توہین مذہب کے تناظر میں شارٹ فلم ’سوائپ‘۔


پاکستان میں توہین مذہب و توہین رسالت کے بارے میں بات کرنا جوئے شیر لانے سے مترادف ہے۔ اس معاملے کو مذہبی حلقوں نے اس حد تک حساس بنا دیا ہے کہ اس پر کسی قسم کی بات کرنا بھی توہین کے زمرے میں ہی سمجھا جاتا ہے۔ عرفات مظہر کو بہت سے لوگ نہیں جانتے مگر عرفات وہ جری انسان ہیں جنہوں نے پاکستان میں رہتے ہوئے یہ بتانا شروع کیا کہ فقہ حنفیہ کی رو سے توہین مذہب کی سزا مطلق موت نہیں ہے بلکہ اس میں معافی کی بھی گنجائش ہے۔

عرفات مظہر سے ہمارا تعارف ڈان میں توہین رسالت و مذہب کے مضامین کے ذریعے ہوا۔ ڈان میں چار مضامین کے ذریع عرفات نے وہ بت توڑے جو بچپن سے سر تن سے جدا کے نعرے سن سن کر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہاں تو بات بھی کرنا توہین کے زمرے میں آ جاتا ہے۔ عرفات مظہر کے تبحر علمی کا اندازہ ان کے مضامین پڑھ کر لگایا جا سکتا ہے :

https://www.dawn.com/news/1149558/the-untold-story-of-pakistans-blasphemy-law
https://www.dawn.com/news/1154856/the-fatwas-that-can-change-pakistans-blasphemy-narrative
https://www.dawn.com/news/1163596/why-blasphemy-remains-unpardonable-in-pakistan
https://www.dawn.com/news/1215304/blasphemy-and-the-death-penalty-misconceptions-explained

مضمون کی تمہید ذرا لمبی ہو گئی مگر عرفات مظہر کو جانے بغیر مضمون کی افادیت کھو جاتی۔ عرفات مظہر نے معاشرے میں توہین رسالت و توہین مذہب کی گہری اور پھیلی ہوئی جڑوں کو اور اس کے بھیانک نتائج کو سمجھانے کے لئے ایک چھوٹی سی اینیمیٹڈ فلم بنائی ہے جس کا نام ہے سوائپ Swipe یعنی موبائل پر دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں انگلی پھیر کر سکرین بدلنا۔ چودہ منٹ کی فلم ہے اور دل چیر کے رکھ دیتی ہے۔ فلم پر بات کرنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ اس فلم پر یہ میری ذاتی رائے ہے اور تشریح بھی میری ہی ہے، جو کہ فلم بنانے والے سے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔

یہ کہانی ہے ایک جگنو نامی لڑکے کی جو کہ ہر وقت موبائل میں مگن رہتا ہے اور اپنی ماں سے اس وجہ سے ڈانٹ بھی کھاتا ہے۔ فلم کا آغاز گند پر مکھیوں کی بھنبناہٹ اور کووں کی کاؤں کاؤں سے ہوتا ہے جو کہ بہت لطیف انداز سے معاشرے کے شرمناک پہلو پر شور و غوغا کا پرتو دکھایا گیا ہے۔ فلم شروع ہوتی ہے جب اینکر ایک آئی فتوی نامی ایپ کے بارے میں ایک مولانا سے رائے جاننا چاہتی ہیں اور مولانا کا کہنا یہ ہے کہ یہ مذہبی معاملہ ہے اور اس طرح ایپ میں ووٹنگ کے ذریعے اس طرح کے نازک مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ یہاں پر انتہائی خوبصورتی سے عرفات مظہر نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ توہین رسالت کے الزام کے تحت عوام الناس کا بلوہ کر کے کسی ملزم کو سر بازار مار دینا کسی صورت بھی درست نہیں ہے۔

فلم میں جس آئی فتوی ایپ کا ذکر ہے اس میں ملزم کی تصویر اور اس کی توہین سکرین پر آتی ہے اور دائیں سوائپ کر کے ملزم کو واجب القتل جبکہ بائیں سوائپ کر کے ملزم کو معافی دی جا سکتی ہے۔ فلم چونکہ فکشن پر مبنی ہے اس لئے عرفات نے توہین کے معاملے پر ردعمل کو ڈارک ہیومر کے ذریعے ناظرین کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً ایک خاتون کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے کہ دوپٹے کا زاویہ نامناسب، ایک تصویر کے ساتھ مسواک کی بے حرمتی اور ایک تصویر کے ساتھ حور کی بے حرمتی کو توہین مذہب دکھایا گیا ہے۔

فلم اسی طرح چلتی ہے کہ جگنو دھڑا دھڑ واجب القتل کے فتوے صادر فرماتا ہے اور اسی تیزی میں اپنے ابا کی تصویر پر بھی واجب القتل کا سوائپ کر دیتا ہے جن پر انشاء اللہ کے IA کو چھوٹے حروف میں لکھنے کا الزام ہے۔ جب تک جگنو کو احساس ہوتا ہے اور وہ گھر دوڑتا ہے تب تک بلوائیوں نے اس کے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہوتی ہے۔ عرفات نے جتنے کم سے کم وقت میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ توہین کی آگ ہمارے گھروں تک اس تیزی سے پہنچے گی کہ ہمیں خبر بھی نہ ہو سکے گی وہ عرفات کا ہی خاصا ہے۔

فلم کی ایک خاص بات اس کا آخری سین ہے جو کہ اینیمیٹڈ نہیں ہے۔ اس میں کچھ چھوٹی عمر کے لڑکے ایک گڑیا کو آسیہ کہہ کر گستاخ رسول کی ایک ہی سزا سر تن سے جدا سر تن سے جدا کے نعرے لگا کر دھاگے کے ساتھ اس گڑیا کو پھانسی لگا دیتے ہیں۔ فلم کے آخر میں احمد فراز کی نظم کے ساتھ میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ عرفات مظہر کی حفاظت کرے کہ وہ تاریکی کے شہر میں دیے لے کر کھڑا ہے۔

تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیو ں لہراتے ہو
جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے

فلم کو آپ یو ٹیوب کے اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔ ضرور دیکھیں اور معاشرے میں پر امن تبدیلی کے داعی بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).