جیسے کہ نواز شریف


پاکستان کی سیاست میں مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ان پر غیرمنطقی تنقید سے آگے بڑھ کر ان کی ذاتی تذلیل کا استعمال پوری بے شرمی کے ساتھ جاری ہے۔ پہلے شرم و حیا اور تہذیب سے عاری سیاست کو گلی محلوں کے لفنگوں کی ہلڑبازی سے تشبیہ دی جاتی تھی لیکن اب یہ چند برسوں سے ہماری قومی سیاست کا لازمی جزو بن گیا ہے اور اس کا استعمال اپوزیشن کے علاوہ حکومتی سطح پر بھی بڑھ چڑھ کر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ سمجھدار اور عزت دار حکومت اپوزیشن کے ذہنی لیول پر جانے کی بجائے اپنا ایک اعلیٰ ظرف برقرار رکھتی ہے۔

جیسے کہ امریکہ میں جوبائیڈن نے اپنی حالیہ کامیابی کے بعد اعلان کیا کہ میں صرف اپنے ووٹرز کا نہیں بلکہ سب امریکیوں کا صدر ہوں گا۔ پاکستان میں اپوزیشن کے لیے حکومت کا رویہ ایسی بردباری سے بالکل خالی ہے۔ اگر موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت کے سب سے بڑے سیاسی مخالف نواز شریف کے بارے میں خود وزیراعظم عمرا ن خان، کابینہ ارکان اور دیگر پارٹی رہنماؤں کی تنقید کا جائزہ لیں تو وہ منطق اور تہذیب سے فارغ ہوتی ہے۔ دیگر الزامات کے علاوہ نواز شریف کی تذلیل کے لیے انہیں پی ٹی آئی کی طرف سے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی پیداوار کا طعنہ دینا بھی روزمرہ کا معمول ہے۔

نواز شریف پر مارشل لاء کی پروڈکٹ ہونے کا گناہ اب کس حدتک جائز اور منطقی ہے اس کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔ اگر چار مختلف قسموں کے زہر اکٹھے کیے جائیں اور ان میں سے ایک قسم کے زہر کو کسی حد تک قبول کر لیا جائے جبکہ دوسری قسم کے زہر کو بالکل ناقابل قبول کہہ دیا جائے تو زہر کے بارے میں یہ ذاتی پسند اور ناپسند کتنی غیرمنطقی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ معمولی سا شعور رکھنے والا ہر فرد بتا سکتا ہے کہ زہر کسی بھی قسم کا ہو جاندار کے لیے موت کا باعث ہوتا ہے۔

اسی طرح مارشل لا انقلابی ہو، اسلامی ہویا لبرل ہو، جمہوریت کے لیے قاتل ہی ہوتا ہے۔ اگر یہ منطق درست ہے تو جنرل ضیاء الحق کی نرسری میں پیدا ہونے والے سیاست دانوں اور جنرل پرویز مشرف کی نرسری میں پیوندکاری کے بعد بڑے ہونے والے سیاست دانوں میں کیا فرق ہے؟ اگر ہر قسم کے زہر کو انسانیت کا قاتل سمجھنے پر اتفاق ہے تو ہرقسم کے مارشل لا اور ان کی پروڈکٹس کو قبول نہ کرنے پر بھی اتفاق ہونا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی سیاست دان مارشل لاء کے عہد میں جوان ہوا ہو اور سیاست شروع کی ہو تو اس میں ایک قصور تو اس کی اس عمرکا ہے جو مارشل لاء دور میں جوانی کو پہنچی۔ یعنی وہ جمہوریت کے دور میں جوان کیوں نہیں ہوا؟ جیسے کہ نواز شریف۔ دوسرا یہ کہ وہی سیاست دان سیاسی شعور کی منزلیں طے کرتے ہوئے اگر سول سپرمیسی کی حمایت میں تن من دھن کی بازی لگانا شروع کردے تو پھر مارشل لاء کے دور میں اس کی سیاسی پیدائش کو الزام کی بجائے تعریفی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھنا چاہیے؟ کیونکہ جو فرد مارشل لا کے سکول میں سیاسی تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھا ہو وہی مارشل لا کے سبق کے خلاف سول سپرمیسی کا علم بلند کرے جیسے کہ نواز شریف۔

