باہر کی دنیا بہت خراب ہے


ٹرک کا انجن چل رہا تھا اور یکایک میں نے فیصلہ کر لیا تھا۔ ڈرائیور کے پیشاب سے پہلے میں بھاگ کر ٹرک میں سوار ہو چکا تھا۔ اندر بھینس، گائے اور بکریاں بندھی ہوئی تھیں۔ جگالی کرتی ہوئی یہ بھینسیں تھوڑی دیر کے لیے بے کل ہوئی تھیں مگر ٹرک کی حرکت کے ساتھ ہی مجھے بھی انہوں نے ایک مسافر کی حیثیت سے قبول کر لیا تھا۔ میں نے ایک لمبی سانس لی، خوف اور حقارت سے پیچھے رہ جانے والی سڑک کے بھی پیچھے، رہ جانے والے مدرسے کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔

میں آزاد ہو گیا تھا، آزاد بالکل آزاد!

میں چلتے ہوئے ٹرک کے کونے میں لگا ہوا تھا اور مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا تھا کہ مجھے سخت بھوک لگی ہے اور سخت پیاس بھی اور ساتھ ہی مجھے نیند آ گئی تھی۔

مجھے پتا نہیں وہ کون سی جگہ تھی۔ صبح روشنی کے پھیلنے کے ساتھ ٹرک ایک ہوٹل کے سامنے رکا تھا۔ وہاں پر کئی اور ٹرک بھی کھڑے ہوئے تھے۔ ہوٹل کے اندر اور باہر بہت ساری چارپائیاں بچھی ہوئی نظر آئی تھیں اور ٹرکوں کے ڈرائیور کلینروں کے ساتھ بیٹھے چائے اور پراٹھے کھا رہے تھے۔ ٹرک کے رکتے ہی وہ دونوں کھانستے ہوئے مفلروں سے اپنی گردنوں کو چھپاتے ہوئے نکلے تھے۔ وہ دونوں سیدھے ہوٹل میں چلے گئے تھے۔ ٹرک اس طرح سے کھڑا تھا کہ مجھے نکلنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوئی تھی۔

میں اتر کر آہستہ آہستہ چلتا ہوا ہوٹل کی طرف گیا تھا۔ وہاں پر کوئی پیشاب خانہ نہیں تھا۔ ہوٹل کے ساتھ ہی ایک نالہ سا تھا جہاں پر وہ دونوں شاید پیشاب کرنے چلے گئے تھے۔ میں نے ہوٹل کے سامنے رکھے ہوئے مٹی کے بڑے بڑے مٹکوں سے پانی نکالا، اچھی طرح سے منہ دھویا، بالوں کو صاف کیا تھا۔ گزشتہ دن کے زخم پر پانی لگنے سے جلن سی ہوئی تھی مگر خون کا صاف کرنا ضروری تھا۔ آگے نہ جانے کیا ہوتا۔ اب تو ناظم بھی اٹھ گیا ہوگا۔ اور سب تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ہوں گے، مجھے جھرجھری سی آئی تھی۔ نہ جانے کب اور کیسے کراچی پہنچوں گا۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب کبھی بھی اپنے خاندان کو ملتان نہیں آ کر ملوں گا۔ میری زندگی وہ نہیں ہوگی جو وہ چاہتے ہیں، وہ ہوگی جو میں چاہتا ہوں۔ میں کیا چاہتا ہوں مجھے پتا نہیں تھا۔

ہاتھ منہ دھوکر میں ان کی ہی چارپائی پر جا کر بیٹھ گیا تھا اور ہوٹل والے کو چائے اور پراٹھے کا بولا تھا۔ وہ دونوں بھی چائے پراٹھا ہی کھا رہے تھے۔

مجھے دیکھ کر دونوں مسکرائے تھے۔ میں بھی مسکرایا تھا۔ میں نے پوچھا تھا کہاں جا رہے ہیں؟
”قربانی کے جانور لے کر کراچی جا رہے ہیں بادشاہو۔ تسی کہاں جا رہے ہو مولوی صاحب۔“

