آنکھیں آبیاری کررہی ہیں پھر سے خوابوں کی


سچ تو یہ ہے کہ اس بار جب ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنی کتاب آدرش مجھے عنایت فرمائی تو میں خوش ہونے کے بجائے کچھ چڑ سا گیا۔ دل جھلا سا گیا سوچا پلٹ کر پوچھ ہی لوں کہ ڈاکٹرصاحب آخر آپ کا مسئلہ کیا ہے؟ پچھلے چالیس برسوں سے آپ مسلسل لکھ رہے ہیں شاعری، افسانے، مضامین، ترجمے، نفسیاتی مسائل۔ یعنی درجنوں کتابیں آپ کی آ چکی ہیں، مگر پھر بھی طبعیت ہے کہ آپ کی بھرتی ہی نہیں۔ کس بات کی کوشش چل رہی ہے آخر؟ کیا آپ کو واقعی دکھتا نہیں ہے کہ آپ ایک بانجھ قوم سے امیدیں باندھے ہوئیں ہیں جس کی کوکھ میں کوئی تخلیق کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں ہے۔ اول تو یہ قوم پڑھنے لکھنے کو ہی گناہ کبیرہ سمجھتی ہے اور دوئم نئے خیالات اور افکار کو تو بس جہنم کا عذاب مانتی ہے۔ اور پھر دیکھیے برا مت مانیے گا یہ جو کچھ آپ لکھ رہے ہیں نا۔ یہ تو واقعی عذاب سے بھی بڑا عذاب ہے۔ اچھا خود ہی دیکھیے نا

یہ کتاب جو سانجھ پبلیشرز نے چھاپی ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمایے اس کا ٹائٹل جس میں انہوں نے آپ کے آدرش کی پرواز بادلوں کو چھو تی ہوئی دکھائی ہے اور یہی نہیں بلکہ ایک نیلے آسمانی رنگ سے یعنی اپنے تئیں امن و آشتی کا تاثر بھی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تو یعنی آپ کا خیال ہے کہ یہ جو امن و آشتی یا پیار و محبت جیسی اقدار حیات ہیں آپ کی، ان میں آپ کی مخاطب قوم کو کوئی دلچسپی ہے؟

اچھا چلیں پھر ذرا اگلا صفحہ پلٹیں اور پیش لفظ میں اپنے ہی لکھے ہوئے ان دو مضامین پر نظر ڈالیں۔ آپ فرماتے ہیں میری میوس کہاں چھپ گئی ہے؟ اور ادیب اور سماجی تبدیلی۔ ارے۔ تو کیا آپ کو واقعی نہیں معلوم کہ آ پ کی میوس دراصل آپ کی بے باکیوں ہی کی وجہ سے سہم کر آپ کے فکری غار حرا کے کسی کونے میں جاکر چھپ کر بیٹھ گئی ہے۔ کیونکہ اسے پتہ ہے کہ اب بھی باہر قریش کے قبائل تلوار ہاتھوں میں لیے خونخوار نظروں سے اس کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں او راگر یہ نہیں تو کم ازکم اسے یہ ضرور پتہ ہے کہ مکہ والوں کے یہاں سے پچھلے پندرہ سو برس سے کبھی بھی بھلائی کی کوئی خبر نہیں آئی۔

مگر آپ بجائے اس کے کہ اپنی میوس کے دکھوں کی دل جوئی کرتے یا اس کے خوف یا ڈر کا علاج کرتے اور کچھ نہیں تو کم ازکم اسے ایک نئے لباس کا تحفہ ہی دے دیتے مگر آپ نے الٹا اس کے اس فعل کو ہر شاعر اور ادیب کی طرح اپنا ڈائلمہ ہی بنالیا او ر پھر مزیدار بات یہ کہ اسے ایک ڈائری کا لالچ دے کر دوبارہ سے تخلیق پر راضی کر لیا کہ وہ آپ کے آدرش کے خاطر اپنی جان جوکھوں میں ڈالے اور پھر سے آپ کی پیغمبری کے جھانسے میں آ کر سماجی تبدیلی لانے کے بوجھ اٹھانے کو راضی ہو جائے۔