کیا یہ سیاسی ذہنی شعور کی بتدریج ترقی نہیں کہلائے گی؟ یا پھر یہ کیوں نہیں مان لیا جاتا کہ ہماری سیاست میں منطق کو دلیل کی بجائے ذاتی پسند اور ناپسند کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی ایک شخصیت ناقابل قبول اور جنرل پرویز مشرف کا سارا مارشل لاء کسی حد تک قبول ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے وزیراعظم محمد خان جونیجو اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے وزرائے اعظم میرظفراللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز کو کیا نواز شریف جتنا ہی برا بھلا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ سب بھی مارشل لاؤں کی زیرسرپرستی بننے والے وزرائے اعظم تھے؟

جنرل ایوب کے دور کے قائم مقام صدر فضل القادر چوہدری اور جنرل یحییٰ کے دور کے وزیراعظم و نائب صدر نورالامین بھی مارشل لائی دور میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والی اعلیٰ شخصیات تھیں۔ جنرل یحییٰ کے مارشل لاء دور کے وزیراعظم نورالامین کی قبر تو بانی پاکستان قائداعظمؒ محمد علی جناح کے مزار کے احاطے میں ہی ہے۔ اس کے علاوہ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے زیرسرپرست وزراء اور مشیروں میں کئی شخصیات سیاست سے ہٹ کر انٹرنیشنل سطح پر اپنی دانش ورانہ پہچان بھی رکھتی تھیں۔

ان مارشل لاء ادوار میں سامنے آنے والی اعلیٰ شخصیات میں سے کئی ایسی ہیں جنہوں نے مارشل لائی حکومت سے الگ ہونے کے بعد سول سپرمیسی کے لیے قدم بڑھائے اور ہم ان کی مارشل لائی دور کی پیدائش کو معاف کر کے سول سپرمیسی کے حق میں بڑھتے ان کے قدموں کے ساتھ اپنا قدم ملاتے ہیں۔ کیا چاروں مارشل لاؤں کے دوران حکومت کا حصہ بننے والی ایسی تمام شخصیات کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے یا ذلت کا حقدار نہیں ٹھہرانا چاہیے جیسے کہ نواز شریف؟

یاپھر ان شخصیات کی تذلیل اس لیے نہیں کی جاتی کہ وہ حکومت وقت کا ساتھ دے رہی ہوتی ہیں یاپھر غیرسرگرم ہونے کے باعث حکومت وقت کے لیے خطرہ نہیں ہوتیں۔ اس کا مطلب یہ ہو اکہ تنقید اور ذلت کا تعلق مارشل لاء کی پروڈکٹ سے نہیں بلکہ حکومت وقت کا ساتھ دینے یا نہ دینے سے ہے۔ سب کو 1987 ء کا کرکٹ ورلڈ کپ یاد ہوگا جب عمران خان کی قیادت میں ہماری ٹیم کو شکست ہوئی۔ عمران خان نے مایوس ہو کر کرکٹ چھوڑ دی۔ جنرل ضیاء الحق نے عمران خان میں اچھے کرکٹر کی چمک دیکھ لی تھی۔ عمران خان جنرل ضیاء الحق کی دعوت پر راولپنڈی کے فائیوسٹار ہوٹل میں مہمان ہوئے اور اس مہمان نوازی کے بعد انہوں نے دوبارہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو جوائن کر لیا۔ اگر جنرل ضیاء ہارے ہوئے مایوس عمران خان کو حوصلہ دے کر دوبارہ کرکٹ میں نہ لاتے تو عمران خان ورلڈکپ 92 کی ٹیم کے کپتان نہ ہوتے۔ اگر عمران خان 92ء کا ورلڈکپ نہ جیتتے تو شاید شوکت خانم ہسپتال نہ بنا پاتے جس کی مشہوری انہوں نے ورلڈکپ کی وننگ سپیچ میں بھی کی تھی۔

اگر عمران خان شوکت خانم ہسپتال اور ورلڈکپ کا اعزاز لے کر سیاست میں نہ آتے تو انٹرنیشنل شہرت حاصل نہ کرپاتے۔ کیا جنرل ضیاء الحق نے نواز شریف کی طرح عمران خان میں بھی کوئی چمکتا ہوا ہیرا نہیں دیکھ لیا تھا؟ کیا عمران خان کو بھی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی پروڈکٹ نہیں کہا جا سکتا؟ جیسا کہ نواز شریف۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).