڈ کپڑے بھی، گھومنا پھرنا اور تفریح بھی۔ اچھے ریسٹورنٹس میں کھانے یا چائے کافی کو بھی دل مچلتا ہے۔ کار نہ سہی بایئک تو ہو۔ سبھی کے اسٹینڈرڈ اونچے ہو رہے ہیں۔

جس طرح عورتوں کی جسم فروشی ان کی مرضی اور پسند کا کام نہیں اسی طرح مردوں کے لئے بھی یہ جبر کا سودا ہے۔ اور جیسے عورتوں کی جسم فروشی دنیا کا قدیم ترین پیشہ ہے، مردانہ جسم فروشی بھی اتنا ہی پرانا دھندا ہے۔ زمانہ قدیم میں سیکس ورکرز غلام اور لونڈیاں ہوا کرتی تھیں۔ ان سے اور کاموں کے علاوہ جنسی غلامی بھی لی جاتی تھی۔ غلاموں کی کوئی مرضی یا رضا نہیں ہوتی۔ رومن اور یونانی سلطنتیں ایسے غلام رکھتی تھیں۔ یونان نے جہاں سقراط اور افلاطون پیدا کیے وہیں اس سر زمیں پر دنیا کے قدیم ترین جنس کے بازار اور اس دھندے کے اڈے بھی پائے گئے۔

عام طور پر ہم جنسیت اور مردانہ جسم فروشی کو ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ہر ہم جنس پرست جسم فروش نہیں ہوتا اور ہر جسم فروش ہم جنس پرست بھی نہیں ہوتا۔

اگر ہم یورپ کی بات کریں تو انیسویں صدی میں مردانہ جسم فروشی کے باقاعدہ اڈے بن چکے تھے۔ لندن کے مولی ہاؤس، پیرس کی پالایس رایل کی گیلری اور جرمنی میں کچھ چھپے کچھ عیاں اڈے تھے۔ اسی دوران پولیس نے لندن کے کلیو لینڈ اسٹریٹ پر چھاپے مارے اور شہر کی اونچی سوسائٹی کے با اثر لوگ کو وہاں پایا۔ بات کسی حد تک کھل گئی تھی اور اس کے بعد سے مردانہ جسم فروشی بھی قدرے کھل کر ہونے لگی۔

ایک تحقیق کے مطابق مردانہ جسم فروشوں کو چار گروپس میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ گروپ بندی سیکس ورکرز کی تعلیم، خاندانی اور سماجی بیک گراؤنڈ، مالی استحکام یا دشواری، منشیات کی لت اور جذباتی وابستگی کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے۔

1۔ کل وقتی سیکس ورکر۔ یہ سیکس ورکرز بار، پب یا پرائیویٹ پارٹیز میں مل جاتے ہیں۔

2۔ کل وقتی راکھیل۔ یہ سیکس ورکرز کسی کی ملکیت میں ہوتے ہیں اور جب تک اس کی ملکیت میں ہیں کسی اور سے تعلق نہیں رکھ سکتے۔

3۔ جز وقتی سیکس ورکرز۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یا تو اسٹوڈنٹس ہیں یا کوئی معمولی کام کر رہے ہیں اور اضافی آمدنی کے لئے جسم فروشی کرتے ہیں۔

4۔ مجرمانہ سیکس ورکرز۔ یہ گروہ خطرناک ہے۔ یہ جسم فروشی کی آڑ میں جرم بھی کرتے ہیں، جیسے چوری، مارپیٹ، ڈرانا دھمکانا، اور بلیک میلنگ۔

جب ہم مردانہ جسم فروشی اور ہم جنس پرستی کو ایک ہی بات سمجھتے ہیں اور اس پر سخت ناپسندیدگی کو اظہار کرتے ہیں اور اسے مغربی معاشروں کا مسئلہ سمجھتے ہیں تو ہم تاریخ اور حقائق سے منہ موڑ رہے ہوتے ہیں۔ قدیم عرب معاشروں میں ہم جنس پرستی عام تھی۔ اور چھپ چھپا کر اب بھی ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیں، نزدیک ہی افغانستان اور پختون خواہ صوبے میں اب بھی کئی سردار اپنے ساتھ ایک نو عمر نوخیز لڑکا رکھتے ہیں۔ یہ ایک اعزازی تمغہ ہے جو سینے پر فخر سے لگایا جاتا ہے۔ بہت پرانی بات نہیں جب افغانستان کے معزز جنگی سردار، کمانڈر، سیاستدان اور امراء اپنے اثر و رسوخ اور دولت مندی کے اظہار کے لیے اکثر اوقات اپنے ساتھ کسی  ’بچے‘  کو رکھتے تھے۔ ان نوخیز لڑکوں کو کبھی خواتین کے کپڑے پہنا دیے جاتے ہیں، ان کے بال کانوں تک کٹے ہوتے ہیں۔ یہ محفلوں میں گاتے ناچتے دل بہلاتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا جنسی استحصال بھی ہوا۔ یونان کی طرح یہاں بھی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ  ”خواتین نسل بڑھانے کے لیے ہیں لیکن لڑکے خوشی حاصل کرنے کے لیے“ ۔ ان کا یہ فعل بچہ بازی کہلاتا ہے۔ اور یہ پیڈوفیلی ہے۔