اچھا اس بات پر تو آپ کو داد دینی ہی پڑے گی کہ ادھر میوس کو راضی کیا اور ادھر جنگ کے لیے طبل بھی بجادیا کہ بھیا سنو خطرے کی گھنٹی بجا کر آ رہا ہوں کہ میں شاعر ادیب وغیرہ ضرور ہوں مگر ارادے میرے سماجی انقلاب لانے کے ہیں اور مجھے اچھی طرح پتہ ہے کہ سماجی انقلاب کے لیے مجھے تمھاری بچہ دانی سے زیادہ سمجھ دانی میں تبدیلی لانی ہے۔ یعنی پیش لفظ کے مضمون ’ادیب اور سماجی تبدیلی‘ میں جب بات میر غالب، منٹو اور عصمت سے ہوتی ہوئی ڈارون، فرائڈ، نطشے، مارکس اور ہاکنگ کو چھونے لگی اور پھر آگے موڑ لیتی ہوئی شیخ سعدی، ٹیگور، والٹ وٹمین کو گھیر گھار کر ہوچی من اور نیلسن منڈریلا تک پہنچ گئی تو مجھے پورا یقین ہو گیا کہ ایم بی بی ایس کے بعد جو آپ نے گائنی کالوجی میں ٹرئننگ لی تھی وہ دراصل ضائع نہیں گئی تھی۔

آپ تو اصل میں اسی وقت ہی سمجھ گئے تھے کہ بچہ بچہ دانی سے نہیں عقل دانی میں پیدا ہوتا ہے۔ اچھا یہ مضمون پڑھکر نا مجھے کچھ کچھ شبہ اپنی جھلاہٹ پر بھی پیدا ہوا کہ یار یہ جو شخص ہے نا خالد سہیل، یہ بڑا ہی استادوں کا استاد ہے۔ یہ تو یونہی ہماری جھلاہٹ سے مزے لے رہا ہے کیونکہ جھلاہٹ کے جاتے جاتے کتاب کا ٹائٹل اور اس پر کندہ تین لفظ آدرش، ہم سب اور کالم کتاب کی فہرست پر نظر پڑتے ہی پھر سے میرے لیے اختلاج کا سبب بنے لگے۔

یہ تینوں لفظ تین مختلف ذاویوں میں جڑ کر ایک ٹرا ینگل سی بنانے لگے جس میں خالد سہیل کے آردرش ہم سب کی ساخت میں کالمز کے پلرز میں دھنس کر ایک سو اسی کا ذاویہ بنا کر بقیہ ایک سو اسی ڈگری میں ان کے نفسیاتی، سماجی، ادبی، سیاسی اور فلسفیانہ تصورات کو پھیلارہے تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھائی مجھے آخریہ اختلاج کیوں ہو رہا تھا؟ تو لیجیے ابھی پورے حساب کتاب سے ان پانچوں آدرشوں کے تیس تیس فیصد کا جو حصہ انہوں نے 180 میں انصاف سے تقسیم کیا، میں اسے آپ کے ساتھ بانٹ لیتا ہوں۔ پھر آپ سمجھ جائیں گے کہ ماہر نفسیات ہونے کے ناتے انہیں اچھی طرح سے پتہ تھا کہ انسانی دماغ تیس فیصد سے زیادہ آدرش کا بوجھ یوں بھی نہیں اٹھا پاتا ہے اور وہ تو بڑی ہی کمال ہنر مندی سی سے ایک سو اسی فیصد کا بوجھ نمٹانے کے چکر میں تھے۔

اچھا اقرا باسم ربک کی طرح انہیں پورا یقین تھا کہ انہیں جن سے مخاطب ہونا ہے پہلے ان کی نفسیاتی گرہیں کھولنی ہیں اس لیے تو نفسیاتی موضوعات سے اپنا کلام یا کالم شروع کیا اورپھر پورے اعتماد سے اپنا تعارف کرایا کہ میں (تمھارا) ماہر نفسیات ہوں یعنی جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں شاعر، ادیب، فلسفی اور سیاسی تجزیہ نگار وغیرہ سب کچھ بعد میں ہوں۔ اچھا چونکہ یہ بھی پتہ ہے کہ اردو پڑھنے والی قوم خصوصاً پاکستانی قوم انفرادی اور اجتماعی طور پر فکری خود کشی پر آمادہ ہے تو سب سے پہلے اسی سے اپنے لفظوں کی مسیحائی سے بچانے کی کوشش کی گئی اور پھر کبھی ’دو بہنوں کی کہانی‘ یا ’دیواروں پر لٹکی تصویروں‘ ، ’مورین کی مصوری اور بڑھاپے کی محبت‘ ، ’خطوط کی مسیحائی‘ اور ’آخری امید‘ جیسے کالموں کی آڑ میں نفسیاتی طور پراس جھلی قوم کے علاج کی کوشش کی گئی۔

