ریل کا سفر: جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی


پیوست ہے جو دل میں وہ تیر کھینچتا ہوں

ایک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں

گاڑی میں گنگناتا مسرور جا رہا تھا

اجمیر کی طرف سے جے پور جا رہا تھا

(جوش ملیح آبادی کی نظم ”ریل کا سفر“ کا ابتدائی بند)

ریل کے سفر سے ہمارے رومانس کی ابتدا چھوٹی گیج کی ٹرین سے ہوئی۔ حیدرآباد تا کھوکھرا پار یہ پاکستانی علاقہ تھا اور مونا باؤ راجھستان سے آگے بھارت۔ اس سے پہلے کراچی ایکسپریس اور ریل کار کا سفر ہمیں اچھا لگا تھا۔ علی الصبح اماں جی کے ساتھ چھٹیوں میں ان ریل گاڑیوں میں سوار ہو کر کراچی ماموں کے گھر آ جاتے تھے۔ یہ سن ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی برس تھے۔ ریل کا یک طرفہ کرایہ چار روپے۔ وہ بھنا ہوا گوشت، تھرماس کی چائے، پوریاں، آلو، پراٹھے۔

ایک دن اماں جی کو خیال آیا کہ ہمارے جیسی بے تاب روح، پیدائشی پاکستانی، بے اعتباری کے قومی سرکے میں تربتر، سے جونا گڑھ، آبائی گاؤں ونتھلی اور والد کے شہر اور گاندھی جی کی جنم بھومی پور بندر کے قصے بیان کرنے کا کیا حاصل اگر اس کو ان مقامات کی Feel ہی نہیں آتی، یہ تو پرکھوں کی جاگیر، ان کے طمطراق کا کسی حوالے سے قائل ہی نہ ہوگا۔ سو اس کو چچا امیجی پٹیل (نانا)، اماں جی اور دیگر رشتہ داروں سے ملا کر لے آتے ہیں۔ سفر یوں ہوگا کہ ممبئی تک ریل اور ممبئی سے واپسی اسٹیمر ایس۔ ایس سابرمتی سے کراچی تک کا بحری سفر۔

]

ریل سے موناباؤ راجھستان سے جونا گڑھ، گجرات تک کا سفر ان دنوں لگ بھگ آٹھ سو میل کا ہے کل دورانیہ پورے ایک دن پانچ گھنٹے کا ہے مگر ان دنوں یعنی جولائی سن 1963 میں ڈھائی تین دن لگ جاتے تھے۔ مون سون کی وجہ سے سفر مزید آہستہ ہو جاتا تھا۔ ہمارے ذہن میں اس سفر کی بہت یادیں ہیں۔

آپ کا بچپن اور اس کے کندہ نقوش زندگی کے بہت بنیادی ذائقے اور حوالے بن جاتے ہیں۔ امریکہ میں دوران تعلیم پین اسٹیٹ یونی ورسٹی کے آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں ہم نے اپنی دوست سمانتھا ٹیلر سے کہا ماں دی موم بتیئے گھر سے دور ہیں، مدھانی کا رڑکا ہوا مکھن کھانے کو دل کرتا ہے۔

ایک دم پلٹ کر پوچھنے لگی۔ ”پہلے کھایا ہے یا مجھے دیکھ کر مستی سوجھی ہے؟“۔ ہم نے بتایا کہ ”ہم کس اہم میمن گجراتی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں، حویلی میں اپنے اصطبل اور باڑے ہوتے تھے۔ روہانسی ہو کر کہنے لگی یہ بچپن کے ذائقے بہت خوار کرتے ہیں۔ میں بارہ برس کی تھی جب ہمارے پڑوس میں رہنے والے ولسن ٹیلر نے مجھے چوما۔ ایسی چس پڑی کہ پھر کوئی مرد اچھا نہیں لگا۔ اسی کے پیچھے یہاں یونی ورسٹی چلی آئی اس کی رہائشی گرل فرینڈ ہوں اور تم جیسے لوزر کی دوست کی بن گئی۔ ہم نے کہا وہ ولسن ٹیلر جو اسٹنٹ مینجر ہے۔ بھوتنی کی اولاد، وہ تو تجھ سے پورے پندرہ سال بڑا ہوگا۔ پلٹ کر کہنے لگی تمہارے ملک میں کلینڈر دیکھ کر مرد، پپیاں، چمیاں لیتے ہوں گے۔ ہمارے سپر پاؤر دیس میں ایسا نہیں۔ دھیمے مرد مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ پرانی شراب جیسے۔ ہونٹ یوں چومتے ہیں گویا فلسطین کے کسی غار سے ملنے والا بائبل کا نایاب نسخہ ہوں۔

