اماں نوراں کی شاگرد اور الوداعی بوسہ


صبح سویر کا عمل تھا۔ فری دوسری مرتبہ اس کنویں کے کنارے آئی تھی۔ اس دفعہ اس کا ارادہ تھا کہ کنویں پر پہنچتے ہی اس میں چھلانگ لگا دے گی لیکن وہاں پہنچ کر وہ دوبارہ ہچکچاہٹ کا شکار ہو گئی۔ بات یہ نہیں تھی کہ اس کو موت کا خوف لاحق تھا اصل ڈر یہ تھا کہ وہ کہیں زندہ نہ بچ جائے۔ وہ جلد از جلد اپنی زندگی کا خاتمہ چاہتی تھی اور اس کے لیے کئی دنوں سے خود کشی کی پلاننگ کر رہی تھی۔ اس کی عمر یہی کوئی سولہ سترہ سال ہو گی۔

وہ خود کشی کے کسی ایسے صاف ستھرے طریقے کی تلاش میں تھی جس میں موت یقینی ہو اور فوری طور پر واقع ہو جائے۔ اور یہ دونوں ”سہولتیں“ اسے شاید کنویں میں چھلانگ لگانے سے حاصل نہ ہو سکتیں یہی وجہ تھی کہ وہ دوسری مرتبہ یہاں آ کر بھی اپنے ارادے پر عمل نہ کر سکی۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنی عمر اور سمجھ کے مطابق علاقے میں معروف خود کشی کے کئی طریقو ں پر غور کیا۔ پستول کی گولی، زہر یا تیزاب وغیرہ کا استعمال، کسی گہرے کنویں میں چھلانگ۔

انتہائی کوشش کے باوجود کسی آتشیں اسلحے تک اس کی رسائی نہ ہو سکی۔ زہر کے کیسز میں ”بد قسمتی“ سے دو ایک بار ایسا ہوا کہ خود کشی کی خواہشمند خاتون ہسپتال لے جانے کے بعد ٹھیک ہو کر واپس آ گئی۔ دوسری طرف اس کی ایک دور پار کی عزیزہ نے تیزاب پی لیا۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا وہ مرنے میں ”کامیاب“ تو ہو گئی لیکن اس کامیابی پر قریب چھ ماہ اور گھر والوں کے لاکھوں روپے لگے۔ لہذا ان طریقوں سے قدرے بددل ہو کر کافی غور کے بعد اس نے سالوں سے بند پڑے اس اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔

کنویں کے گرد کانٹے دار جھاڑیاں اور ڈھینگریاں رکھی ہوئیں تھیں تاکہ کسی بھولے بھٹکے راہگیر کا یہاں سے گزر ہو تو وہ محتاط ہو جائے اور گرنے سے بچ جائے۔ اس نے ایک جھاڑی اٹھا کر ایک طرف کی اور کنویں کے بالکل کنارے پر آ گئی۔ لیکن اس دوران اسے خیال آیا کہ اگر اس گہرے اور بے حد تاریک کنویں میں گرنے کے باوجود وہ بچ گئی تواندر کیا منظر ہو گا! آئے دن اس میں کتے بلے وغیرہ گرتے رہتے تھے اگلے دن اس میں ایک بیمار گدھا بھی گرا تھا۔ اندر کے غلاظت بھرے انتہائی بد بودار ماحول کا تصور کر کے اسے سخت گھن آئی۔ اتنے میں اسے قدرے دور سے ٹرین گزرنے کی آواز آئی۔ اس نے تھوڑا غور کیا اور پھر اس کے چہرے پر ایک چمک آ گئی۔ اس کا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔

فری لوگ چھ بہن بھائی تھے! بھائی سب سے چھوٹا تھا۔ بیٹے کی امید میں باپ نے بیٹیوں سے گھر بھر لیا تھا۔ اس کا باپ ماجھا ایک مالی تھا اور وہ بھی ادنیٰ درجے کا۔ وہ کوئی ایک دو ایکڑ کا باغ ٹھیکے وغیرہ پر لیتا اور اس میں تھوڑی بہت سبزیاں وغیرہ اگا لیتا اور اسی پہ گزارا چلتا تھا۔ گھر میں بدترین غربت تھی۔ ان کا بے درو دیوار سا کچا گھر صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ گاؤں کے زمیندار نے ماجھے مالی کو دو تین مرلہ زمین دی تھی جس پر اس نے ایک کچا کمرہ بنایا تھا۔

سو! آٹھ افراد پہ مشتمل یہ کنبہ اسی ایک کمرے اور ایک آدھ مرلے کے چھوٹے صحن پر گزارا کر رہا تھا۔ پانچ بیٹیوں میں فری کا پانچواں نمبر تھا۔ اس عالم میں بچپن میں اسے پیار تو کیا ملتا نفرت بھی پوری نہ مل سکی کیونکہ نفرت کے لیے بھی کسی قدر توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ شروع سے ہی اسے لا تعلقی کا ماحول ملا۔ وہ اپنے والدین خصوصاً والد کی طرف سے مکمل عدم توجہ اور مجرمانہ لا تعلقی کا شکار رہی۔ بچپن کا زیادہ وقت برہنہ پاء اور کٹے پھٹے کپڑوں میں گزرا۔

