باہر کی دنیا بہت خراب ہے


”کتے کے بچے، خنزیر کی اولاد“ یہ کہہ کر انہوں نے میرے منہ پر مکا مارا۔ میں زمین پر گر گیا۔ گرتے گرتے میرا سر دیوار سے ٹکرایا۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے میرا سر دو پہاڑوں کے درمیان کچلا جا رہا ہے۔ مولوی صاحب کا چہرہ کہیں کھو گیا تھا اور مجھے میرے باپ کا چہرہ نظر آیا۔ میرے دل نے جیسے زور زور سے چیخ چیخ کر کہا ایسے باپ سے تو میں بن باپ ہی اچھا رہتا۔ مجھے پیچھے بہت پیچھے مولوی صاحب کے خوف ناک چہرے اور باپ کی کرخت شکل کے بھی پیچھے، چادر میں لپٹی ہوئی ماں کی مہربان صورت نظر آئی جس کا چہرہ میرے خون سے تر تھا۔ سرخ سرخ آنسو آنکھوں سے نکل کر چہرے پر پھیلتے جا رہے تھے۔

سر کے شدید درد کے احساس کے ساتھ مجھے ہوش آیا تھا۔ میرے پاؤں میں زنجیر پڑی ہوئی تھی اور یہ زنجیر چارپائی کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔ درد اتنا شدید تھا کہ میں حرکت بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے سختی سے اپنے ہونٹ بھنچ کر آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تھی کہ میرے کانوں میں مولوی صاحب کی آواز آئی۔ ”دیکھو حرام زادے کو ہوش آیا ہے کہ نہیں۔ اگر ہوش آ جائے تو بھی کھانے پینے کو کچھ مت دینا۔“ میں درد کو بھول کر دوبارہ بے ہوش ہو گیا تھا۔ وہی مولوی صاحب کی صورت، وہی باپ کی شکل، وہی خون کے آنسو والا میری ماں کا چہرہ، سائیں سائیں دھم دھم سائیں سائیں دھم دھم دھم دھم۔

میرا دل اسکول میں نہیں لگتا تھا۔ اردو اور عربی تو میں پڑھ ہی نہیں سکتا تھا۔ ہر روز اسکول جانا میرے لیے دنیا کا سب سے مشکل کام تھا۔ میرے دونوں بھائی، میری چھوٹی بہن، سب ٹھیک تھے، سب کو پڑھنے کا شوق تھا، سب اسکول سے گھر آ کر پڑھائی کرتے تھے اور میں کھیلتا رہتا تھا۔ کبھی گھر میں، کبھی گھر کے باہر محلے کے بچوں کے ساتھ۔

آٹھ نو سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے۔ میں ایک ہی کلاس میں کئی دفعہ فیل ہوا۔ ٹیچر کی مار، باپ کی ڈانٹ اور ماں کا پیار، ان سب کے باوجود پڑھائی میں میرا دل نہیں لگتا تھا۔ میرا دل کرتا تھا کہ اپنے ماموں کے ساتھ بڑھئی کا کام کروں اور خوبصورت خوبصورت چیزیں بناؤں، کرسیاں، الماریاں، ٹیبل، پھر گاڑیاں بنانے کا کام سیکھ لوں۔ ہوائی جہاز کو اوپر سے گزرتے دیکھ کر لگتا تھا کہ میں ہی انہیں چلا رہا ہوں۔ مگر یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ نہ میرے گھر والوں کونہ اسکول کے ٹیچروں کو، نہ ہی ہمارے سارے رشتہ داروں کو۔

ایک دن میرے باپ نے مجھے بلا کر بہت ڈانٹا اور مارا بھی تھا اور یہ فیصلہ سنا دیا تھا کہ مجھے ملتان سے باہر جو دینی مدرسہ ہے وہاں داخل کیا جائے گا۔ سب کا فیصلہ تھا کہ مجھے حافظ قرآن بننا چاہیے۔ ایک میرے حافظ قرآن بننے سے ہمارے ساتھ آگے پیچھے کی سات نسلیں جنت میں چلی جائیں گی۔ اور ویسے بھی میں اسکول کے کام کا تو تھا نہیں، میرے ساتھ کے بچے مجھ سے بہت آگے جا چکے تھے۔

مجھے نہ جنت میں جانے کا شوق تھا، نہ اسکول جانے کا شوق تھا، اور نہ ہی مدرسے میں جانے کا شوق تھا۔ میں بہت رویا تھا، اپنی ماں کے گلے لگ کر کہ مجھے مدرسہ نہ بھیجیں۔ میں نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ اب میں پڑھوں گا، اسکول میں ہی پڑھوں گا، مگر کسی نے میری بات نہیں سنی۔ مجھے مدرسے میں مولوی صاحب کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

پہلے دن وہ مجھ سے بہت اچھے طریقے سے پیش آئے تھے۔ اپنے پاس پیار سے بٹھایا تھا اور مدرسے کے اصول سمجھائے تھے۔ صبح سے لے کر اگلی صبح تک کا ایک دستور تھا۔ نماز کا وقت، کھانے کا ٹائم، کھیلنے کا وقت، درس اور عبادت کا وقت وغیرہ وغیرہ۔

مگر مجھے وہاں نہیں رہنا تھا۔ میری حالت ایک ایسی چڑیا کی تھی جسے باندھ دیا گیا ہو یا پر کتر کر پنجرے میں بند کر دیا گیا ہو، دوسرے دن ہی صبح کو میں کسی کو بتائے بغیر وہاں سے نکل گیا تھا۔ مدرسے سے نکل کر بڑی سڑک پر آیا تھا اور ایک بس کو رکوا کر اس پر بیٹھ گیا۔ میرے پاس کرائے کے بھی پیسے تھے۔ ملتان میں بس کے اڈے سے گھر آنا اتنا مشکل نہیں تھا۔

گھر میں اس وقت کوئی نہیں تھا۔ میری ماں مجھے دیکھ کر بے انتہا خوش ہوئی تھی مگر اس نے کہا تمہارا باپ آئے گا تو تمہیں واپس جانا ہوگا۔ دوپہر کو میرا باپ اور میرا چچا مجھے دوبارہ مدرسے لے آئے تھے۔ مجھے ڈانٹا تھا، دھمکیاں دی تھیں، سمجھایا تھا پیار سے بھی، غصے سے بھی۔

مولوی صاحب نے بھی مجھے سمجھایا تھا، بہت دیر تک بتاتے رہے تھے کہ دینی تعلیم سے کتنا فائدہ پہنچتا ہے۔ دین دنیا میں ترقی ہوتی ہے اور آخرت میں جب باقی سب کا منہ کالا ہوگا اس وقت ہم لوگ مومنوں کی قطار میں سب سے آگے ہوں گے۔

مجھے مومنوں اور ان کی قطار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی مجھے ان کی اگلی قطار میں رہنے کا شوق تھا۔ مجھے تو مدرسے میں بھی نہیں رہنا تھا، مگر مجھے مدرسے میں رہنا پڑ گیا تھا۔

مولوی صاحب نے میرے پیچھے ایک اور شاگرد کو لگادیا تھا۔ وہ مجھ سے بڑا تھا اور بہاولپور سے آیا تھا۔ اس کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی داڑھی ابھی نئی نئی اگی تھی اور مدرسے کے ان بہتر شاگردوں میں تھا جن کا چناؤ افغانستان کے لیے کر لیا گیا تھا۔ افغانستان سے مجاہدوں کا ایک گروپ آنے والا تھا جن کے ساتھ وہ جہاد کے لیے جانے والا تھا۔ اس کا نام عمر تھا۔ اس مدرسے میں عمر ہی واحد آدمی تھا جو مجھے اچھا لگا تھا۔ مجھے یاد ہے اس کی عمر پندرہ سولہ سال سے زیادہ نہیں تھی مگر داڑھی اور اس کے ساتھ پگڑی باندھ کر وہ بڑا لگتا تھا۔

مجھے اس نے بڑے پیار سے سمجھایا تھا کہ اس مدرسے میں کیا نہیں ہے، قرآنی تعلیم کا انتظام ہے، رہنے کی جگہ ہے، اچھا کھانے پینے کو ملتا ہے اور پیار کرنے والے، درس دینے والے استاد ہیں، یہاں سے کیوں جانا چاہتے ہو؟

عمر کے والدین کسان تھے۔ وہ گھر کا سب سے بڑا بچہ تھا اور اسے بچپن ہی سے دینی تعلیم کا شوق تھا۔ اس کے چھوٹے بھائی اس کے باپ کے ساتھ کھیتوں پر کام کر رہے تھے۔ ابھی اس کی دینی تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی مگراس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ افغانستان کی جنگ میں مجاہدوں کی طرف سے لڑے گا۔ اس نے شہیدوں کے بارے میں ایسی اچھی اچھی باتیں بتائیں تھیں کہ مجھے بھی شہید ہونے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ ایک دن میں نے اس سے کہا تھا کہ عمر بھائی میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا، مجھے بھی لے چلو، یہاں تو مجھ سے نہیں رہا جاتا ہے۔ میں یہاں نہیں رہوں گا۔

اس نے بتایا تھا کہ ابھی میں نہیں جا سکوں گا کیوں کہ مدرسوں میں بہتر بہتر کی تعداد میں مجاہدوں کی بھرتی ہوئی ہے۔ مجاہد یہاں سے پشاور یا کوئٹہ جاتے ہیں، وہاں ان کی ٹریننگ ہوتی ہے اس کے بعد وہ قندھار، جلال آباد، کابل یا جہاں جہاں مجاہدوں کے ساتھ لڑنے کی ضرورت ہوتی ہے، پہنچ جاتے ہیں۔ عمر کو مولوی صاحب کی طرح سے پورا یقین تھا کہ روس کی دہریہ طاقت کو جو شکست ہوئی ہے اس کے بعد اسلام کا سورج افغانستان سے طلوع ہوگا اور ساری دنیا پر چھا جائے گا۔ امریکا، یہودی، ہندو، انگریز سب کے سب فنا ہوجائیں گے۔ اس وقت ساری دنیا مسلمانوں کے خلاف سازش کر رہی ہے، نہ صرف یہ کہ غیر مسلم بلکہ نام نہاد مسلمان سلمان رشدی کی صورت میں امت کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ افغانستان کی کامیابی اور خاص طور پر روس کے لامذہب بن مانسوں کی شکست کے بعد اب ہمارا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ عمر کے یقین میں میرا یقین بھی شامل تھا۔ لیکن پھر بھی میں مدرسے میں تو نہیں رہنا چاہتا تھا۔

اس دن عمر بھائی اپنے گاؤں گئے تھے اپنے والدین سے ملنے اور ان کے جانے کے فوراً بعد میں بھی مدرسے سے بھاگ نکلا تھا۔ میں تیز تیز روڈ کی طرف دوڑتا ہوا جا رہا تھا کہ یکایک مجھے آواز آئی تھی ”یاسین بھاگو مت ہم نے دیکھ لیا ہے۔“ عمر بھائی میرا چارج ناظم کو دے کر آئے تھے اور وہ مدرسے کے کچھ اور لوگوں کے ساتھ میری تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تھے۔ بڑی سڑک کے آنے سے پہلے میں پھر پکڑا گیا تھا۔ وہ لوگ مجھے پکڑ کر مولوی صاحب کے پاس لے آئے تھے۔

اس وقت مولوی صاحب کے پاس دو گورے آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے بعد میں پتا لگا تھا کہ یہ انگریز تھے اور بی بی سی کے کسی پروگرام کے لیے مولوی صاحب کا انٹرویو لے رہے تھے۔ مولوی صاحب نے مجھے دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا تھا۔ مجھے اپنے پاس پیار سے بٹھا لیا تھا اور پھر بولے تھے ”بیٹے مت بھاگو باہر کی دنیا خراب ہے۔ کہاں جاؤ گے۔ تمہارے باپ نے مجھے تمہارا باپ بنا دیا ہے، اب جو بھی ہوگا میری مرضی سے ہوگا۔ تم میری ذمہ داری ہو، اب اگر تم بھاگے تو بہت برا ہوگا۔“ یہ دھمکی بھی انہوں نے بہت پیار سے ہی دی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3