پہاڑوں کی ایک ننھی شہزادی


آئیے، آج آپ کی ملاقات پاکستان کی ایک ننھی سی کوہ پیما سے کراتے ہیں۔ کوئی تین سال قبل میں اور میرا دوست، ظہیر عباس گلیات کی سب سے اونچی چوٹی، میرانجانی کی ہائیکنگ کر رہے تھے۔ پائن کے گھنے درختوں کے درمیان ان خوبصورت چڑھائیوں کو چڑھتے ہوئے ہم کچھ پل سستانے کے لیے رکے۔ دور سے ایک دبلا پتلا آدمی ایک چھوٹی سی بچی کے ہم راہ ہماری اور آتا دکھائی دیا۔ پل بھر میں نا صرف وہ دونوں ہمارے پاس سے گزر چکے تھے بلکہ اگلا موڑ مڑ کر ہماری آنکھوں سے اوجھل بھی ہو چکے تھے۔

ان دونوں کی رفتار دیکھ کر ہم چونکے بغیر نہ رہ سکے۔ اور جب ہم میرانجانی کی چوٹی کے قریب پہنچے، تو وہ دونوں چوٹی سے ہو کر واپس نیچے کی طرف رواں دواں تھے۔ ہم نے کچھ لمحے رک کر ان صاحب سے سلام دعا کی۔ انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ ان کا نام یوسف خواجہ تھا جو کہ ایبٹ آباد میں مکین تھے اور ایبٹ آباد میں ایک فٹنس سینٹر چلاتے تھے۔ وہ چھوٹی سی آٹھ سال کی بچی، ان کی بیٹی تھی، جس کا نام سلینہ خواجہ تھا۔ یوں ہمارا سلینہ سے پہلا تعارف ہوا۔

خواجہ صاحب نے ہمیں بتایا کہ پہاڑوں کی چڑھائیاں چڑھنا، ہمیشہ سے ان کا مشغلہ رہا ہے اور وہ میرانجانی کی ہائیکنگ با قاعدگی سے کرتے ہیں۔ اب اس مشغلے میں ان کی بیٹی بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگلے سال سلینہ کا سپٹنک چوٹی سر کرنے کا ارادہ ہے۔ اس مقصد کے لیے میں اسے ہفتے میں ایک دفعہ میرانجانی کی ٹریکنگ کرواتا ہوں۔ میں نے سلینہ سے پوچھا، بیٹا اس عمر میں تو آپ جیسی بیٹیاں اپنے doll ’s house میں بیٹھی گڑیوں سے کھیل رہی ہوتی ہیں، یہ آپ کن چکروں میں پڑ گئی؟ سلینہ کہنے لگی کہ میرے بابا میری انسپریشن ہیں اور پہاڑوں سے محبت مجھے ورثے میں ملی ہے۔ اور اب بابا کے ساتھ ان پہاڑوں پر چڑھنا میرا شوق بن چکا ہے۔ میں اپنے اس شوق کو خوب پورا کر رہی ہوں۔

سلینہ کی گفتگو سن کر بالکل نہیں لگا کہ میں ایک چھوٹی سی بچی سے بات کر رہا ہوں۔ سلینہ کے لیے دل سے بہت سی دعائیں نکلیں۔ ہم نے ان دونوں کے لیے تحسین بھرے کلمات کہے اور وہ اپنے راستے آگے بڑھ گئے۔ آج تین برس بعد وہی دھان پان سی نظر آنے والی سلینہ کیا معرکے سر انجام دے چکی ہے، ان کا مختصراً احاطہ کروں گا۔ پچھلے دنوں خواجہ صاحب کی پوسٹ نظر سے گزری، جس میں ایبٹ آباد پریس کلب میں سلینہ کے اعزاز میں ہوئی تقریب کا ذکر تھا۔ یہ تقریب سلینہ کے اعزاز میں اس لیے منعقد کی گئی تھی، کیوں کہ اسی ماہ جب سلینہ بارہ سال کی ہو چکی ہے، سلینہ نے اسی میرانجانی پہاڑ کی ٹریکنگ ایک سو پچاس دفعہ مکمل کر لی ہے۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ میرانجانی پہاڑ پورے گلیات ریجن کا سب سے اونچا پہاڑ ہے، جس کی بلندی تقریباً تین ہزار میٹر ہے۔ اس پہاڑ کی ایک سو پچاس دفعہ یاترا، ایک بہت بڑا کارنامہ ہے، چہ جائیکہ وہ ایک چھوٹی سی بچی نے انجام دیا ہو۔

دو ہزار آٹھ میں پیدا ہونے والی سلینہ، ساتویں جماعت میں زیر تعلیم ہے۔ سلینہ نے دو ہزار سترہ میں، اپنے والد کے ساتھ با قاعدگی سے پہاڑوں پر چڑھنا شروع کیا۔ سلینہ نے پہلا بڑا کارنامہ صرف نو سال کی عمر میں دو ہزار اٹھارہ میں انجام دیا، جب ہنزہ کی وادی شمشال کی سب سے بلند برفانی چوٹی، قوز سر (Quz Sar) جو کہ تقریباً اٹھاون سو میٹر بلند ہے، کو کامیابی سے سر کیا۔ اور یوں اس چوٹی کو سر کرنے والی سب سے چھوٹی کوہ پیما بن گئی۔ سلینہ کی اس کامیابی کو مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں نمایاں جگہ ملی۔ گلف نیوز جیسے بڑے اخبار نے بھی اس کارنامے کو اپنے صفحات کی زینت بنایا۔ اس مہم کی کامیابی کے بعد ماؤنٹینیئر کمیونٹی آف پاکستان نے سلینہ کو ”پہاڑوں کی شہزادی“ کے خطاب سے نوازا۔

جولائی دو ہزار اٹھارہ میں، سلینہ نے منگلنگ سر (Mingling Sar) جو کہ چھے ہزار پچاس میٹر بلند چوٹی ہے، کو سر کیا اور پھر اگست دو ہزار اٹھارہ میں، ویلیو سر (Wilyo Sar) جو کہ چھے ہزار ایک سو پچاس میٹر بلند ہے، کو کامیابی سے سر کیا۔ دو ہزار انیس میں سلینہ نے صرف دس سال کی عمر میں ایک مرتبہ پھر اپنا نام ریکارڈ بکس میں درج کروایا، جب وادیٔ نگر کی سپانٹک پیک کو اپنے ننھے قدموں سے رام کیا۔ سپانٹک پیک کی بلندی سات ہزار میٹر ہے۔ یوں سلینہ دنیا میں سات ہزار کی چوٹی سر کرنے والی سب سے کم عمر کوہ پیما بن گئی۔

سلینہ کی کامیابیاں جاری و ساری ہیں اور میں یہ وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ ثمینہ بیگ جس طرح پاکستان کی پہچان بنی تھی، عین اسی راستے پر سلینہ بھی گام زن ہو چکی ہے۔ سلینہ کے مینٹور اور والد یوسف خواجہ نے بتایا کہ سلینہ کا اگلا ہدف آٹھ ہزاروی پہاڑ ہیں۔ جن میں دو ہزار اکیس میں براڈ پیک یا گیشر برم کرنے کا ارادہ ہے، پھر دو ہزار بائیس میں ایورسٹ سر کرنے کا ارادہ ہے۔ سلینہ کا جسم تو نحیف ہو سکتا ہے، مگر اس کے ارادے بہت مضبوط ہیں۔ سلینہ کے لیے ڈھیروں دعائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).