”میں بھی کراچی ہی جا رہا ہوں۔ مگر جس ٹرک پر آیا تھا وہ یہاں سے میرا بکس لے کر اور مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔“ میں نے جواب دیا تھا۔
”کوئی گل نہیں ہے۔ تسی ہمارے ساتھ چلو۔“ ڈرائیور نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔ ”جگہ تھوڑی ہوگی مگر فکر کی گل نہیں ہے، ہم آپ کو بغیر کرائے کے لے جائیں گے۔“

اس دفعہ میں ان کے ساتھ ٹرک میں آگے ہی بیٹھا تھا۔ ڈرائیور کا نام سلامت اور کلینر کا نام گلو تھا۔

ٹرک کے چلتے ہی گلو نے چرس سے بھری ہوئی سگریٹ سلگائی تھی اور ڈرائیور کودے دی تھی۔ ڈرائیور نے چار پانچ لمبے لمبے کش بھرے تھے، پھر گلو کو واپس دے دی اور کہا کہ مولوی صاحب کو بھی پلاؤ نہ یار۔

میں نے ہنس کر منع کر دیا تھا۔ وہ دونوں شریف لوگ تھے، میری ظاہری شکل و صورت کو دیکھ کر مجھے مولوی ہی سمجھتے تھے اور عزت سے بات کرتے رہے تھے۔ راستے بھر وہ لوگ اپنی باتیں کر رہے تھے۔ ٹرکوں اور پولیس والوں کے قصے، سندھ میں ڈاکوؤں کے قصے۔

پھر میں نے ہی ان سے پوچھا تھا کہ کراچی میں رہنے کی جگہ کہاں مل جائے گی۔ مجھے جا کر اپنے ماموں کو تلاش کرنا ہے، وہ حبیب بینک میں چوکیدار ہے۔ اس کا پتا بھی میری کاپی میں تھا جو بکسے میں باقی پیسوں کے ساتھ رہ گیا ہے۔

دونوں نے ایک ساتھ ہی بھاگنے والے ٹرک ڈرائیور کو گالی دی تھی۔ ”خراب زمانہ آ گیا ہے مولوی صاحب، خراب زمانہ۔“

میں خاموش رہا تھا۔ ”تسی گھبراؤ نہیں جناب، کراچی میں ماری پور روڈ پر ٹرکوں کا اڈا ہے، وہاں ہم بھی رہیں گے اور آپ کے لیے بھی اپنے ساتھ انتظام کردیں گے۔ فکر کی کوئی گل بات نہیں ہے۔“

گیارہ بجے وہ لوگ ایک اور اڈے پر رکے تھے۔ یہاں انہوں نے دو گھنٹے سونے کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ میں نے جانوروں کو پانی پلانے اور چارہ دینے میں گلو کی مدد کی تھی۔ ٹرک باہر ہی کھڑا تھا اور وہ دونوں اڈے کے پیچھے ایک بڑے سے کمرے میں جا کر سو گئے تھے، جہاں پہلے سے کچھ اور ڈرائیور بھی سو رہے تھے۔ نیند مجھے بھی آ رہی تھی، میں ان سے پوچھ کر ڈرائیور کی سیٹ پر سو گیا تھا۔ تین گھنٹے تک میں گہری نیند سویا تھا۔ مجھے گلو نے جگایا تھا۔

ہاتھ منہ دھو کر ہم تینوں نے ساتھ ہی کھانا کھایا تھا اور پھر سفر دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔

ہم لوگ دوبارہ حیدرآباد سے نکل کر کر رکے تھے۔ رات کا کھانا کھایا تھا۔ میں نے بہت ضد کر کے اس دفعہ کھانے کے پیسے دیے تھے۔ ان دونوں نے برا مانا مگر میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب اگر ان پر بوجھ بنوں گا تو پھر آئندہ کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ میرا تو کراچی میں یہی لوگ سہارا تھے۔