مثلاً اب آپ ہی بتائیں کہ آئی تھنک اور آئی فیل جیسے نازک فرق کو سمجھ کر بل اور شیلا تو خود کشی جیسے عذاب سے باز آ گئے مگر اس قوم کو کیا دلچسپی جسے زندگی سے زیادہ بعداز مرگ میں دلچسپی ہے اور جو خود کشی صرف اسی صورت میں نہیں کرتی ہے کہ یہ شر یعت میں حرام ہے ورنہ تو فوراً ہی اسے تو حلال در حلال سمجھ لیتی ہے جو اپنے ساتھ سو دوسو کو بھی جنت کی حورووں سے ملانے کے نیک ارادے سے کی گئی ہو۔ بالکل اسی طرح ’دو بہنوں کی کہانی‘ کی جولی کے ڈپریشن کا علاج اس کے شوق موسیقی سے ممکن ہو سکتا ہے مگر وہ بیچاری قوم کیا کرے جہاں موسیقی خود ضمیر کا بوجھ بن کر سخت ڈپرشن کا سبب بن رہی ہو؟

جس قوم میں دیواروں پر تصویریں لٹکانا ہی گناہ کی علامت ہو چہ جائکہ اس سے بچپن کی جنسی زیادتیوں کا علاج کرنے کی آپ کوشش کر رہے ہیں یا جہاں ’مورین کی بڑھاپے کی محبت‘ کا سن کر بوڑھی تو کیا جوان عورتیں اور ان کے مرد بھی حواس بافتہ ہوجائیں۔ ڈاکٹر صاحب ’گرین زون تھراپی اور نفسیاتی مسائل‘ ان اقوم کے مریضوں کا تو علاج کر سکتے ہیں جو اپنے مزاجوں میں رنگوں کے فرق سے واقف ہیں مگر وہ قوم جو کلر بلائنڈ ہو چکی ہو یا ہزاروں برسوں سے صرف ریڈ زون میں رہ رہی ہو وہ اپنی ریٹنا کے خلیوں کا کیا کرے کہ وہاں اب نئے خلیوں کی تخلیق یا تقسیم کے لیے ریٹائنل بیڈ ہی دستیاب نہیں ہے؟ یہ جھلاہٹ یوں تو نہیں نفسیاتی کالم پڑھ پڑھکر بڑھ رہی تھی مگر اس سے پہلے کہ تیس فیصد سے بات آگے جاتی ڈاکٹر صاحب آپ نے اچھا کیا کہ نفسیاتی کالمز سے سماجی کالم کی طرف رخ کر لیا۔

لیجیے یہاں بھی آپ نے ہمیشہ کی طرح تعارفی انداز سے بات شروع کی ’کیا آپ دوستی کے راز سے واقف ہے‘ اور میں نے سر کھجایا اور پھر تھوڑی ہی دیر میں میری انگلیاں سر کے پچھلے حصے پر آ کر رک گئیں۔ ’عورتوں سے دوستی کا راز کیا ہے؟‘ یعنی ڈاکٹر صاحب آپ اس قوم سے مخاطب ہیں جہاں غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں اور پرچے بھی درج نہیں ہوتے۔ ’کیا آپ کی بہن آپ کی دوست بھی ہیں؟‘ ، ڈاکٹر صاحب یہاں بھائی بہنوں کی عزتوں کی حفاظت میں اسی طرح سے جتے ہوئیں ہیں جیسے فوجیں سرحدوں پر دشمنوں کی نقل و حرکت پر مستقل نظر رکھتی ہیں، ’آپ اپنی بیٹی کی تعلیم کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟

‘ ہم تعلیم پھیلانے والی کے سر پر گولی مارتے ہیں اور جو نوبل پرائز مل جائے تو اسے یہود کی سازش کہتے ہیں۔ ’کیا آپ بورنگ انسان ہیں؟‘ ہم ہنسنے مسکرانے خوش رہنے والے ہر شخص کو جہنمی سمجھتے ہیں۔ ’میاں بیوی جنس سے بیزار کیوں ہو جاتے ہیں؟‘ ایسکیوز می ڈاکٹر صاحب آپ کو نہیں لگتا کہ آپ بہت زیادہ پرسنل ہو گئے ہیں؟ یا پھرشایدآپ کو پتہ ہی نہیں مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ اوہ، آپ جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں۔ ہم محبتوں کے خاطر شادی نہیں کرتے ہیں ہم تو صرف بچے پیدا کرنے اور خاندان اور سوسائٹی کے خاطر سوشل شادیاں کرتے ہیں۔

