جسٹس فار راجہ داہر اور محمد بن قاسم


ہم نے کئی بالی ووڈ اور پاکستانی پنجابی فلموں میں یہ منظر دیکھا ہو گا کہ ایک لڑکی چیخیں مار کر بھاگ رہی ہے۔ اس کے پیچھے ایک بد شکل ولن وحشیانہ انداز میں قہقہے مارتے ہوئے بھاگ رہا ہے۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ ایک دم ہینڈسم ہیرو نہ جانے کہاں سے ٹپک پڑتا ہے اور مار مار کر اس ولن کا بھرکس نکال دیتا ہے۔ اور لڑکی کو پہلی نظر میں ہی ہیروسے محبت ہو جاتی ہے۔ اگر یہ سب کچھ صرف فلموں میں ہوتا تو شاید گزارا ہو جاتا لیکن ہم نے ہدوستان اور پاکستان کی تاریخ کو بھی اس قسم کی افسانوی فلم بنا دیا ہے۔

آج کی تحریر پڑھنے کے بعد فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ فتح سندھ کی حقیقت کیا ہے؟ اور محمد بن قاسم ہیرو ہے یا راجہ داہر ہیرو ہے؟ تحریر پڑھنے کے بعدیہ بھی ممکن ہے کہ دونوں نہ ہیرو ہوں اور نہ ولن ہوں بلکہ اپنے دور کے معمول کے حکمران ہوں۔ بات شروع کرتے ہیں راجہ داہر کے والد سے۔ راجہ داہر اور محمد بن قاسم کے درمیان جنگ کی کہانی معروف تاریخی کتاب چچ نامہ میں تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ قدیم کتاب چچ نامہ کے مطابق راجہ داہر کے والد کا نان چچ تھا۔

چچ سندھ کے حکمران کے ملازم تھے۔ سندھ کے حکمران یا راجہ کی بیوی اپنے ملازم چچ کی عاشق تھی۔ پھر ایسا ہوا کہ سندھ کا حکمران ایک جنگ میں مارا گیا تو اس کی بیوی نے اپنے ملازم سے شادی کر لی اور اس طرح راجہ داہر کا باپ چچ سندھ کا حکمران بن گیا۔ یہ تو تھی چچ کے حکمران بننے کی داستان۔ کہانی کو سمجھنے کے لئے ہم کڑیوں سے کڑیاں ملاتے جائیں گے اور نتیجہ اپنے ناظرین پر چھوڑ دیں گے کہ وہ کس کو اپنا ہیرو اور کسے ولن سمجھتے ہیں۔

اب دیکھتے ہیں کس نے اور کیوں سندھ پر حملہ کیا؟ جس زمانے میں راجہ داہر سندھ کا حکمران تھا اسی زمانے میں عرب دنیا پر اموی سلطنت کا راج تھا۔ حجاج بن یوسف اموی سلطنت کے حکمران تھے۔ ایک کہانی کے مطابق حجاج بن یوسف نے سندھ پر حملہ اس لئے کرایا کیونکہ سمندری ڈاکووں نے جس بحری جہاز کو لوٹا تھا اس میں گرفتار ہونے والی ایک خاتون نے یا حجاج کا نعرہ لگا دیا تھا۔ حجاج بن یوسف بھی اتنے سادہ کہ یہ خبر سن کر سندھ پر چڑھائی کر دی۔

جو لوگ راجہ داہر کو ولن سمجھتے ہیں وہ یہی افسانوی قصہ سناتے ہیں۔ راجہ داہر کے بارے میں یہ بھی کہانی سنائی جاتی ہے کہ اس نے اقتدار کی خاطر ایک نجومی کی پیشگوئی کی وجہ سے اپنی حقیقی بہن سے شادی کر لی تھی۔ محمد بن قاسم کی موت کی کہانی بھی کچھ ایسے ہی سنائی جاتی ہے۔ کچھ تاریخ دانوں کے مطابق محمد بن قاسم کو سزائے موت اس لئے ہوئی کہ انہوں نے راجہ داہر کی دو بیٹیوں کو اس وقت کے اموی بادشاہ کے حرم میں بھجوایا تھا۔

