سی سی پی او لاہور عمر شیخ سے ’جھگڑے‘ کے بعد افسر کا تبادلہ


سی سی پی او لاہور عمر شیخ ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہیں اور اس کی وجہ ان کا ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کمبوہ کے ساتھ ’جھگڑا‘ ہے جس کے بعد ایس پی کا تبادلہ ہو گیا ہے۔

آئی جی پنجاب کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سابق ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کا تبادلہ معمول کی کارروائی ہے۔

تبادلے کے روز جمعے کو ہی موٹروے ریپ کیس کے انچارج ڈی آئی جی انویسٹٰگیشن لاہور شہزادہ سلطان نے کیس کو انجام تک پہنچانے میں عاصم افتخار کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں ایک تعریفی سرٹیفیکیٹ بھی جاری کیا ہے۔

ایس پی سی آئی اے ہوتے ہوئے عاصم افتخار بہت سے اہم کیسیز کی تفتیش سے منسلک رہے ہیں جن میں سے سب سے ایک اہم کیس شہباز تتلہ قتل کیس تھا جس میں ایس ایس پی مفخر عدیل بھی ایک نامزد ملزم ہیں۔

سی سی پی او لاہور عمر شیخ اور ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کمبوہ کے درمیان ’جھگڑے‘ کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے بی بی سی نے متعدد پولیس افسران سے بات کی جس سے اس بات کا پتہ چلا ہے کہ عمر شیخ اور افتخار کمبوہ کے درمیان ’سخت جملوں اور گالم گلوچ کا تبادلہ ہوا تھا لیکن وہاں پر موجود سینئر افسران نے بیچ بچاؤ کروایا‘۔

یہ بھی پڑھیے

سی سی پی او لاہور عمر شیخ کون ہیں؟

’ہمارے کپڑے نہیں تو ہمارا رویہ، وہ بھی نہیں تو وہ راستہ جو ہم نے لیا۔۔۔‘

’کیا لاہور کے سی سی پی او آسمان سے اترے ہیں؟‘

پولیس ذرائع کے مطابق اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے گوجرانوالہ میں ہونے والے جلسے سے متعلق سی سی پی او لاہور نے جمعرات کی رات ایک بج کر 30 منٹ پر سیف سٹی میں واقع لاہور پولیس کے کمانڈ سینٹر میں ایک اجلاس بلایا ہوا تھا جس میں ڈی آئی جی آپریشنز اشفاق احمد خان اور ڈی آئی جی انویسٹیگیشن شہزادہ سلطان سمیت لاہور کی تمام ڈویژن کے ایس پی آپریشنز کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

سی سی پی او کی ہدایت کے مطابق ان کے سٹاف نے ایس پی سی آئی اے کو بھی اجلاس میں شرکت کے متعلق آگاہ کیا لیکن انھوں نے بخار کی وجہ سے شرکت سے معذرت کرلی۔ جب سی سی پی او کو پتہ چلا تو انھوں نے اپنے سٹاف کو کہا کہ دوبارہ فون کریں اور عاصم افتخار کو اجلاس میں شرکت یقینی بنانے کا کہیں۔

ذرائع کے مطابق سی سی پی او نے لاہور پولیس کے تمام افسران کی موجودگی میں اجلاس شروع کرتے ساتھ ہی پوچھا کہ ‘یہ عاصم افتخار کہاں ہے’ جس پر سٹاف نے انہیں بتایا کہ ’وہ راستے میں ہیں اور جلد پہنچ جائیں گے‘۔

ذرائع کے مطابق جب اجلاس کو شروع ہوئے کچھ وقت گزر چکا تھا تو ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار وہاں پہنچ گئے جس پر سی سی پی او عمر شیخ نے انھیں دیکھتے ہی ان کے دیر سے آنے پر ناراضی کا اظہار کیا۔

عاصم افتخار نے دوبارہ وضاحت کی کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے وہ تو آنا نہیں چاہ رہے تھے لیکن ان کے اصرار پر وہ آگئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس کے بعد دونوں میں تلخ کلامی شروع ہوگئی۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میٹنگ میں موجود ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ سی سی پی او نے سب کے سامنے عاصم افتخار کو ڈانٹنا شروع کر دیا اور عاصم افتخار نے بھی سی سی پی او کو کہا کہ وہ ان کے ساتھ اس طرح کا رویہ روا نہیں رکھ سکتے اور یہ کہ ‘میں کوئی سپاہی نہیں ہوں جو آپ مجھ سے اس طرح پیش آئیں’۔

ذرائع کے مطابق اس کے بعد عمر شیخ ’مزید طیش میں آگئے‘ اور ایس پی سی آئی اے کو ’مزید برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور کہا کہ وہ انھیں گرفتار کروا دیں گے‘۔

پولیس ذرائع کے مطابق عاصم افتخار بھی غصے میں آگئے جس کے بعد اجلاس کا ماحول مزید گرم ہوگیا اور ایک موقع پر تو دونوں افسران ایک دوسرے کو پکڑنے کے لیے اپنی اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صورت حال کو دیکھتے ہوئے اجلاس میں موجود دونوں ڈی آئی جیز نے بیچ بچاؤ کروایا۔

