آصفی۔ خدا تمہیں خونخوار درندوں سے محفوظ رکھے


ارشد شریف بہت ظالم آدمی ہے، اس نے شہید بے نظیر بھٹو کی ایک نایاب ویڈیو اپنے چینل پر چلا دی جس میں شہید بی بی بلاول، بختاور اور آصفہ کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں، وہ بچوں سے پیار سے باتیں کر رہی ہیں، ایک موقع پر شہید بی بی آصفہ سے مخاطب ہوتی ہیں ”آصفی تم اچھی بچی بنو گی“ معصوم آصفہ جواب دیتی ہے، ہاں، یہ ویڈیو کو دیکھ کر آنکھ بھر آئی

کیا قسمت پائی ہے، بھٹو خاندان نے، ایسا بدقسمت خاندان ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو عوام کی آواز بنا، غریبوں کی امید، آس بنا مگر شاید کسی کو یہ قبول نہ تھا یا ان کو گوارا نہ تھا کہ کوئی ”عوام کا سرپرست“ کیوں بنے جبکہ ان کے ”سرپرست“ تو ہم موجود ہیں

ایسی قسمت کسی نے پائی ہے کہ وہ عوام کے دلوں کی دھڑکن ہو اور اس کو رات کی تاریکی میں پھندا ڈال کر تختہ دار پر لٹکا دیا جائے پھر عوام کو اپنی دھڑکن کا دیدار بھی نہ کرنے دیا جائے اور سنگینوں کے سائے میں مٹی کے حوالے کر کے اپنی طرف سے اس کا نام و نشان ہی مٹا دیا جائے، بدقسمت بیٹی اور بدقسمت بیوی کو اس کی میت پر بین بھی نہ کرنے دیا جائے، یہ مناظر کسی کربلا سے کم تھے کیا۔

نازوں سے پلی شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پنکی نے باپ کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو بننے کا فیصلہ کیا، باپ کے بعد بے نظیر بھٹو بھی عوام کی آواز بنیں، غریبوں کی امید، آس بنیں، عوام نے وہ عزت دی کہ تاریخ رقم کردی، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے تقریباً تین سال بعد تک شہید بی بی کو ملک کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا جس کے بعد ان کو جلاوطن ہونے پر مجبور کر دیا گیا مگر کبھی ناخن بھی ماس سے جدا ہوئے ہیں، پھر بی بی شہید نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا۔

1986 ءمیں شہید بی بی لاہور کے ائرپورٹ پر اتریں، ملک کے چپے چپے سے لوگ استقبال کے لئے لاہور پہنچے، اس وقت کے یزید نے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے یقیناً سر پیٹا ہوگا کہ وہ خود شداد، نمرود جیسا طاقتور فرعون ہے، پوری سپہ اس کے ساتھ ہے اور یہ نہتی لڑکی اتنی طاقتور کیسے ہو گئی۔

ملک کی تاریخ میں جتنا بڑا استقبال عوام نے شہید بے نظیر بھٹو کا کیا وہ آج تک ”جلاوطن“ ہونے والے کسی نام نہاد ”سیاسی لیڈر“ کا نہیں ہوا۔

مینار پاکستان پر شہید بی بی نے اپنا خطاب وہیں سے شروع کیا جہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ختم کیا تھا کہ میں عوام کے دلوں میں زندہ رہوں گا، شہید بے نظیر بھٹو نے خطاب ہی یہاں سے شروع کیا تھا کہ زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے۔ ، بی بی شہید کی عوامی طاقت کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے یزید نے ایک سیاستدان ”پالا“ اور اسے بی بی شہید کے مقابلے میں کھڑا کر دیا، بی بی شہید نے اپنے باپ کا مشن جاری رکھا۔

ہر دور کے یزید کو بے نظیر بھٹو اس کے باپ کی طرح کھٹکتی تھیں، سپہ کی طاقت کا گھمنڈ رکھنے والا ”حکمران“ ہوا میں ریزہ ریزہ ہو گیا، کہتے ہیں کہ رسی جل جاتی ہے مگر اس کے بل ختم نہیں ہوتے، بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی اس کے باپ والا معاملہ ہوا، اس دور کے یزید کو بھی اپنی سپہ کی طاقت کا بہت غرور تھا، مجھے یاد ہے 27 دسمبر 2007 ءمیں لیاقت باغ کے قریب موجود تھا، بی بی کا خطاب ٹی وی پر دیکھ اور آواز لاؤڈ سپیکر سے سن رہا تھا، کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ انہیں نعروں کی گونج میں ہاتھ ہلا ہلا کر بی بی شہید لیاقت باغ سے رخصت ہوئیں، پھر تھوڑی دیر بعد ہی قیامت صغری تھی

فائرنگ ہوئی، خودکش دھماکہ ہوا اور پھر بے نظیر بھٹو گڑھی خدابخش میں اپنے باپ اور بھائیوں کے پہلو میں ہمیشہ کے لئے سلا دی گئیں، وقت بدلتا گیا، زندگی کا پہیہ چلتا رہا، ان 13 برسوں میں یوں لگتا ہے عوام سکتے میں ہیں، سانس چل رہی ہے مگر حرکت کوئی نہیں ہے

”پالا“ ہوا سیاستدان بی بی شہید کی شہادت کے بعد صفر ہو گیا، شاید اس ”پالے“ ہوئے سیاستدان کو کسی اندھیری رات میں کھلے آسمان تلے تارے گنتے ہوئے کبھی یہ احساس ہوا ہو کہ اسے جو دو بار وزارت عظمی ملی تھی وہ بی بی شہید کا ہی صدقہ تھا ورنہ اب تو وہ گھر کا رہا ہے نہ۔

30 نومبر کو ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ تھا، شہید بی بی کی بیٹی آصفہ جسے وہ پیار سے آصفی کہتی تھیں نے بھی خطاب کرنا تھا، یہ آصفی کی پہلی سیاسی انٹری تھی، بھٹو شہید اور بی بی شہید کے چاہنے والے آصفی کے خطاب کے منتظر تھے

میں دفتر میں ٹی وی پر ”لیڈروں“ کی تقاریر سن رہا تھا اور کام میں بھی مصروف رہا، آصفی نے اپنی ماں کے لہجے خطاب شروع کیا پہلا جملہ سنا تو ٹی وی کی طرف دیکھتے ہوئے بے ساختہ منہ سے نکل گیا ”کیا بی بی آ گئیں؟“

آصفی نے بھی اپنا خطاب وہیں سے شروع کیا جہاں اس کی شہید ماں نے ختم کیا تھا، اپنی ماں کی طرح خطاب کا آغاز جئے بھٹو سے کیا اور اختتام بالکل اپنی ماں کے انداز میں نعرے لگاتے ہوئے کیا، جئے، جئے بھٹو۔ آخر میں اپنی ماں والا وعدہ دہرایا بھٹو کا مشن پورا کریں گے

آصفی کا مختصر خطاب سننے کے بعد عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی، سوچنے لگا آصفی تم بھی اپنے نانا اور اپنی ماں کے راستے پر چل نکلی ہو، یہ شہادتوں کا راستہ ہے، طاقت کے نشہ میں چور عوام کے سرپرستوں کو یہ پھر برداشت نہیں ہوگا، اب دکھ سہنے کی سکت نہیں رہی، بس دعا ہی کر سکتا ہوں ”آصفی خدا تمہیں خونخوار درندوں سے محفوظ رکھے۔ آمین“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).