مغربی ملکوں میں جب ہم جنس لوگوں کی بات کھل کر ہونے لگی اور اسے ایک بیماری نہیں بلکہ ایک فطری جذبہ سمجھا جانے لگا تو ان لوگوں کے حقوق کی بات بھی اٹھی۔ اور وہاں کے معاشروں نے اس بات کو قبول بھی کر لیا۔ گے بارز، مساج پارلرز اور کلب کھل گئے۔ ان کی تنظیمیں بھی بن گئیں، اجتماعات ہونے لگے، جلسے جلوس نکلنے لگے اور سالانہ گے پریڈ تو ایک عالمی شہرت کا ایونٹ بن گیا۔ ایل۔ جی۔ بی۔ ٹی کے بارے میں لوگوں کو علم ہوا اور ان سے آشنائی ہوئی۔ دھنک رنگ جھنڈے جگہ جگہ لہرانے لگے۔

عورتوں سیکس بیچیں تو مرد خریدار ہوتے ہیں لیکن ان مردانہ سیکس ورکرز کے خریدار کون ہیں؟ بڑی تعداد تو بڑی عمر کے مالدار مردوں کی ہے۔ یہ مرد معاشرے میں اونچا مقام رکھتے ہیں۔ شادی شدہ بچوں والے بھی ہو سکتے ہیں اور دنیا کے سامنے ایک بظاہر نارمل اور کامیاب زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ لیکن انہیں مردوں سے بھی لگاؤ ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو ایک تکلیف دہ منافقت والی زندگی گزارتے ہیں۔ خاندان یا معاشرے کے دباؤ کے باعث ابھی تک الماری (کلوزٹ) سے باہر نکلنے کہ ہمت نہیں پا رہے۔ ان خریداروں میں کچھ ایسے ہیں جو کسی ایک کو اپنا لیتے ہیں اور کسی حد تک ان کی محبت میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور باقاعدگی سے آ نا جانا رہتا ہے۔ دوسرے وہ ہیں جو کبھی کبھار ذائقہ بدلنے کے لئے آتے ہیں۔ کسی ایک مخصوص شخص سے سروکار نہیں جو بھی میسر ہو جائے۔ ایک گروہ وہ ہے جو پارٹی کرنے آتے ہیں۔ اور ایک سے زیادہ سے تعلقات بنا لیتے ہیں۔ چھپ کر یہ عمل انجام دینے والوں کو اپنا پول کھلنے کا اور بلیک میلنگ کا شکار ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔

ان مردانہ سیکس ورکرز کی خریدار عورتیں بھی ہیں۔ خوبصورت، پرکشش کسرتی جسم والے نوجوانوں کی کافی ڈیمانڈ ہے۔ یہ عورتیں پیسے والی اور دل والی ہوتی ہیں۔ ایک اسٹڈی کے مطابق عورتیں پہلے سے کہیں بڑی تعداد میں سیکس کی خریدار ہیں۔ پہلے بڑی عمر کی تنہائی کا شکار عورتیں خریدار ہوتی تھیں۔ اب ان میں ہر عمر اور بیک گراؤنڈ کی عورتیں شامل ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہی کہ زندگی کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور عورتوں کو اب باقاعدہ ریلیشن شپ رکھنے کا وقت نہیں ہے۔ وقتی تسکین کے لئے ان مردوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ سیکس ورکرز جیگولو کہلاتے ہیں اور ان کی کافی مانگ ہے۔

اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہاں بھی نوجوان لڑکوں کی جسم فروشی جاری ہے۔

لاکھ کہیں کہ ہم اسلامی ملک ہیں ہم اقدار رکھتے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ آپ نظریں چرا لیں پھر بھی یہ حقیقت قائم ہی رہے گی۔ کئی بس اڈوں پر کمسن لڑکے یونہی پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بظاہر بھیک مانگتے ہیں لیکن پرلذت رات گزارنے کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ یہ کام میں ماہر ہوتے ہیں اور اپنے مطلب کا بندا پہچان لیتے ہیں۔ یہ بچے عام طور پر گھروں سے بھاگے ہوئے ہوتے ہیں جو غلط ہاتھوں میں پڑ کر دھندا کرنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ ان کے ریٹ معمولی ہیں۔ جنس کے خریدار سستے میں سودا کر لیتے ہیں۔ یہ سب ہوتا ہوا سبھی کو نظر آ رہا ہے لیکن کسی کی کوئی پکڑ نہیں۔ یہ لڑکے نہایت خطرناک زندگی گزارتے ہیں۔ جسمانی، ذہنی، جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے ساتھ ساتھ نشے کے عادی بھی ہو جاتے ہیں اور بیماریوں کا شکار بھی۔ ان کے خریداروں میں بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیورز ہوتے ہیں جو کئی کئی دن گھروں سے دور سڑکوں پر ہوتے ہیں اور ان معصوموں سے اپنی پیاس دور کرتے ہیں۔ یہ پیڈوفیلی کے زمرے میں آتا ہے اور اس پر قانون میں کڑی سزا ہے۔ ان بچوں کا مستقبل اور معاشرے میں ان کا مقام کیا ہوگا؟

سیکس ورکرز کا ایک اور گروپ بھی ہے جو مساج اور مالش کا کام کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ اور کی بھی پیشکش کرتے ہیں۔ ان کے بھی لگے بندھے جانے پہچانے کسٹمرز ہوتے ہیں۔ لاہور اور کراچی میں یہ اپنی پورٹیبل دکان سجائے بیٹھے ہوتے ہیں اور کچھ اور کے لئے کسی نزدیک کے گندے سے ہوٹل کے نیم تاریک کمرے کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ گلیوں کے تاریک گوشوں میں اور کچھ بارونق بازاروں میں خریدار تلاشتے ہیں۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

ایک اور گروپ بھی ہے مردانہ جسم فروشوں کا جو قدرے اونچی سوسائٹی میں پائے جاتے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے اور فیشن ایبل ہیں اور گفتگو کا فن بھی جانتے ہیں۔ یہ اپنا گاہک بھی اپنی مرضی کا چنتے ہیں۔ ان کا مسئلہ بھوک نہیں، خواہشات کی تکمیل ہے، جنہیں وہ حسرتیں نہیں بنانا چاہتے۔ اپنے تعلقات کی وجہ سے بڑی بڑی پارٹیز میں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اپنے حلقے میں مقبول ہیں اور ان کی پہنچ بھی اوپر تک ہے۔

سیکس ورکرز کا ایک اور گروپ بھی ہے، خواجہ سرا۔ یہ کمیونٹی سب سے زیادہ مظلوم اور ہر ایک کے نشانے پر ہے۔ یہ وہ بے چارے لوگ ہیں جو اپنے انسانی حقوق بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ کم علمی ان کا بڑا المیہ ہے۔ یہ سیکس بیچنے پر مجبور ہیں۔ ان کے حلیے، چال ڈھال، بات کرنے کا انداز انہیں نمایاں کر دیتا ہے۔ کوئی ان پر ہنستا ہے، کوئی چھیڑتا ہے، کوئی ترس کھاتا ہے اور کوئی نفرت کرتا ہے۔

گو کہ پاکستان میں ہم جنسیت اور جسم فروشی دونوں ہی غیر قانونی ہیں۔ ان کی سخت ترین سزائیں بھی ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ دھندے عام ہیں۔ لگتا ہے کہ ریاست اور معاشرے نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ان مظلوم خواجہ سروں کی زندگی ان کی اپنی نہیں، ان کے فیصلے بھی ان کے اپنے نہیں۔ ان کے اپنے بھی ان کے اپنے نہیں۔ معاشرہ بھی ان کے ساتھ ظالمانہ رویہ رکھتا ہے۔ گویا وہ صرف دوسروں کی تفریح اور دلبستگی کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ان کے پاس نہ تعلیم ہے نہ ہنر۔ نہ ماں باپ کا سایا نہ کوئی محبوب۔ ان کے پاس ایک ادھورا جسم ہے جسے یہ کبھی تھرک تھرک کر دکھاتے ہیں کبھی کسی کی ہوس مٹانے کو کرائے پر چڑھا دیتے ہیں۔ یہ پٹتے بھی ہیں، بلکہ جان سے بھی مار دیے جاتے ہیں۔ زخمی حالت میں اسپتال لائے جائیں تو مسئلہ اٹھاتا ہے کہ زنانہ ہیں یا مردانہ۔ اور اسی کشمکش میں جان چلی جاتی ہے۔ شکر ہے کہ اب ان کے حالات کچھ بدل رہے ہیں۔ تعلیم کے دروازے کھلے ہیں، کام بھی مل رہا ہے لیکن اب بھی کافی بڑی تعداد جسم فروشی ہی کر رہی ہے۔

سیکس ورکرز کا ایک ڈراونا مسئلہ ان کی عمر کا بڑھنا ہوتا ہے۔ ذرا تیس کے قریب ہوئے، جسم بھاری ہوا، چہرے پر کرختگی آئی اور بازار میں دام گھٹنے لگے اور جلد ہی قحط خریدار ہو گیا۔ اگر جمع پونجی نہ ہو تو ان کی زندگی بے چارگی اور کس مپرسی میں کٹتی ہے۔

چاہے مرد کی ہو چاہے عورت کی، جسم فروشی ایک ناپسندیدہ کام ہے۔ اس کے اثرات بہت گہرے اور دور تک جاتے ہیں۔ ذہنی اور جذباتی ضربیں تو لگتی ہی ہیں، بیماریوں کی پوٹلی بھی ساتھ لئے پھرتے ہیں۔ پاکستان میں ایچ آئی وی کے پوزیٹیو مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ کسی کا بھی مسئلہ نہیں ہے۔ غربت اور جہالت ہر برائی کی جڑ ہے لیکن ہم درخت کے پتے کاٹنا کافی سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).