جونہی ضرورت کے مطابق بچے پیدا ہوجائیں جنس ہمارے لیے شجر ممنوعہ بن جاتی ہے جو پھر صرف جہنم کے پھل پیدا کرتی ہے۔ ’روحانیت بیچنے والے‘ ، ڈاکٹر صاحب اس کے خلاف تو بالکل مت لکھیے پلیز کیونکہ آپ جس قوم سے مخاطب ہیں اس میں روحانیت کا کاروبار ہی سب سے زیادہ منافہ بخش ہے اور اب آپ پوچھ رہے ہیں کہ ’کیا آپ کا خاندان نفسیاتی مسائل کا شکار ہے؟‘ ، ڈاکٹر صاحب وہ پوری قوم جس سے آپ مخاطب ہیں نا وہ نفسیاتی مسائل سے زیادہ کسی عفریت کا شکار ہو چکی ہے اور اس نے ان کی روح کو کچھ یوں خاک آلود کر دیا ہے کہ شعور علم یا دانشمندی کی کسی بھی دوا سے وہ اپنا علاج نہیں کروانا چاہتی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اپنے معالج کو ہی اپنا قاتل سمجھتی ہے۔

اچھا سیاسی کالم میں تو ڈاکٹر صاحب آپ نے حد ہی کردی ہے۔ آپ نے تو ابتدا ہی ’پاکستان کے بحران۔ سات مسائل سات حل‘ سے کی۔ مگر سچ پوچھیں تو مجھے لگا جیسے اپ نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا ورنہ آپ جانتے تھے کہ ستر برس کی اس تگ دو میں آپ کی مخاطب قوم اپنے ساتوں مسائل سے اچھی طرح سے واقف ہو چکی ہیں اور یہ بھی کہ فالس کانشیسنیس کے قبرستان میں پھنسی ہوئی یہ نفسیاتی غلام قوم انٹونیو گرامچی کی ہیجی منی کی نوٹ بک کے صفحات میں اپنے زخموں کے علاج کے نسخے بھی پا سکتی ہے اسی لیے تو آپ نے ’مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل‘ کے غیر متوازن پلڑے میں ان کے ماضی کے بوجھ میں دھنسے ہوئے رہنے کا تزکرہ کیا ہے۔

’امن کے معمار کون ہیں؟‘ یہاں بھی ڈاکٹر صاحب آپ جو مثالیں دے رہیں ہیں ذرا دیکھیں۔ آپ اقتصادی امن کے لیے نوبل پیس ونر محمد یونس کی مثال دے رہیں ہیں یعنی اسی بنگال کے شخص کی جسے ہم نے اپنے جسم کا ناقص حصہ سمجھ کر کاٹ کر پھینک دیا تو پیشانی پر ایک شرمندگی کی ایک شکن بھی نہیں، آپ مارٹن لوتھر کنگ کی مثال دے رہے ہیں سماجی امن کے لیے، ایک اسی قوم کو جہاں ہم ایک دوسرے کو کالے، ٹھگنے اور گنجے کا مذاق بنا کر قدرتی حسن میں جیسے چار چاند لگا تے ہیں اور تو اورسیاسی امن کے لیے نوبل پیس ونر اسرائلی لیڈر یت زک رابین اور موہن داس گاندھی کی مثال اس قوم کو دے رہیں ہیں جو یہود اور ہنود جیسے لفظ صرف الزامات اور گالیوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب امن و آشتی کی کھوئی ہوئی راہیں وہی کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں اس کی فطری خواہش ہوتی ہے وہ تو ہر گز نہیں کرتے جو اقتصادی، سماجی یا سیاسی جنگ سے ارادتا نکلنا نہیں چاہتے ہیں۔

اچھا اب ایک نظرادبی مضامین پر بھی ڈال لیجیے کیونکہ یہاں بھی آپ نے سیاسی کالمز کی طرح کچھ معصومانہ شرارت سے کام لیا ہے یعنی پہلے تو ’تخلیقی بارش سے تخلیقی چشمے تک‘ کی بات کر کے بہت ہی پیار محبت سے چمکارکر ادب و شاعری کی طرف اس عمومی قوم کو مائل کرنے کی کوشش کی جو سوائے نعتوں، حمدوں اورمحمد اقبال کی مسلمانی شاعری کے سوا کسی فنی تخلیق کو گھاس ڈالنے پر راضی نہیں۔ پھر آپ نے بہت ہی احتیاط مگر چپکے سے عارفانہ شاعری کے استعارے کا ذکر خیر کر کے رومی، ٹیگور، کبیر داس، ولیم بلیک اور بلھے شاہ سب کو ایک ہی قطار میں کھڑا کر دیا مگر آپ کی مخاطب قوم کنفیوز ہو گئی کہ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ اسلام کے علاوہ اور بھی مذاہب میں بھلا عارفانہ شاعری کے مرقعے دستیاب ہیں؟

اور پھر یہی نہیں کہ سیدھا سادا رومی کی صوفی شاعری اور خداوندگار جیسے القاب کا مطلب سمجھا کر کام نکال لیتے، آپ نے تو ان کے ایک اور چونکا دینے والے پس منظر یعنی رومی اور شمس کے عشق کا ذکر چھیڑ دیا اور پھر اس کے بعد غالب، قاسمی، منیر نیازی، عارف عبدالمتین، فہمیدہ ریاض، جون ایلیا اور ساقی فاروقی جیسے سیکولر شاعروں اور ادیبوں کا خدا اور مذہب سے رشتے کا تذکرہ کرتے چلے گئے۔ علی ہذ القیاس، اس دوران نیلم احمد بشیر تک تو خیر ہے مگر پھر ’بانو قدسیہ راج گدھ اور مقدس دیوانگی‘ میں اس ’باشعو ر ترین قوم‘ کے تمام تر درپیش سماجی اور نفسیاتی مسائل کے لیے بانو قدسیہ کے پیش کردہ مذہبی اور روحانی حل کو ناول کے تھیم یا ان کے اسکول کی کمزوری قرار دے کر ساری قوم کی امیدوں پر جیسے پانی ہی پھیر دیا۔

ڈاکٹر صاحب، سچ پوچھیے تو آپ کے فلسفیانہ کالم ز پڑھتے سمے ’شاخ دانائی پہ کھلے ہوئے پھول‘ میں درج مظفر حسین کا یہ شعر بار بار میری آنکھوں کو بھی چپکے چپکے آنسووں سے آبیار کر رہا تھا:

آنکھیں آبیاری کررہی ہیں پھر سے خوابوں کی
مجھے معلوم ہے
خود کو
مجھے تعمیر کرنے میں زمانے بیت جائیں گے۔

کیونکہ آپ نے اپنے فلسفیانہ کالمز میں لکھا ’قبائلی سوچ سے انسان دوستی تک‘ ، اورآپ کی مخاطب قوم نے سوچا صرف قبائلی سوچ تک

آپ نے لکھا ’مذہبی سچ، روحانی سچ اور سائنسی سچ‘ ، مگر انہوں نے سوچا صرف مذہبی سچ،
آپ نے لکھا ’کیا آپ بھی دانائی کی تلاش میں ہیں؟‘ انہوں نے سوچا لفظ ’آپ‘ بس اضافی ہے،

آپ نے لکھا ’خاموشی، تنہائی اور دانائی پرانی سہلیاں ہیں‘ انہوں نے سوچا ہماری تو تینوں ہی سے دشمنیاں ہیں،

آپ نے پھر انہیں چھیڑا ’زندگی دریا کی طرح ہے جو بہتا رہے تو بہتر ہے‘ انہوں نے سوچا یہ تو بات ہوئی ان کے بارے میں جو دریا کی طرح

موج دو موج بہے جا رہے ہیں بھلا ان کے لیے کیا عرض ہے جو صرف تالاب میں رہتے ہیں؟

اور پھر آخر میں تو آپ نے یہ لکھ کر تو حد ہی کردی کہ ’ہم اپنا سچ کیوں نہیں لکھ پاتے‘ تو اس بار تو میں نے بھی جھلا کر سوچا

۔ ڈاکٹر صاحب ہم اس قوم سے ہیں جو خوانخوا ہی جھوٹ بولتے ہیں۔
پتہ ہے ڈاکٹر صاحب آپ کا مسئلہ کیا ہے؟
آپ کو بھی نا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے کی عادت ہو گئی ہے۔

اور مجھے آپ کی کتابیں پڑھ کر اب جھلاہٹ سی ہونے لگتی ہے کیونکہ اس سے میرا حال بھی جون ایلیا جیسا ہونے لگتا ہے۔

ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں ایک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).