جانباز جتوئی: سرائیکی وسیب کی محرومیوں کا نوحہ خواں


سرزمین اوچ ہمیشہ سے علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے۔ یہاں رہنے والی جن ہستیوں نے فن کی بلندیوں کو چھوا، ان میں ایک عظیم نام درویش صفت شاعر جانباز جتوئی کا بھی ہے، جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف لوگوں کے دلوں پر حکومت کی بلکہ اپنے بلند تخیل کی بنا پر شہرت کے بام عروج تک پہنچے۔

سرائیکی ادب میں حضرت خواجہ غلام فرید کے بعد سرائیکی خطے اور وسیب کی ترجمانی کرنے والے جانباز جتوئی کی شاعری کا عہد وہ زمانہ ہے جب سرائیکی شاعری اپنے عروج پر تھی۔ ان کے ہم عصر شعراء میں اقبال سوکڑی، احمد خان طارق، سفیر لاشاری، سرور کربلائی، قیس فریدی، صوفی فیض محمد دلچسپ، امید ملتانی اور دوسرے بہت سے نامور سرائیکی شعراء سرائیکی شاعری کا علم بلند کیے ہوئے تھے۔ ان حالات میں جانباز جتوئی نے نہ صرف اپنی ادبی شناخت بنائی بلکہ سرائیکی شاعری میں بہت بڑا نام پیدا کیا۔

کہا جاتا ہے کہ دریاؤں کے ساتھ تہذیبیں جنم لیتی ہیں اور انہی مہذب علاقوں میں بڑے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ جانباز جتوئی بھی جنوری 1924 ء میں دریائے سندھ اور دریائے چناب کے عین درمیان میں واقع ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی میں اپنے علاقے کی انتہائی معزز اور علم و ادب کی دلدادہ شخصیت سردار نصرت علی خان جتوئی کے گھر پیدا ہوئے۔ والدین نے آپ کا نام غلام رسول رکھا۔ آپ کو اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں ہی یتیمی کا سامنا کرنا پڑا، بعدازاں روحانیت کی کشش اور اولیائے کرام سے محبت ان کو جتوئی سے اوچ شریف کی جانب کھینچ لائی جسے انہوں نے اپنا مستقل مسکن بنایا۔

جانباز جتوئی کا شمار اپنے عہد کے عظیم شعراء میں ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں عوام کے دکھ، درد، ان کے استحصال اور وڈیروں اور جاگیرداروں کی بے حسی کی حقیقی عکاسی کی۔ ان کے کلام میں ظلم، طبقاتی تقسیم، منافقت، معاشرے کے دوہرے رویوں، امن کے دشمنوں کے خلاف نفرت اور مظلوم و غریب کی صدا ملتی ہے۔

جانباز جتوئی جہاں نوجوان نسل کو سماجی و معاشی عدم مساوات کے خلاف اہل اقتدار کو جھنجھوڑنے کے لیے آواز اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں وہاں انہوں نے اپنی شاعری میں مایوسی کی بجائے بھر پور انداز میں زندگی گزارنے کا درس بھی دیا ہے۔ ذات پات سے قطع نظر ان کا مسلک انسانیت تھا۔ انہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا، اس لئے اونچی بارگاہوں کی شہ نشینوں کے لئے وہ ہمیشہ راندۂ درگاہ رہے۔ وہ انسانیت سے پیار کرنے والے ایک صوفی شاعر تھے۔

14 اگست 1947 ء کو تقسیم ہند کے دوران جانباز جتوئی 23 سال کے ایک کڑیل جوان تھے۔ انہوں نے پاکستان کے قیام کے لئے لاکھوں جانوں اور عزتوں کی قربانی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، لڑکپن اور جوانی میں دیکھی جانی والی یہ خونچکاں داستان ان کی شاعری کا استعارہ ٹھہری۔

جانباز جتوئی کو اپنی والدہ ماجدہ سے بہت محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ماں بولی سرائیکی سے بھی ٹوٹ کر محبت کی اور یہی زبان ان کے حلقہ فکر میں سمٹ گئی۔ آپ سرائیکی زبان کے شہنشاہ تھے۔ ان کے ہر شعر کی ادائیگی اور ان کی شاعری کا ایک ایک لفظ سماعتوں کے ذریعے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔

جانباز جتوئی کے شعری مجموعہ ”ارداساں“ میں سرائیکی زبان کے مشکل ترین الفاظ کا ذخیرہ ہے جسے انہوں نے بڑی مہارت سے اپنے اشعار میں سجایا ہے۔ آپ کی شاعری میں غزل، کافی، دوہڑے اور قطعات کی صورت میں استعارات اور تلمیحات کے خزانے جمع ہیں۔ آپ نے اپنی لازوال شاعری سے صرف سرائیکی وسیب ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ترجمانی کی۔

جانباز جتوئی کو درجہ اول کے تسلیم شدہ شاعر کے طور پر کئی مرتبہ پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان پر اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا۔ کئی کل پاکستان مشاعروں میں آپ کو اپنے ہم عصر شعراء جوش ملیح آبادی، احمد فراز، احمد ندیم قاسمی، احسان دانش، قیوم نظر اور محسن نقوی سمیت کئی معروف شاعروں کے سامنے اپنا کلام پڑھنے کا موقع ملا۔ ملک بھر میں آپ کے شاگردوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔

اوچ شریف سے تعلق رکھنے والے معروف سرائیکی شاعر منظور حسین منظر اوچوی مرحوم نے 42 برس تک آپ کا بستہ تھامے رکھا۔ ہر مشاعرے میں منظر اوچوی آپ کے ہمرکاب ہوتے۔ اسی طرح آپ کے آخری شاگرد سرائیکی، اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر ہمراز سیال اوچوی ہیں جو اپنے نام کے ساتھ ”نشانی ء جانباز“ لکھنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔

جانباز جتوئی کا پہلا شعری مجموعہ ضلع کونسل مظفرگڑھ کی مالی معاونت سے ”ارداساں“ کے نام سے 1985 ء میں شائع ہوا، ”ارداساں“ کو پاکستان اکادمی ادبیات نے 1990 ء میں علاقائی ادب میں بہترین کتاب قرار دیتے ہوئے پہلا انعام دیا۔ جبکہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور نے اسے ایم اے سرائیکی کے نصاب میں بھی شامل کیا۔

جانباز جتوئی کا دوسرا مجموعہ کلام ”تنواراں“ کے نام سے 1989 ء کو منصہ شہود پر آیا جو سرائیکی ادبی مجلس بہاول پور کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ تیسرا شعری مجموعہ ”ہواڑاں“ ان کی وفات کے بعد 2003 ء میں لاہور کے ایک اشاعتی ادارے کے زیر اہتمام شائع ہوا، جبکہ چوتھا اور آخری مجموعہ کلام ”سسی“ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔

جانباز جتوئی کے ایک صاحب زادے شہباز علی خان میونسپل کمیٹی اوچ شریف میں سینئر اسسٹنٹ کے عہدے پر تعینات ہیں۔ انہوں نے راقم الحروف کو بتایا کہ وسائل کی کمی کے باعث عرصہ دراز سے جانباز صاحب کے شعری مجموعوں کا کوئی نیا ایڈیشن شائع نہیں ہوا۔ ہم نے اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد اپنی مدد آپ کے تحت ان کے دو مجموعہ ہائے کلام کی اشاعت کروائی تاہم ان کے ایڈیشن بھی ختم ہو گئے ہیں۔ شہباز علی خان کے مطابق جانباز جتوئی کے کلام اور اردگرد بکھری شاعری کو جمع کر کے دیوان کی صورت میں شائع کرنے کے لئے نیشنل بک فاؤنڈیشن کو آگے بڑھنا ہو گا۔

جانباز جتوئی کی شعری و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری نے 23 مارچ 1994 ء کو انہیں ادب کے شعبے میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ سرائیکی کے اس درویش صفت شاعر کی وفات مورخہ 17 دسمبر 1994 ء کو اوچ شریف میں ہوئی۔ آپ کی آخری آرام گاہ درگاہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت ؒ کے قبرستان میں مرجع الخلائق ہے۔

ارباب بست و کشاد کو بڑے شہروں سے نکل کر دور دراز دیہات میں جانباز جتوئی جیسے نگینوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو وسائل کی کمی اور فاصلوں کی دوری کی وجہ سے وہ رنگ نہیں دکھلا سکے جو ان کا حق ہے۔ یہ حکومت اور ہم سب کے لئے سوچنے کا مقام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).