وہ لوگ سہارا ہی ثابت ہوئے۔ رات گیارہ بجے کراچی سے پہلے ایک جگہ پر انہوں نے سارے جانور اتارے پھر ماری پور کے ٹرک اڈوں کی طرف نکل گئے تھے۔ رات کے وقت کراچی میں جب ٹرک داخل ہوا تھا تو مجھے ایسا لگا تھا کہ اب میں مکمل آزاد ہو گیا ہوں۔ اتنی روشنی میں نے زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھی تھی۔ گلو مجھے بتاتا جا رہا تھا یہ سہراب گوٹھ ہے، یہ عائشہ منزل ہے، یہ لیاقت آباد ہے، تین ہٹی کا پل ہے، یہ گرو مندر ہے، یہ قائداعظم کی قبر بندر روڈ پر۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے میں سڑکوں پر پھر رہا ہوں، رات کا وقت تھا اور سڑکیں خالی پڑی ہوئی تھیں۔ ہم لوگ تیرتے ہوئے ماری پور کے ٹرک اڈے پر پہنچ گئے تھے۔ رات گئے پھر کھانا کھایا تھا اور وہاں ایک ہی اڈے پر ہمیں چارپائیاں مل گئیں جہاں ہم سو گئے تھے۔

سلامت اور گلو سے میری دوستی ہو گئی۔ انہوں نے مجھے کراچی میں جینے کے طریقے بتائے۔ وہیں ٹرکوں کے ایک اڈے پر میں ہوٹل میں کام کرنے لگا تھا، صبح سے شام تک۔ اب تو مجھے سال بھر ہونے کو آ رہا ہے۔ یہاں بہت سے بچے میری طرح سے ہی کام کرتے ہیں اور روشنیوں کے اس شہر میں، گلو اور سلامت جب بھی کراچی آتے ہیں مجھ سے ضرور ملتے ہیں۔ انہیں میں نے بتا دیا ہے کہ میرا ماموں مجھے نہیں ملا ہے۔

مجھے مدرسے کی کوئی بات یاد نہیں رہی ہے سوائے مولوی صاحب کی اس بات کے کہ باہر کی دنیا بہت خراب ہے۔ باہر کی دنیا بہت خراب ہے۔ ماری پور روڈ کا یہ ٹرکوں کا اڈا بھی۔ اگر میری چھوٹی سی داڑھی نہیں ہوتی، اگر مجھے سلامت اور گلو نہیں ملے ہوتے تو میرے ساتھ بھی وہی کچھ ہوتا جو یہاں پر کام کرنے والے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ٹرکوں کے اس جنگل میں ڈرائیور ان لاوارث بچوں کے ساتھ ”بہت کچھ“ کر گزرتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

میں نے کتنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو، کام کرنے والے معصوموں کو، وقت سے پہلے بچپن سے روٹھ جانے والے ماؤں اور باپوں کی آنکھ کے تاروں کو وحشیوں کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھا ہے۔ میں ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو جیسے میرے گلے میں کوئی پھندا سا پڑ جاتا ہے، میرے سر سے لے کر نیچے بہت نیچے ریڑھ کی ہڈی تک ایک کسک سی اٹھتی ہے اور میں خوف سے کانپ کانپ جاتا ہوں۔ مجھے مولوی صاحب یاد آتے ہیں، ان کا مدرسہ یاد آتا ہے اور ان کی باتیں یاد آجاتی ہیں۔

مولوی صاحب کے اس مدرسے میں میرے ساتھ سب کچھ ہوا تھا لیکن ”بہت کچھ“ نہیں ہوا تھا۔ وہ صحیح کہتے تھے، باہر کی دنیا بہت خراب ہے۔ باہر کی دنیا بہت خراب ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3