پاک ریاست کی بانجھ مائیں


اولاد ایک ایسا لفظ ہے جس کا تصور کرتے ہی لبوں پہ مسکان ڈور جاتی ہے۔ دل کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔ ہر صاحب اولاد اس تجربے سے بارہا گزرا ہو گا کہ اس نعمت کے حصول کے بعد اس کی زندگی کس قدر خوشگوار ہو جاتی ہے۔ کس طرح بدل جاتی ہے۔ اور کیسے ایک ایک دن گن کر اس کو کتنی محبت اور کتنی قربانیوں سے پالا پوسا جاتا ہے۔ کتنی ماؤں کی راتوں کی نیندیں ان جیتے جاگتے خوابوں کی نذر ہوتی ہیں۔ کیسے باپ ان کے تابناک مستقبل کے لیے شب و روزانتھک محنت کرتے ہیں۔

ابھی حالیہ مڑھ بلوچاں میں ایک جوان احمدی ڈاکٹر کا بے رحمی سے قتل ایک ایسا واقعہ ہے جس نے بطور ماں میرا دل دہلا دیا ہے۔ شاید عام خبروں کی طرح یہ بھی ایک خبر تھی۔ لیکن کیسی دل کو لرزا دینے والی خبر ہے۔ اس کا اندازہ صاحب اولاد افراد ہی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے ایک پسماندہ قصبے سے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے والے اس ہونہار ڈاکٹر کا کیا قصور تھا صرف یہ کہ اس کا تعلق پاکستان کی ایک اقلیت سے تھا۔ کیا یہ قصور اتنا بڑا ہے کہ کسی کی جان لے لی جائے؟ کیا اقلیتوں کو اپنے بچوں سے کوئی امید وابستہ نہیں کرنی چاہیے؟

کیا ان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی اولاد کو تابناک مستقبل دے سکیں؟

کیا ان کے بچے اس ملک میں اتنے ہی غیر محفوظ ہیں کہ جو چاہے گا آ کر ان کو ان کے گھر کے دروازے پر ہی مار جائے گا؟

تو کیوں ہے پاکستان کے جھنڈے میں یہ سفید رنگ۔ سیاہ کر دو اسے کہ یہ ملک اس سفیدی کا دفاع کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔

یہ ملک صرف مذہبی جنونیوں کا ملک ہے جہاں انتہا پسندی کا دور دورا ہے۔ وہ کمسن بچہ جس کو شاید جہاد کا مفہوم بھی نہیں پتا وہ ایک قابل مسیحا کی جان لے کر ہیرو بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ یہ وہ صدقہ جاریہ ہے جو ہمارے ملک کے علماء چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ یہ مذہب کے نام پر غنڈے پال رہے ہیں معصوم ذہنوں کو پیار محبت کا درس دینے کی بجائے ان کو گولی بارود کی تعلیم دے رہے ہیں۔ وہ علماء جن کی اپنی اولادیں کافروں کے ملکوں میں پر تعیش زندگیاں گزارتی ہیں اور دوسروں کے بچوں سے وہ یہ کام لیتے ہیں۔

سنا تھا کہ اس سانحے میں ان ڈاکٹر صاحب کے والد گولیاں لگنے کے باوجود زندہ بچ گئے لیکن میں سوچ رہی تھی کہ کیاوہ واقعی زندہ بچ گئے؟

اس باپ کی کیا حالات ہو گی جب اسے پتا چلے کہ وہ تو دشمنوں کے وار سے بچ گیا لیکن اپنا ہونہار جوان بیٹا کھو چکا ہے۔ اس مالی کی کیا حالات ہو گی جو ایک نازک بیج بو کر شب و روز اسے زمانے کے گرم و سرد سے بچائے۔ دن گن گن کر اس کے پھل کا انتظارکر رہا ہو اور اچانک صبح اٹھ کر دیکھے تو پتاچلے کہ رات کو آنے والی آندھی سے وہ درخت کٹ گرا ہو۔ اس باپ کی حالت اس جوہری کی سی ہو گی جس کے شوکیس سے اس کا سب سے قیمتی زیور چوری ہو گیا ہو۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی زمین دار کی سال کی سب سے اچھی ہونے والے کھڑی فصل کو کوئی آگ لگاجائے۔ کسی طالب علم کی کوئی اچکا ساری اسناد چھین کر بھاگ جائے۔ کسی غریب کی بیٹی کا سارا جہیز شادی سے ایک روز قبل چوری ہو جائے۔ شاید ان سب واقعات کا مداوا پھر بھی کسی نہ کسی طور ممکن ہو لیکن کسی کاجیتا جاگتا جوان بیٹا لمحوں میں ان کی آنکھوں کے سامنے مٹی کا ڈھیر بن جائے یہ دکھ ناقابل تلافی ہے۔ اس دکھ کا مداوا کوئی نہیں کسی کے بھی پاس نہیں۔

کیا اب باقی کی تمام زندگی وہ اس اذیت میں نہیں گزارے گا کہ کاش اس کی جگہ میں چلا جاتا کاش میرا بیٹا بچ جاتا ان کے لیے یہ زندگی ہر روز ایک آزمائش ہو گی۔ جب اپنی بیوی کے پہاڑ جیسے دکھ کو دیکھے گا تو کن الفاظ میں اسے تسلی دے گا۔

کس طرح ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اپنی اولاد کو اعلی تعلیم دلواتے ہیں۔ کتنی ماؤں کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں زیور رہن رکھے جاتے ہیں کتنے باپ چھٹی والے دن بھی کمانے نکل جاتے ہیں کتنے گھروں میں اچھے کھانے اور عمدہ کپڑوں کی خواہش کو اولاد کے قابل ہونے تک ملتوی کر دیا جاتا ہے۔ اور ایسے ہی ایک ظالم درندہ آتا ہے ان کے اچھے مستقبل ان کی ساری خواہشات کا گلہ گھونٹتا ہے اور وکٹری کا نشان بناتا اخباروں میں ہیرو بن جاتا ہے۔

کسی کو خواب میں بشارت ہوتی ہے اس پاک نبی ﷺ کی طرف سے جو خود لہولہان ہو کر بھی خدا کی طرف سے آنے والے فرشتے کو یہ کہہ کر واپس لوٹاتے ہیں کہ :ارجوا ان یخرج اللہ من اصلابھم من یعبداللہ ولا یشرک بہ شیئا۔ ترجمہ : اگر یہ بد نصیب ایمان نہیں لائے تو کیا ہوا۔ میں ان کی آنے والی نسل سے ہرگز ناامید نہیں ہوں، مجھے اللہ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسا ہے کہ وہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ کی توحید کے قائل اور شرک سے بیزار ہوں گے :

ایسا رحمت العالمین کیا کسی انسان کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ جاو اور جا کر کسی انسان کو محض اس کے عقیدے کی بنا پر قتل کر آؤ۔ ہر گز نہیں۔

پچھلے برسوں کے تلخ تجربات کے بعد مجھے تو یہی حل سمجھ آتا ہے کہ پاکستان میں بطور اقلیت رہنے والی ماؤں کو بانجھ ہی ہونا چاہیے۔ نہ وہ بچے جنیں گی نا کوئی ان کی اولاد پر شب خون مار سکے گا۔ یہ بات بہت تکلیف دہ اور شاید بہت سے لوگوں کو ناگوار بھی گزرے لیکن اگر ایک ماں کی حیثیت سے دیکھیں تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔

اگر ایسے ملک میں اولاد پیدا کر کے ایسے ظالم درندوں کے ہاتھوں مروانی ہے تو اے عورتو!

اس بنجر خطہ زمین میں رہنے والی عورتوں دعا کرو کہ تم بانجھ ہو جاؤ۔ کیونکہ اس اندھے گونگے بہروں کے دیس میں تمہاری کوئی شنوائی نہیں۔

یہاں کی زمین مجرموں اور انتہا پسندوں کے لیے زرخیز ہے اس لیے اسے ان کے لیے ہی چھوڑ دو۔ تم بانجھ ہو جاو خدارا بانجھ ہو جاؤ۔

اگر قاریئن میری رائے سے متفق نہیں تو مجھے اس کا کوئی اور حل بتا دیں۔ اسسے پہلے کہ دوبارہ کسی ماں کی گود اجڑے۔ کسی باپ کا سہارا اس سے چھینا جائے اس کا کوئی حل تلاش کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).