راجہ داہر کی بیٹیوں نے اموی بادشاہ کی دربار میں یہ الزام لگا دیا کہ شاہی حرم میں بھجوانے سے پہلے محمد بن قاسم نے ان سے جنسی تعلق پیدا کیا تھا۔ یہ سنتے ہی بادشاہ کا جلال بھڑک اٹھا اور اس نے محمد بن قاسم کو قتل کرادیا۔ صدیوں سے ہمیں اس طرح کی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں۔ انگریزوں کو لاکھ برا کہیں لیکن وہ جس علاقے پر قبضہ کر کے اپنی سلطنت میں شامل کرتے تھے پہلے اس کی تاریخ پر تحقیق کر کے گزٹ میں شائع کرتے تھے۔

انگریزوں کو نہ تو محمد بن قاسم کو ”ہیرو“ بنانے میں کوئی دلچسپی تھی اور نہ راجہ داہر کو ”ہیرو“ بنانے کا کوئی ارادہ رکھتے تھے۔ 1876 اور 1907 کے انگریزوں کے بنائے گئے سندھ گزٹ میں لکھا گیا ہے کہ حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو محض بارہ ہزار کی فوج دے کر سندھ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا گیا۔ بظاہر یہ ایک بیوقوفانہ فیصلہ تھا کیونکہ اس زمانے میں سندھ کی دفاعی قوت بہت زیادہ تھی۔ ہر طرف مضبوط قلعے تھے۔ محمد بن قاسم کے مقابلے میں جس فوج کی قیادت راجہ داہر کر رہا تھا صرف اس فوج کی تعداد پچیس ہزار سے زیادہ تھی۔ یعنی فوج کے اعتبار سے سندھ کی فوج کو کافی برتری حاصل تھی۔ اب سوال یہ کہ ایسے زمینی حقائق کے باوجود سندھ کی فوج کو شکست کیوں ہوئی؟

چچ نامہ کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت سندھ میں اندرونی اختلافات بہت زیادہ تھے۔ عوام اور اعلی حکام کی بہت بڑی تعداد بدھ مت سے وابستہ تھی۔ راجہ داہر نے بدھ مت سے وابستہ کچھ افراد کو گورنر بھی لگایا ہوا تھا لیکن پھر بھی بدھ مت کے پیروکار ایک ہندو راجہ داہر کی حکومت سے خوش نہیں تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پہلے سندھ پر بدھ مت سے وابستہ افراد حکمران رہ چکے تھے اور راجہ داہر کے والد چچ نے بھی لسبیلہ پر قائم بدھ خاندان کی حکومت پر قبضہ کیا تھا۔

چچ نامہ کے مطابق محمد بن قاسم 711 عیسوی میں سندھ میں داخل ہوئے تھے۔ معتبر تاریخ دان کہتے ہیں کہ جہازوں کو لوٹنے اور مسلمان عورتوں کو قید کرنے کا واقعہ محض ایک بہانہ بنایا گیا تھا تاکہ عرب سندھ پر قبضہ کر سکیں۔ ایسا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں تھا۔ 1907 کے سندھ گزٹ میں درج روایات کے مطابق سب سے پہلے محمد بن قاسم نے دیبل کے قلعہ پر قبضہ کیا تھا۔ دیبل پر قبضہ کرتے ہوئے کافی خون ریزی ہوئی تھی۔ دیبل پر قبضہ کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے سیہون کے قلعے کا رخ کیا۔ سیہون کا قلعہ راجہ داہر کے بیٹے کے قبضے میں تھا۔ لیکن اس کی اکثر رعایا بدھ مت سے وابستہ تھی۔ اور اپنے ہندو حکمران کے لئے لڑنے کو تیار نہیں تھی۔ چنانچہ صرف ایک ہفتہ میں اس قلعہ پر بھی قبضہ ہو گیا۔

