زیاں کے دفتر میں ایک اور برس بڑھ گیا…


عرش صدیقی بھلے آدمی تھے۔ تدریس کو معاش کا پردہ کیا تھا۔ نظم اور افسانہ لکھتے تھے۔ ہماری چاک دامن تاریخ پر 1978کا برس اترا تو دور دور تک کسی امید کا امکان تک اوجھل ہو چکا تھا۔ ہم ایک ایسے عہد تعطل میں داخل ہو گئے تھے جہاں چند جنوں پرور وطن پرستوں کو چھوڑ کر معاشرے نے ریاکاری، عافیت کوشی اور جرم سے سمجھوتے کا مکھوٹا پہن لیا تھا۔ لباس کے قرینے اور زبان کے آداب تو بدلے ہی تھے، ادبی مجلوں کا ذائقہ تک بدل گیا۔ موضوعات اور استدلال کی یبوست سے گماں ہوتا تھا کہ پاکستان کا ادب آٹھویں صدی کے بغداد میں لکھا جا رہا ہے۔ ان تاریک دنوں میں خبر آئی کہ ملتان میں عرش صدیقی کے افسانوں کا مجموعہ شائع ہوا ہے، باہر کفن سے پاؤں۔ ٹھیک تیس برس بعد استنبول کے آرمینائی صحافی ہرنت ڈنک (Hrant Dink) کے قتل کی تصویریں آئیں تو ہمیں چادر اور کفن میں فرق معلوم ہوا۔ سکھ کی چادر چھوٹی پڑ جائے تو سعی کا پیوند لگایا جا سکتا ہے۔ کفن سے پاؤں باہر نکل آئیں تو موت کی قطعیت بے کسی کا کتبہ قرار پاتی ہے۔ استنبول کی سڑک پر 53سالہ ہرنت ڈنک کی سانسوں سے خالی نعش اوندھے منہ پڑی تھی۔

سفید کپڑے کے ٹکڑے سے سیاہ جوتے جھانک رہے تھے جن کے تلووں میں دو بڑے سوراخ نظر آ رہے تھے۔ ترکی کے مقبول ترین جریدے آرگوس کا مدیر ایسا مفلس نہیں تھا کہ نئے جوتے نہ خرید سکے۔ وطن کے جھنڈے کی فکر کرنے والوں کو اپنے جوتوں کی خستگی پریشان نہیں کرتی۔ صبح کی پہلی کرن میں سلاسل چمک اٹھتے ہیں تو ’’نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن‘‘ کی دھن پر بازار میں پابجولاں نکل آتے ہیں، روزن زنداں بجھتا ہوا نظر آئے تو ٹوٹتی ہوئی امید میں بھی یہ کہنا نہیں بھولتے، آنے والوں سے کہو، ہم تو گزر جائیں گے۔

ہمارے جادہ پیمائی کا جبر ہی کہنا چاہئے کہ بات عرش صدیقی سے بھی شروع ہو تو فیض صاحب تک ضرور پہنچتی ہے۔ عرش صدیقی کا تذکرہ ہر برس دسمبرمیں ضرور ہوتا ہے۔ یوں تو ایک مختصر سی نظم تھی، اسے کہنا، دسمبر آ گیا ہے لیکن دسمبر کے ان کل ملا کے 31 دنوں میں ہم پر بار بار جو قیامتیں گزریں، ہمارا دسمبر سانحات کا استعارہ ٹھہرا۔ ہمارا وطن اس مہینے میں دو ٹکڑے ہوا۔ ہمارے بچوں کے تابوت کندھوں پر بھاری ہو گئے۔ دس برس کی ذلت کے خاتمے کا موڑ آیا تو راولپنڈی کی سٹرک پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے درجنوں پروانوں کا لہو خاک میں غلطاں ہو گیا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ایک طرف وطن ٹوٹ رہا تھا اور ستم ظریف ہمیں ایک آئینی دست کاری بخشنا چاہتے تھے۔ یہ رہی عقل و فہم کی وہ بلندی جس کے بے رس ترانے دن رات ہماری سماعتوں کا امتحان لیتے ہیں۔ بےنظیر شہید جس مقام پر شہید ہوئیں، وہاں ماندگان رفاقت نے کوئی اڑھائی فٹ کی ایک یادگار کھڑی کر دی تھی۔ اس یادگار کی ایسی بدترین توہین کی گئی جسے دہراتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ہمارے بچوں کے قتل کی ذمہ داری جس شخص نے قبول کی تھی، وہ ریاست کی حراست سے یوں نکل گیا جیسے کوئی کنج عافیت سے سیر گل کو نکل جاتا ہے۔ ہمارا ہر دسمبر گواہی دیتا ہے کہ ہم لفظ اور معنی کے رشتہ ہائے آہنگ سے بے گانگی کا احساس تک کھو بیٹھے ہیں۔

اس برس کی سنیے۔ چھ ہفتے قبل میدان سیاست سے ایک صدا اٹھی تھی۔ ملک کے کونے کونے میں اس پر پذیرائی کا غلغلہ بلند ہوا۔ ابھی لاہور کا معرکہ باقی ہے۔ دیار مغرب کی درس گاہوں سے اپنے ہی وطن کی تسخیر کا سبق پڑھنے والے مگر WAR OF ATTRITION کے منتہی ہیں۔ شہر پناہ کے کمزور دمدموں کی خبر رکھتے ہیں۔ قرائن کہے دیتے ہیں کہ صف بندی کر لی گئی ہے۔ ہیں گھات میں ابھی کچھ قافلے لٹیروں کے۔ یہ جو جاگ پنجابی جاگ کی صدا اٹھی ہے، یہ بےسبب نہیں۔ لشکر جمہور کے متزلزل سالاروں کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ قافلہ حجاز کے حسینی پیادے اپنی صفوں میں بد دلی کے منطقے پہچانتے ہیں۔ یہ دسمبر بھی ہم پر آسان نہیں گزرے گا۔ دسمبر اور مارچ میں ایک سہ ماہی کا تو فاصلہ ہے۔ جمہور اور پیوستہ مفاد کی لڑائی مارچ تک کھنچ گئی تو گومتی میں پانی چڑھ آئے گا۔ کولن کیمبل توپ خانے کی جدید ترتیب سمجھتا ہے اور دس برس سے اٹھارہویں آئینی ترمیم پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ ابنائے وطن کے لئے یہ امتحان نیا نہیں۔

ہم نے 1985ءمیں آٹھویں آئینی ترمیم اور 2003ءمیں سترہویں آئینی ترمیم کا امتحان دیکھ رکھا ہے۔ وفاق پاکستان کی اکائیوں سے جو وعدہ بابائے قوم اور ان کے رفقا نے مارچ 1940ءمیں لاہور کے منٹو پارک میں کیا تھا، اسے دستوری وعدے کی صورت دینے میں 33برس صرف ہو گئے۔ اس وعدے کی تکمیل میں مزید 37برس صرف ہوئے۔ 2010کے موسم گرما میں وفاقی اکائیوں کو خود مختاری عطا ہوئی تو ایک صاحب فراست نے سرعام کہا کہ یہ دستوری بندوبست چھ نکات سے بھی خطر ناک ہے۔ نئی نسل کو یاد دلانا چاہئے کہ دسمبر 1971میں یہ ملک چھ نکات پر نہیں ٹوٹا تھا، ابنائے وطن کے حقوق غصب کرنے کی خواہش کی بھینٹ چڑھا تھا۔ ہم نے ایک طرفہ مزاج پایا ہے۔ حقوق مانگنے والے غدار کہلاتے ہیں اور دستور میں بیان کی گئی غداری کی عذر خواہی کرتے ہیں۔ جمہوری مفاہمت کو مک مکا کہتے ہیں اور گٹھ جوڑ کو ایک پیج کہتے ہیں۔ اصطلاحات اسیران تغافل مت پوچھ۔ یہ دسمبر تو آئندہ برس مارچ کی پیش بندی کا موسم ہے۔ ابھی جانیے کہ دسمبر کا آنا تو موسموں کا الٹ پھیر ہے، دانائی اس میں ہے کہ دسمبر کے گزرنے کی تدبیر کی جائے۔ ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ باہم اہانت کی بے معنی مشق چھوڑ کر کچھ ایسا راستہ نکالنا چاہئے کہ ہمارے دیس پر مارچ کے شگوفے نمودار ہوں، ہمارے دسمبر ایک برس کی دانائی اور اگلے برس کی کامرانیوں کی نوید دیا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).