پاکستان میں جمہوریت اور افغان امن


1970ء کے دہائی کے آخر میں، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد سے، پاکستان میں سیاسی اور عسکری قوتوں مین اشتراک اقتدار کا ایک طرفہ نمونہ حکومتی بندوبست کی مستقل خصوصیت بن چکا ہے جس میں عسکری قوتوں کو بالادست حیثیت حاصل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حکومتی بندوبست میں فوجی قیادت کو ملکی سلامتی اور خارجہ امور کی فیصلہ سازی میں بھی فیصلہ کن کردار مل گیا ہے۔

پاکستان کی افغان پالیسی پر فوج، خاص طور پر انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی ایس آئی) کا اختیار اس حد تک مکمل ہے کہ سیاسی قیادت، خواہ وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں، بظاہر اس معاملے سے پوری طرح بے دخل نظر آتا ہے۔ عسکری بالادستی میں کام کرنے والی ماتحت سیاسی حکومتیں بھی افغان پالیسی مین محض علامتی عمل دخل پر قانع نظر آتی ہیں اور صرف تبھی کوئی پیش قدمی کرتی ہیں جب انہیں فوج کی طرف سے ایسا کرنے کا اشارہ ملے۔ وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ کابل اس کی واضح مثال ہے جو افغان حکام کے ساتھ تصویریں کھنچوانے کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔

پاکستان کی افغان پالیسی پر فوج کی اجارہ داری اس حد تک مسلمہ ہے کہ بین الاقوامی قوتوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کر رکھا ہے۔ چنانچہ اس امر پر شاید ہی کبھی کسی کو حیرت ہوئی ہو کہ افغانستان کے لئے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور دیگر امریکی عسکری رہنما گزشتہ دو برس کے دوران جب بھی اسلام آباد آئے تو سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کے بجائے افغان امن پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے ہمیشہ براہ راست جی ایچ کیو جاتے رہے۔

تاہم یہ امر قابل توجہ ہے کہ پاکستان میں فوج کا غلبہ صرف ملک کی افغان پالیسی تک ہی محدود نہیں بلکہ سیاست اور معیشت سمیت ریاستی حاکمیت کے تمام ممکنہ کلیدی معاملات پر محیط ہے۔ عام طور پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کہلانے والی قوت کی طرف سے مصنوعی طور پر سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو پروان چڑھانا اور پھر دھاندلی زدہ انتخابی عمل کے ذریعے انہیں اقتدار میں لانا اب ایک زبان زد عام حقیقت ہے۔ احتساب کے نام پر اپوزیشن کے سیاسی رہنماؤں کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں فوج کی تائید ایک کھلا راز ہے۔ اسی طرح ، فوج کی تعمیراتی کمپنی (فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن) اور ٹرانسپورٹ کمپنی (نیشنل لاجسٹک سیل) باضابطہ بولی یا کھلے مقابلے کے بغیر پبلک سیکٹر کے تمام میگا پروجیکٹس حاصل کرتی ہیں۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فوج کے زیر انتظام ریئل اسٹیٹ کا ایک بہت بڑا کاروبار ہے۔ حال ہی میں ایک ریٹائرڈ جنرل عاصم سلیم باجوہ کو سی پیک اتھارٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے امور کی قیادت کر رہا ہے۔ حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسروں کو کلیدی سویلین آسامیوں پر مقرر کیا جاتا ہے۔ عسکری ادارے کی بالادستی کی یہ مثالیں ایک طویل فہرست کی محض ایک جھلک ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ، ریاست اور معاشرے کا عسکری تشخص اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اس نے ملک کے سیاسی اور کاروباری طبقات کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ 2014ء میں نواز شریف کی زیرقیادت مسلم لیگ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے خاموش پیش قدمی شروع کی گئی اور اس کے بعد عسکری بالادستی کا عمل ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا۔ جولائی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں عسکری قوتوں کی کھلی مداخلت کے بعد پچھلی دہائیوں کی ہائبرڈ (مخلوط) جمہوریت اب ہائبرڈ مارشل لا میں تبدیل ہو گئی ہے۔

حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں سول عسکری تعلقات میں انتہائی عدم توازن کے خلاف مزاحمت کرنے پر مجبور ہوگئیں کیونکہ انہیں عسکری بالادستی کے گہرے ہوتے سایوں میں اپنی بقا خطرے میں نظر آ رہی ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے سوال پر خاموشی اور خوف کو توڑنے کا کریڈٹ بھی پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو جاتا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ نے دو برس قبل اس معاملے پر تب کھل کر آواز اٹھائی جب کوئی دوسرا اس موضوع پر زبان کھولنے پر تیار نہیں تھا۔

پاکستان میں موجودہ سیاسی قطبیت کی تین خصوصیات ایسی ہیں جو اسے ماضی کے تجربات سے ممیز کرتی ہیں۔

اول: فوج کے تسلط کی سیاسی مزاحمت میں پہلی مرتبہ پنجاب کے عوام بڑے پیمانے پر شامل ہوئے ہیں۔ پاکستان میں فوج اور کاروباری طبقے کا زیادہ تر حصہ پنجاب سے تعلق رکھتا ہے، جو آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ تین بار منتخب ہونے والے (اور ہر بار عسکری حلقوں کے پس پردہ ہتھکنڈوں کا شکار ہونے والے) سابق وزیر اعظم نواز شریف لندن میں جلاوطنی کی حالت میں حالیہ مزاحمت کی قیادت کر رہے ہیں۔ بلوچستان ، پختون خوا یا سندھ کے برعکس (جہاں ریاستی ادارے مخالف سیاسی قوتوں کو کچلنے کے لئے سفاکانہ طریقے استعمال کرسکتے ہیں)، فوج میں نچلی سطح کے عہدے داروں کے ممکنہ منفی رد عمل کے پیش نظر پنجاب میں اس طرح کے حربوں کا سہارا نہیں لیا جا سکتا۔

