انکل نے یہاں بدتمیزی کی ہے


کشمور میں ایک ماں اور ان کی کم سن بچی کے ساتھ جو سانحہ پیش آیا اس کی ویڈیو نے کتنے ہی لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا۔

چار سال کی عمر میں ماں سے ذرا سی دیر دور رہنا ہی شاید سب سے بڑا خوف ہوتا ہے۔ اس سے بڑا خوف بستر کے نیچے چھپا نادیدہ ’بھوو‘، چار برس کے بچے کے تخیل کی پرواز اس سے اونچی نہیں ہوتی۔

اتنی عمر کے بچے کے پاس اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے بھی شاید دس بارہ الفاظ ہی ہوتے ہیں۔ وہ ان ہی لفظوں میں ہر جذبہ، ہر احساس اور ہر واقعہ بیان کر دیتے ہیں۔ اکثر بچوں کے والدین یا گھر والوں کے سوا کوئی ان کی بات بھی نہیں سمجھ پاتا۔

اس عمر میں اتنے روز ماں سے دور رہنا اور ایک ایسے جرم کا شکار ہونا جس کو بیان کرنے کے لیے اس بچی کے پاس الفاظ بھی نہیں تھے۔ سچ پوچھیے تو شاید اس ویڈیو کو دیکھنے والا کوئی بھی شخص اب کبھی چین کی نیند نہیں سو سکتا۔

ایسے معصوم بچوں کے بارے میں کسی بھی طرح کا جنسی فعل کوئی کیسے سوچ سکتا ہے؟ سوائے کسی ایسے شخص کے جو جنسی مریض ہو۔ جنسی مریض بچپن ہی سے جنسی کج روی کا شکار ہوتا ہے۔

اس سانحے کا مبینہ ملزم جو پولیس کے مطابق ان کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوا، پختہ عمر کا مرد تھا۔ سوال یہ ہے کہ اتنی عمر تک پہنچنے کے باوجود کسی نے اس کے غلط رویے کی نشاندہی نہیں کی؟

کیا اس کے پاس پڑوس میں رہنے والے، کسی نہ کسی طور اس کے تعلق میں آنے والے اس کے مجرمانہ اطوار بھانپ نہ پائے ہوں گے؟

سو بچوں کو قتل کرکے تیزاب میں ڈال کے گلا دینے والا جاوید اقبال بھی ایک پکی عمر کا آدمی تھا، بچوں کی سیکس ویڈیوز، ڈارک ویب پر فروخت کرنے والا بھی ادھیڑ عمر آدمی تھا۔

معاشرے میں مجرم چھپ کر کیسے رہ لیتے ہیں؟ یہ سوال مجھے اکثر پریشان کرتا ہے۔ اکثر جنسی ہراسانی کے معاملات میں خاصی عمر کے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ اتنی عمر تک آتے آتے کیا ایک شخص بھی ان کی بد عادات سے متاثر نہیں ہوا ہو گا؟

کشمور کا یہ بدکار شخص کیا پہلی بار اس جرم کا مرتکب ہوا ہو گا؟ کیا اس سے پہلے اس نے جن عورتوں یا بچیوں سے زیادتی کی وہ معاملات دبا دیے گئے؟ یا کبھی اس کے خلاف کوئی شکایت ہی سامنے نہیں آئی؟

بات یہ ہے کہ بطور شہری ہم میں سے کوئی بھی اپنی ذمہ داری لینے پہ تیار نہیں۔ ہمارے چاروں طرف، سکول کالج میں، محلے بازاروں میں، گھروں خاندانوں میں، ہر طرف، ہر جگہ، مجرمانہ رویوں کے لوگ گھوم رہے ہیں۔

ہم نے من حیث القوم ایک رویہ اپنا لیا ہے کہ موذی سے راستہ بدل کے چل دیں، کسی نے کوئی جملہ کسا، خواہ ہم پہ یا کسی اور پہ، ہم آنکھوں پہ کھوپے چڑھائے، کانوں میں سیسہ ٹپکائے، سر جھکائے گزر جاتے ہیں۔

’بازار کی گالی ہنس کے ٹالی‘ یہ محاورہ اپنی مرضی کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور کبھی یہ نہیں سوچتے کہ جس طرح کسی کا چھینکنا یا ناک بہنا، نزلہ زکام کی علامت ہے، ویسا ہی سر بازار جملے اچھالنا، آتی جاتی عورت کو چٹکی بھرنا، دوپٹہ کھینچنا یا اپنے ہی جسم کو کھجانا، بیمار جنسی رویے کی علامت ہے۔

ایسے لوگ ہمیں روز ہی نظر آتے ہیں۔ ان سب کو ذہنی علاج کی ضرورت ہے۔ بظاہر یہ ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے لیکن ریپ کے ان واقعات کا سلسلہ تب ہی رکے گا جب اکثریت کے جنسی رویے درست کیے جائیں گے۔

اس کام کے لیے وسیع پیمانے پہ تحقیق کرنے اور مختلف طریقوں سے معاشرے میں موجود جنسی بیمار رویوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

ریپ کرنے والے ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں جیسا کہ قاتل، چور، ڈاکو، نوسرباز بھی ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں لیکن جب کسی ایک جرم کا تناسب بڑھنے لگے تو اس کا صاف صاف مطلب یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ معاشرہ کسی خرابی کا شکار ہے۔

ہمارا معاشرہ جنسی گھٹن کا شکار ہے۔ بڑے مرد، چھوٹے لڑکوں، بچوں، بچیوں، عورتوں، حد یہ کہ جانوروں تک کو بدکاری کا نشانہ بناتے ہیں۔ریپ کرنے والے کے پیش نظر شاید لذت کے حصول سے زیادہ اپنی برتری جتانے کا جذبہ ہوتا ہے۔

ایک سانحے سے دوسرے حادثے اور پھر تیسرے حادثے تک یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ریپ کے لیے سخت سے سخت قانون موجود ہونے، مجرم کو پھانسی دینے، یا کسی اور طرح جان سے مار دینے سے بھی یہ بیماری ختم نہیں ہو رہی۔ بلکہ یہ واقعات روزافزوں ہیں۔

ہمارے معاشرے میں عورت کی بہت عزت تھی۔ کسی جھگڑے میں کوئی عورت آ جاتی تھی تو وہ جھگڑا ختم کر دیا جاتا تھا، عورت کی موجودگی میں لوگ نظر جھکا کے چلتے تھے، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ اچھی روایات معدوم ہوتے ہوتے ختم ہو گئیں۔

آج اگر اس گلتے سڑتے معاشرے میں موجود بدصورت رویوں کو درست نہ کیا گیا، عورتوں اور بچوں کے خلاف نفرت اور ان پہ برتری جتانے کا رویہ نہ مٹایا گیا تو یہ جرائم یوں ہی بڑھتے جائیں گے۔

آج جن لوگوں نے اس ظلم کی ویڈیو دیکھی وہ تو واقعی کبھی سکون سے نہ سو پائیں گے لیکن کیا اختیار ہوتے ہوئے بھی ان معاملات کو نہ سدھارنے والے بھی کبھی سکون سے سو پائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).