بہت دن بعد پیار میں جلنے والی ایک اہم شخصیت کی سر تا پا پیار ہی پیار بے شمار والی ویڈیو وائرل ہوئی تو ہم نے سمانتھا کو بہت یاد کیا کہ یوں لگا کہ ہمارے ہاں بھی بڑے اہم لوگوں کو قدیم نسخے بھی دستیاب ہو گئے ہیں۔ چوم چوم کر انہیں ورق ورق پڑھیں گے کتاب کی صورت۔

بدھ کے دن سمانتھا اپنی پرانی موٹر سائیکل لے کر اچانک ہمیں صبح چار بجے لینے آ گئی کہ چلو تمہیں Belleville لے چلوں۔ وہاں امیش لوگوں کا بدھ بازار لگتا ہے۔ وہاں مدھانی کا مکھن ہوگا۔ شہد، دیسی انڈوں گھر کی ڈبل روٹی کا ناشتہ بھی مل جائے گا۔ ہم نے کہا پراٹھا بھی؟ ناراض ہو کر جانے لگی کہ تم سب مرد ایک جیسے ہوتے ہو۔ چومتے ہی گال کاٹنے لگ جاتے ہو۔ ہم نے یوں اچانک آمد کا پوچھا تو کہنے لگی میری رات کو میاں ولسن سے لڑائی ہو گئی۔ میں برہنہ بیٹھ کر Conceptual art پر اسائنمنٹ کرتی تھی آندھیوں کے ساتھ ارادہ بدل گیا۔ میرا انکار، تکرار میں بدلا اور میں اسائنمنٹ مکمل کر کے کچھ دیر سو کر چلی آئی کہ چلو کم از کم دنیا میں ایک مرد تو مجھ سے خوش ہو جائے۔

امریکہ کے آمیش لوگ بہت عجیب ہیں۔ جرمن بائبل پڑھتے ہیں جو بہت حد تک زبانی ہے۔ انگریزی اور جرمن بولتے ہیں۔ میمنوں، طوائفوں اور فوج کی طرح اعلی تعلیم کو برا سمجھتے ہیں۔ تعلیم کا سلسلہ آٹھویں جماعت پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہوجاتا ہے۔ بجلی، بٹن اور کار استعمال نہیں کرتے۔ گھوڑا گاڑی ذریعہ آمد و رفت ہے۔ سیدوں کی طرح شادیاں بھی آپس میں کرتے ہیں اس لیے مورثی بیماریاں بھی بہت عام ہیں۔ سید اس اعتبار سے ذرا لبرل ہیں کہ ان کی لڑکیاں کم از کم باہر عشق تو لڑا لیتی ہیں۔ آمش لڑکیاں سعودیوں خواتین کی طرح بت مغرور ہیں۔ دیگر مردوں کو کم تر جان، مان کر ان کی طرف دیکھتی تک نہیں۔ عورتوں کو فرحت ہاشمی والے کام کرنے کی اجازت نہیں۔ یوں ان کے ہاں مولانا طارق جمیل تو بہت ہیں مگر فرحت ہاشمی ایک بھی نہیں۔ کیمرے کا استعمال نہیں کرتے۔ سمانتھا نے بتایا کہ اگر دوران حمل آمیش عورت کو کسی بات سے خوف محسوس ہو تو یہ خیال غالب آ جاتا ہے کہ بچے کے بدن پر کوئی نہ کوئی نہ برتھ مارک ہوگا۔ کہنے لگی میرے بدن پر بھی ایک برتھ مارک ہے مگر وہ دکھانے والی جگہ پر نہیں۔ ولسن ٹیلر سے اگر میری لڑائی نے طول پکڑا تو پھر دیکھ لینا۔ عورتوں کو بھی غصہ آ سکتا ہے۔ ہم نے بھی کہا کہ ہمیں غصیلی عورتیں ہی اچھی لگتی ہیں۔

بات ریل کے سفر سے شروع ہوئی تھی۔ ان دنوں ہمارے زیر مطالعہ Around India in 80 Trains نامی کتاب ہے جس کو لکھنے کا محرک جولز ورن کی کتابAround the World in Eighty Days بنی تھی۔ کتاب کی مصنفہ مونیشا راجیش کے ڈاکٹر والدین کا تعلق تامل ناڈو سے تھا۔ وہ انگلستان جا بسے۔ یہ ادھر ہی پیدا ہوئیں۔ کچھ برس بعد یہ لوٹ آئے مگر جلد ہی انگلستان کی یاد ستانے لگی ہندوستان میں چوہوں نے بہت تنگ کیا تو انگلستان واپس لوٹ گئے۔

مونیشا بہت اہم اداروں سے وابستہ صحافی رہی ہیں۔ جن میں ٹائم میگزین، برطانوی اخبارات گارڈین، دی ٹائمز اور اور دی ویک جیسی مطبوعات شامل ہیں۔ بھارتی نژاد افراد نے مغرب کو خوب سمجھا اور لوٹا ہے۔ کمالا حارث، نکی ہیلی، اور اب جو بائیڈن کی ایک اور قریبی ساتھی میرا ٹنڈن۔

مونیشا راجیش کی کتاب کا انتساب ہی جان لیوا ہے بالکل اروندھتی رائے کی The God of Small Things جیسا۔ ان کی کتاب میں پبلشنگ ایجنٹ کو یوں یاد کیا گیا ہے کہ David Godwin, For making the waters part. (ڈیوڈ گوڈون۔ جنہوں نے سمندر پھاڑ کر راستہ بنایا)۔

مونیشا نے اپنی کتاب اس ننھے منے وجود بے بی راجیش کے نام کی ہے مگر بیان بہت دل گداز ہے کہ

for Baby Rajesh who is still on board… May all your journeys be filled with adventure.

(بے بی راجیش کے نام جو میرے اندر سفر میں ہے۔ رام کرے ایسا ہو جائے کہ زندگی کی تمام مسافتیں دلچسپیوں سے بھری رہیں)۔ ہم نے ترجمے کی کوشش تو کی ہے مگر still on board ایک ماں کے حوالے سے جو جذبات کی تہہ در تہہ نزاکت ہے اس کا بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں۔

مونیشا کا 40,000 کلومیٹر کا یہ ایڈونچر بہت دل چسپ ہے۔ یہ سفر انہوں نے اپنے ایک مرد فرانسیسی ساتھی Jean Passepartout کی رفاقت میں کیا۔ سچ پوچھیں تو سیاحت اور سفر کا اصل لطف ہی ایک جوڑے کی صورت میں آتا ہے۔ ہم نے ساٹھ ملکوں کی سیاحت میں ان سیاحوں کو سب سے پرمسرت اور لطف اندوز ہوتے پایا جو ایک ساتھ جوڑے کی صورت میں نکلے تھے۔ قونیہ ترکی میں ہمیں ایک جوڑا ملا تھا۔ تلنگانہ کا بھارتی مرد۔ یونی ورسٹی کا انجنیئرنگ کا پروفیسر اور اس کی آدھی عمر کی حسین گوری امریکی شاگرد۔ اسفنج کے چپل، برمودا، ٹی شرٹ، مسافتوں کا غماز رول آن بیگ اور دونوں کے بیک پیک۔ اس کے بعد سے ہمارا دل مسجد کی جانب بھی اکیلے جانے کو نہیں کرتا۔ ہمارے پڑوسی آصف میاں تہجد سے سے تیار ہو کر فجر تک جگاتے ہیں تب جا کر ہم کہیں فجر کی نماز میں پہنچتے ہیں۔

چار ماہ کی اسی ٹرینوں کا یہ سفر نامہ بہت خوب ہے۔ دنیا میں بھارت سے زیادہ مست اور چالاک انگریزی بولنے اور لکھنے والے کہیں نہیں پائے جاتے۔ دوسروں کا کیا کہیں ہمارے اسد الدین اویسی صاحب صدر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین جن کی دلیری سے بھارت گھبراتا ہے۔ ان کی انگریزی گفتار سنیں۔ لوک سبھا میں بولتے ہیں تو ان کو سن مودی جی کو پسینہ آ جاتا ہے۔ کہیں بھی غصہ اور بد تہذیبی نہیں کرتے مگر بات ایسی مدلل اور ٹھوک کر کرتے ہیں کہ اثر کرتی ہے۔ ان کو سن کر شہباز شریف اور صابر شاکر صاحب کو سنیں تو لگتا ہے تو کسی ڈھنگ کی انگریزی کتاب کے قریب بھی نہیں گئے۔ ایسا ہی معاملہ اداکارہ کنگنا رناوت کا ہے بہت پڑھی لکھی نہیں مگر جس اعتماد سے اس پیر فرتوت سدھ گرو کو ایک پروگرام میں دھواں دھواں کیا اور بھارت میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے مظاہرے کے طور  Lynching Mob (ہجوم ہلاکت) کے بارے میں ان کے مصلحت پسندانہ بزدل طرز فکر کو اجاگر کیا اس پر ان کی اخلاقیات اور انسان دوستی کی منافقت پر بڑے سوال اٹھے۔

مونیشا کا لکھنے کا انداز بھی دیگر بھارتی انگریزی صحافی اور مصنفوں جیسا ہے۔ اس میں آپ خوشونت سنگھ، رعنا ایوب، ایم جے اکبر، برکھا دت اور شوبھا ڈے کا بارہ مسالے والا ذائقہ چکھ سکتے ہیں۔ وہ بہت سادہ انداز میں اپنے ہم سفروں کو مذاق بھی بناتی ہیں اور بھارت کی وہ عام عوامی زندگی جو کنیا کماری سے کشمیر تک پھیلی ہے اس کا ایک اجمالی جائزہ لیتی رہتی ہیں۔ مونشا راجیش کی سب سے بڑی خوبی جو اس سفر نامے کو بے حد دل چسپ اور ایک پاکستانی قاری کے لیے انوکھا بناتی ہے وہ ان کے سفر کا صحافتی انداز بیان ہے۔ اس وجہ سے وہ کہانی کے تمام اہم ترین لوازمات کو چینی شعبدہ باز کی گیندوں کی طرح نچاتی رہتی ہیں۔ یہ جزیات، واقعہ، کردار اور محل و وقوع زبان و بیان کی گیندیں ہیں جو ایک دائرے کی صورت میں ایک ہاتھ سے اچھل کر فضا میں ناچتے ہوئے دوسرے ہاتھ میں پہنچ جاتی ہیں۔ صحافت کی بنیادی تربیت یہ ہے ہوتی ہے کہ واقعہ میں خبر کی کھوج لگاؤ اور خبر میں دل چسپی کا مچلتا ہوا پہلو اجاگر کرو، یہ اہم ترین پہلو اس پورے سفر نامے کو کسی بھی جگہ پر بوجھل اور تحقیقی طور پر ثقیل نہیں ہونے دیتا۔ ان کا بیان سادہ دل چسپ اور گدگداتا رہتا ہے۔ اس سفرنامے کے مطالعے میں ہمیں ہر وقت کہ مونیشا کے جملوں اور الفاظ کی کاٹ میں شوخ اور محتاط دلفریب مسکراہٹ کی وہ جھلک دکھائی دیتی رہی جس کے بارے میں مجروح سلطان پوری نے کہا تھا

جھکی جھکی پلکوں میں آ کے۔

دیکھو گپ چپ آنکھوں سے جھانکے

تمہاری ہنسی

ابھی ابھی آنکھوں سے چھلکے

ابھی کچھ کچھ ہونٹوں پہ ڈھلکے

تمہاری ہنسی

اس پر یہ بھی بہت کمال ہے کہ اسی مختلف ٹرینوں میں بے شمار قسم کا مختلف ماحول کا احوال ایک گجراتی گربے کا سماں پیدا کرتا ہے۔

انگریزوں کا دعوی تھا کہ جنگ آزادی سے پہلے انہوں نے ڈاک، ریونیو، سول سروس، فوج اور ریلوے سے ایک لڑی میں پرو دیا۔ ان کی آمد سے پہلے بھارت پسماندہ عیاش راجاؤں اور نوابوں کا ایک خطۂ چشمک اور سازشوں کا گڑھ تھا۔ وہ آئے تو حکومت، عدل، قانون تعمیرات کا دور شروع ہوا۔ ان سے پہلے بھارت میں کوئی کالج کوئی جامعہ نہ تھی۔ سن 1632 میں جب تاج محل بنا تو اس سے چار سو سال پہلے 1209 میں کیمبرج اور اس سے بھی دو سو سال پہلے 1096 میں آکسفورڈ کی جامعات وجود میں اچکی تھیں۔ ہندوستان کے راجے مہاراجے، نواب، سردار یا تو عورتوں سے کھد بد کرتے حرم بناتے تھے یا مندر، مسجد، شوالے، محل چوبارے، باغات اور مزارات، انہیں درسگاہ بنانے کا خیال کبھی نہ آیا۔

ریل انہوں نے جنگ آزادی سے چار سال پہلے بمبئی میں چلا دی تھی۔ دو اسٹیشنوں تھانے اور ممبئی کے درمیان پینتیس میل کا سفر تھا۔

مونیشا راج اور ان کے ساتھ جین کا سفر جس کا آغاز سن 2010 میں کنیا کماری (کنیا کماری بھارت کا جنوب ترین شہر ہے)۔ مدراس کے پاس ہوا اور اس کا اختتام کشمیر میں یہ کل چار ماہ پر محیط تھا۔ یوں یہ سفر دنیا کے دائرے کے برابر کی مسافت ہے۔ ان کی سب سے طویل سفر والی ٹرین تو ہیم ساگر ایکسپریس یعنی ہمالیہ ساگر ایکسپریس کا سفر تھا جو لگ بھگ 2750 کلو میٹرتھا اب ہیم ساگر ایکسپریس کو ان کی ویویک ایکسپریس نے پانچ سو کلو میٹر سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

کتاب مطالعے کے دوران آپ کو یوں لگتا ہے کہ بھارت ہماری طرح کئی صدیوں میں جیتا ہے۔ ہمارے ہاں تو کسی ادارے میں بھی آپ کو مکمل طور پر بیسویں صدی کی علامات بھی کامل انداز میں نہیں دکھائی دیتیں مگر بھارت جسے دنیا بھر میں سیاحت کے اعتبار سے مشہور تو مانا جاتا ہے مگر سیاحوں کی وہ نمبر ون منزل نہیں۔ خود ایشیائی ممالک میں بھی بھارت ساتویں نمبر کی مملکت برائے سیاحت ہے۔

جب اعداد و شمار کی بات ہو تو وہاں ہانگ کانگ سے بھی آدھے اور کراچی میں ڈیفنس جتنے علاقے کے برابر ملک سنگاپور سے صرف چالیس لاکھ زیادہ، یعنی سالانہ کل ڈیڑھ کروڑ سیاح آتے ہیں۔ (بھائی اقبال دیوان، 23 کروڑ آبادی کے اپنے ملک میں آنے والے سالانہ سیاحوں کی تعداد بھی بتا دی ہوتی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں 10476 سیاح پاکستان آئے۔ 2018ء میں یہ تعداد غیرت کھا کر 17823 ہو گئی۔۔۔ و۔ مسعود)

منیشا کا بیانیہ آخر میں آن کر آپ کو چمکیلے مزاح سے بھرپور ایک ایسا ڈرامہ لگتا ہے جس میں فساد اور ہنگامے سے بچ بچا کر اپنے سفر پر دھیان دیا گیا ہے۔ اس کی پہلی مثال تو وہ ہے جب مدراس سے ان کے ساتھ بیٹھے ادھیڑ عمرمسافر پربھاکر رات کے اندھیرے میں ان کی ٹانگوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کمبل کے اندر سے گریباں کی تلاشی لینے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ان سے الجھنے کی بجائے اپنے رفیق سفر کی بالائی نشست پر جا کر دراز ہو جاتی ہیں اور عین اس لمحے ان کی نگاہ Harrassing women passengers is punishable offen ce  والے بورڈ پر پڑتی ہے (خواتین مسافروں کو ہراساں کرنا قابل سزا جرم ہے) جسے وہ مسکرا کر پڑھ کر آنکھیں موند لیتی ہیں۔ مونیشا کو حیرت ہوتی ہے کہ یہ بھارت کے مسافر خاندان کے خاندان، کتے، بکریوں، چولہوں سمیت ٹرین میں چڑھ جاتے ہیں۔ وہاں ہر قسم کا گھریلو منظر نامہ بھی ہوتا ہے اور اتنی بھیڑ بھاڑ میں ہر قسم کی اچھی بری وارداتیں بھی دھڑلے سے جاری رہتی ہیں۔

ہم دوستوں سے کہتے ہیں بھارت پر رج کر نظر رکھیں۔ ان کے بارے میں جو بھی ملے پڑھیں جو کچھ بھی سیکھنا ہے ان سے سیکھیں۔ آپ نے گاڈ فاد تو دیکھی تھی نا اس کی دو باتوں کو کم از کم اپنے دشمنوں کے حوالے سے تعویز بنا کر گھول کر پی لیں۔ پہلی بات

Keep your friends close, but your enemies even closer.

(اپنے دوستوں کو قریب مگر دشمنوں کو قریب تر رکھیں۔)

اور دوسری بات

Never hate your enemies. It affects YOUR JUDGMENT

(اپنے دشمن سے کبھی نفرت نہ کریں اس سے آپ کی قوت فیصلہ مسخ ہوجاتی ہے۔)

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan