وہ پہلا خط


خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں (گلزار)

کہتے ہیں پرانے زمانے میں بیٹیوں کو تعلیم نا دلوانے جو عوامل کار فرما تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ پڑھ لکھ کر وہ خط و کتابت کے قابل ہو جائیں گی اور پھر خطرہ تھا کہ ”ادھر ادھر“ ڈاک ہی نا چلانے لگیں مگر جو بیٹیاں دور دیس بیاہی جاتی تھیں اور کبھی ماں باپ سے حال دل کہنے کو تڑپتی ہوں گی تو انھیں کون خط لکھ کر دیتا ہو گا، اور پی جب سونا لاون دور دیس جاتے تھے اور واپسی بھول جاتے تھے تو چاندی ہوتے کیس لے کر برہا کی ماری نو جوان سہاگنیں اپنی بے تابی کو کس سے قلم بند کراتی ہوں گی؟ پتہ نہیں!

ھم جب نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں ایک نیا گھر بنانے کے لئے امریکہ منتقل ہوئے تو ای میل، سکائپ اور فیس ٹائم وغیرہ دور دور تک نا تھے (ای میل رواج پکڑ رہی تھی) فری یا اکنامیکل فون کا کوئی ذریعہ نا تھا اور سیل فونز بھی عام نہیں تھے بس لینڈ لائن پر سروس لینی پڑتی تھی جو دو ڈالر پر منٹ پڑتی تھی اور دس منٹ تو حال احوال میں ہی گزر جاتے تھے اور سٹوڈنٹ ہونے کے ناتے ذرائع آمدن نہایت محدود تھے سو اس لگژری سے ہم بس زیادہ محظوظ نہیں ہو سکتے تھے۔

جب ایک مہینے میں اتنے بڑے انقلاب کے بعد ہم نے ذرا ہوش پکڑی ( بھئی ایک ملک سے دوسرے ملک نقل مکانی انقلاب ہی تو ہے ) تو امی ابو بھائی بھابیاں اور ان کے بچوں کی یاد ٹوٹ کر آئی، دل چاہتا تھا کہ گھنٹوں ان سے ہم کلام رہیں اور نئی زندگی اور نئے ملک کی با تین کریں مگر پھر یاد آتا ”دو ڈالر فی منٹ“ تو اسی دل کو پکڑ کر رہ جاتے،

انھی دنوں میں جب موسم بدل رہا تھا اور ہوا ایک تیز آندھی کی صورت ہر شے کو حتی کے ہمارے احساسات کو بھی اڑائے چلی جاتی تھی کہ ایک خیال بجلی کی طرح دماغ میں آیا کہ ہم امی ابو کو خط کیوں نا لکھیں کیونکہ خط لکھنے اور کہانی کرنے کے ہم بچپن سے شوقین تھے اور بھلا ہم بھول کیسے گئے یہ بات، آپ یقین کریں ہم آج بھی اس ڈیجیٹل دور میں بھی خط لکھنے کے شوقین ہیں مگر اب پڑھنے اور اس کا جواب دینے کا ٹائم کسی کے پاس نہیں ہے۔

بہر حال ہم نے خط لکھنے کی ٹھانی یعنی پہلا خط انکل سام کے دیس سے اپنے ماں باپ کے نام اس کے لئے ہم نے بیٹی کی کاپی کا انتخاب کیا اور حال دل قرطاس ابیض پر اتارنے لگے تو معلوم ہوا کہ وہ تو ایک داستان تھی جو شاید قسطوں پر ڈالنی پڑتی چنانچہ آدھا لکھ کر جب پڑھا تو دل پر پتھر رکھ کر پھاڑ کر پھینک دیا کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ امی ابو سمجھیں کہ ہم بالکل ہی کھسک چکے ہیں اور مبادا ان کے داماد کے لئے کوئی مسئلہ ہی کھڑا نا کردیں۔ ہماری بیٹی مومنہ ہمارے گرد منڈلاتی کہ میری کاپی میں کیا لکھ رہی ہیں

بھئی نانا نانو کو خط لکھ رہے ہیں، ہم جان چھڑواتے
کتنے ہفتے لگیں گے، اس کے سوالات ختم ہونے میں نا آتے

ھم کبھی پیار سے اور کبھی گھرک کر اپنے کام مشغول رہتے، کئی فقرے لکھتے اور کاٹتے خط آدھ کاپی پر پھیل گیا

ھمم۔ اچھا پہلے رف ورک کر رہی ہیں پھر نیٹ بعد میں کریں گی
اور ہمارے پاس دانت پیسنے کا بھی وقت نہیں تھا اور نا ہی کہہ سکتے تھے کی باہر جا کر کھیلو۔

بالآخر ہم نے خط لکھ لیا جو گیارہ صفحات پر مشتمل تھا، ہم نے صفحے کاپی سے نکالے، طے کیے اور ایک فاتح جرنیل کی طرح بک شیلف کے اوپر رکھ دیا کہ کل یونین جاؤں گی تو پوسٹ کر دوں گی۔ اگلے دن بیٹی کو سکول میں ایڈمشن کے لئے لے گئے وہاں پورا دن خرچ ہوا، یہ اسلامک سکول تھا ”النور اکیڈمی“ اگلے دو سال جہاں بیٹی نے پڑھا تو ہم نے دو سال پڑھایا ( مگر وہ ایک الگ داستان ہے ) اس سے اگلے دن ان کے ساتھ ایک کورس پر آؤٹ آف ٹاؤن چلے گئے اور جب ایک ہفتے کے بعد واپس آئے تو خط ہمارے دماغ سے بالکل محو ہو چکا تھا۔

وہ کیا ہی بھلی شام تھی میں اور بیٹی ٹیلی ویژن پر کارٹون دیکھ رہے تھے ”وہ“ یونیورسٹی کی لائیبریری میں تھے اور راوی چین ہی چین لکھتا تھا کہ ایک کارٹون نے اعلان کیا کہ وہ اپنی ٹیچر سے اپنے گرتے ہوئے گریڈز کے بارے میں بات کرے گا وہ ایک بہت سخت خط لکھے گا، یہ سننا تھا کہ ہمارے تمام حواس یک دم کام کرنے لگے اور خط یاد آ گیا، ہم نے بھاگ کر بک شیلف کے اوپر ہاتھ مارا جہاں رکھا تھا مگر خط وہاں نہیں تھا۔ ہم نے کرسی پر کھڑے ہو کر اوپر والی ساری شیلف کو چھان مارا پھر درمیان والی اور نیچے والی مگر خط ندارد تھا بس پھر کیا تھا ہم نے ڈھنڈیا مچا دی سمجھ نہیں آ رہا تھا زمین کھا گئی کہ آسمان نگل گیا؟ ہائے ہم نے اپنی تمام تر دل کی کیفیت اور محبت کو اس میں سمو دیا تھا اور ہم مر کر بھی ایسا خط دوبارہ نہیں لکھ سکتے یہ ہمیں یقین تھا۔

یا اللہ تو ہی مدد کر اور پردہ غیب سے خط نمودار ہو جائے، پھوٹ پھوٹ کر روئے بھی مگر کچھ نا ہوا بلکہ ”انھوں“ نے کہا کہ وقت پر پوسٹ کیوں نا کیا اور انداز کچھ ملامتی سا تھا

یہ سب آپ دونوں کی وجہ سے ہوا ہے، آپ لوگوں کے کاموں میں اتنے مگن ہوئے کہ خط بھول ہی گئے بہر حال پھر اگلے ایک دو سال ہم نے جو خط امی ابو کو لکھے ان میں وہ بات نا تھی یوں بھی وقت گزر جا تا ہے اور شاید اس کے ساتھ ہم بدل جاتے ہیں۔

پچھلے ہفتے سے گھر میں کچھ کام ہو رہا تھا اور ہم بھی سٹور سے فالتو چیزوں سے نجات حاصل کی فکر میں تھے ڈبے اور باسکٹس نکال کر صفائی کر رہے تھے تو ایک ڈبہ کھولا تو بیٹی اور بیٹے کے بچپن کی کچھ کتابیں، کھلونے اور مارکرز، پیپرز نکلے اور ہمیں ان چیزوں پر بھی پیار آ رہا تھا اور بے حد احتیاط سے ہم ایک ایک چیز دیکھ رہے تھے تو کاغذوں کا ایک پلندا ہاتھ میں آ گیا مڑا تڑا سا اسے سیدھا کیا اور ہم سکتے میں آ گئے یہ وہ گمشدہ خط تھا اتنے سالوں کے بعد اس ڈبے میں کیسے؟ ہم نے ایک سٹیٹ اور چار گھر بدلے مگر کبھی اس پر نظر نا پڑی، اس باسکٹ میں کیسے پہنچا اور آج اتنے سالوں کے بعد ہمارے ہاتھ میں

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

ھم نے صفحوں کو سیدھا کیا ان پر نمبر لگایا اور سٹیپل کر دیا، سب کچھ وہیں چھوڑا کیونکہ ہمیں اس کو دوبارہ پڑھنا تھا حالانکہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا تھا، ابو ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جا چکے ہیں، امی کو اللہ صحت زندگی دے مگر وہ بھی زیادہ کمرے تک ہی محدود رہتی ہیں۔ کمرے میں آ کر ہم نے بستر سنبھالا اور بے تابی سے پہلے صفحے کو پڑھنا شروع کیا

8-3-1997
پیاری امی اور ابو جان
اسلام علیکم

کیا حال ہے میرے امی ابو کا، بہت دن ہوئے فون پر بھی بات نہیں ہوئی لگتا ہے آپ لوگوں کو بھی یاد نہیں آتی میری ویسے ابو یہ پہلا خط ہے میرا آپ لوگوں کے لئے اور مجھے پتہ آپ اس کو اتنی ہی توجہ اور شوق سے پڑھیں گے جیسے آپ اخبار پڑھتے ہیں، ہم لوگوں کو آئے ایک مہینہ ہی ہوا ہے امی مگر لگتا ہے نجانے کب سے بس یہیں رہتے ہیں۔

اچھا ابو سنیں نا میں کیا کہہ رہی ہوں تو جب لاہور میں ہم لوگ جہاز میں بیٹھے تو پتہ نہیں کیوں آنسو ہی ضبط نا ہو رہے تھے پچھلی ساری زندگی آنکھوں میں گھوم رہی تھی، دل چاہ رہا تھا کہ۔ پتہ نہیں کیا دل چاہ رہا تھا۔ ہم لوگ تین سیٹ والی رو میں بیٹھے تھے، کھڑکی کی طرف مومنہ، درمیان میں ہم اور راہداری والی سائیڈ ایک بزرگ مگر نہایت کرخت خاتون تھیں اور میرے مسلسل آنسو دیکھ کر بولیں

کیوں سوں سوں کر رہی ہو؟ بیمار ہو؟
نن۔ نہیں تو، میں نے گڑبڑا کر کہا
کس کے پاس جا رہی ہو؟
جی اپنے ہسبینڈ کے پاس
تو کیا مگر مچھ کے آنسو بہا کر نحوست پھیلا رہی ہو
یہ کہہ کر انھوں نے عینک لگا لی اور تسبیح نکال کر استغفراللہ استغفراللہ پڑھنے لگیں
امی آپ کو تو کرخت بزرگوں کے بارے میں میری رائے کا پتہ ہی ہے نا
کیا میں اپنی فیملی کے لئے اداس بھی نہیں ہو سکتی؟ میں نے رندھی آواز میں کہا

ارے کون سی فیملی؟ ویسے ائرپورٹ پر ہی ہوگی ابھی جاؤ اتر جاؤ اور جا کر گود میں بیٹھ جاؤ، اونہہ ڈرامے بازیاں

انھوں نے سر جھٹکا اور دوبارہ تسبیح رولنے لگیں
ابو امی آپ یقین کریں اگر آپ وہاں ہوتے نا تو۔ تو یہی سب کہتے۔

ہمارا پہلا سٹاپ ایمسٹرڈیم تھا اور جہاز صبح پانچ بجے پہنچا، مومنہ تو لاہور سے نکلتے ہی ہماری گود میں سر رکھ کر سو گئی اور امی جو بزرگ خاتون تھیں نا جو کرخت بھی تھیں سارے راستے ہمارے کندھے پر سر رکھ کر خراٹے لیتی رہیں اور ہم پلک بھی نا جھپکا سکے، ذرا سا بھی ہلتے تو آنٹی ایک آنکھ کھول کر ہمیں اونہہ کہہ کر گھرکتیں اور دوبارہ خراٹے لینے لگتیں، ابو اور امی ایک بات بتائیں پلیز کہ زندگی کا یہ کیسا سفر ہے وہ بیٹیاں جن کو ماں باپ گھر کے گیٹ تک بھی جانے کو محفوظ نہیں سمجھتے ایک دن اپنے ہاتھوں سے بالکل اجنبی لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دیتے ہیں اور پھر وہ اجنبی ایسا محرم اور دمساز بن جا تا ہے کہ اس کے پیچھے پیچھے سات سمندر پار کشاں کشاں چلی آتی ہیں لیکن امی ہم میکے کی جنت سے نکل تو آتی ہیں اور اپنے گھر بھی خوشی خوشی بساتی ہیں مگر میکے کی یادوں کی سنہری دھوپ دم بھر کو بھی شام میں نہیں بدلتی بہر حال یادوں کی گنگا جمنی رم جھم میں شکر کیا کہ ایمسٹرڈیم آیا اور امی آپ یقین کریں کہ آپ کی بیٹی کا پورا جسم پکے پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا شکر ہے آنٹی کی آنکھ بھی کھلی مگر حال میں آتے ہوئے ان کو چند سیکنڈ لگے اور استغفار پتہ ہے ابو مجھے کیا کہنے لگیں کہ تم ماں بیٹی تو خوب سوئیں مجھے تو سفر میں نیند ہی نہی آتی۔

جی پلیز اگر آپ ایک سیکنڈ کو اٹھیں تو ہم بیٹی کو ناتھ روم لے جائیں
ھم نے با ادب درخواست کی
نہیں بھئی اب تو ائرپورٹ پر ہی لے جانا، میں بوڑھی عورت کیا اٹھک بیٹھک کروں

انھوں نے صاف انکار کر دیا اور استغفار کی تسبیح کرنے لگیں سو ہمارے پاس خون کے گھونٹ پینے سوا بھلا کیا آپشن تھی۔

جہاز سے اتر کر ہمیں بھی چند منٹ اپنے آپ کو سنبھالنے میں لگے لیکن پھر ہم لوگ بھی ائرپورٹ کی گہما گہمی میں کھو گئے، امی ابو ائر پورٹ کی دنیا بہت عجیب اور اداس کرنے والی ہوتی ہے، عجیب نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے (کم از کم ہمیں یہ ہی لگتا ہے ) اپنے بیگز کو گھسیٹتے بوڑھے اور جوان، مرد عورتیں اور بچے، کافی کے گلاس تھامے تیز تیز چلتے اپنے اپنے گیٹ کی طرف جاتے ہوئے کون لوگ ہیں یہ؟ کہاں سے آ رہے ہیں کہاں جا رہے ہیں، دل تو چاہ رہا تھا کہ پوچھیں کی کیا تم بھی ہماری طرح ہزاروں میل دور جا رہے ہو؟ لیکن ابو آپ کو اپنی بیٹی پر فخر ہو گا کہ ہم نے ایسا کوئی سوال کسی اجنبی سے نہیں کیا حتی کہ ہم سفر آنٹی سے بھی نہیں حالانکہ انھوں نے سب اگلوا لیا تھا۔

ہم لوگ بھی ائر پورٹ میں گھومتے رہے، کافی اور جوس پیا کچھ ونڈو شاپنگ کی اور فلائیٹ کا ٹائم ہو گیا اب ہماری منزل نیویارک تھی اور ابو ویسے جب ہم وہاں اترے تو مکمل طور پہ ”بوندل“ چکے تھے قدم رکھیں کہیں اور پڑیں کہیں

بس مومنہ اور ہینڈ کیری کو گھسیٹتے چلے جا رہے تھے، اف اللہ ابو امی کیا بتائیں کہ جے ایف کے ائرپورٹ کتنا بڑا ہے بس ایک مکمل شہر ہی سمجھیں تو بالکل سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ اب جو اگلی فلائٹ ہے شکاگو کی کہاں سے پکڑیں

ھم سفر آنٹی بھی نظر نہیں آ رہیں تھیں ورنہ تو کوئی مشکل نا ہوتی ان کے پیچھے پیچھے ہم بھی اپنے گیٹ پر پہنچ جاتے

ہماری نظریں مسلسل انھیں ڈھونڈ رہی تھیں، ہمارا خیال تھا کہ نیو یارک تک ساتھ آ گئیں تو آگے بھی ساتھ ساتھ ہی ہیں لیکن امی کیا بتاؤں وہ تو کہیں کھو گئیں۔ فلائیٹ سے پہلے ہم نے سوچا کہ ذرا باتھ روم کا بھی چکر لگا لیں، اندر گئے تو ابو یقین کریں کہ ہماری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی جی ہاں آنٹی وہاں تیار ہو رہی تھیں میک اپ شیک اپ کر رہی تھیں اور استغفار جونہی ہم پر نظر پڑی تو پتہ ہے کیا کہا

سنو اس طرح سر جھاڑ منہ پھاڑ جہاز سے نا اترنا ورنہ شوہر کہے گا کہ ”اینوں میں اڈیکدا ساں پیا“ (میں اس عورت کا انتظار کر رہا تھا) ہم پر تو گھڑوں پانی پڑ گیا مگر ہم نے اس بار بھی اس کو پی لیا، امی سمجھا کریں نا ہمیں اگلی منزل تک ان کی رہنمائی کی ضرورت جو تھی، اب ان ہی کو فالو کرتے ہم گیٹ تک پہنچ جائیں گے انشا للہ، سو وہ نکلیں اور ایک مناسب فاصلے سے ہم بھی، ویسے ابو اس وقت ہمیں اپنے عقلمند ہونے میں کوئی شبہ ہی نا رہا کیونکہ انٹر نیشنل ٹرمینل سے انھوں نے دوسرے ٹرمینل پر جانے کے لئے ائر پورٹ ٹرین پکڑی تو ہم نے بھی ورنہ خود سے ہمیں کوئی پتہ نا چلتا۔ چلو جناب گیٹ پر پہنچ کر کرسی پر بیٹھی وہ اپنی عینک صاف کر رہی تھیں تو دھم سے ہم بھی ساتھ والی کرسی پر گرے اور گود میں مومنہ کو لیا امی وہ اتنی تھک گئی تھی بیچاری

اوھو!
وہ شاید دہل گئیں تھیں
اور تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ تم نے تو شکاگو جانا تھا
وہ عینک لگا چکی تھیں اور ناگوار نظریں ہم پر تھیں،
جی بالکل اسی لئے تو آپ کے ساتھ بیٹھی ہوں،

اوہ میرے خدا میں تو یہاں سے ڈیلاس جا رہی ہوں، تمھارا گیٹ کوئی اور ہو گا! اف ابو بتا نہیں سکتی کتنی پریشانی ہوئی اور ایک دفعہ پھر مومنہ اور ہینڈ کیری گھسیٹنا شروع کیے بھوک اور تھکاوٹ نے میری بیٹی کو نیم جان کر دیا تھا لیکن ہم کو اپنے گیٹ پر ہر حال پہنچنا تھا لیکن کہاں ہے وہ گیٹ؟ یقین کریں ابو مجھ خود رونا آ رہا تھا کہ یکا یک ایک جناتی آواز میں ہمیں اپنا اور مومنہ کا نام سنائی دیا اور جب کان لگا کر سنا تو ائر لائن کا اعلان تھا کہ اگلے دس منٹ تک اے فائیو گیٹ پربیبیو نا پہنچیں تو جہاز اڑن چھو ہو جائے گا وہ بھی ہمارے بغیر، مگر ابو امی سوکھے دھانوں پر پانی پڑنے کا مطلب کیا ہے ہمیں ذہن نشین ہو گیا اور اللہ تعالی نے ہمیں آپ سب کے ہاتھوں ایک متوقع شرمندگی سے ”بچا لیا الحمدللٰہ۔

آپ نے تو یہی کہنا تھا کہ ہمیں پتہ تھا یہ اور کوئی گل نا کھلائے، مذاق کر رہی ہوں میری جان میرے دل کے ٹکڑے میرے ماں باپ آپ کے بے پایاں احسانات مہر بانیوں کا میں کوئی مول کیسے چکا پاؤں گی، ابو امی آپ کی بلا شرط محبت کی کوئی قیمت نہیں ہے، آپ سے میں نے ہمیشہ خدمت لی جواب میں آپ کے لئے کبھی کچھ نا کیا اور اب میں آپ کو چھوڑ کر ہزاروں میل دور آ گئی ہوں تو کہنا چاہتی ہوں کہ میری کوتاہیوں کو معاف کر دیں اور دعا کیں کہ میں بھی اپنی بیٹی کو ویسی ہی بے لوث محبت اور اچھی تربیت کر سکوں

شکاگو پہنچ کر تھکاوٹ سے کتنا برا حال تھا ابو بتا بھی نہیں سکتی بننے سنورنے کی تمام ہدایات دماغ سے نکل چکی تھیں

اور امیگریشن کا مرحلہ بھی سامنے تھا تو لائن میں ہم بھی لگ گئے اور ابو آپ کی ہدایت بھی یاد تھی کہ ٹو دا پوائنٹ بات کرنا زیادہ بہناپا نا گا نٹھنے لگنا سو جب ایک شفاف نیلی آنکھوں والے صاحب نے انٹرویو شروع کیا تو ہدایات کے مطابق ہم نے اپنا منہ بالکل پکا رکھا۔

ہا امی ایک بات بتانا بھول گئی کہ مومنہ کو ایک سائڈ پر لائن سے نکال کر میں نے بیگ اس کی نگرانی میں چھوڑ دیا تھا اور کہا تھا کہ یہاں سے ہلنا نہیں اور میں خود امیگریشن افسر سے بات کرنے لگی تھی

سامان کہاں ہے؟
امم کچھ تو چیک ان کر دیا تھا ایک بیگ ساتھ ہے
کہاں ہے بیگ؟
وہ وہاں پیچھے ہے
استغفار! ابو جب پیچھے دیکھا تو بیگ تو تھا مگر مومنہ نہیں تھی ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا
اپنا بیگ لاؤ اور یاد رکھو کبھی اپنا لگیج ان اٹینڈڈ نہیں چھوڑتے
افسر نے نرمی سے کہا، اف ابو جو میری حالت تھی یا اللہ میری بیٹی کہاں گئی کہاں ڈھونڈوں

ہاں اماں جلدی سے لے آئیں، مومنہ کی آواز تھی یا زندگی کی نوید اور میں نے دیکھا کہ وہ ایک اور افسر کے ساتھ کھڑی گٹ پٹ کر رہی تھی اور اسی نے ہمارا بیگ چیک کر کے ہمیں کلیئرنس دے دی۔ الحمدللٰہ

وہ ہمیں لینے کے لئے موجود تھے اور ہم سفر آنٹی کی ہدایت کے باوجود ہم سر جھاڑ منہ پھاڑ حالت میں تھے، امی پلیز ناراض نا ہوں چھتیس گھنٹے کے سفر کے بعد اگر ہم بننے سنورنے پر توجہ دیتے تو مزید خوفناک ہو جاتے یقین کریں۔

اس وقت ہم نے۔ شکاگو کا کوئیک ٹرپ لیا، اچھا ابو آپ کو پتہ ہے کہ شکاگو میں بہت بڑی پاکستانی کمیونٹی ہے انڈین بھی اور بنگلادیشی بھی اور مزے کی بات بتاؤں یہاں ایک سٹریٹ جس کا امریکن نام تو Devon St ہے مگر ہمارے پیارے لوگ دیوان سٹریٹ کہتے ہیں اور ایک ہی سٹریٹ پر تین تین بورڈ ہیں

جناح سٹریٹ
گاندھی سٹریٹ
مجیب سٹریٹ، حد ہے نا

تھوڑے ریسٹ کے بعد ہم اگلی اور حتمی منزل کی طرف روانہ ہوئے، ابو یہ بھی کافی لمبی ڈرائیو تھی، مومنہ تو فوری طور پر سو گئی مگر ہم لوگ باتیں کرتے رہے اور پھر ”انھوں“ اعلان کیا

گھر آ گیا،

امی میرے دل کی عجیب کیفیت تھی مگر اپنے آپ کو سنبھال کر اترے، انھوں نے سامان نکالا اور ہم نے مومنہ کو اٹھایا ہمارا اپارٹمنٹ فسٹ فلور پر تھا ویسے یہ یونیورسٹی ہاؤسنگ ہے۔ دو بیڈروم ایک باتھ روم، کچن اور لاؤنج ہمارے لئے بہت کافی ہے، ابو کچھ دن تو سیٹل ہونے میں لگ گئے پھر ہم تینوں آرام سے ایک روٹین میں ڈھل گئے۔

امی ابو میری جان امی ابو! زندگی کسی پہیلی سے کم نہیں ہے یہ میں نے ہزاروں میل دور آ کر جانا ہے، بالکل اجنبی لوگ اور اجنبی ملک ہونے کی وجہ سے کئی قسم کی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں پھر ہم مل جل کر حل کرتے رہتے ہیں ویسے ابو ایک مزے کی بات بتاؤں کہ امریکن انگلش اور برٹش انگلش میں لہجے کے علاوہ بھی فرق ہے۔

امی خط کافی لمبا ہو گیا ہے، انشا اللہ دوبارہ جلدی لکھوں گی مگر ابو آپ نے جواب ضرور دینا ہے۔ میں آپ کو بتاؤں گی کہ یہاں گرہستی چلانا کیسا ہے، آس پاس کون لوگ ہیں، مومنہ کا سکول کیسا ہے۔ آپ لوگوں نے اپنا بہت خیال رکھنا ہے، آپ کے بغیر اداس ہوں مگر جب سوچتی ہوں آپ لوگ جلدی ملنے آئیں گے تو اس اداسی کو پی جاتی ہوں۔

امی بھائیوں، بھابیوں اور بچوں کو بہت پیار، میں ان سب کو علیحدہ خط لکھ رہی ہوں۔
آپ کی بیٹی

آپ یقین کریں کہ یہ خط اس اصلی خط کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں ہے، اس کو پڑھتے ہوئے کئی بار آنسو بہائے اور کئی بار ہنسی چھوٹی مگر ایک عجیب سا ادراک ہوا ایسا ادراک جس سے ہم نظریں چرا رہے تھے مگر ناکام ہو رہے تھے، اب ہمیں اس خط میں کئی سقم نظر آ رہے تھے جن میں سب سے بڑا اس کی غیر ضروری طوالت تھی۔ ہم نے یہ نا سوچا اتنا لمبا پلندا وہ بچارے کیسے پڑھیں گے، ہم نے اتنی ”اچی بچی“ تفصیل کی جو محض وقت کا ضیاع تھی اور ہم اس کو سمجھ ہی نا پائے یا وہ نان سیریس رویہ عمر کا تقاضا تھا اور اس پکی عمر میں جب ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ کے ہر کام کوئی مصلحت ہوتی ہے اور ہما را ایمان اس پر اور بھی پختہ ہو گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خط کا گم ہو جانا اللہ کی بہت بڑی مصلحت تھی ورنہ اس کو پڑھنے کے بعد ہمارے ماں باپ باقی تمام عمر ہماری ذہنی صحت کے بارے میں شبہ میں رہتے۔

بہر حال
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).