جذبہ شہادت کی توہین ‎


سب علم رکھتے ہیں کہ نواز شریف ہوں یا ذوالفقار علی بھٹو، ان کی ابتدائی تربیت فوجی سر پرستی میں ہوئی اور یہ بھی کہ اگر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بد ترین دھاندلی سے ہرایا نہ گیا ہوتا، تاریخ میں، شیخ مجیب، بھٹو صاحب یا نواز شریف صاحب کا کردار اور مقام بالکل مختلف ہوتا۔ لیکن تاریخ اور حقائق کو اگر مگر سے کچھ غرض نہیں وہ صرف نتائج کو دیکھتی ہے۔

ہمارا طریقہ کار یہ ہے کہ جو تاریخ ہمارے مزاج کو برہم کرے ہم اسے بدل کر رٹا لگا لیں اور اسی کو سچ مانیں۔ نسیم حجازی کے ناول ہوں، علامہ اقبال کی شاعری ہو یا ترکی ڈرامہ، ہمیں وہ سکرپٹ پسند ہیں جو تاریخ نہیں، اور دنیا میں جو بھی اس حقیقت کی جانب توجہ دلائے وہ ہمارا دشمن ہے جو سازش کرتا ہے۔

تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق یہ بوسیدہ گمراہ کن سوچ آج کی نہیں بلکہ ماضی کا ورثہ ہے جس کی جڑیں انگریزوں کی 1862 میں شروع ہوئی برصغیر کی پہلی مردم شماری میں جا ملتی ہیں جب مسلمانوں کو پہلی مرتبہ اعداد و شمار سے پتہ چلا کہ ان کی تعداد ہندوؤں کے مقابلے میں بہت کم ہے جس کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو زمینی حقائق سے کہیں زیادہ دلکش وہ خواب و خیال لگنے لگے جو افسانے تھے اور انہوں نے اسی رویے کو طرز زندگی بنا ڈالا۔ سمجھنا چاہیں تو آسانی سے ایسا رویہ سمجھ آ جاتا ہے کہ جب کوئی بھی ماں اپنے بچے کو غلط ماننے سے انکار کر دیتی ہے یا کوئی اپنے پیارے کو لاحق ہوئی سنگین بیماری سے انکار کر دیتا ہے۔

گفتگو کرنے والوں کی نیت طے کرتی ہے کہ اس مقصد کچھ جاننا ہے یا ہر قیمت پر مناظرہ جیتنا ہے۔ ظاہر ہے ہمارے ماحول میں بحث فریق مخالف کو پچھاڑنے کو کی جاتی ہے نہ کہ کچھ سمجھانے یا حاصل کرنے کو۔ ان رویوں کا نتیجہ یہ ہے کہ نظریاتی مخالف کو ذاتی دشمن، غدار کہنا اور اس کے ہم خیال تمام افراد کی موت کی تمنا پالنا عام سی بات ہے۔

کوئی ٹھہر کر ہوش سے کام لے کر سوچنے پر تیار ہی نہیں کہ سرحد پر کھڑا سپاہی اپنی قوم کے لئے جان دینے تیار کھڑا ہوتا ہے، وہ شہید ہوتا ہے، موسم اور حالات کے بد ترین جبر تلے سانس لیتا ہے۔ وہ صرف اپنے خاندان یا دوستوں کے لئے نہیں کھڑا ہوتا بلکہ اپنی ذاتی اور خاندانی دشمنوں، تمام فرقوں، تمام اقلیتوں، حتیٰ کہ جیل میں قید ظالم، چوروں، ڈاکوؤں، قاتلوں تک کی حفاظت کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ اسے غرض نہیں کہ اس کی قوم میں کون خود اس کے خلاف ہے یا حق میں وہ اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ اسی لئے شہید کا جنازہ قومی پرچم میں لپیٹا جاتا ہے، کسی سیاسی یا سماجی پارٹی کے جھنڈے میں نہیں۔

وہ اس لئے جان نہیں دیتا کہ میڈیا ہاؤسز اپنا مسالہ بیچیں اور چند افراد حیرت انگیز طور پر امیر ہو جائیں۔ وہ کسی خاص پارٹی کی حکومت یا کسی اپوزیشن کی پارٹی کو مارنے کے لئے بھی جان نہیں دیتا۔ اس کا جذبہ اس لئے نہیں ہوتا کہ کوئی بھی قبضہ گروپ اس کی قربانی کو اٹھا کر اسی قوم پر حملہ آور ہو جائے جس کی حفاظت کے لئے اس نے جان دی تھی۔

اس کے جذبے اور مقدس خون کو کسی بھی گھٹیا سیاسی مقصد یا فائدے کے لئے استعمال کرنا بد ترین فعل ہے، یہ توہین شہادت ہے، یہ توہین جذبہ شہادت ہے۔ یہ ان ماں باپ اور معصوم بیوی بچوں کی قربانیوں پر ڈاکہ ہے۔ خدا نے اپنی آخری کتاب میں دین کو دنیا کے لئے بیچنے والوں کو بد ترین مخلوق کہہ کر پکارا ہے اور اس سے سیکھتے ہوئے ایسا سمجھنے میں کوئی حرج نہیں کہ جو قوم کے شہید کا خون ذاتی مفاد کے لئے بیچ ڈالے وہ اس قوم کا بد ترین طبقہ اور جماعت ہو گی۔

ہر چیز بدل رہی ہے کیونکہ معیشت بدل رہی ہے۔ چوتھا صنعتی انقلاب اپنے اصل میں بنیادی صنعت کاری اور صنعت سازی ہی بدل رہا ہے۔ یہ پرانے کی صرف شکل نہیں اس کا ڈی این اے بدل رہا ہے۔ یہ اپنی شروعات میں پرانے کا تسلسل لگتا ہے۔ لیکن ہے نہیں اور رہے گا بھی نہیں۔

مثلآ ایک صنعت جو ایک ہزار ملازمین کے ساتھ سو پروڈکٹ بناتی تھی اب وہی صنعت، دس ہزار پروڈکٹس، محض بیس ملازموں کے ساتھ بنالے گی۔ تو باقی کہاں جائیں گے ؟ اسی طرح بے روزگار ہونے والے پروڈکٹ کو کیسے خرید پائیں گے؟ مہارتیں بدل گئیں اور تیزی سے بدل رہی ہیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ اتنا بڑا شفٹ یا تبدیلی کو ہضم کرنا یعنی بے روزگاروں کو بھوکا پیاسا مرنے سے بچانا اور نئے ہنر سکھانا، یہ دیو ہیکل منصوبہ ہے۔ جس کے لئے عظیم مہارتیں اور ذہانتیں درکار ہیں۔ نہایت مضبوط معیشت لیکن کم آبادی والے ملک کم سے کم دھچکوں سے گزریں گے باقی بہت کچھ اڑ جائے گا۔ کیا حال اور مستقبل کے اس عظیم چیلنج کی تیاری یہاں ہو رہی ہے؟

کیا سرحد پر کھڑے سپاہی اس لئے قوم کی حفاظت کرتے ہیں کہ شہری دشمن کی گولی نہیں بلکہ بھوک اور جہالت سے مر جائیں؟ کیا ان کا جذبہ شہادت اس لئے ہے کہ اس کی قوم کا مستقبل ہی بیچ دیا جائے؟ اس کی قوم کے بچے راستوں پر بھیک مانگیں؟ اگر ہم نے یہاں پورے گھر کو ہی آگ لگانی ہے تو پھر اسے بچانے کے لئے کوئی جان کیوں دے؟ یہاں بچے گا ہی کیا جس کی حفاظت کی جائے، ویسے آزاد تو افغانستان بھی ہے۔

وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور حالات روایتی فرسودہ طور طریقوں سے قابو نہیں آئیں گے۔ ہم نہیں بچ پا رہے اور دکھائی دے رہا ہے کہ ہم نہیں بچ پائیں گے، اتنی زیادہ آبادی والا ملک اگر توڑ پھوڑ کا شکار ہوا تو دس افغانستان بن جائیں گے۔ پھر بھی ضد اور انا جیت رہی ہے عقل پہلے بھی یہاں ہاری، اب بھی شکست کھا رہی ہے۔ یہاں جنون، نفرت اور چیخ وپکار جیت رہے ہیں۔ کاش ہم بچ سکیں۔

اختتام پر میں بھی وہی کاش والی خواہش پال بیٹھا جس کی تربیت ہمیں دی گئی تھی کہ سب اچھا ہے، ہمیں کوئی بیماری نہیں، ہم کبھی غلط نہیں ہو سکتے اور دنیا میں کوئی ہم سے بڑا نہیں جو ہمارا بال بھی بیکا کر پائے اور ہاں کائنات کے خالق کے سچے مذہب کا واحد قلعہ بھی یہی تو ہے جو پہلے کبھی نہیں ٹوٹا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).