نوازشریف نے نہ صرف ماضی فوج کی سیاست میں مداخلت کا واضح حوالہ دیا ہے جو 1971 میں ملک کے دو ٹکڑے ہونے پر منتج ہوئی، بلکہ انہوں نے فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹنٹ جنرل فیض حمید کو پر پاکستان میں موجودہ بحران اور انتشار کے لئے ذمہ دار ہونے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ نواز شریف کے بنیادی سیاسی نعرے – “ووٹ کو عزت دو” – کا لفظی مطلب آئین میں فراہم کردہ شہری بالادستی قائم کرنا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کے نام سے اپوزیشن کے وسیع تر اتحاد میں شامل تمام دس سیاسی جماعتیں اس مطالبے کی حمایت کر رہی ہیں۔

دوم: عسکری تائید سے قائم ہونے والی عمران خان کی حکومت گذشتہ ڈھائی سال کے دوران گورننس، معیشت اور خارجہ پالیسی سمیت تمام محاذوں پر ناکام ہو چکی ہے۔ حکومت کیلئے غیر ملکی قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے پیش نظر واجب الادا قسطیں ادا کرنا بھی دوبھر ہو رہا ہے۔

آئی ایم ایف کی ہدایات پر عملدرآمد کرنے سے یوٹیلیٹی بل، اشیائے ضرورت کی قیمتیں اور بے روزگاری آسمان کو چھو رہے ہیں۔ اپوزیشن نے عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو بھانپ لیا ہے اور اسے ملک میں ہر جگہ حکومت مخالف اجتماعات منعقد کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہو رہی۔ اپوزیشن کی مہم اپنے آخری مرحلے میں پنجاب پہنچ چکی ہے۔ اس کا مقصد گلی کوچوں میں بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی کے ذریعے حکومت گرانا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ عوام کا ایک ریلا جنوری میں اسلام آباد کی طرف روانہ ہو گا۔ اپوزیشن اسمبلیوں سے بھی اجتماعی استعفے دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

سوم: پاکستان میں ضیاالحق کے بعد قائم ہونے والا نیم سیاسی نیم عسکری (ہائبرڈ) نظام اپنے منطقی انجام کو جا پہنچا ہے۔ آزادی اظہار کو روکنے اور حزب اختلاف کو کچلنے کے لئے خفیہ ایجنسیوں کے جارحانہ استعمال (زبردستی گمشدگیوں) سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکری قیادت ملک میں یک جماعتی (کنگز پارٹی) کی حکمرانی مسلط کررہے ہیں۔ وہ حکومتی ہتھکنڈوں کے ذریعے اٹھارہویں آئینی ترمیم ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ آئینی ترمیم ملک کے وفاقی جمہوری تشخص کا تعین کرتی ہے۔ اپوزیشن اتحاد (پی ڈی ایم) آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لئے ایک نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔

المختصر، پاکستان اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے۔ جاری سیاسی بحران آئندہ موسم بہار تک کسی کروٹ بیٹھ جائے گا کیونکہ پاکستان موجودہ سنگین معاشی صورتحال اور خطرناک سیاسی قطبیت کے ساتھ دیر تک غیر یقینی صورت حال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ قومی بورژوازی آئین میں دی گئی وفاقی جمہوریت کا مطالبہ کررہی ہے۔ اس قومی دھڑے کی نمائندگی اپوزیشن اتحاد کر رہا ہے، دوسری طرف ریاستی بورژوازی عسکری اداروں کی ماورائے آئین تحکمانہ حکومت مسلط کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ماضی کے برعکس، مستقبل قریب کی ممکنہ سیاسی تبدیلی سے ملک کی افغان پالیسی پر بھی اہم اثرات مرتب ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر پاکستان جمہوریت اور سول بالا دستی کی طرف بڑھتا ہے تو نیا بندوبست علاقائی ترجیحات کی بجائے معاشی معاملات پر زیادہ توجہ دے گا۔ توقع کی جاتی ہے کہ ایک جمہوری پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کو اہمیت دے گا اور ادھر ادھر کی مہم جوئیوں سے گریز کی پالیسی اپنائیں گا کیونکہ ملک کی اہم ترین سیاسی جماعتوں کا یہ مستقل موقف رہا ہے۔ اس خطے میں امن اور ترقی کو خطرہ بننے والی انتہا پسندی / عسکریت پسندی کو شکست دینے کے لئے خطے میں امن پسند جمہوری قوتوں کے درمیان تعاون بہت ضروری ہے۔

افغان سیاسی قیادت کو یہ صورتحال احتیاط سے دیکھنے اور پاکستان میں جمہوری سیاسی قوتوں کے ساتھ باہمی تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اہم پاکستانی سیاسی جماعتوں کو بھی ایک آزاد ، پرامن اور جمہوری افغانستان کو علاقائی معاشی تعاون میں برابر کے شراکت دار کے طور پر احترام دینے کے بارے میں زیادہ واضح موقف اپنانا ہوگا۔ ابھی تک اس محاذ پر تقریباً جمود  طاری ہے اور حکومتوں سے ہٹ کر عوام کے باہمی روابط کافی کمزور ہیں۔

(مترجم: وجاہت مسعود)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).