لاہور جلسہ: کتنے آدمی تھے؟


نوم چومسکی نے کہا تھا کہ جمہوریت کو کمزور کرنے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ فیصلہ کن طاقت ایسے اداروں کو سونپ دی جائے جو احتساب سے بالا تر ہوں۔ جیسے بادشاہ، شہزادے، مذہبی رہنما، فوجی حکمران اور جدید کارپوریشنز یعنی صنعتی ادارے۔ جہاندیدہ نوم چومسکی نے غلط نہیں کہا تھا اگر ذرا غورکریں تو بلاشبہ یہ شخصیات اور ادارے احتساب سے بالا تر ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی صاحبزادی بے نظیر بھٹو شہید سے ایک بار کہا تھا کہ مجھے خوشی ہے کہ تم سیاست کی طاقت کو سمجھ گئی ہو مگر طاقت کی سیاست کو سمجھنے میں تمہیں ابھی وقت لگے گا اور جس دن محترمہ نے طاقت کی سیاست کو سمجھ لیا تو یہ آگہی جان لیوا ثابت ہوئی۔

جن کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ ہر قانون سے بالاتر ہوتے ہیں۔ احتساب ان کے کہنے پر ہوتا ہے مگر ان کا احتساب نہیں ہو سکتا ۔ جہاں ایسے حالات پیدا جائیں تووہاں پر جمہوریت محض پتلی تماشا سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور ایسی جمہوریت میں حکمران محض پتلی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ اس کی دلیل سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کا مستعفی ہونے کے بعد ایک سوال کا جواب تھا اور وہ یہ کہ جو آپ کو لے کر آتے وہی آپ کو گھر بھیج دیتے ہیں

میرظفراللہ جمالی نے کن لانے والوں اور گھر بھیجنے والوں کا ذکر کیا تھا۔ کیا یہ عوام تھے اگر یہ عوام نہیں تھی تو پھر کون تھے۔ کیوں کہ کوئی تو ہے جو چلا رہا ہے اس نظام سیاست کو ان امور مملکت کو۔ کوئی تو ہے جو تاج وتخت کا فیصلہ کرتا ہے۔ کوئی تو ہے جو صبح کے تخت نشینوں کو شام کو مجرم قرار دے دیتا ہے۔ کوئی تو ہے جو صرف دور اقتدار ہی نہیں بلکہ دور حیات کی مدت کا بھی تعین کرتا ہے۔ کوئی تو ہے جو یہ بھی طے کرتا ہے کہ کون، کب اور کیسے تخت سے اترے گا اور اس بات کا فیصلہ بھی کرتا ہے کہ کون، کب اور کیسے تختہ دار پر چڑھے گا اور کتنی دیر جھولے گا۔

یہ جو بھی ہے خود سے اختلاف کرنے والے کو برملا کہتا ہے وہ کب، کہاں اور کیسے مارا جائے گا اس کو خبر تک نہیں ہوگی۔ یہ وہی ہے جو کروڑوں عوام کے مقدر کا فیصلہ کرتا ہے اور عوام کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے فیصلے خود کر رہے ہیں۔ اپنے دکھوں اور تکالیف کے سدباب کی خاطر اپنے مسیحا کا انتخاب خود کر رہے ہیں۔ کتنے سادہ دل ہیں جس عطار کے لونڈے کے سبب بیمار ہوتے ہیں اسی کو مسیحا سمجھ رہے ہوتے ہیں

اپنے دکھوں کا مداوا کرنے کی خاطر کسی مسیحا کی تلاش میں یہ بھیڑیں 2011 میں بھی مینار پاکستان پر جمع ہوئیں۔ جم غفیر کے سامنے میسحا کے روپ میں سامنے آنے والا سب سے بلند مقام پر کھڑے ہو کر برابری کا درس دے رہا تھا۔ دکھوں کا علاج بتا رہا تھا اور سامنے کھڑے کم نصیب سمجھ رہے تھے کہ اب دن بدلنے والے ہیں۔ 2018 میں تخت نشین بدلے نیا پاکستان بن گیا مگرجالب کے مطابق دن فقط وزیروں کے بدلے۔ مسیحا اور اس کے حواریوں کے تمام تر معاشی ترقی کے دعووں کے باوجود آج بھی دیس کا ہر بلاول پہلے سے زیادہ مقروض ہے آج بھی پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے۔

عجب طرز حکمرانی دیکھی کہ ہر سوال کا ایک ہی جواب ملتا ہے کہ گزشتہ ستر سالوں کا حساب مجھ سے مت لیں۔ ماضی کے چور ڈاکووں نے جس طرح قافلہ لوٹا اس کا حساب میں کیوں دوں۔ ایکسی لینسی درست فرمایا کسی کا بویا آپ کیوں کاٹو مگر اس دور زریں کے ابتدائی دو سال میں فاقوں کی نوبت کو پہنچنے والی عوام شہاب جعفری کا یہ مصرعہ مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے اگر گنگنا دیں تو سماعت پر کہیں گراں تو نہیں گزرے گا جان کی امان تو مل جائے گی نا۔

مگر گزشتہ روز مینار پاکستان کے ساے تلے مدعا گنگنانے کی منزل سے آگے بڑھ کر نوحے میں تبدیل ہو گیا۔ مسیحا کی تلاش میں دربدر بھٹکتی اس قوم کا ایک جم غفیر جمع ہوا۔ یخ بستہ ہواؤں اور جما دینے والی سردی میں بھی بہتر مستقبل کی آس پر یہ جم غفیر جان لیوا موسم کے مدمقابل رہا۔ اسٹیج پر موجود ہر چہرے میں اپنا مسیحا کھوجتا رہا اوربالآخر اپنے مسیحا کو تلاش کر لیا۔ یہ مسیحا کون ہے یہ مسیحا وہ ہے جس کا ذکر ہر مقرر نے اپنے خطاب میں کیا اور ہر قائد نے اس میسحا کو اپنا لیڈر تسلیم کیا اور اس کی رہنمائی میں چلنے کا عہد کیا۔ یہ مسیحا اس ملک کا دستور ہے آئین ہے۔ ازلی حقیقت ہے کہ آئین کو رہبر مان کر اس کے پیچھے چلنے والی قومیں کبھی گمراہ نہیں ہوئیں، کبھی راہ سے نہیں بھٹکیں۔ صد شکر کہ مسیحا کی تلاش مکمل ہوئی اب منزل تک پہنچنا باقی ہے

اور میسحا کے بعد اب منزل بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ اس ضمن میں پی ڈی ایم قائدین کا جاتی امرا میں اجلاس ہوا جس کے بعد اعلان لاہور ہوا اورکہا گیا کہ حکومت 31 جنوری تک مستعفی ہو جائے وگرنہ یکم فروری کو لانگ مارچ کا اعلان ہوگا۔ پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ریاست پر بالادستی کے عزائم نے 73 سالوں سے ملک کومستحکم نہیں ہونے دیا اور پی ڈی ایم جماعتیں سیاست سے اسٹیبلشمنٹ اورانٹیلی جنس کے اداروں کی مداخلت ختم کریں گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اب مذاکرات کا وقت ختم ہو گیا ہے اب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہوگا۔

رہی بات کہ لاہور کے جلسہ میں کتنے لوگ تھے تو اس پر قابل احترام نورالہدیٰ شاہ صاحبہ کہتی ہیں کہ جلسے میں کتنے آدمی تھے؟ یہ ایک بے معنی سوال ہے آدمیوں کی گنتی اصل معاملہ ہے ہی نہیں آدمی ہٹلر بھی جمع کرلیتاتھا آدمی حملہ آورلشکر میں بھی بہت ہوتے ہیں اصل معاملہ یہ ہے کہ غیرآئینی غلامانہ نظام سے انکارمیں چند لوگ ہی سہی، ہم آواز ہوئے کہ نہیں۔ گر چند لوگ بھی ہم آواز ہوئے، تو بس آگے بڑھیے۔ جبکہ سینئر صحافی وجاہت مسعود کا لاہور جلسہ پر موقف ہے کہ آج لاہور کا جلسہ ایک تاریخی میدان میں ایک تاریخی اجتماع ہے۔ یہاں ہم نے بیرونی حکمرانی سے آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کو پاکستان میں خوش آمدید کہا۔ اہل لاہور آج یہاں آزادی کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کا مطالبہ کریں گے۔ شفاف، دستوری اور وفاقی جمہوریت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).