لیکن ابھی بھی سندھ کی حکومت کا کچھ نہیں بگڑا تھا۔ ان کے پاس محمد بن قاسم کی فوج کی نسبت کئی گنا زیادہ تازہ دم فوج موجود تھی۔ اور اب بھی بہت سے قلعوں پر ان کا قبضہ تھا۔ لیکن ایک قلعے سیسام کو بغیر جنگ کے محمد بن قاسم کے حوالے کر دیا گیا۔ یعنی وفاداریاں تبدیل کر لی گئیں۔ اور اس کے بعد محمد بن قاسم نے نیرون کے قلعے کا رخ کیا۔ نیرون آج کے حیدر آباد کے قریب تھا۔ اور یہاں بھی قلعے کے دروازے کھول کر محمد بن قاسم کا استقبال کیا گیا یعنی مقامی لوگوں نے راجہ داہر داری۔

ایسی صورتحال میں راجہ داہر کی فوج اور محمد بن قاسم کی فوج کے درمیان جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں راجہ داہر کو شکست ہو گئی۔ اس کے بعد محمد بن قاسم نے۔ سندھ میں داخل ہونے کے دو سال بعد محمد بن قاسم نے دارالحکومت الور پر قبضہ کیا اور اس کے بعد ملتان پر بھی قبضہ محمد بن قاسم کی فوج کا قبضہ ہو گیا۔ ان دو سالوں میں محمد بن قاسم کی مدد کے لئے مزید فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔ انگریز محققین کے مطابق محمد بن قاسم کی کامیابی کی وجہ اس کی دانشمندی تھی۔

جب کوئی محمد بن قاسم کی فوج سے جنگ کرتا تو اس وقت تو خون ریزی ہوتی لیکن جب ٹیکس وغیرہ کے معاملات طے ہو جاتے تو محمد بن قاسم کی حکومت میں مقامی آبادی سے نرم سلوک کیا جاتا اور مکمل مذہبی آزادی دی جاتی۔ اس وقت سندھ کے لوگوں میں مشہور تھا کہ عرب بد عہدی نہیں کرتے۔ تحریر کا اصل مقصد یہ نہیں کہ کون ہیرو ہے اور کون ولن؟ یہ دیکھنا کہ تاریخ سے ہم کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ سب سے اہم سبق یہ ہے کہ بیرونی حملہ سے بچنے کے لئے سب سے موثر ذریعہ آپس کا اتحاد ہے۔

اگر کسی ملک کا معاشرہ مذہبی یا نسلی طور پر تقسیم ہو گا تو یہ ملک دشمن کے لئے تر نوالہ ثابت ہو گا۔ فوجیں اور قلعے کسی کام نہیں آئیں گے۔ پاکستان میں تاریخ اور معاشرتی علوم کی کتابوں میں محمد بن قاسم کی دیبل میں فتح کو ہندوستان میں اسلام کا پہلا قدم اور پہلی جیت تصور کیا جاتا ہے۔ 1998 میں حکومت پاکستان کی جانب سے شائع کردہ کتاب ’ففٹی ایئرز آف پاکستان‘ میں محمد بن قاسم کی سندھ میں فتح کو قیام پاکستان کی بنیاد ڈالنے سے تشبیہ دی جاتی ہے اور انھیں پہلا پاکستانی قرار دیا جاتا ہے۔

سابق آمر جنرل ضیا الحق نے 1977 میں نصاب تعلیم میں تبدیلیاں کیں اور اس کے بعد سے نصابی کتب میں محمد بن قاسم کو بطور ایک مثالی حکمران پیش کیا جاتا ہے۔ جنرل ضیا نے نصابی کتب میں محمد بن قاسم کے کردار اور ان کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ آمر جنرل ضیا کے دور میں جماعت اسلامی نے عرب مسلمانوں کی اہمیت اور کردار پر تعریفی لٹریچر تیار کروایا اور اس میں جزیرہ نما عرب اور پاکستان کے مابین براہ راست تعلق کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔

جہاں محمد بن قاسم کو پہلے پاکستانی کے طور پر پیش کیا گیا، کئی پاکستانی تاریخ دان اور محققین اس ’تبدیلی‘ کو تسلیم نہیں کرتے۔ معروف سندھی سکالر اور سیاستدان جی ایم سید نے قریباً پچاس سال پہلے اپنی ایک کتاب میں راجہ داہر کو بطور ہیرو پیش کیا جسے ایک ’حملہ آور عرب‘ نے شکست دی۔ ویڈیو میں ناظرین ہم آپ کو راجہ داہر کا تعارف کراتے ہیں۔ راجہ داہر آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ کے حکمران تھے۔ جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ وہ راجہ چچ کے سب سے چھوٹے بیٹے اور برہمن خاندان کے آخری حکمران تھے۔

سندھیانہ انسائیکلو پیڈیا کے مطابق مہا بھارت سے پہلے کئی کشمیری برہمن خاندان سندھ آ کر آباد ہوئے تھے۔ یہ پڑھا لکھا طبقہ تھا۔ سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے بعد برہمن خاندان نے رائے گھرانے کی 184 سالہ حکومت کا خاتمہ کیا اور چچ پہلا برہمن بادشاہ بنا۔ مورخین کے مطابق آٹھویں صدی عیسوی میں راجہ داہر کی حکومت مغرب میں مکران، جنوب میں بحر عرب اور گجرات تک، مشرق میں مالواہ کے وسط اور راجپوتانے تک اور شمال میں ملتان سے گزر کر جنوبی پنجاب کے اندر تک پھیلی ہوئی تھی۔

سندھ سے زمینی اور بحری تجارت بھی ہوتی تھی۔ معتبر تاریخ دان یہ بھی کہتے ہیں کہ راجہ داہر انصاف پسند حکمران تھے۔ راجہ داہر کے دور میں تین اقسام کی عدالتیں تھیں جنھیں کولاس، سرپناس اور گناس کہا جاتا تھا۔ بڑے مقدمات راجہ کے پاس جاتے تھے جو سپریم کورٹ کا درجہ رکھتے تھے۔ آٹھویں صدی میں بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کے حکم پر ان کے بھتیجے اور نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کر کے راجہ داہر کو شکست دی اور یہاں اپنی حکومت قائم کی۔ اب سوال یہ کہ کیا بحری ڈاکووں کی لوٹ مار کی وجہ سے محمد بن قاسم نے حجاج بن یوسف کے حکم پر سندھ پر حملہ کیا تھا۔ اس کا جواب

سندھ میں عرب تاریخ کی پہلی کتاب چچ نامہ یا فتح نامہ کے مترجم علی کوفی کچھ یوں لکھتے ہیں کہ سری لنکا کے راجہ نے بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کے لیے کچھ تحائف بھیجے تھے جو دیبل بندرگاہ کے قریب لوٹ لیے گئے۔ ان بحری جہازوں میں خواتین بھی موجود تھیں۔ کچھ لوگ فرار ہو کر حجاج کے پاس پہنچ گئے اور انھیں بتایا کہ خواتین آپ کو مدد کے لیے پکا رہی ہیں۔ مورخ کے مطابق حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کو خط لکھا اور حکم جاری کیا کہ خواتین اور لوٹے گئے مال و اسباب کو واپس کیا جائے۔ راجہ داہر نے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ یہ لوٹ مار ان کے علاقے میں نہیں ہوئی۔ سندھ کے بزرگ قوم پرست رہنما جی ایم سید حملے کے اس جواز کو تسلیم نہیں کرتے۔ جی ایم سید نے اپنی کتاب سندھ کے سورما میں لکھا کہ ہو سکتا ہے کہ بحری ڈاکووں نے لوٹ مار کی ہو ورنہ راجہ داہر کو اس سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

یہ الزام تراشی ہے ورنہ اس سے قبل عربوں نے جو سندھ پر 14 بار حملے کیے اس کا کیا جواز تھا۔ سندھ پر حملے کی ایک اور کہانی بھی ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ

عمان میں معاویہ بن حارث علافی اور اس کے بھائی محمد بن حارث علافی نے خلیفہ حجاج بن یوسف کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ محمد علافی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکران میں پناہ حاصل کر لی جہاں راجہ داہر کی حکومت تھی۔ بغداد کے گورنر نے انھیں کئی خطوط لکھ کر باغیوں کو ان کے سپرد کرنے کے لیے کہا لیکن راجہ داہر کی حکومت نے اپنی زمین پر پناہ لینے والوں کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس انکار کی وجہ سے حجاج بن یوسف نے سندھ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔

راجہ داہر کے تخت نشین ہونے سے پہلے ان کے بھائی چندر سین حکمران تھے جو بدھ مت کے پیروکار تھے اور جب راجہ داہر اقتدار میں آئے تو انھوں نے بدھ مت کے لوگوں کے ساتھ سختی کی۔ اسی وجہ سے بدھ بھکشوؤں نے محمد بن قاسم کے حملے کے وقت نیرون کوٹ اور سیوستان میں ان کا استقبال اور مدد کی تھی۔ سندھ کے قوم پرست رہنما جی ایم سید لکھتے ہیں کہ کہ چندر سین نے بدھ ازم کو فروغ دیا اور بھکشوؤں اور پجاریوں کے لیے خصوصی رعایتں دیں، راجہ داہر نے ان پر سختیاں نہیں کیں بلکہ دو گورنر بدھ مذہب سے تھے۔

اب سوال یہ کہ کیوں راجہ داہر نے اپنی سگی بہن سے شادی کی تھی اور اسی کی وجہ سے اس کی حکومت پر کیا اثر ہوا؟ چچ نامہ میں مورخ کا دعویٰ ہے کہ راجہ داہر نجومیوں کی بات کا گہرا اثر لیتے تھے۔ راجہ داہر نے جب بہن کی شادی کے بارے میں نجومیوں سے رائے لی تو انھیں بتایا گیا کہ جو بھی اس سے شادی کرے گا وہ سندھ کا حکمران بنے گا۔ اسی لئے راجہ داہر نے وزیروں اور نجومیوں کے مشورے پر اپنی بہن کے ساتھ شادی کر لی۔ جی ایم سید اس کہانی کو تسلیم نہیں کرتے۔

جی ایم سید کے مطابق برہمن بہن تو دور کی بات ہے کزن سے بھی شادی کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کسی چھوٹے راجہ کو رشتہ نہ دے کر لڑکی کو گھر بٹھا دیا گیا ہو کیونکہ ہندوں میں ذات پات کی تفریق ہوتی ہے اور اسی لیے کسی کم ذات یا کم درجے والے شخص کو رشتہ دینے سے انکار کیا گیا ہو۔ جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کر لیا اور راجہ داہر کی دو حسی بیٹیوں کو گرفتار کیا گیا تو کیوں ان لڑکیوں کو اموی سلطنت کے دارالحکومت دمشق لے جایا گیا۔ کیا کہیں محمد بن قاسم کی موت کی وجہ راجہ داہر کی بیٹیاں تو نہ تھی؟

