ڈاکٹر خالد سہیل: دریائے محبت اور آدرش


کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر خالد سہیل اور لاہور (پاکستان) کی نامور ادیبہ رابعہ الرباء کے مابین لکھے گئے پچاس خطوط پر مشتمل ’علمی و ادبی مکالمہ پر محیط ”درویشوں کا ڈیرہ“ نامی کتاب دو سال قبل کینیڈا سے شائع ہوئی تھی۔ یہ خطوط‘ ہم سب ’پر کالموں کی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی کینیڈا ہی سے گزشتہ برس شائع ہو چکا ہے۔ یہ ترجمہ، راقم الحروف نے کیا تھا ا اور انگریزی کتاب کا نام (Dervishes Inn) ، درویشز ان رکھا گیا تھا۔

”درویشوں کاڈیرہ“ کا انگریزی ترجمہ کرنے کے لئے ڈاکٹر صاحب نے رابعہ الرباء کے ذریعے جب مجھ سے رابطہ کیا تو ان سے بات کر کے مجھے ایسا لگا جیسے ہم ایک دوسرے کو قرن ہا قرن سے جانتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے آدرش ایک تھے۔ وہ دن اور آج کا دن میرا رابطہ ڈاکٹر صاحب سے زیادہ دیر کے لئے منقطع نہیں ہوسکا۔ اس کا کریڈٹ بلا شبہ ڈاکٹر صاحب کوہی جاتا ہے۔

”درویشز ان“ اور ”درویشوں کا ڈیرہ“ کی مشترک تقریب پذیرائی پچھلے سال کینیڈا میں ”ادبی تنظیم : فیملی آف دی ہارٹ کے ذیراہتمام منعقد ہوئی۔ تقریب میں شمولیت کے لئے مجھے کینیڈا کے شہر مسی ساگا (Mississauga) میں بطور مہمان خصوصی میں مدعو کیا گیا۔ تقریب میں دونوں کتابوں پر پرمغز۔ حوصلہ افزا ء اور دلچسپ مضامین پڑھے گئے۔ یہ میرے لئے بہت عزت اور حوصلہ افزائی کی بات تھی۔ کینیڈا میں قیام کے دوران میں چند دن مجھے ڈاکٹر صاحب کا مہمان بننے کی سعادت بھی حاصل رہی۔ یہ ایک یاد گار وقت تھا۔

ڈاکٹر صاحب ایک سائکو تھراپسٹ ہیں۔ اور اپنے کام سے عشق کرتے ہیں۔ وہ تقریباً ہر روز تین ڈی 3 D کرتے ہیں : ڈرائیو، ڈنر اور ڈائیلاگ۔ پچاس کے قریب کتابوں کے مصنف ہونے کے علاوہ، شمالی امریکہ میں گرین زون فلسفے کے حوالے سے خاصی شہرت کے حامل ہیں۔ وہ شمالی امریکہ میں قائم مشہور ادبی تنظیم ”فیملی آف دی ہارٹ“ ( Family of the Heart ) کے بانی ممبر اور روح رواں بھی ہیں۔ کینیڈا میں قیام کے دوران ایک خوشگوار شام کو جب میں اور ڈاکٹر خالد سہیل تین ڈی کے لئے ٹورنٹو کے ڈاؤن ٹاؤن کی طرف جا رہے تھے تو میں نے پوچھا : ”ڈاکٹر صاحب!

آپ کی عمر ستاسٹھ سال ہے۔ آپ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک بطور نفسیات دان کام کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہزاروں مرد و خواتین آپ کے دوست ہیں، جو آپ کو ہمہ وقت رابطے اور خط و کتابت میں مصروف رکھتے ہیں۔ تقریباً پچاس کے قریب کتابیں آپ نے لکھ رکھی ہیں۔ ہفتے میں دو نہیں توکم از کم ایک کالم تو آپ ہم سب کے لیے بھی لکھتے ہیں۔

کیا آپ تھکتے نہیں؟ بور نہیں ہوتے؟
انہوں نے بڑا دلچسپ اور فکر انگیز جواب دیا:

”نعیم صاحب! بالکل نہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے دو قسم کے انسان زندگی میں تھکن محسوس کرتے ہیں۔ ایک وہ جو فارغ رہتے ہیں۔ دوسرے وہ جو کام تو کرتے ہیں۔ مگر ان کو اپنا کام پسند نہیں ہوتا۔“

میں نے جب بھی ان سے ملا، یا ان کو فون کیا ہمیشہ ہشاش بشاش، آسودہ اور ہلکے پھلکے موڈ میں پایا۔ میں نے ان کو کبھی بھی اداس، بے زار یا بور نہیں دیکھا۔

خالد سہیل محبت کا ایک ایسا دریا ہے، جو بہتا جا رہا ہے، بس بہتا جا رہا ہے۔ یہ دریائے محبت اپنے دونوں اطراف موجود افراد کو اپنی بے انتہا محبت سے سیراب کرتا جاتا ہے۔ خالد سہیل ایک ایسا درویش ہے جو کچھ مانگنے یا پند و نصائح کرنے کی بجائے، محبتیں بانٹتا نہیں تھکتا۔

حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ”آدرش“ ان کے ”ہم سب“ کے فورم پر لکھے گئے کالموں کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب ایک مفید، با معنی اور بھرپور زندگی کرنے والے ایک شاعر، ادیب، طبیب اور درویش فلاسفر کے عمر بھرکے تجربوں کا نچوڑ ہے اور بیک وقت ایسا نسخۂ کیمیا ہے جو مجھ ایسے بے ترتیب و بے رنگ زندگی گزارنے والوں کے لئے مشعل راہ بھی ہے۔ یہ ایسا درویش ہے جو زندگی سے بھرپور طریقے سی حظ لینا جانتا ہے۔ وہ زندگی کو ایک قیمتی متاع سمجھتا ہے اور اس کا ہر لمحہ پوری توجہ، توانائی اور شعوری سلیقے سے برتتا ہے۔ وہ برٹرینڈ رسل کے اس قول پر پورا اترتا ہے : ”بہترین زندگی وہ جس کی اساس محبت پر رکھی گئی ہو مگر رہنمائی علم سے حاصل کرے۔“

دو سو پچاس صفحات پر مشتمل، سانجھ پبلیکیشن لاہو ر کی شائع کردہ خوبصورت کتاب ”آدرش“ ایک نہایت خوبصورت فرنٹ کور سے مزین ہے۔ جس میں ایک آزاد پرندے کو بلندی پر نیلے افق پر پرواز کر کے دور کی دنیا کی طرف سفر کرتے دکھایا گیا ہے۔

اس کتاب میں پانچ قسم کے کالم ہیں : نفسیاتی، سماجی، ادبی، سیاسی اور فلسفیانہ۔ اپنے ایک فلسفیاتی کالم: (زندگی دریا کی طرح ہے : جو بہتا رہے تو اچھا ہے ) ، یوں رقم طراز ہیں :

” ایک مشرقی محبوبہ کی طر ح دھیرے دھیرے مجھ پر یہ راز بے نقاب ہوا کہ زندگی ایک دریا کی طرح ہے۔ جو بہتا رہے، تو بہتر ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دریا کا ایک حصہ اگر بہنا بند کردے تو وہ جوہڑ بن جاتا ہے۔ جس میں پہلے کائی جمتی ہے اور پھر اس سے بد بو آنے لگتی ہے۔ (صفحہ 246 )

جب زندگی کا دریا بہہ رہا ہوتا ہے تو لوگ اپنی چیزیں خوشی سے دوسروں سے شیئر کرتے ہیں اور دوسروں کو اپنے دکھ اور سکھ، دولت اور طاقت میں شریک کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ”(صفحہ: 248 )

”ہم سب جانتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں انسان ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ایک راستہ جنگ اور تباہی کی طرف جاتا ہے۔ دوسرا امن اور آشتی کی طرف۔ یا تو انسان جتماعی خود کشی کر لیں گے۔ یا ارتقاء کی اگلی منزل کی طرف بڑھیں گے۔ ارتقاء کی طرف جانے والے جانتے ہیں کہ ہم سب انسان ایک ہی خاندان کے افراد ہیں اور ہم دھرتی ماں کے بچے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے۔ اور یہ سب اسی صورت میں میں ممکن ہے کہ ہم یہ راز جان لیں کہ زندگی دریا کی طرح ہے جو بہتا رہے تو اچھا ہے۔“ (صفحہ: 249 )

میں تو یہی کہونگا :خالد سہیل بھی محبت کا ایک دریا ہے جو بہتا رہے۔ ہمیں اپنی بے لوث محبتوں سے سر شار کرتا رہے، تو اچھا ہے۔

میں خالد سہیل کو ”آدرش“ جیسی نادر کتاب لکھنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میں اس مضمون کے توسط سے وجاہت مسعودصاحب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے ڈاکٹر خالد سہیل جیسے گوہر نایاب کو پہچانا، سراہا اور اس کی محبتیں، تحریریں اور زندگی کے نچوڑ ہم قارئین تک پہنچانے میں معاون و مدد گار ثابت ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).