منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے


بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس منگل کی سہ پہر ہوئی۔اس کے بعد آرمی چیف نے ان سے فون پر رابطہ کیا۔بعدازاں فیصلہ ہوا کہ پیر کی صبح کراچی میں کیپٹن صفدر کی پُراسرار مگر کافی شرمناک انداز میں ہوئی گرفتاری کا باعث ہوئے ’’حقیقی‘‘ کرداروں کی نشاندہی ہو۔ان تمام واقعات سے کئی گھنٹے قبل میں کالم لکھ کر دفتر بھجواچکا تھا۔ بدھ کی صبح وہ ’’حکومتی صفوں میں کنفیوژن‘‘ کے عنوان سے شائع ہوگیا۔میرے کالم میں بیان کردہ خدشات کی ٹھوس واقعات سے تصدیق کے بعد ایمان داری کی بات مگر یہ ہے کہ تصدیق کی بابت شاداں ہونے کے بجائے میں پریشان ہوگیا ہوں۔

کسی بھی معاشرے میں حقیقی ابتری وخلفشار کا تاثر اس وقت پھیلنا شروع ہوتا ہے جب رعایا کو ایک پنجابی محاورے کے مطابق یہ علم ہی نہ ہوکہ ریاستی قوت واختیار کے حوالے سے وہ کس کی ماں کو ’’ماسی‘‘ کہیں۔وطنِ عزیز میں یہ تاثر ہرگز نیا نہیں۔ ذاتی اعتبار سے اس کی شدت کا اندازہ مجھے نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران ہوا تھا۔ایک نہیں دوبار مجھے وزیر اعظم کے ہمراہ غیر ملکی دورے پر جانے والے صحافیوں کی فہرست میں ڈالا گیا۔میں سوٹ کیس سمیت ایئرپورٹ پہنچا تو پرواز سے چند لمحے قبل بتایا گیا کہ میرا نام فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔

پہلی بار جب یہ نام نکالا گیا تو چودھری نثار علی خان جو اُن دِنوں وزیر اعظم کے طاقتور ترین معاونِ خصوصی ہوا کرتے تھے اس کی بابت بہت چراغ پا ہوئے۔ان کی ضد نے دوسرے دورے کے لئے میرا نام ڈلوایا۔میں نے گریز کی کوشش کی تو مرحو م عبدالستار لالیکا بطور وزیر اطلاعات میرے گھر آگئے۔وہ میری بیوی کو بہنوں والا احترام وپیار دیتے تھے۔اسے اپنا ’’حامی‘‘ بنالیا۔ایئرپورٹ سے اس کے باوجود میں سوٹ کیس سمیت ایک بار پھر واپس بھیج دیا گیا۔

حکومت سے فراغت کے چند ماہ بعد نواز شریف میرے والد کی وفات کا افسوس کرنے آئے تو پُرخلوص تجسس سے کریدتے رہے کہ میرے خیال میں مجھے ایئرپورٹ سے ’’کس نے‘‘ واپس بھجوایا ہوگا۔میں بالآخر جل کر بول اٹھا کہ جس بات کا وزیراعظم سراغ نہ لگاپائے ’’دوٹکے کا صحافی‘‘ کیسے لگاسکتا ہے۔

وسیع تر تناظر میں میرے ساتھ ہوئے واقعات قطعاََ ’’انفرادی‘‘ اور فروعی تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں لیکن کس کی ماں کو ’’ماسی‘‘ کہیں کے تناظر میں ایک اندوہناک واقعہ ہوا۔ اس وقت کی وزیر اعظم کا ایک ہی بچا جواں سال بھائی-مرتضیٰ بھٹو- کراچی میں ہوئے ایک ’’پُلس مقابلے‘‘ میں جان سے گیا۔ سندھ میں حکومت بھی ان دنوں پیپلز پارٹی ہی کی تھی۔تاریخی اتفاق یہ بھی ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے دن موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ صوبائی حکومت کے سربراہ تھے۔

ریاستی قوت واختیار کے حوالے سے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے بارے میں کنفیوژن کا عالم ہرگز’’نیا‘‘ نہیں۔اصل مصیبت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کنفیوژن گھمبیر تر ہوتا رہاہے۔ 2008کے انتخابات کے بعد آئین میں اٹھارویں ترمیم جیسے اقدامات کے ذریعے ’’حقیقی جمہوریت‘‘ بحال کرنے والے بھی اس کنفیوژن کو ختم نہ سہی تو کم از کم اُس پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ نواز شریف کی تیسری حکومت 2014کے دھرنے کی وجہ سے اس کنفیوژن کے تناظر میں بالآخر مضحکہ خیز حد تک بے بس ہوئی نظر آئی۔

امید تھی کہ پاکستان کو ’’نیا‘‘ بنانے کے خواہاں عمران خان صاحب “One Page”پر ہونے کی بدولت مذکورہ کنفیوژن کے تدارک کو یقینی بنائیں گے۔ ایسا مگر ہوا نہیں ۔کنفیوژن دن بدن گھمبیر سے گھمبیر تر ہورہا ہے۔اندھی نفرت وعقیدت میں ہوئی تقسیم اور اس تقسیم کو ہیجانی صورت فراہم کرتا سوشل میڈیا ان کے دور میں اس کنفیوژن کو سنگین تر بنارہا ہے۔اس کی وجہ سے انگریزی محاورے والے Wheels within Wheelsبلکہ پریشان کن حد تک متحرک ہوگئے ہیں۔

اس محاورے کو لغت میں ایسی صورت حال بیان کیا جاتا ہے جو ’’عیاں کرتی ہے کہ خفیہ اور بالواسطہ قوتیں‘‘ حالات کو پیچیدہ تر بنارہی ہیں۔اپنے گھر تک محدود ہوا میں جبلی طورپر محسوس کررہا تھا کہ کراچی میں PDM کے جلسے کے تناظر میں کوئی ’’انہونی‘‘ ہوسکتی ہے۔علم نجوم سے حال ہی میں نازل ہوئی دلچسپی میرے خدشات کا ہرگز سبب نہیں تھی۔ہمارے ہاں YouTubeپر چھائے چند افراد کے فرمودات نے یہ سوچنے کو مجبور کیا۔ یوٹیوب پر نام نہاد Influencersکا ایک جانا پہچانا گروہ حاوی ہے ۔جس کے بارے میں ’’منصور کے پردے میں خدابول رہا ہے‘‘ والا تاثر پھیلایا گیا ہے۔

PDMکے قیام کے فوری بعد ان لوگوں نے نہایت اعتماد سے یہ دعویٰ کرنا شروع کردیا کہ آصف علی زرداری کی ’’فراست‘‘ بلاول بھٹو زرداری کو اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد میں ’’ضائع‘‘ ہونے نہیں دے گی۔ بلاول بھٹو زرداری سے کوئی رابطہ کئے بغیر میں نے اس کالم میں لیکن بڑھک لگادی کہ وہ ہر صورت PDMکی جانب سے گوجرانوالہ میں ہوئے جلسے میں شریک ہوں گے۔ وہ شریک ہوگئے تو کہانی یہ چلی کہ مذکورہ جلسے سے نواز شریف کے خطاب کے بعد بلاول بھٹو زرداری کے لئے PDM کے ساتھ چلنا ناممکن ہوگیا ہے۔

گوجرانوالہ کا جلسہ 16 اکتوبر کے روز ہوا تھا۔ دوہی دن بعد کراچی کا جلسہ تھا۔بلاول بھٹو زرداری اس کے ’’میزبان‘‘ تھے۔وہ اسے مؤخر کرہی نہیں سکتے تھے۔ مریم نواز صاحبہ کا وہاں جانا بھی لازمی تھا۔ٹھنڈے دل سے اگرسوچیں تو بلاول بھٹو زرداری کا PDM سے جڑے رہنا بالآخر نواز شریف کے رویے کو معتدل بنانے میں مددگارثابت ہوسکتا ہے۔اسی وجہ سے انہوں نے کراچی کے اجتماع سے خطاب بھی نہیں کیا۔مریم نواز صاحبہ نے بھی اپنے والد کے حتمی بیانے سے گریز کئے بغیر ایک نپی تلی تقریر کی۔ان Subtle نکات کا غور سے جائزہ اور تھوڑی پذیرائی درکار تھی۔

ہیجان بھڑکانے کو مگر نواز شریف کے داماد کی گرفتاری کا فیصلہ ہوا۔وہ گرفتاری ہوگئی تو یوٹیوب پر چھائے حق گو افراد حتیٰ کہ روایتی میڈیا کے کئی سٹار اینکر بھی یہ کہانی پھیلانا شروع ہوگئے کہ پیپلز پارٹی کیپٹن صفدر کی گرفتاری میں پوری طرح ملوث ہے۔اس کی وجہ سے جو ہلچل مچی اس سے بچنے کو مگر آئی جی سندھ پر ’’دبائو‘‘ کے ڈرامے لگارہی ہے۔یہ دعویٰ کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی گئی کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سندھ کی مہمان نواز والی روایات کے اسیر بھی ہیں۔

بلاول کئی حوالوں سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست کے حقیقی وارث بھی ہیں۔اپنی ماں کی اُنگلی تھامے وہ بچپن میں اپنے والد سے ملنے جیل جاتے رہے ہیں۔ان دنوں کے تلخ تجربات کی بدولت وہ عورتوں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔صحافت کو بہت خلوص سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔اپنی والدہ کی وراثت کے احترام ہی میں وہ قومی اسمبلی کی انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کے از خود چیئرمین بنے تھے۔اپنے منصب کے حوالے سے اگرچہ انہیں خارجہ امور پر خزانہ سے متعلق کمیٹی کی سربراہی لینا چاہیے تھی۔

محترمہ بے نظیربھٹو کا سیاسی وارث اور قومی اسمبلی میں انسانی حقوق سے متعلق قائمہ کمیٹی کا چیئرمین ہوتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ یہ تاثر پھیلے کہ ان کی جماعت کے لگائے وزیر اعلی کی مبینہ طورپر ’’ماتحت‘‘ پولیس نے پیر کی صبح کراچی کے ایک ہوٹل میں اس کمرے پر دھاوا بول کر کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا ہے جہاں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ قیام پذیر تھے۔اس واقعہ کو ہضم کرنا ان کے لئے ثقافتی اعتبار سے نہیں سیاسی حوالے سے بھی ناممکن تھا۔منگل کی سہ پہر اس ضمن میں اُن کے جذبات کے بالآخر دھماکے کی صورت پھٹ پڑے اور اب Damage Control کی کاوشیں شروع ہوگئی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).