ذرائع کے مطابق اس کے فوری بعد سی سی پی او نے اجلاس میں موجود ایس پی سول لائنز حماد رضا کو کہا کہ وہ فوری طور پر عاصم افتخار کو گرفتار کر لیں لیکن وہاں پر موجود افسران نے عمر شیخ کو سمجھایا کہ ایسا کرنا غیر مناسب ہوگا۔

افسران کے مشورے پر سی سی پی او لاہور نے ایس پی سی آئی اے کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کی کارروائی بھی رکوا دی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ایس پی سی آئی اے نے آئی جی پنجاب انعام غنی سے ملاقات بھی کی اور انھیں سی سی پی او کے رویے کے حوالے سے اپنی شکایت سے آگاہ کیا لیکن جمعے کو ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے مصروف ہونے کی وجہ سے اس مسئلے پر بات کرنے سے معذرت کر لی۔ بی بی سی کے رابطہ کرنے پر سابق ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کمبوہ نے بھی یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ پولیس ایک ڈسپلنڈ فورس ہے اس لیے وہ اس معاملے پر اپنی کوئی رائے نہیں دینا چاہتے۔

آئی جی پنجاب کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ سابق ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کے تبادلے کا ان کے سی سی پی او سے مبینہ جھگڑے سے کوئی لینا دینا نہیں اور یہ ایک روٹین کا تبادلہ تھا جو ہر فورس میں ہوتا رہتا ہے۔

وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس میں تبادلے یا آپس میں لڑائی جھگڑا وغیرہ یہ سب پولیس کے انتظامی معاملات ہیں ان کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے کہا کہ آئی جی پنجاب ان معاملات کو بخوبی دیکھ بھی رہے ہیں اور انھیں اپنا کام کرنے دیا جائے کیونکہ وہ اس ساری صورتحال کو بہتر طریقے سے ہینڈل کر لیں گے۔

عمر شیخ سے جڑے تنازعات

موٹروے ریپ کیس سے متعلق بیان

سی سی پی او لاہور نے موٹروے پر پیش آنے والے ریپ کے واقعے کے بعد متعدد ٹی وی چینلز پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ: ‘تین بچوں کی ماں اکیلی رات گئے اپنے گھر سے اپنی گاڑی میں نکلے تو اسے سیدھا راستہ لینا چاہیے ناں؟ اور یہ بھی چیک کرنا چاہیے کہ گاڑی میں پیٹرول پورا ہے بھی یا نہیں۔۔۔’

انھوں نے اپنے اس بیان پر معافی مانگ لی تھی۔

کیا پنجاب کے آئی جی شعیب دستگیر عمر شیخ کی وجہ سے عہدے سے علیحدہ ہوئے؟

شعیب دستگیر کو کیوں ہٹایا گیا؟ اس حوالے سے حکومت اور ہٹائے جانے والے آئی جی کے موقف میں تضادات ہیں۔

یہ بات تو واضح ہے کہ شعیب دستگیر کو آئی جی پنجاب کے عہدے سے ہٹائے جانے کے پس منظر میں لاہور کے سی سی پی او کے عہدے پر عمر شیخ کی تعیناتی کا معاملہ بھی تھا۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اس سلسلے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم کوئی افسر لگائیں اور کوئی آ کر کہے کہ نہ لگائیں، یہ نہیں ہو سکتا’۔

شعیب دستگیر نے بھی میڈیا کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ ان کے ایک بیان سے متعلق وزیراعلیٰ پنجاب سے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

آئی جی پنجاب کے عہدے سے ہٹائے گئے شعیب دستگیر گریڈ 22 کے افسر ہیں۔ وہ اس کمیٹی کا بھی حصہ تھے جس نے عمر شیخ کی گریڈ 20 سے 21 میں ترقی کے خلاف سخت رائے دی تھی، جس کے بعد انھیں ترقی نہیں مل سکی تھی۔

شعیب دستگیر کی عمر شیخ سے ناراضگی کی وجہ عمر شیخ کا ایک متنازع بیان بتایا جاتا ہے۔ شعیب دستگیر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ‘تعیناتی کے بعد لاہور کے نئے سربراہ نے اپنے ماتحت افسران کا ایک اجلاس بلایا اور اس میں کہا تھا کہ وہ ان کی بات پر کان دھریں اور آئی جی کی کسی ہدایت پر عمل نہ کریں۔’

شعیب دستگیر کے مطابق انھوں نے اس صورتحال کے بارے میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم کو آگاہ کیا اور ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ لاہور پولیس کے سربراہ کے خلاف انضباطی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

ادھر عمر شیخ نے سابق آئی جی سے معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ان تک پہنچایا گیا۔

تاہم شعیب دستگیر نے ان کی معافی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس صورتحال کے بعد حکومت نے شعیب دستگیر کو ان کے عہدے سے ہٹا کر گریڈ 21 میں کام کرنے والے ان کے ماتحت پولیس افسر انعام غنی کو پنجاب پولیس کا نیا سربراہ مقرر کر دیا تھا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp