مریم نواز کے ڈگری یافتہ ان پڑھ بچے


دوستو، بزرگو، ساتھیو، کسانو اور محنت کشو جیسے الفاظ سیاستدان عموماً جلسوں میں حاضرین کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ادا کرتے ہیں۔ ’میرے بچو‘ یہ الفاظ میں نے پہلی دفعہ بیگم نسیم ولی خان کے منہ سے سنے تھے۔ جب اس پردہ دار پختون خاتون کے گھر کے سارے مرد زندانوں میں ڈالے گئے تو وہ دوپٹے کو پگڑی بنا کر نکلی تھیں۔ تب میں نہیں تھا جب مادر ملت کی ساری ملت کو پہلی بار ایک بڑے جیل خانے میں سانس لینے کا احساس ہوا تھا۔ تو ممکن ہے یہی الفاظ فاطمہ جناح نے بھی ادا کیے ہوں گے ۔ اور جب شریف خاندان کے سارے مرد حوالہ زندان کیے گئے تو شیرمادر جیسے میٹھے یہ الفاظ اب مریم نواز شریف ادا کر رہی ہیں۔

نانی یا دادی ہونا کسی مشرقی خاتون کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ لیکن یہی اعزاز جب مشیران کم عقل نے مریم نواز کے لئے طعنہ بنا کر بار بار دہرایا تو اس کے جواب میں مریم نے نانی دادی اور ماں ہونے کے اعزازات سینے پر سجا کر بانجھ ماؤں کے دشنام بدہن بیٹوں کے سامنے قوم کے بچوں کو میرے بچے کہنا شروع کیا۔

پہلی دفعہ یہ الفاظ میں نے اس کے منہ سے ’شیر جوان‘ پروگرام کے افتتاح پر سنے تو بہت اچھے لگے۔ جس کے دوران اس نے موجود نوجوانوں کو آئین اور قانون کی اہمیت سمجھائی اور نصابی کتب میں آئین کوشامل کرنے کی نوید دی۔ کیونکہ مریم کو یقین ہو گیا ہے کہ سیاست کے الف ب سے نابلد بچے سیاست کو دھوکا، سیاستدان کو کرپٹ، آئین کو بازیچہ اطفال اور آئین پامال کرنے والوں کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ مریم کو شدت سے احساس ہوا ہے کہ جب تک تعلیم یافتہ نوجوانوں میں حقیقی سیاسی بیداری اور آئین و قانون سے محبت اور اس کی اہمیت کا احساس نہیں جگایا جائے گا۔

تب تک یہ سفر جاری رہے گا لیکن ہم یوں ہی گھن چکر میں پھنسے رہیں گے۔ یونہی ہر رہزن رہبر اور ہر سراب منزل لگے گا۔ عزت مآب وقار سیٹھ مرحوم کے جنازے میں کتنے اور مولانا خادم حسین رضوی مرحوم کے جنازے میں کتنے لوگ تھے؟ یہ پاکستان میں سیاسی شعور اور بیداری کا ایک بہت واضح اور خوفناک اشاریہ ہے۔ عمار علی جان پر لگائی گئیں ایم پی او کی دفعات اور اس کے قلم چلانے والے ہاتھوں میں ٹھنڈی ہتھکڑیاں نوجوان نسل کی سینہ کوبی کرتا ہوا نوحہ ہے۔

سیٹھ وقار کی تاریخی درجہ بندی کیا ہے اور عمار جان کی جد و جہد کا مقام کیا ہے، کوئی نہیں جانتا؟ کوئی جانتا ہے تو ضیاء الحق کے دور میں بڑی منصوبہ بندی سے لائی گئی کرکٹ کی وبا، کھلاڑیوں کے بنائے ہوئے ریکارڈز اور ان کے چوکوں، چھکوں کی تعداد، جس کا پھل آج ساری قوم کھا رہی ہے نیز کھلاڑیوں، اداکاروں اور ’فنکاروں‘ کی سیاست۔

ضیاالحق لمبے عرصے کے لئے بڑی منصوبہ بندی اور نفسیاتی جنگ کے ماہرین کے ساتھ میدان میں اترا تھا۔ آج تک موجود ہوتا اگر سی ون تھرٹی میں بیٹھ کر پرواز نہ کرجاتا۔ اس نے تعلیمی اداروں میں سیاسی تربیت پر پابندی لگانے کی خاطر طلبا یونین پر پابندی لگائی تو ساتھ ساتھ ہر طالب علم کے تعلیمی نمک میں پاک سٹڈیز کا آئیوڈین بھی ملایا۔ جس میں قاتل و مقتول، رہبر و رہزن، ڈکٹیٹر اور جمہور، آئین ساز اور آئین شکن، جناح اور ایوب، جالب اور بوٹ چاٹ، تاریخ اور شربت افیون کا ذکر کچھ اتنا ماہرانہ انداز میں گڈ مڈ کیا گیا کہ مجروح اور قصائی دونوں بیک وقت مجرم اور مظلوم لگتے ہیں۔ اس لئے مریم نواز نے اسی پروگرام میں ایک نوجوان سے آئین کے بارے پوچھا تو وضاحت کے لیے ساتھ یہ بھی کہا کہ آپ نے ضرور پاکستان سٹڈیز میں آئین کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ آئین اور پاکستان سٹڈیز؟ جناح اور ایوب کی تصاویر ساتھ ساتھ؟ واہ! سیاسی بصیرت اور برسات کا اندھا۔

تعلیم اور علم میں بنیادی فرق بس اتنا ہے جتنا پاکستان سٹڈیزمیں موجود آئینی ارتقا کے باب کا سرسری ذکر اور اس میں ناموجود آئین کیوں نہ بن سکا؟ کس کی وجہ سے نہ بن سکا؟ آئین کے بغیر سرزمین بے آئین کو کیسے کیسے لوٹا گیا؟ پہلے چھوٹے چھوٹے راجواڑوں کے نوابوں، غیر ملکی ایجنٹوں اور بعد میں واجبی تعلیم کے حامل بندوقچیوں نے رہبری کے کون کون سے جوہر دکھائے؟ شکست کھا کر کس کو جھنڈے میں دفن ہونا نصیب ہوا اور آئین دے کر کس کو دار و رسن کے حوالے کر کے عوامی جنازے سے بھی محروم کیا گیا؟

پاکستان سٹڈیز کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ ہے کہ ایک ہی شخصیت کے نام کے شروع میں سر اور آخر میں رحمت اللہ علیہ لکھا ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس میں موجودہ پاکستان (سندھ، پختونخوا، بلوچستان، پنجاب) کی کسی انگریز دشمن شخصیت کا تذکرہ ہے نہ عوامی جدوجہد اور قربانیوں کا، نیز تعلیم یافتہ بچے اسے پاکستان کی تاریخ سمجھتے ہیں۔

قوم کو غیر سیاسی بنانے کا یہ عمل غیر محسوس طریقے سے نفسیاتی انداز میں پورے معاشرے میں بڑی شدومد سے جاری و ساری ہے۔ جو بچہ کسی امتحان کو ٹاپ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے میں ڈاکٹر یا انجینئر بن کر قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ کوئی جناح صاحب کی طرح وکیل اور آئین پسند نہیں بننا چاہتا۔ کوئی غفار خان کی طرح قانونی اور انسانی حقوق کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والا اعلی حوصلے کا مالک سیاستدان نہیں بننا چاہتا۔ کوئی جسٹس رستم کیانی، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس فائز عیسیٰ، جسٹس شوکت صدیقی نہیں بننا چاہتا۔ کوئی عبد الستار ایدھی نہیں بننا چاہتا۔

اس معاشرے کو کب کس نے سمجھایا ہے کہ ’لائق بچے‘ اور، عزت والے طلباء ’وہ ہوتے ہیں جو سائنس پڑھتے ہیں۔ اور نالائق صرف آرٹس پڑھنے کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔ جس ملک میں ایک معمولی درجے کا مدر بورڈ نہیں بنتا جہاں پر ایک ادنی آئی سی نہیں بنائی جا سکتی، وہاں کے سارے بچے سائنس پڑھ کر قوم کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟ جن کے اکثر اساتذہ نے کبھی خود الیکٹران اور پروٹان کی شکل نہیں دیکھی ہوتی بلکہ جنوں اور پریوں کی کہانی کی طرح اپنے وجدان اور چشم تصور کے زور پر کسی ایٹم کے نیوکلئیس پر نیوٹران کی بمباری کا مجسم نظارہ دیکھا ہو وہ طلبا کو بغیر لیبارٹریز، بغیر سائنسی اوزار اور بغیر سائنسی ذہنیت کے، رٹے کے علاوہ اور زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کے علاوہ کیا سکھا سکتے ہیں؟

یہ کوئی کوریا چین یا جاپان ہے جہاں متجسس بچوں کے پاس ذاتی چھوٹے چھوٹے ورکشاپ ہوتے ہیں۔ ہمارے بچے تو موبائل کمپیوٹرز ٹیبلیٹ اور انٹرنیٹ بھی تضیع اوقات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں جو ایک دو سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام اور قدیر خان کہیں سے پیدا ہوئے، ان کا جو حشر کیا گیا، اب بھی سائنس کا کوئی مستقبل ہے؟ سائنس ہمیں کچھ بھی نہ دیتی بس ہماری فکر پر تنے ہوئے فرسودگی اور جہالت کے جالے اتار دیتی تو پندرہ بیس سال میں ممکن تھا ہم کچھ کرنے کے قابل ہو جاتے۔

بس ایک بات سمجھ آتی ہے۔ کہ‘ لائق بچے ’آرٹس نہ پڑھے۔ کیوں کہ وہاں پر سیاسیات، عمرانیات، سوکس، اقتصادیات، بشریات، نفسیات، ایڈمنسٹریشن، بزنس، اخلاقیات، تقابل ادیان، تاریخ، فلسفہ، آئین سازی، قانون سازی، غرض زندگی گزارنے کا ہر فن اور‘ سائنس ’سکھایا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے رنگ رنگ کے نظریات، تنقیدی فکر‘ فلسفیانہ بحث ومباحثہ، فکری فرسودگی کا علاج، سیاسی اقتصادی معاشی اور بیشمار معاشرتی جہتیں، نظام کہنہ کے لئے تیشے، بزعم خود دانشوروں کی کوتاہ قد دانش ناپنے کے پیمانے، انسانی سیاسی اور آئینی حقوق کی اہمیت، کوتاہ بینی اور سیاسی پسماندگی کے نقصانات پر نقد و نظر ملتی ہے۔ اور جہاں پر یہ سب سکھایا جاتا ہو وہاں پر قابل بچے آ گئے تو پھر نہ یہ نظام کہنہ رہے گا نہ غازی اور مجاہد کی تقدس۔ کہ علم اوہام کا دشمن ہے اس لیے تو اوہام ڈراتے پھرتے ہیں دندناتے پھرتے ہیں۔ سائنس اشیاء کا علم ہے اور آرٹس اشیاء کو کام میں لانے والے انسانوں کا۔

ٹی وی مباحثہ کا کنڈکٹر ہو یا اخباری اداریہ لکھنے والا، سیاسی الجھنیں سلجھانے والا ہو یا اقتصاد کو راہ راست پر ڈالنے والا، سلطنتیں اور اقوام کی رہبری کرنے والے ہوں یا افواج کے کمانڈر، کروڑوں میں معاوضہ وصول کرنے والا اداکار ہو، کروڑہا ذہنوں کو متاثر کرنے والا موسیقار گلوکار یا ہدایت کار، سارے کے سارے نہ بھی ہوں تو اکثریت آرٹس والے ہوتے ہیں۔ جب لائق بچے ان میدانوں میں آئیں گے تو پھر کوئی نہیں کہے گا کہ ہمارا اقتصاد خراب ہے، عدلیہ خراب ہے، قانون شکنی اور آئین شکنی پسند کی جاتی ہے، سیاست میں موروثیت ہے، بالادستوں کی فکر میں خلل ہے، وکلا اور ججز قانون شکن ہیں۔

کبھی آپ نے سنا ہے؟ کہ اس ملک میں فزکس خراب ہے کیمسٹری کی کمیابی ہے، بیالوجی ناپید ہے؟ ہر کوئی سیاست، اقتصاد، قانون، ناانصافی، اقربا پروری، انسانی سیاسی اور بشری حقوق کی پامالیوں کا رونا روتا ہے۔ اس لئے مریم کو حکومت ملی تو اپنے ’شیرجوانوں‘ کو پاکستان سٹڈیز کی بجائے تاریخ فلسفہ سیاسیات آئین حقوق و فرائض اور تاریخ کے راستے پر ڈالنا ہوگا۔ تعلیمی نظام درست کرنا ہوگا۔ ورنہ ممکن ہے اپنے والد کی طرح انہیں بھی حکومت مل جائے گی لیکن ہمیں منزل نہیں مل سکے گی۔

جب تک مریم نواز کے تعلیم یافتہ، ان پڑھ بچے جو ’سائنس‘ کے پیچھے لگائے گئے ہیں نیز سائنسی سوچ سے محروم رکھے گئے ہیں، قانون، سیاسیات، اقتصاد، فلسفہ، سوکس، سماجیات اور بشریات نہیں پڑھیں گے، جب تک سماجی علوم (آرٹس) پڑھنے والے بچوں کو معاشرہ باہر اور گھر والے اندر عزت نہیں دیں گے۔ مریم خود بھی آئین کی مثالیں پاکستان سٹڈیز میں ڈھونڈیں گی اور نوجوان بھی انسانی آئینی حقوق اور آئین اور قانون کی اہمیت صابر شاکر، حسن نثار اور سمیع ابرہیم جیسے دانشمندوں سے سیکھیں گے۔ خمینی صاحب جلاوطن ہو کر بھیجے جا رہے تھے۔ اخبار والے نے طعنہ دے کر پوچھا کہاں ہے تیرا انقلاب؟ دیدہ ور نے جواب دیا۔ ابھی ماؤں کی گود میں ہے۔ مریم نواز کا انقلاب تو ابھی ماؤں کے دماغ میں بھی نہیں۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani