مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی:’بیٹی خوبصورت تھی، معلوم نہیں کہ وہ کب سے آنکھ لگا کر بیٹھا تھا‘


مذہب کی جبری تبدیلی
پاکستان کی ہندو اور مسیحی اقلیتی برادریاں اپنی لڑکیوں کے مذہب کی جبری تبدیلی کی شکایت ایک طویل عرصے سے کرتی آ رہی ہیں
کراچی کی رہائشی کیتھرین مسیح (فرضی نام) اور ان کے شوہر مائیکل (فرضی نام) ملازمت پر گئے ہوئے تھے جب گھر سے اُن کی عدم موجودگی میں اُن کی بیٹی لاپتہ ہو گئی۔ وہ ڈھونڈتے رہے، لیکن پتہ نہیں چلا اور چند روز بعد انھیں پولیس نے کاغذات پکڑا دیے اور آگاہ کیا کہ لڑکی کا مذہب تبدیل ہو گیا ہے اور اس نے نکاح بھی کر لیا ہے۔

کیتھرین اور مائیکل کے مطابق ابھی اُن کی بیٹی کی عمر گڑیوں سے کھیلنے کی تھی۔

کیتھرین کا دعویٰ ہے کہ اُن کی بیٹی نابالغ ہے اور اسے مبینہ طور پر ورغلا کر لے جانے والے شخص کی عمر 44 سال سے زائد ہے۔

کیتھرین کہتی ہیں کہ ’میری بیٹی کی عمر 13 برس ہے، گھر میں وہ گڑیا سے کھیلتی تھی۔ میری بیٹی بہت خوبصورت تھی، معلوم نہیں ہے کہ وہ کب سے آنکھ لگا کر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بچوں کو ٹافیاں اور آئس کریم لا کر کھلاتا تھا، ہمیں کیا پتہ تھا کہ ایک دن یوں اٹھا کر لے جائے گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

قومی اقلیتی کمیشن ’مذہب کی جبری تبدیلی‘ کی روک تھام کر پائے گا؟

’لڑکیوں کے مذہب کی تبدیلی کے واقعات عشق نہیں ’لو جہاد‘ ہے‘

ننکانہ کی جگجیت کور عرف عائشہ کو مسلمان شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت

کیتھرین کراچی کینٹ ریلوے کالونی کے کوارٹرز میں رہتی ہیں، ان کے پاس اپنی بیٹی کی پیدائش، نادرا اور سکول کا سرٹیفیکیٹ موجود ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکی کی عمر 13 سال ہے۔ تاہم لڑکی کی جانب سے عدالت میں پیش کیے گئے حلف نامے میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کی عمر 18 سال ہے اور اس نے قانونی اور آئینی طور پر حاصل حق کے مطابق نکاح کیا ہے۔

پاکستان میں مسیحی آبادی کا تخمینہ 20 سے 25 لاکھ کے درمیان لگایا جاتا ہے۔ کراچی کے علاوہ لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں مسیحی برادری کی اکثریت آباد ہے۔

مسیحی

وہ علاقہ جہاں کیتھرین اور مائیکل رہائش پزیر ہیں

پولیس اور انصاف کے اداروں کا غیردوستانہ رویہ

کیھترین گھروں میں کام کاج کرتی ہیں جبکہ ان کے شوہر مائیکل ڈرائیور ہیں۔ بیٹی کی تلاش میں دونوں اپنی اپنی ملازمت گنوا بیٹھے ہیں اور اب وہ سارا دن گھر میں رہتے ہیں۔ مائیکل نے بتایا کہ وہ فریئر تھانے میں ایف آئی آر کے لیے گئے تھے لیکن پولیس نے کہا کہ یہ اینٹی وائلینٹ کرائم سیل کا مقدمہ ہے اور انھیں گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹر کا رستہ دکھا دیا۔

مائیکل کے مطابق گارڈن پولیس نے کہا کہ واقعے کے دو چشم دید گواہ اور شناختی کارڈ لے کر آؤ۔

