صغری اور آرزو کو کس نے ورغلایا۔


صغری ہمارے سلمنگ سینٹر و سیلون کی ورکر ہے۔ وہ صبح سب سے پہلے آتی ہے، پورے سینٹر کی صفائی کرتی ہے۔ سارا دن ہم ورکرز اور کسٹمر خواتین اسے پانی پلانے اور سیلون سے منسلک چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے کہتے رہتے ہیں اور بائیس سالہ سانولی دبلی پتلی صغری بہت ذمہ داری کے ساتھ ہمارے کام کرتی رہتی ہے۔

صغری کا تعلق مشرقی پنجاب کے شہر خان پور سے ہے، اس کی پانچ بہنیں، ایک بڑا بھائی، ایک چھوٹا بھائی اور والدہ ہیں، دس سال پہلے ان کے والد گاؤں میں ہونے والے ایک جھگڑے میں جان گنوا بیٹھے، وہ ایک معمولی راج مزدور تھے۔

بڑا بھائی پورے خاندان کو لے کر اپنے ماموں کے پاس کراچی آ گیا، ماموں خود مفلوک الحال ہیں، چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں، بہن اور بھانجے بھانجیوں کو بھی کام پر لگا دیا، صغری دس سال کی عمر سے ہی گھروں میں کام کرنے جاتی رہی ہے۔ وہ اور اس کے بہن بھائی کبھی اسکول نہیں گئے، لوگوں کے گھروں سے ملنے والا بچا ہوا کھانا کھاتے رہے اور زندگی گزارتے رہے۔

صغری ہمارے سینٹر میں کیسے آئی، وہ الگ کہانی ہے، جو پھر کبھی سہی فی الوقت ذکر ہے صغری کی شادی کا، اس شادی کا جس کو کرنے سے صغری شدت سے انکاری ہے، اور اپنی ماں اور بھائی سے روز مار کھا رہی ہے، اس کے منہ پر تھپڑوں کے نشان دیکھ کر ہم لوگوں نے ہر طریقے سے پوچھا کہ آخر وہ شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی، کیا وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے یا پھر اسے کوئی خوف ہے۔

ایک ایسی لڑکی جو سارا دن خواتین سے شادی، میک اپ، کپڑوں اور فٹنس کی باتیں سنتی رہتی ہے، اور روز منگنی، شادی اور ولیمے کی دلہنیں دیکھتی ہے، وہ آخر شادی سے کیوں انکاری ہے، یہ حیران کن معاملہ تھا۔

ایک دن سکون کے ساتھ بیٹھ کے جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی ماں اور بھائی کی بات ماننے سے کیوں انکاری ہے تو صغری نے بتایا کہ وہ جو کچھ کماتی ہے اس کی اماں لے لیتی ہیں، جب شادی ہو جائے گی تو اس کی ساس اور شوہر اس کے پیسے لے لیا کریں گے، جب کہ وہ اپنے پیسے کسی کو نہیں دینا چاہتی، اور اسی لئے وہ شادی نہیں کرے گی۔

ہم سب نے سمجھایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مل جل کر گھر چلانا اچھی بات ہے، اپنی ماں کو بھی پیسے دیتی ہو تو ساس کو بھی دے دیا کرنا، تو وہ برا مان گئی، اچھا میں پیسے بھی دوں، مار بھی کھاوں، اور گھر کے کام بھی کروں، سب کی خدمت بھی کروں، میں شادی نہیں کروں گی، ”میرا نقصان ہو گا“ ۔

ہمارا سمجھانا اور دلائل بے کار گئے، وہ اپنی بات ہی کہتی رہی، یہ وبا پھیلنے سے پہلے کی صورتحال تھی، لاک ڈاؤن شروع ہوا تو سیلون و جم دونوں بند ہو گئے۔

لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد جب دوبارہ جم گئی تو صغری کو موجود پایا، پوچھا صغری تمھاری شادی نہیں ہوئی، کہنے لگی، نہیں باجی جب کہہ دیا تھا کہ نہیں کروں گی تو نہیں کی، پیسے بھی کہاں تھے، تنخواہ آدھی مل رہی تھی، اور میری اماں بھی بیمار ہو گئی تھی تو اس نے وقت لے لیا لڑکے والو سے۔

لیکن یہ پکی بات ہے کہ وہ اب دوبارہ شادی کے لئے نہیں کہیں گے، میں نے خود لڑکے کو منع کر دیا ہے۔

صغری کا اٹل فیصلہ اور قطعیت آمیز رویہ ہمارے لئے حیرت انگیز تھا، کیونکہ ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک ایسی لڑکی جو مزدور طبقے سے تعلق رکھتی ہے کبھی اسکول نہیں گئی، اس کا کوئی سوشل سرکل نہیں سوائے سیلون اور گھر کے وہ کہیں آتی جاتی نہیں، آخر یہ فیصلہ کیسے کر سکتی ہے جب کہ اس کے طبقے کی لڑکیاں

جلد از جلد شادیاں کر کے بچے پیدا کرنے لگتی ہیں۔

میرے ذہن میں سوال گردش کرنے لگا کہ صغری کے دماغ میں یہ بات کس نے بٹھا دی کہ شادی اس کے لئے نقصان دہ ہو گی، وہ ایسا کیوں سوچ رہی ہے۔ آہستہ آہستہ کریدنے کے بعد عقدہ کھلا کہ وہ اپنے گھر والو کے رویے، عورتوں کے ساتھ اجتماعی سماجی برتاو کی وجہ سے ایسا سوچ رہی ہے، اس کے نزدیک اس کی اپنی برادری کی عورتیں خوش نہیں ہیں۔

ایک بائیس سالہ ان پڑھ لڑکی کی سوچ اور ایک جم میں آنے والی پینتیس سالہ غیر شادی شدہ پرائیویٹ اسکول ٹیچر کی سوچ ایک جیسی ہے، اسکول ٹیچر نے کبھی اپنے خیالات کا اظہار سب کے سامنے نہیں کیا، بوجوہ مجھ پر اس کے یہ خیالات آشکار ہوئے تھے۔

نوجوان لڑکیاں شادی سے بیزار کیوں ہو رہی ہیں، اس کا الزام میڈیا، نئے دور کے رجحانات اور کسی بیرونی مغربی ایجنڈے سے جوڑ نا ہمارے لوگوں کے لئے بہت آسان ہے کیونکہ اس طرح اپنی ذمہ داری اور مجموعی رویوں سے نظر چرانا بہت آسان ہو جاتا ہے، کاش سچ مچ کوئی ایجنڈا ہوتا تو شاید مسائل کا حل نکل آتا لیکن ہم تو مسائل کو بڑھاوا دینے والے اور مسائل پیدا کرنے پر اکسانے والے لوگ ہیں۔

ہم انسانوں کو انسان نہیں سمجھتے بلکہ اولاد اس لیے پیدا کی جاتی ہے کہ بڑھاپے میں یہی اولاد کما کر کھلائے گی، مزدور طبقے میں وسائل نہ ہونے کے باوجود ایک ایک گھر میں کئی بچے ہوتے ہیں جو خوراک کی کمی اور ناقص رویوں کا شکار رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ صغری کی طرح مشینی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اور کچھ آرزو کی طرح اپنے گھر سے فرار چاہتے ہیں، آرزو اپنی آرزوئیں اور خواہشات پوری کرنے کے لئے شادی کے جھانسے میں آ گئی، ایک ادھیڑ عمر مرد نے ایک نو عمر لڑکی کو پیسٹری اور چند ٹافیوں کے عوض ساری زندگی کے لئے اپنی جسمانی تسکین اور گھر کے کام بلا معاوضہ انجام دینے والی ملازمہ کے طور پر اپنے گھر رکھ لیا۔

بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی یہی صورتحال ہے، سوشل میڈیا ہمارے سماج کا کنفیوژن سے لبریز عکس ہے جس کا اظہار لفظ لفظ سے جھلکتا ہے، پڑھے لکھے لوگ بھی کثیر العیال ہیں، مالی پریشانیوں و ذہنی پریشانیوں کا شکار ہیں لیکن پھر بھی بچے پر بچے پیدا کیے جاتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا، کہ گروپس میں پوسٹ لگائی جاتی ہے کہ بچے ٹین ایج ہو گئے لیکن ہمارا نیا بچہ پیدا کرنے کا موڈ بن گیا تو ٹین ایج بچے اس کو قبول نہیں کر رہے، ایک پڑھی لکھی ماں بھی اس شعور سے بے بہرہ ہے کہ ٹین ایج بچے زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں، چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں، یکساں توجہ درکار ہوتی ہیں لیکن ہمارے لوگ اپنی خواہشات کے غلام ہیں، اور اپنی خواہشات کو مذہب کے لبادے میں لپیٹ دیتے ہیں۔ جو بچے موجود ہیں ان کو تو بھرپور توجہ، خوراک اور سہولیات مہیا کر دو نا کہ نیا بچہ پیدا کرنے لگ جاو۔

شادی یا ناقص خاندانی نظام پر بات کی جائے تو بیرونی ایجنڈے کا الزام لگانا آسان ہے لیکن اپنی غلطیوں کو ماننا مشکل۔ صغری کو اس کے حالات نے شادی سے بدظن کر دیا، پڑھی لکھی لڑکیوں اور لڑکوں کو بھی حالات و واقعات شادی کے بندھن سے متنفر کر رہے ہیں، جو نوجوان پسند کی شادی کرنا چاہتے ہیں ان کے والدین راضی نہیں ہوتے کیونکہ ان کی اپنی خواہشات کچھ اور طرح کی ہوتی ہیں۔

انسانوں کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانا ہمارے برتاو کا ایک حصہ ہے ہم انسانوں کو اپنا، غلام سمجھتے ہیں خاص طور پر اولاد کو۔

بیٹے ہوں یا بیٹیاں شادی کے معاملات میں دونوں کے ساتھ زیادتیاں کی جاتی ہیں اپنی پسند ناپسند تھوپی جاتی ہے، اسی وجہ سے معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے، جس کا الزام میڈیا پر عائد کر دیا جاتا ہے، گویا گھریلو تربیت اتنی خراب ہے کہ کوئی بھی عنصر تربیت پر اثر انداز ہو سکتا ہے، کیا ہی بودا جواز ہے۔ اور ایک بے تکا الزام یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ سماج میں شادی کے نظام کو سبوتاز کرنا چاہتے ہیں، ذرا عقل سے کام لیجیے، شادی ایک فطری نظام ہے یہ تو وہاں نہیں ٹوٹ سکا، جہاں واقعی توڑنے کی کوشش کی گئی، تو ہمارے خطے میں کیسے یہ نظام ختم۔ کیا جا سکتا ہے، جہاں صدیوں پرانی روایات ہیں، ہاں لیکن یہ نظام دن بہ دن جن پیچیدگیوں کا شکار ہو رہا ہے ان پر ضرور بات ہونی چاہیے۔ اور اس کا ایک ہی حل ہے کہ۔

انسانوں کو انسان سمجھئے۔
خطے میں موجود مختلف

مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے اپنے مذہب کے ماننے والوں کو زیادہ اولاد پیدا کرنے پر اکسایا ہوا ہے یہ کہہ کر کہ ہماری تعداد سب سے زیادہ رہے، نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں، زیادہ آبادی اور تیزی سے مزید بڑھتی ہوئی آبادی مسائل میں بے پناہ اضافے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

آرزو ہمارے خطے کا وہ ٹین ایج بچہ ہے جو سماج کی نا آسودہ آرزووں کا عکس ہے۔

فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے مزید آرزوئیں پیدا کرنی ہیں یا اپنی آرزو کو قابو میں رکھنا ہے یا پھر سب کو صغری بنانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).