گھر میں جب نئے کپڑے بنتے اس تک پہنچتے پہنچتے بجٹ ختم ہو جاتا۔ شاید ہی کسی عید بقر عید پر اسے نئے کپڑے میسر آئے ہوں۔ چنانچہ سہو لتیں آسائشیں تو کیا عام سی ضروریات زندگی سے عاری بچپن گزار کر فری نجانے کب شباب کو پہنچی۔ لیکن اس ناآسودہ اور بے رحم ماحول میں ایک بات بہت عجیب ہوئی کہ فری بڑی ہوئی تو وہ بلا کی خوبصورت تھی۔ چہرہ گل نوخیز کی سی پاکیزگی اور بے پناہ معصومیت کا عکاس تھا۔ اسے دیکھنے پہ تھامس ہارڈی کی Tess کی صورت سامنے آ جاتی۔

بچپن، لڑکپن اور جوانی کی دہلیز تک پہنچتے ہوئے اس نے گھر میں صرف دو چیزیں دیکھی تھیں! باپ کا غصہ اور اذیت ناک غربت۔ اس کے معصوم ذہن کے کے لیے جو چیز سب سے زیادہ ناقابل برداشت تھی وہ والدین کے ہوتے ہوئے ان کی شفقت سے محرومی تھی۔ وہ اپنائیت اور توجہ کی متلاشی تھی۔ اسی دوران زمینداروں کا لڑکا طافی اس کی طرف متوجہ ہوا۔ طافی بڑا خرانٹ، تجربے کار اور بھنورا صفت نوجوان تھا۔ اس نے فری کے بھولپن اور توجہ کی خواہش کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

اسے خوابوں کا ایک منظر دکھایا اور اس میں رنگ بھرنے کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔ باتوں کے چنگل میں آ کر فری اس نئے مسحورکن سفر پر چل نکلی اور چند دنوں میں ہی اس غلطی کی مرتکب ہوئی جو ایسے سفر کا خاصہ ہے۔ غلطی ہو چکی تھی اور اب اس کا نتیجہ برآمد ہونے لگا تھا۔ خوابوں کا سفر تمام ہوا۔ آنکھ کھلی۔ منظر بدلا۔ اب اس منظر میں طافی نہیں تھا۔ گھر تھا گاؤں تھا اوردوسری طرف اکیلی فری جس نے اب اپنی غلطی سمیت گھر اور گاؤں کا سامنا کرنا تھا۔

وہ گھر جہاں عام حالات میں بھی اس کو ہمدردی اور شفقت سے محروم رکھا گیا وہاں اتنے بڑے قصور کے بعد معافی کہاں ملنا تھی۔ وہ خود بھی اپنے آپ کو معاف نہیں کر رہی تھی وہ شیکسپئر کے ایک کردار ”لیڈی میکبتھ“ کی طرح دن میں کئی دفعہ ہاتھ منہ دھوتی، غسل کرتی کہ شاید یوں پاک ہو جائے۔ تاہم اس نے والدہ سے بات کی او ر حسب توقع انتہائی شدید ردعمل سامنے آیا۔ ”تمہارا باپ تمہیں چھوڑے گا نہیں“ ۔ ماں کا جملہ سارا دن فری کے دماغ میں گھومتا رہا۔

فری کی ماں دراصل خود کالے پانیوں میں رہ رہی تھی۔ تمام عمر اسے خاوند کی سختی اور تشدد کا سامنا رہا۔ وہ شایدچاہتے ہوئے بھی فری سے ہمدردری نہیں کر سکتی تھی۔ شام کو بات باپ تک پہنچی تو اس نے صرف ایک سطری حکم سنایا، ”اسے کہو خود ہی اپنا قصہ تما م کر لے ورنہ وہی حال کروں گا جو ماچھیوں نے اپنی کڑی کا کیا تھا“ ۔ فری کو معلوم تھا کی ماچھیوں نے ایسی ہی غلطی پر اپنی لڑکی کو کلہاڑیوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ ماں نے یہ حکم سنایا تو فری کانپ کر رہ گئی۔ اس رات اس نے گھر سے تما م کلہاڑیاں چھپا دیں تھیں۔ ان حالات میں اس نے خود کشی کی پلاننگ کی کنویں میں چھلانگ لگانے گئی لیکن ٹرین کی آواز سن کر واپس آ گئی

اگلے دن وہ صبح صبح گاؤں کی نکڑ پہ موجود اماں نوراں کے گھر پہنچی۔ اماں نوراں نے اسے قرآن پاک پڑھایا تھا۔ اپنی استانی سے اسے ہمیشہ ہمدردی اور پیار بھرا سلوک ملا۔ اس نے ساری داستاں اسے سنائی۔ نماز ادا کی اور دیر تک تلاوت کرتی رہی۔ ابھی اندھیر ا باقی تھا کہ وہ اماں نوراں کے گھر سے نکلی۔ اماں نے اسے کسی ایسے ویسے اقدام سے منع کیا جسے سن کر وہ مسکرا دی۔ جاتے ہوئے اس نے ایک التجا کی، ”بے بے جی! ابا سے کہنا جنازہ اٹھتے وقت میری پیشانی پہ بوسہ دے“ ۔

اماں نے پھر اسے پیار سے ڈانٹتے ہوئے ایسی بات کرنے سے منع کیا۔ وہ گھر سے نکلی اور وقت سے پہلے ریلوے لائن پر پہنچ گئی۔ ٹرین آئی اور اس کی خواہش پوری ہو گئی۔ صاف ستھری اور فوری موت۔ جنازہ اٹھا تو اماں نوراں کو فری کی بات یاد آئی۔ اس نے اس کے باپ کو دیکھا۔ سخت، سپاٹ اور بے حد کرخت چہرہ۔ وہ فری کی التجا اس کے باپ تک نہ پہنچا سکی۔ خود آگے بڑھی اور فری کی میت کو پیشانی پر بوسہ دے کر اسے رخصت کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).