’ہم نے کہا کہ سارے لوگ کام پر گئے ہوئے تھے، کسی نے نہیں دیکھا، ہم چشم دید گواہ کہاں سے لے کر آئیں۔ جو مشتبہ شخص ہے وہ گھر میں موجود نہیں ہے، اس کا فون نمبر بند ہے اور اس کی بائیک بھی موجود نہیں۔ بڑی مشکل سے مقدمہ درج ہوا لیکن مزید کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔‘

مائیکل نے بتایا کہ ایف آئی آر کے اگلے روز پولیس نے بلایا اور نکاح نامہ اور تبدیلی مذہبی کا سرٹیفیکیٹ ہاتھ میں تھما دیا۔

’ہمیں ایک خاتون وکیل نے کہا کہ عدالت سے مدد لیتے ہیں۔ ہمیں عدالت میں پیش کیا گیا، وہاں بیٹی کی عمر کا سرٹیفیکٹ بھی دکھایا، جج نے کہا کہ درخواست جمع کروائیں۔ وکیل خاتون نے کہا کہ پچاس ہزار روپے فیس دو میں نے کہا کہ میں اتنی نہیں دے سکتا جس کے بعد انھوں نے 20 ہزار روپے مانگے۔ میں نے کہا کہ کسی سے سود پر لاتا ہوں، لیکن میں مایوس ہو چکا تھا۔‘

مذہب کی جبری تبدیلی

مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف جب سندھ اسمبلی میں قانون پیش کیا گیا تو مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس کی سخت مخالفت کی گئی

جبری مذہب تبدیلی صرف ایک جرم نہیں

انسانی حقوق کی تنظیم سینٹر فار سوشل جسٹس کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 16 برسوں میں 55 مسیحی لڑکیوں کے مبینہ جبری مذہب کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں سے 95 فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے۔ سندھ میں ہندو کمیونٹی جبری تبدیلی مذہب کی شکایت کرتی ہیں لیکن اب مسیحی برادری کی بھی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔

سینٹر فار سوشل جسٹس کے سربراہ پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ جب بھی جبری مذہب کے واقعات ہوتے ہیں تو والدین خوفزدہ ہو جاتے ہیں، بچیوں کو سماجی رابطوں سے روک لیتے ہیں، اس قدر کہ تعلیم کی راہ میں بھی رکاوٹیں آ جاتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسے واقعات سے ’صرف ایک جرم وابستہ نہیں، بلکہ ان واقعات میں اغوا کیا جاتا ہے، تشدد ہوتا ہے، والدین کو ہراساں کیا جاتا ہے، پھر قانون شکنی کر کے قانون اور مذہب دونوں کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ اس میں ریپ، بچوں سے زیادتی اور جنسی ہراسانی شامل ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ قانون سے پوچھنا پڑے گا کہ کمسن بچیوں کا مذہب کیوں تبدیل ہو رہا ہے، اس تعداد کو روکنے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کرتا۔

سینیٹر انوار الحق کاکڑ

سینیٹر انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ مسئلہ قانون بنانے سے زیادہ انتظامی نوعیت کے معاملات سے حل ہوگا

شکایت جبری تبدیلی پر پوری نہیں اترتی

پاکستان میں جبری مذہب کی تبدیلی کی شکایات کے ازالے کے لیے گذشتہ سال سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے تقریباً 11 ماہ بعد اپنی کارروائی کا آغاز کیا اور حال ہی میں صوبہ سندھ میں ہندو کمیونٹی کے ساتھ صوبائی اور ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی۔

ابتدائی طور پر کمیشن کی بھی رائے ہے کہ نوعمری میں تبدیلی مذہب پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی، تاہم انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے۔

پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ جو جبری مذہب کی تبدیلی کی جو شکایات کی جا رہی تھیں، وہ اس پر پوری نہیں اتر رہی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ متاثرہ خاندان اغوا اور نو عمری کا الزام سامنے لاتا ہے جبکہ جو زیر الزام لوگ تھے وہ قانونی نکات سامنے لا رہے تھے جن میں مرضی کا عمل دخل تھا، بعض معاملات میں مجسٹریٹ کے سامنے ان کے اعترافی بیانات تھے، اس کے علاوہ نکاح نامہ اور مذہب کی بالرضا تبدیلی کے شواہد شامل تھے۔

پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ عدالت میں تبدیلی مذہب کی سند اور نکاح نامہ پیش کردیا جاتا ہے، عدالت اس کو درست تسلیم کر لیتی ہے کہ 13 سے 15 سال کی بچی اپنے مرضی سے مذہب تبدیل کر رہی ہے۔

’جبری تبدیلی مذہب کس کو کہتے ہیں، قانون میں اس کی تشریح موجود نہیں ہے۔ جب کوئی قانونی طریقہ کار میں ہیرا پھیری کرے، مذہب تبدیل کرنے والے کو اپنے خاندان سے ملنے کی اجازت نہ ہو، فوری شادی کرلی جائے، تو پھر اس میں تحقیقات ہونی چاہییں کہ اس میں کسی قسم کا جبر ہے یا نہیں۔ ان میں 99 فیصد کیسز شادی سے منسلک ہوتے ہیں۔‘

قانونی نظام میں ہیرا پھیری

پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ تسلیم کرتے ہیں کہ قانونی نظام میں ہیرا پھیری کی جاتی ہے جس سے مستفید زیر الزام افراد ہوتے ہیں۔

’ہم قوانین بنا بھی لیں، مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ ہماری سوچ یہ ہے کہ اگر انتظامی طور پر اقدامات کیے جائیں، انتظامی پھرتی دکھائی جائے تو مسائل کم ہوں گے کیونکہ غیر ریاستی افراد اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔

’اگر عمر کا سرٹیفیکٹ وغیرہ بنانے میں ضلعے کا ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او شامل ہوگا تو اس کا طریقہ کار زیادہ ساکھ والا ہوگا۔ اس پر سوالات نسبتاً کم اٹھیں گے۔ فی الوقت پرائیوٹ گروہ یا لوگ اس کا حصہ بنتے ہیں تو طریقہ کار تھوڑا مشکوک بن جاتا ہے۔‘

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قومی اقلیتی کمیشن کی بھی تشکیل کی گئی ہے، تاہم کمیشن کے سربراہ چیلارام کیولانی مذہب کی جبری تبدیلی کے معاملے کو بین الاقوامی میڈیا اور پڑوسی ملک کا پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔

پیٹر جیکب

پیٹر جیکب کہتے ہیں کہ کمیٹی نے مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی کے واقعات کو رپورٹ مرتب کرنے سے پہلے ہی معاشی قرار دے کر مایوس کیا ہے

پارلیمانی کمیٹی سے اقلیتی برادری مایوس

پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ کسی بھی قانون کے ذریعے روحانی سفر کو عمر کا پابند کیا جاسکتا ہے کہ فلاں عمر میں یہ سفر کرسکتے ہیں، فلاں میں نہیں کرسکتے، یہ فطری عمل ہے لہٰذا کمیٹی اور اس کے اقلیتی رکن کسی بھی عمر میں مذہب کی تبدیلی پر قدغن لگانا درست نہیں سمجھتے، لیکن مذہب کی جبری تبدیلی 13 سال کی عمر میں ہو یا 63 سال کی عمر میں اس کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔

سینٹر فار سوشل جسٹس کے سربراہ پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے یہ کہہ کر اپنا دامن جھاڑنے کی کوشش کی ہے یہ کیسز تو معاشی وجوہات کی بنا پر ہوتے ہیں اور کچھ پسند کی شادی ہوتی ہے۔

’ہم نے سوچا تھا کہ پارلیمانی سطح پر جب کوئی تحقیقات ہوگی تو بڑی احتیاط کے ساتھ کی جائے گی، جامع ہوگی، یہ خوب ہے کہ اپنی کوئی رپورٹ شایع کرنے سے پہلے یہ کہنا شروع کردیا کہ مرضی کی شادیاں ہوتی ہیں، معاشی وجوہات کی وجہ سے مذہب تبدیل کیا جاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ دیکھ کر تو ہمیں سخت مایوسی ہوئی ہے۔‘

پیٹر جیکب کے مطابق انھیں یہ معلوم ہے کہ مذہبی اقلیتوں کی اکثریت کن معاشی حالات میں رہتی ہیں اور ان کا سماجی اثر و رسوخ کیا ہے، اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ مذہب کی تبدیلی جبر کے علاوہ نہیں ہوسکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp