اردو کی 13 ویں عالمی کانفرنس تشنگی کا احساس لیے اختتام کو پہنچی


خیال یہی تھا کہ کوڈ 19 آرٹس کونسل آف پاکستان کی انتظامیہ کو کورونا کی دوسری شدید لہر کانفرنس کو آگے بڑھا دے گی۔ لیکن منتظمہ کورونا کو خاطر میں نہ لائی اور اردو کی 13 ویں عالمی کانفرنس طے شدہ دنوں میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ اس فیصلہ پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب بھی ہو گئی۔ آرٹس کونسل کے روح رواں احمد شاہ صاحب عہدہ کچھ بھی ہو لیکن وہ گزشتہ کئی سالوں سے کونسل کا بوجھ کامیابی سے اٹھائے ہوئے ہیں۔

افتتاحی اجلاس میں ان کا فرمانا تھا کہ ”وہ 13 سال قبل شروع ہونے والی روایت کو زندہ رکھنا چاہتے تھے“ ۔ روایات زندہ رہیں اچھی بات ہے لیکن روایت پھر روایت ہوتی ہے، برقرار رہیں تو مناسب اگر نامساعد حالات اور خوف کی فضاء کی وجہ سے برقرار نہ بھی رہیں تو کوئی قیامت نہیں آجاتی۔ کانفرنس سے جڑی بعض روایات بھی ہیں جو نامساعد حالات کے باوجود قائم رہیں تو اچھا ہوگا۔ ایس او پیز پر سختی سے عمل ہوا، یہ بھی اچھی بات رہی، سرکار کی چاہت ہو تو تمام پابندیاں ہوا ہوجاتی ہیں۔

کانفرنس میں بشمول بھارت کئی ممالک سے اردو کے متوالوں کی شرکت نظر آئی، باہر سے آنے والوں نے بہادری کا ثبوت دیا، وہ قابل ستائش ہے، بھارت کے بعض ادیبوں نے ویڈیو لنک پر اپنا اظہاریہ بیان کیا، ہم جیسے اسی شہر کے باسی ہونے کے باوجود بھی یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ ہم کانفرنس میں شرکت کی سابقہ روایت کو برقرار رکھیں، بس حسرت بھری اور للچائی ہوئی نظروں سے آرٹس کونسل کے فیس بک پیج پر پروگرام دیکھ کر اپنے آپ کو تسلی دیتے رہے اگر زندگی رہی تو آئندہ اپنے اس عمل کو ضرور جاری رکھیں گے۔

ہم جیسے چھوٹے موٹے لوگ تو ویسے بھی آرٹس کونسل کے ممبر نہیں، ایک دو بار کوشش بھی کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ خیر ہم نے ممبر بن کر کیا تیر مارنا تھا، یہی کچھ ہوتا کہ ہمیں بھی صاحب بہادر کی جانب سے اجازت نامہ مل جاتا، اب ہماری مرضی ہوتی کہ جائیں یا کورونا سے ڈر کر گھر بیٹھ جاتے۔ مجموعی طور پر کانفرنس کے انعقاد پر منتظمین کو خاص طور پر دیگر ممالک اور دوسرے شہروں سے آنے والے اردو کا درد رکھنے والوں اور کراچی سے تعلق رکھنے والے اردو کے پروانوں کو دلی مبارک باد، دعائیں بھی کہ مجمع میں جس چیز کا خطرہ بیان کیا گیا ہے تمام اس سے محفوظ رہیں۔

مجمع پھر مجمع ہوتا ہے، ماسک لگائے رکھنا، سینی ٹائزر کے استعمال، سماجی فاصلے کے ساتھ مجمع جائز نہیں ہوجاتا، اگر یہ کلیہ درست مان لیا جائے تو پھر پی ڈی ایم کے مجمعے جو ایس او پیز کے ساتھ منعقد کرنے کی درخواست کے ساتھ اجازت چاہی جاتی ہے تو وہ بھی درست ہے انہیں بھی اجازت ہونی چاہیے۔ اب جو کام ہو گیا اس کا کیا گلہ کرنا اللہ سب ادیبوں اور شاعروں کو محفوظ رکھے۔

افتتاحی اجلاس جمعرات 3 دسمبر 2020 ء کو آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوا، صدارت معروف شاعرہ زہرہ نگاہ نے کی اجلاس میں صوبائی وزیر ثقافت بھی شریک تھے۔ اسٹیج پر جو ادیب بیٹھے دکھائی دیے ان میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی، حسینہ معین، نور الہدیٰ شاہ، شاہ محمد مری، زاہدہ حنا، یوسف خشک، اسد محمد خان، پروفیسر سحر انصاری، احمد شاہ، قدسیہ اکبر شامل تھے ویڈیو لنک پر بھارت کے شمیم حنفی، گوپی چند نارنگ، لاہور سے یاسمین حمید اور افتخار عارف شریک تھے۔

کانفرنس کے دوسرے دن ’اردو ناول کی ایک صدی‘ کے عنوان سے سیشن ہوا، ڈاکٹر قاضی عابد، نقاد ضیا ء الحسن، ناول نگار حمید شاہد نے ناول نگاری کے حوالے سے مقالات پیش کیے۔ ’اردو غزل کے سو سالہ منظرنامے‘ میں کئی معروف شاعروں اور ادیبوں نے اظہار خیال کیا ان میں ڈاکٹر شاداب احسانی، ڈاکٹر ضیا الحسن، فہیم شناس کاظمی، ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر اور ڈاکٹر رخسانہ صبا شامل تھیں۔ اردو نظم سو برس کا قصہ ایک سیشن کا موضوع تھا ”اردو تنقید اور تحقیق کے سو برس“ ، صدارت بھارت میں بیٹھے ماہر تعلیم، ادیب و نقاد شافع قدوائی نے ویڈیو لنک پر کی۔ حمیدہ شاہین نے لاہور سے ویڈیو لنک پر اس موضوع پر اظہار خیال کیا۔ آخری دن لندن سے رضا علی عابدی نے ’بچوں کے ادب ”کے عنوان سے ہونے والی گفتگو میں بھی ویڈیو لنک پر خطاب کرتے دکھائی دیے۔ اس موضوع پر مصنفہ نیر رباب، سلیم مغل اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

کانفرنس میں متعدد اہل دانش نے خطاب کیا، کانفرنس کے منتظمین کی تعریف کی اور موجودہ مشکل حالات میں کانفرنس کا انعقاد قابل تعریف عمل قرار دیا گیا۔ کانفرنس میں کئی سیشن ہوئے کئی نامور ادیبوں نے شرکت کی جیسے افتخار عارف، ضیاء محی الدین، انور مسعود اور دیگر۔ یاد رفتگان کے حوالے سے ڈاکٹر آصف فرخی، مسعود مفتی، مظہر محمود شیرانی، سرور جاوید، عنایت علی خان، راحت اندوری، اطہر شاہ خان کو یاد کیا گیا۔ کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا جیسے کے سابقہ کانفرنسوں میں ہوتا چلا آیا ہے۔ کانفرنس میں پشتو پنجابی، سرائیکی، بلوچی زبانوں کے ادب کے سو برس کے عنوان سے بھی اجلاس ہوئے۔ نعتیہ اور رثائی ادب کی ایک صدی بھی ایک سیشن کا عنوان تھا۔ کانفرنس میں متعدد کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی ان میں مبین مرزا کی کتاب ارژنگ، حمرا خلیق کی کتاب ’کلام رابعہ پنہا‘ ، تنویر انجم کی کتاب ’نئی زبان کے حروف‘ ، کاظم سعید کی کتاب ’دو پاکستان‘ ، مسعود قمر کی کتاب ’بارش بھرا تھیلا‘ ، طاہرہ کاظمی کی کتاب ’کنول پھول اور نیکیوں کے پنکھ‘ ، سلطان احمد کی کتاب ”شاعر، مصور، خطاط صادقین ’، عارف کی‘ راگنی کی کھوج ’، بھیشم ساہنی کی“ امرتسر آ گیا‘ ، شکیل جاذب کی نمی دانم ’، کے علاوہ ڈاکٹر آصف فرخی کے جریدے کا آخری شمارہ ”دنیا زاد“ اور نیویارک کا جریدہ ”ورثہ“ کی تعارفی نشستیں منعقد ہوئیں۔

کانفرنس کے اختتام پر متعدد قراردادیں منظور کی گئیں۔ مجموعی طور پر کانفرنس لمحہ موجود کے گمبھیر اور خوف زدہ حالات میں ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے لیے خوش گوار لمحات کا میسر آجانا تھا۔ احمد شاہ صاحب نے آئندہ کانفرنس کی تاریخوں کا اعلان بھی کیا۔ آخر میں بس اتنا کہ جو بات جسمانی طور پر کانفرنس میں شرکت کی ہوتی ہے فیس بک پیج پر کہا حاصل ہوتی ہے۔ اردو کی 13 ویں عالمی کانفرنس تشنگی کا احساس لیے اختتام کو پہنچی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).