’کیا آپ سیکولر ہو گئے؟‘ بھارت میں گورنر کے طنز پر تنازع


مہاراشٹرا کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری (دائیں) اور وزیرِ اعلیٰ اودھو ٹھاکرے (بائیں)

بھارت کی ریاست مہاراشٹرا کے وزیرِ اعلیٰ اودھو ٹھاکرے کے نام ریاست کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے تحریر کردہ ایک مکتوب کے بعد بھارت میں تند و تیز بحث جاری ہے اور کئی لوگ گورنر کے خط کو وزیرِ اعلیٰ کے اختیارات میں مداخلت اور ان کے آئینی حلف کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔

کئی تجزیہ کار یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ ایک گورنر کو آئین کا پابند ہونا چاہیے یا اپنے مذہبی اعتقاد کا؟ اور یہ کہ گورنر صدر کا نمائندہ ہوتا ہے یا اپنی سیاسی جماعت کا؟

مہاراشٹرا حکومت نے کرونا کی وبا کا زور ٹوٹنے کے بعد 11 اکتوبر کو ریاست میں شراب خانوں، ریستورانوں اور ساحلِ سمندر کھولنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن عبادت گاہوں کو بند رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

اس پر گورنر نے 12 اکتوبر کو وزیرِ اعلیٰ کے نام ایک مکتوب ارسال کیا اور انہیں عبادت گاہیں کھولنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ المیہ ہے کہ ایک طرف حکومت شراب خانے اور ریستوران کھول رہی ہے لیکن دوسری طرف ہمارے دیوی دیوتا اب بھی بند ہیں۔

گورنر نے عبادت گاہوں کو کھولنے پر زور دیتے ہوئے اپنے خط میں وزیرِ اعلیٰ کو لکھا تھا کہ “آپ ہندوتوا کے بہت بڑے طرف دار رہے ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد آپ نے ایودھیا میں جا کر درشن کیے تھے۔ آپ نے دوسرے مندروں کا بھی دورہ کیا اور پوجا کی۔ لیکن کیا اب آپ سیکولر ہو گئے ہیں یا آپ کو دیوی دیوتاؤں کے درشن ہو رہے ہیں جو آپ مندر نہیں کھول رہے؟”

‘اپنے ہندوتوا کے لیے آپ کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں’

وزیرِ اعلیٰ اودھو ٹھاکرے نے گورنر کے اس خط کا سخت لب و لہجے میں جواب دیا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ نے اپنے جوابی مکتوب میں گورنر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “کیا آپ کے نزدیک عبادت گاہوں کو کھولنا ہندوتوا وادی ہونا اور ان کو بند رکھنا سیکولر ہونا ہے؟ یا پھر آپ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ سیکولرازم جس کا آپ نے بحیثیت گورنر حلف اٹھایا ہے، آئین کا ایک اہم اصول ہے؟”

وزیرِ اعلیٰ نے یہ بھی لکھا ہے کہ انہیں اپنے ہندوتوا کے لیے گورنر سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

کرونا بحران کے بھارتی معیشت پر برے اثرات

یاد رہے کہ مہاراشٹرا میں کرونا کیسز کی تعداد 15 لاکھ اور ہلاکتیں 40 ہزار تک پہنچ چکی ہے اور یہ ریاست پورے بھارت میں کرونا کیسز کے اعتبار سے سرِفہرست ہے۔

ریاستی حکومت میں ایک حلیف جماعت کی حیثیت سے شامل نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے صدر اور سینئر سیاست دان شرد پوار نے بھی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ داخلہ امت شاہ کے نام ایک خط میں میڈیا کو جاری کیے جانے والے گورنر کے خط میں اختیار کی گئی زبان پر اپنی حیرانی ظاہر کی ہے۔

شرد پوار کے بقول یہ زبان گورنر کے منصب پر فائز شخص کو زیب نہیں دیتی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مذہبی مقامات کو کھولنے کے بارے میں گورنر اپنی رائے رکھنے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن انہیں ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے جو ان کے آئینی منصب کے منافی ہو۔

تنازع کا سیاسی پسِ منظر

گورنر اور وزیرِ اعلیٰ کے درمیان ہونے والی اس خط و کتابت اور سیکولر ہونے کے طعنے کا ایک سیاسی پسِ منظر بھی ہے کیوں کہ دونوں رہنماؤں کا تعلق ہندوتوا پر یقین رکھنے والی جماعتوں سے ہے۔

گورنر بھگت سنگھ کوشیاری گورنر بننے سے قبل حکمران جماعت ‘بھارتیہ جنتا پارٹی’ کے سینئر رہنما رہے ہیں۔ وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کارکن اور پرچارک (مبلغ) بھی رہے ہیں اور گورنر ہونے کے باوجود اب بھی سیاہ رنگ کی ‘آر ایس ایس’ کی مخصوص ٹوپی پہنتے ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ اودھو ٹھاکرے کا تعلق ‘شیو سینا’ سے ہے جو خود بھی ایک ہندوتوا نواز جماعت ہے۔ یہ جماعت اودھو ٹھاکرے کے والد بال ٹھاکرے نے قائم کی تھی اور اس پر مہاراشٹرا میں متعدد مسلم مخالف فسادات میں ملوث ہونے کا الزام لگتا رہا ہے۔ اس جماعت کے رہنما اور کارکن بابری مسجد کے انہدام میں بھی شامل تھے اور اس کے رہنما اس کا فخریہ اعتراف بھی کرتے رہے ہیں۔

شیو سینا اور بی جے پی 1989 سے ایک دوسرے کی اتحادی رہی ہیں۔ دونوں نے 2014 کے پارلیمانی انتخابات بھی مل کر لڑے تھے اور شیو سینا مرکز کی مودی حکومت میں بھی شامل رہی ہے۔

مہاراشٹرا کا 2019 میں ہونے والا ریاستی انتخاب بھی دونوں جماعتوں نے مل کر لڑا تھا۔ لیکن انتخابات میں اتحاد کی کامیابی کے بعد شیو سینا وزیرِ اعلیٰ کے منصب پر اڑ گئی تھی۔ بی جے پی نے اپنی اتحادی جماعت کو منانے کی بہت کوشش کی تھی مگر شیو سینا کے رہنما وزارتِ اعلیٰ سے کم پر تیار نہیں ہوئے تھے جس پر دونوں جماعتوں کا اتحاد ٹوٹ گیا تھا۔

بھارتی شہروں کا کمزور نظام صحت اور کرونا وائرس

بعد ازاں شیو سینا نے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) اور کانگریس کے ساتھ مل کر ریاست میں مخلوط حکومت بنا لی تھی۔ اودھو ٹھاکرے اسی مخلوط حکومت کے وزیرِ اعلیٰ ہیں جب کہ بی جے پی ریاست میں حزبِ اختلاف میں ہے۔

گورنر کے خط پر ماہرین کی تنقید

مہاراشٹرا کے گورنر کے خط پر کئی ماہرینِ آئین و قانون نے بھی سخت ردِ عمل کا اظہار کیا ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ کیا گورنر کوشیاری بھارت کے آئین پر یقین نہیں رکھتے جو سیکولرازم کو ریاست کی بنیاد قرار دیتا ہے؟

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ گورنر نے خط میں جو کچھ لکھا ہے وہ مندروں کو کھولنے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی چلائی جانے والی مہم کا ایک حصہ لگتا ہے۔

آئینی ماہر اور ‘نلسار لا یونیورسٹی’ حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ گورنر کا خط نامناسب ہے کیوں کہ عبادت گاہیں کھلیں گی یا نہیں، اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار وزیرِ اعلیٰ کو ہے۔

ان کے بقول بھارت کے آئین میں لفظ سیکولر موجود ہے اور گورنر نے جس طرح لفظ سیکولر کا مذاق اڑایا ہے، وہ ان کے آئینی عہدے کے برعکس ہے۔

فیضان مصطفیٰ نے کہا کہ دنیا کے متعدد ملکوں نے کرونا کی وبا کی وجہ سے عبادت گاہوں کو مقفل کیا لیکن بھارت میں اس معاملے کو کسی اور رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول مذہبی مقامات پر لوگوں کو وبا سے بچانا زیادہ مشکل ہوتا ہے اور ہر ریاست نے سب سے پہلے بار کھولے کیوں کہ اس سے ریونیو ملتا ہے۔

ان کے مطابق مرکزی حکومت کی ایس او پیز کے مطابق بھی پہلے بار اور ریستوران کھلے ہیں اور عبادت گاہیں بعد میں کھولی گئیں۔

کرونا بحران: بھارتیوں کا عاملوں اور نجومیوں سے رجوع

سابق رکن پارلیمان، سابق سفیر اور کانگریس پارٹی کے ترجمان م۔افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایک گورنر کا کام آئین و قانون کی حفاظت کرنا ہوتا ہے نہ کہ ان کا مذاق اڑانا۔

وہ کہتے ہیں کہ مہاراشٹرا کے گورنر نے اپنے مکتوب میں جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے، وہ غیر شائستہ اور ناقابلِ قبول ہے۔ سیکولرازم آئین کی تمہید میں درج ہے اور اس کا مذاق نہیں اڑایا جا سکتا۔

ان کے مطابق ایک گورنر ریاست میں صدر کا نمائندہ ہوتا ہے، کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔ بھگت سنگھ کوشیاری کو بحیثیت گورنر یہ بھول جانا چاہیے کہ وہ بی جے پی رہنما رہے ہیں اور انہیں صرف یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ آئین کے محافظ ہیں۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور ماہر قانون زیڈ کے فیضان کے خیال میں مودی حکومت میں تمام آئینی اداروں کے وقار کو مجروح اور ان کی طاقت کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ گورنر کو اپنے حلف کا پابند ہونا چاہیے اور انہیں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جو ان کے حلف کے وقار کو پامال کرتا ہو۔

‘سیکولرزم کی توہین آئین کی توہین ہے’

بھارت کے متعدد اخبارات نے بھی گورنر کے رویے پر اظہارِ افسوس کیا ہے اور اپنے اداریوں میں سیکولرازم کا مذاق اڑانے پر ان پر سخت تنقید کی ہے۔

روزنامہ ‘ہندو’ نے لکھا ہے کہ گورنر کا خط انتہائی غیر معتدل ہے۔ آئین کے مطابق ایک وزیرِ اعلیٰ کے کام کاج میں اس کے مذہبی اعتقاد کا کوئی کردار نہیں ہے۔ گورنر اور وزیرِ اعلیٰ کے درمیان مراسلت باعزت طریقے سے اور آئین کے اندر ہونی چاہیے۔

روزنامہ ‘ہندوستان ٹائمز’ کے مطابق گورنر نے سیکولرازم کو مندروں کو مقفل کرنے سے جوڑ کر اس کی اہانت کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج سیکولرازم ایک بہت بڑی آبادی کے لیے متنازع ہو گیا ہو، لیکن بہرحال وہ آئین میں مو جود ہے۔ لہٰذا اس کی توہین کرنا آئین کی توہین کرنا ہے۔

روزنامہ ‘انڈین ایکسپریس’ کے مطابق بھگت سنگھ کوشیاری آر ایس ایس اور بی جے پی میں رہے ہیں۔ ان کا مزاج ان کے خط پر حاوی ہے۔ ان کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ انھوں نے پانچ ستمبر 2019 کو اسی آئین کا حلف لیا تھا جس کی تمہید میں لفظ سیکولر موجود ہے۔

روزنامہ ‘دکن کرانیکل’ نے لکھا ہے کہ گورنر ریاست میں آئین کا محافظ ہوتا ہے۔ لیکن مذکورہ واقعے میں گورنر آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ کا گورنر کو یہ یاد دلانا کہ انھوں نے آئین کا حلف لیا ہے، برجستہ اور مناسب ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مہاراشٹرا کے گورنر کا یہ قدم سوچا سمجھا ہے جس کے ذریعے بی جے پی اپنے ہندوتوا حلقے کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ شیو سینا اب ہندوتوا وادی جماعت نہیں رہ گئی۔

ان کے مطابق اگر یہ بات مذکورہ حلقے کے ذہن میں بیٹھ گئی تو ریاست میں ہندوتوا کے نام پر بی جے پی، شیو سینا پر برتری حاصل کر لے گی۔

بی جے پی کی جانب سے گورنر کے خط کا دفاع

گورنر اور وزیرِ اعلیٰ کی اس زبانی جنگ کے درمیان بی جے پی نے مندروں کو کھولنے کی ایک مہم بھی شروع کر دی ہے جس کے بعد پارٹی کے کارکنوں نے ممبئی، پونا اور کولھاپور میں احتجاج کیا ہے۔

مہاراشٹرا میں بی جے پی کے صدر چندرکانت پاٹل کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کو مذہبی مقامات کو کھولنے کا طریقۂ کار وضع کرنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ نے جس انداز میں گورنر کے خط کا جواب دیا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ گورنر نے تمام عبادت گاہوں کو کھولنے کی بات کی ہے کیوں کہ بہت سے لوگ عبادت گاہوں میں جانا چاہتے ہیں۔

ان کے بقول اودھو ٹھاکرے کو ہندوتوا کا پاٹھ اس لیے پڑھانا پڑا کہ انھوں نے اقتدار کی خاطر اپنے ہندوتوا کو الگ تھلگ رکھ دیا ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور بی جے پی رہنما دیویندر پھڑنویس کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ نے جس طرح گورنر کو جواب دیا ہے وہ افسوس ناک ہے۔ ان کے بقول شیو سینا کی حکومت میں جو کہ خود کو ایک ہندوتوا وادی جماعت کہتی ہے، مندروں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔

ادھر شیو سینا نے گورنر کے رویے پر تنقید کی ہے اور وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ سے انھیں واپس بلانے کی اپیل کی ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa