صدیوں کی غلامی، نسلوں کا المیہ


ایسا نہیں کہ تاریخ کی کوکھ سے خوشیوں نے کبھی جنم ہی نہیں لیا۔ لیکن مسرتوں کے لمحات اکثر وقت کی ڈیوڑھی پہ اپنا نشان ثبت کیے بغیر سرعت رفتاری سے گزر جاتے ہیں۔ ٹھہرجانے والے تو دکھ اور اذیت کے لمحات ہوتے ہیں جو تاریخ کے سینے پہ زہریلے ناگ کی طرح پھن پھیلائے اس وقت تک لوٹتے رہتے ہیں۔ جب تک انسانیت ان کے زہر کا تریاق نہ تلاش کرلے۔

ریاست ہاے متحدہ امریکہ میں ایفرو امریکنوں کی صدیوں انسانوں مویشیوں کی طرح خرید و فروخت اور غلامی کا المیہ تاریخ کا ایسا ناسور ہے کہ جس کے زخم کئی صدیوں میں بھی نہیں بھرپائے اور اس المیہ کا زہر اگلی نسلوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ آج حال میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ گزرے کل سے مربوط ہے۔ اس کے لیے ماضی میں جانا ضروری ہے۔

چلیے تو آج تاریخ کے کچھ اوراق الٹتے ہیں۔ کہ جب چار سو سال قبل 1691ء میں پہلی بار ایک ڈچ بحری جہاز میں افریقہ سے بیس سیاہ فام کو غلامی کی بیڑیاں ڈال کے ورجینیا لایا گیا۔ جو اس وقت امریکہ میں برطانوی نوزائیدہ کالونی تھی۔ اپنے گھروں سے اٹھا جانے والے ان قیدیوں کے قصور کی بنیاد ان کی نسلی تفریق، گہری رنگت اور بے بسی تھی۔ اس وقت سے انسانوں کی امریکہ درآمد اور خرید و فروخت کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں ان انسانی کارگو میں ان سیاہ فام افراد کو مچھلیوں کی طرح بھر کے لایا جاتا اور امریکی زمین پہ ان کی بولی لگا کے مویشیوں کی طرح بیچا جاتا۔ تاکہ ارزاں داموں میں خریدے سیاہ رنگت غلاموں کی مشقت سے خاص کر جنوبی امریکہ کے کھیتوں اور کھلیانوں کی پیداواری طاقت اور معیشت کو مضبوط بنایا جائے۔

مالکوں نے اپنے مفاد کے حصول کے گھناؤنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے خاندانوں کا شیرازہ تتر بتر کیا گیا۔ بچے اپنی ماؤں کی گودوں سے اور باپ اپنے گھرانوں سے بچھڑ گئے۔ ان سے ان کے نام اور شناخت چھین لی گئی اور اب وہ مالکوں کے نام سے پکارے جاتے۔ باپ نہ ہونے کی صورت میں اکثر بچوں کو صرف ماؤں کا ہی نام مل پایا۔ غلام عورتیں اپنے مالکوں کی داشتائیں بن کر ریپ اور دوسرے ظلم و زیادتیوں کا شکار ہوتیں۔ ظلم سے بغاوت کر کے بھاگنے والوں پہ شکاری کتے چھوڑے جاتے۔

اکثر اپنے مالکوں کے ظلم کا شکار ہونے سے پہلے ان انسانی کارگو میں، خسرہ، فلو، ٹی بی، ملیریا، دست وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوکرمر جاتے تو بہت سے اداسی اور مایوسی کے عالم میں دوران سفرہی خودکشی کر لیتے۔ کئی دنوں کے سفر کے دوران قیدیوں کو چست رکھنے کے لیے ناچ گانے کی آزادی دی جاتی۔ اگر وہ ناقص کھانا کھانے سے انکار کرتے تو ایک خاص قسم کے آلہ سے ان کا منہ کھول کر کھانا کھلایا جاتا۔

ان لوگوں پہ بیتی ظلم کی زبانی داستانیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوئیں۔ جنہوں نے انسانیت کے بطن پہ گھناؤنے اور بدنما داغ چھوڑے ہیں۔ مثلاً البامہ کے بل کولن جو 1846 ؁ ء میں پیدا ہوئے اپنے مالک کے متعلق بتایا کہ وہ اپنے غلاموں کو درخت کے تنے سے باندھ کر اتنا مارتا کہ وہ تین دنوں تک چلنے کے لائق نہ ہوتے۔ تھامس براؤن نے بتایا کہ اس کو سوراخوں والے کٹ بورڈ سے ماراجاتا تاکہ زخم ابھریں پھر چابک سے مارا جاتا تاکہ جسم پہ بنے آ بلے پھوٹیں۔ اور پھر ان رستے آ بلوں پہ نمک اور مرچ چھڑکا جاتا۔ ایسی بے بسی کی زندگی میں صرف دعاؤں پہ ہی اختیار تھا کہ کسی طرح خدا اس ظلم سے نجات دے۔ تاہم جب ایک غلام پیٹر پہ بیتے ظلم کی داستان کی گواہی اس کی داغدار پیٹھ پہ بنے زخموں کے نشانوں نے دی تو گویا پورے عالم میں اس ظلم کے خلاف ایک تہلکہ سا مچ گیا۔

پیٹر کی کہانی: مارچ 1863؁ئمیں لوزیانا سے، آزادی کی خواہش میں جنوب سے شمال کی جانب بھاگنے والے پیٹر اور اسے تین اورساتھی تھے۔ ان غلاموں کے پیچھے مالکوں کے شکاری کتے لگے ہوئے تھے۔ جن سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنے جسموں کو پیازکے رس سے لیپ لیا تاکہ شکاری کتے ان کے جسموں کی بو کو نہ پہچان سکیں۔ وہ ننگے پاؤں، پانی کے جوہڑوں اور میدانوں میں شمال کی جانب بھاگتے رہے۔ جب پیٹر غلامی کے خلاف جنگ لڑنے والے سپاہیوں کے ہاتھ لگا تو اس کے کپڑے چیتھڑے ہو چکے تھے جوکیچڑ اور پسینے سے آلودہ تھے۔

مگر دس دنوں کی یہ صعوبت اس ظالمانہ پٹائی سے بہت بہتر تھی جو وہ کھیتوں میں جھیلتے رہے تھے۔ پھرجب پیٹر نے غلامی کا خاتمہ کے لیے یونین آرمی جوائن کی تو میڈیکل معائنہ میں اس کے کولہوں سے شانوں تک پھیلے زخموں کے نشانوں نے سفید نژاد سپاہیوں کے رونگٹے کھڑے کر دیے۔ اس کی پیٹھ کی لی گئی تصویر نے اس وقت کے میڈیا میں ظلم کے خلاف تہلکہ مچادیا۔ غم، غصے اور خوف کی آگ نے غلامی کے خلاف لڑنے والی آزادی کی جنگ کو مہمیز دی۔

امریکہ میں غلامی کا خاتمہ تیرہویں ترمیم نافذ ہونے کے بعد 1865؁ ء میں ہوا۔ لیکن صدیوں کی نسلی تفریق اور استحصال نے آزادی کے بعد بھی روا استحصالی قوانین اور عمومی رویے نے جو جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی اثرات مرتب کیے اس کو اس موضوع پہ تحقیق کرنے والی ڈاکٹر جوائے ڈیگرے نے پوسٹ ٹرامیٹک سلیوری سنڈروم نام دیا ہے یعنی جب ایک مخصوص آبادی، طبقہ یا گروہ جوایک طویل غلامی سے گزرتا ہے تو اس کے نتیجہ میں مرتب ہونے والا ٹراما۔ جو آج نسبتاً نئی سائنس Epigenetic کے تحت اگلی نسلوں میں منتقل ہوتا ہے۔

گہرے جذباتی زخموں اور ابھی تک نافذ نسلی تفریقی مسموم فضا کا اثر دماغی نشو و نما پہ براہ راست پڑتا ہے۔ اس سائنس ایپیجنیٹکس epigenetics کے مطابق ایفرو امریکن آبادی میں ٹراما اس صدیوں کی غلامی سے گزرنے کا نتیجہ ہے۔ یہ ٹراما موروثی مادہ یا ڈی این اے کی طبعی ساخت میں تبدیلی لا کر ماکرز یا نشان پیدا کرتا ہے اور جینز کے اظہار کو آن یا آف کر سکتا ہے۔ اگر اس موروثیت کے ساتھ طرز زندگی مثلاً غذا، موٹاپا، جسمانی حرکت، سگریٹ نوشی، شراب نوشی، ماحول کی آلودگی اور نفسیاتی عوارض مثلاڈپریشن، انگزایٹی، پی ٹی ایس ڈی وغیرہ بھی شامل ہوں تو اس کا ٹراما ایک مخصوص کلچر مثلاً ایفرو امریکیوں میں پی ٹی ایس ایس کی علامات پیداکرتا ہے۔

چونکہ یہ نسلی تفریق اور منافرت ملکی نظام کی سطح پہ ہے لہٰذا تبدیلی کا عمل بھی نظام کی تبدیلی میں مضمر ہے۔ ضروری ہے کہ ہم سب اپنی سوچ گفتگو اور عمل میں سچے ہوں اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اپنی آرام دہ ذہنی اور جسمانی فضا سے نکل اپنی تحریروں اور عمل سے حق کا ساتھ دیں۔ خواہ یہ استحصال دنیا کے کسی کونے میں کیوں نہ ہو رہا ہو۔ یاد رکھیں اگر آج ظالم کے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے تو کل یہی ظلم آپ کے در پہ پہ بھی دستک دے سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).