چچ نامہ میں مورخ لکھتا ہے کہ راجہ داہر کی دو بیٹیوں کو اموی سلطنت کے دارالحکومت دمشق بھیج دیا گیا۔ خلیفہ ولید بن عبدالمالک نے غم خواری کی خاطر ان لڑکیوں کو حرم سرائے کے حوالہ کیا تاکہ ایک دو روز آرام کر کے خلوت کے لائق ہوں۔ ایک شب دونوں کو طلب کیا گیا۔ خلیفہ نے ترجمان سے کہا کہ معلوم کر کے بتائے کہ کون بڑی ہے۔ بڑی نے اپنا نام سریا دیوی بتایا اور اس نے چہرے سے جیسے ہی نقاب ہٹایا تو خلیفہ ان کا جمال دیکھ کر دنگ رہ گیا اور لڑکی کو ہاتھ سے اپنی طرف کھینچا تاہم سریا دیوی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

’بادشاہ سلامت رہیں، میں بادشاہ کی خلوت کے قابل نہیں کیونکہ محمد بن قاسم نے ہمیں تین روز اپنے پاس رکھا۔ ان تین دنوں میں ہمارے ساتھ کئی مرتبہ محمد بن قاسم نے جنسی زیادتی کی۔ مورخ کے مطابق اس واقعے کی وجہ سے خلیفہ ولید بن عبدالمالک محمد بن قاسم سے بہت ناراض ہوا اور حکم جاری کیا کہ وہ صندوق میں بند ہو کر حاضر ہوں۔ جب یہ فرمان محمد بن قاسم کو پہنچا تو وہ اودھپور میں تھے۔ فوری تعمیل کی گئی لیکن دو روز میں صندوق می محمد بن قاسم کا دم نکل گیا اور اس طرح انھیں دربار پہنچا دیا گیا۔

بعض مورخین کا ماننا ہے کہ راجہ داہر کی بیٹیوں نے اس طرح محمد بن قاسم سے اپنے والد راجہ داہر کا بدلا لیا۔ چچ نامہ تاریخ سندھ پر ایک مشہور کتاب ہے۔ اس کتاب میں راجا چچ اور اس کے جانشینوں کے حالات اور محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ عربوں کی طرف سے سندھ کو فتح کرنے کے موضوع پر لکھی گئی سب سے پرانی تاریخی کتاب ہے۔ اس کے مطابق حجاج بن یوسف نے ثقفی خاندان کے قاسم نامی شخص کو بصرہ کا گورنر بنایا۔

محمد بن قاسم کی ولادت وہیں ہوئی۔ محمد بن قاسم کی عمر پانچ سال کی تھی کہ باپ کا انتقال ہو گیا۔ حکمران ولید بن عبدالملک کے دور میں جب حجاج ہی عراق کا گورنر تھا اور محمد بن قاسم کی عمر پندرہ سال تھی، تو 708 میں محمد بن قاسم کو ایران میں کردوں کے خلاف سپہ سالار بنایا گیا۔ سترہ سال کی عمر میں محمد بن قاسم کو شیراز کی گورنری سونپی گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کو گالیاں دینے کا رواج جاری تھا۔

حجاج ابن یوسف نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ حضرت عطیہ بن سعد عوفی کو طلب کر کے ان سے کہو کہ منبر پر بیٹھ کر حضرت علی کے خلاف تقریر کرے اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیے تو ان کو چار سو کوڑے لگا کر داڑھی مونڈ دی جائے۔ محمد بن قاسم نے حضرت عطیہ بن سعد عوفی کو بلایا اور مطالبہ کیا کہ حضرت علی کے خلاف پروپگنڈہ کرں۔ حضرت عطیہ بن سعد عوفی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو محمد بن قاسم نے ان کی داڑھی منڈوا کر چارسوکوڑے لگوائے۔

اسی زمانے میں عمان میں معاویہ بن حارث علافی اورانکے بھائی محمدبن حارث علافی نے امویوں کے خلاف علم بغاوت بلندکیاجس کے نتیجے میں عمان کاگورنرماراگیا۔ چچ نامہ کے مطابق محمدعلافی عمان سے بھاگ کراپنے پانچ سوساتھیوں کے ہمراہ مکران میں پہنچا جہاں راجاداہرکی حکومت تھی۔ راجاداہرراجاچچ کے سب سے چھوٹے بیٹے اور کشمیری برہمن خاندان کے آخری حکمران تھے، انہوں نے ان لوگوں کوپناہ دی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ اموی سلطنت کے مظالم سے بھاگنے والے بہت سے لوگ خصوصاًخاندان رسول کے عزیزواقارب اورچاہنے والے اس خطے میں روپوشی کی زندگی گزاررہے تھے۔

اس وقت موجودہ افغانستان اور ایران اموی سلطنت میں شامل تھے۔ آج کا پاکستان اور ہندوستان اموی سلطنت کے ہمسائے تھے۔ اموی پہلے ہی وسعت سلطنت کے لئے کسی بہانے کی تلاش میں تھے۔ چنانچہ حجاج نے 93 ہ میں محمد بن قاسم کو ایران سے ہندوستان پر چڑھائی کرنے کا حکم دے دیا۔ مختلف تاریخ کی کتابوں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عربوں کاسندھ پرحملے کا اصل مقصداس خوشحال خطے سے فائدہ اٹھانا تھا۔ سیلون سے آنے والے مسافروں کادیبل کے بحری قزاقوں کے ہاتھوں اغواکاتوبہانہ تھا۔ حقیقت یہ ہے بحری قزاقی کوئی اس دورمیں نئی بات نہیں تھی۔ نہ صرف سندھ کی آبی سرحدوں پربلکہ جزیرۃ العرب کے تمام ساحلوں پربحری قزاقی روز مرہ کا معمول تھی۔ چنانچہ بڑے جہازوں پرزیادہ سے زیادہ ملازم یا ملاح رکھے جاتے تھے جو ہر قسم کے قزاقی حالات سے نپٹنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔

محمد بن قاسم سے پہلے سندھ پر پندراں حملے کیے گئے تھے۔ ہندوستان سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ سونے کی اس چڑیا کو قبضے میں کرنے کے لئے عربوں نے بارہا جتن کیے ۔ جب محمد بن قاسم نے چھ ہزار شامی اور چھ ہزار عراقی فوج کا لشکر لے کر دیبل کا گھیراؤ کیا۔ ان کے پاس ایک طاقتور منجنیق عروسک تھی جس سے قلعے کی دیواریں توڑ کرعربی فوج اندر گھس گئی اور دیبلی باشندوں کاقتل عام کر کے ہنستا بستاشہرتاراج کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے دیبل میں پنڈتوں کابھی قتل عام کیا تھا۔

یہاں سے ہاتھ آنے والابے انتہا مال غنیمت جن میں زر و جواہر کے ساتھ سندھی مردوں اور عورتوں کو غلام اور لونڈیاں بناکراپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے بصرہ بھیج دیا تھا۔ راجہ داہراورقاسم کامقابلہ اروڑ کے قلعے کے باہرہوا۔ چچ نامہ کے مطابق داہر کے پاس مختلف آپشنز موجودتھے لیکن اس نے سرعام جنگ کرنے اورغیرت مند مفتوح بننے کوترجیح دی۔ دس دن تک جنگ جاری رہی۔ بے پناہ خون ریزی ہوئی۔ داہر کاسرقلم کر دیا گیا۔ بیٹیاں باپ کے کٹے سر کے ساتھ دمشق روانہ کر دی گئیں۔

محمد بن قاسم مسلسل فتوحات کرتا ملتان جا پہنچا، جہاں اسے اچانک واپس بلا لیا گیا۔ سلیمان بن عبدالملک نے حجاج سے اپنا انتقام لینے کے لیے دوسرے جرنیلوں کی طرح محمد بن قاسم کو بھی عبرتناک انجام سے دوچار کیا۔ یہ تھے راجہ داہر، محمد بن قاسم اور فتح سندھ کے مختلف واقعات۔ محمد بن قاسم نجات دہندہ تھا یا حملہ آور فیصلہ آپ خود کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).