جنہیں کوئی ملک اپنانے کے لیے راضی نہیں، وہ پناہ گزین کہاں جائیں؟



شہناز بیگم (رہاشی برمی کالونی، کراچی)

کراچی — کراچی کے علاقے لانڈھی کی برمی کالونی کی رہائشی 52 سالہ شہناز بیگم ادھیڑ عمری کے باوجود ملازمت کی تلاش میں ہیں۔ شہناز بیگم کے شوہر بیمار ہیں اور ان کے علاج معالجے اور گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ روزگار چاہتی ہیں۔ لیکن شناختی کارڈ نہ ہونے کے سبب وہ جہاں بھی جاتی ہیں، انہیں انکار کر دیا جاتا ہے۔

یہ سلسلہ پچھلے 7 سال سے جاری ہے۔ سالوں کی بھاگ دوڑ اور کئی جگہ تعلقات استعمال کرنے کے باوجود بھی ان کی کوئی شنوائی نہ ہوسکی اور معاملہ جوں کا توں ہے۔ جب کہ رواں سال تو کرونا کی وجہ سے ان کے کیس میں کوئی بھی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

حکومتی ادارے ‘نادرا’ حکام نے شہناز بیگم کو بتایا کہ ان کے کیس کی انکوائری چل رہی ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ انکوائری مزید کتنے سال جاری رہے گی۔ شہناز بیگم نے روتے ہوئے بتایا کہ “کوئی بولتا ہے۔ شناختی کارڈ یہاں بن جائے گا، کوئی بولتا ہے وہاں بن جائے گا۔ لیکن اب تک حاصل وصول کچھ نہیں۔”

ان کے بقول ان کی پریشانی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ان کی عمر پچاس سال سے اوپر ہے مگر ان شناختی کارڈ بلاک کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نادرا والے کہتے ہیں کہ اپنے بھائی، بہن یا والدین کا شناختی کارڈ لائیں۔ ان کے بقول وہ کہاں سے ایسا خونی رشتے دار لائیں جو یہاں آکر گواہی دے۔ شہناز بیگم کا مزید کہنا تھا کہ اگر ان کا شناختی کارڈ بن جائے تو بہت آسانی ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے اگر وہ ملازمت نہیں کریں گی تو شوہر کی دوا کہاں سے لائیں گی؟۔ ان کے بقول وہ مجبور ہیں اور وہ جہاں بھی جاتیں ہیں، لوگ شناختی کارڈ کا پوچھتے ہیں۔

یہ کہانی اس بستی کی تنگ و تاریک گلیوں میں رہنے والے ایک، دو نہیں بلکہ درجنوں افراد کی ہے۔

یہ لوگ نام، تاریخ پیدائش، والد کا نام اور پتہ تو رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی شناختی دستاویزات نہیں رکھتے۔

ایسے افراد کراچی میں درجنوں نہیں بلکہ حکومتی اندازوں کے مطابق لاکھوں میں ہیں اور ان کی اکثریت سابقہ مشرقی پاکستان، بھارتی ریاست بہار، برما، ایران اور افغانستان سے آئے ہوئے افراد پر مشتمل ہے۔

حال ہی میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے سابق قبائلی علاقوں میں جنگ کے باعث نقل مکانی کر کے کراچی آنے والے خاندان ان کے علاوہ ہیں۔

‘شناختی کارڈ نہ ہونے سے تنخواہ بھی پوری نہیں ملتی’

شناختی دستاویزات نہ رکھنے والوں کے دکھوں کا سلسلہ ان کی شناخت کے انکار سے شروع ہو کر ان کے بچوں کی تعلیم، روزگار، صحت اور بہتر روزگار کے لیے پاسپورٹ کے حصول سے انکار تک چلا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ کس کرب سے گزرتے ہیں، اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں۔

محمد فیروز کا کہنا ہے کہ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اُنہیں کمپنی پوری تنخواہ نہیں دیتی۔
محمد فیروز کا کہنا ہے کہ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اُنہیں کمپنی پوری تنخواہ نہیں دیتی۔

برمی کالونی کے ایک اور رہائشی محمد فیروز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے خاندان میں ویسے تو سب کے شناختی کارڈ بنے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے بھائی محمد شمیم کا کارڈ بلاک ہوئے تقریباً پانچ سال ہوگئے ہیں۔ ان کے بقول اس وجہ سے ان کے روزگار کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

فیروز کا مزید کہنا تھا کہ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے کمپنی تنخواہ پوری نہیں دیتی۔ اسی طرح ان کے بھائی کا شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بھابھی کا شناختی کارڈ بھی نہیں بن سکتا اور پھر اب یہ مسئلہ بچوں کی تعلیم کی راہ میں بھی رکاوٹ بن رہا ہے کیوں کہ تمام معاملات شناختی کارڈ سے جڑے ہوئے ہیں۔

‘پچاس سال پرانا ریکارڈ کہاں سے لائیں’؟

سابق مشرقی پاکستان سے بہت سے لوگوں نے بہتر مستقبل کی خاطر کراچی کا رخ کیا تھا۔ مگر کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود ان کے خاندان شناختی دستاویزات سے محروم ہیں۔ بنیادی سہولتوں کا حصول اور باعزت زندگی گزارنا ان کے لیے آج بھی ایک خواب ہے۔

محمد زاہد کا کہنا ہے کہ شناخت کے لیے ہم سے کئی دہائیوں پرانا ریکارڈ طلب کیا جاتا ہے۔
محمد زاہد کا کہنا ہے کہ شناخت کے لیے ہم سے کئی دہائیوں پرانا ریکارڈ طلب کیا جاتا ہے۔

محمد زاہد گزشتہ کئی دہائیوں سے کراچی میں آباد بنگالی کمیونٹی کے مسائل کے حل کے لیے سماجی اور سیاسی طور پر کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ دہائیوں سے یہاں مقیم افراد کو پاکستان کا شہری تسلیم کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ نادرا کی جانب سے 1971، 72 اور پھر 1986 تک کے ریکارڈ مانگے جاتے ہیں لیکن وہ اس قدر پرانے ثبوت اور ریکارڈ کہاں سے لائیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ ایسے میں ان کے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا؟

اُن کا کہنا تھا کہ لوگوں میں مایوسی پھیل رہی ہے اور خدشہ ہے کہ بڑی تعداد میں ایسے لوگ جرائم کی دنیا میں نہ چلے جائیں۔

انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ ان لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے جلد کوئی راستہ نکالا جائے تاکہ یہ اپنے بچوں کے لیے روزگار حاصل کر سکیں، انہیں نوکریاں ملیں، جو ان کا حق بھی ہے۔

ندیم اقبال
ندیم اقبال

‘کئی لوگ جائیداد خریدنے اور بینک اکاؤنٹ کھلوانے سے بھی قاصر ہیں’

‘سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی’ کے اسسٹنٹ پروفیسر ندیم اقبال کی کہانی بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں۔

ندیم کے خاندان نے بھارتی ریاست بہار سے پہلے سابقہ مشرقی پاکستان ہجرت کی تھی۔ لیکن 1983 میں صرف 13 سال کی عمر میں انہیں اکیلے ایک بار پھر بہتر مستقبل کے لیے ہجرت کرنا پڑی۔

بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے ندیم حیدر کو اپنے والدین، بہن بھائی اور رشتے داروں کو چھوڑ کر آنا پڑا۔

اُن کے بقول شروع کے دنوں میں انہوں نے گزر بسر کے لیے یہاں کنگھی اور گھڑیاں فروخت کیں۔ مگر تنگدستی کے باوجود کچھ پیسے جمع کرکے والدین کو بھی کراچی بلا لیا اور اورنگی ٹاون میں واقع چھوٹے سے گھر میں رہائش پذیر ہو گئے۔

معاشی مسائل کے باوجود بھی ندیم اقبال نے تعلیم کو خیر باد نہیں کہا اور آخرکار این ای ڈی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔

ندیم اقبال نے اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے شناختی کارڈ کا حصول تو آسان ثابت ہوا لیکن جب وہ بیرون ملک جانے کے لیے پاسپورٹ بنوانے گئے تو انہیں کافی تگ و دو کے بعد پاسپورٹ مل سکا۔

ندیم اقبال کے بقول جن لوگوں کو روزگار مل بھی جائے تو شناختی کارڈ کی عدم موجودگی کے باعث انہیں دیگر لوگوں کے مقابلے میں آدھی تنخواہ پر رکھا جاتا ہے۔

اُن کے بقول کئی دہائیوں سے یہاں مقیم افراد کے لیے سرکاری نوکری کے دروازے مکمل طور پر بند ہیں اور اسی طرح وہ کسی قسم کی جائیداد خریدنے یا بینک اکاؤنٹ کھلوانے سے بھی قاصر ہیں۔

‘مہاجرین کے ریکارڈ میں بہاری، بنگالی اور برمی شامل نہیں’

اگرچہ پاکستان مہاجرین کی میزبانی کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک سمجھا جاتا ہے لیکن اقوامِ متحدہ کے پاس بھی یہاں رہنے والے برمی، بنگالی، بہاری اور ایرانی نژاد مہاجرین کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔

حتیٰ کہ حکومت کے کسی ادارے کے پاس بھی ایسے افراد کی کوئی صحیح تعداد موجود نہیں لیکن اندازہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بھی محتاط اندازے کے مطابق 25 سے 30 لاکھ کے قریب ہوسکتی ہے۔

ان افراد کی شہریت نہ ہونے کے علاوہ مہاجرین کے طور پر بھی ان کی حیثیت تسلیم نہ کیے جانے کے باعث انہیں کوئی ریاست بھی اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس وقت ملک میں 14 لاکھ جب کہ کراچی میں 63 ہزار کے قریب رجسٹرڈ افغان مہاجرین آباد ہیں۔ جن میں سے اکثریت پشتون نسل کی ہے۔

2002 سے اب تک لاکھوں افغان باشندے اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔ لیکن اب بھی یہاں رہائش پذیر افراد کی شناختی دستاویزات یعنی ‘پروف آف رجسٹریشن’ کی میعاد رواں سال جون میں ختم ہوچکی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین میں سے بہت سے نوجوان پناہ گزین بچوں نے رپورٹ کیا ہے کہ انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعات میں داخلے لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جامعات داخلے کے لیے پی او آر کارڈز کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔

پاکستان میں مقیم برمی، بنگالی بہاری اور ایرانی باشندوں کی طرح بہت سے ایسے افغان مہاجرین بھی شامل ہیں جن کے پاس کوئی شناختی دستاویز موجود ہی نہیں۔

مسائل کا حل کس طرح ممکن ہے؟

اگرچہ حکومت کی جانب سے ایسے لوگوں کو شہریت دیے جانے کے ماضی میں اعلانات بھی کیے گئے لیکن اس میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔

2018 میں وزیراعظم عمران خان نے برسر اقتدار آنے کے فوری بعد اپنے ایک بیان میں افغان اور بنگالی باشندوں کے بچوں کو شہریت دینے کا اعلان کیا تھا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان ایسے غیر شہریوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا جو یہاں دہائیوں سے رہائش پذیر ہیں یا یہیں پیدا ہوئے اور انہوں نے یہاں شادی کرلی۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں جرائم کی اکثر وارداتوں میں ایسے افراد ملوث رہے ہیں۔ جنہیں شہریت نہ ملنے کی وجہ سے اسکولوں میں داخلے مل سکتے ہیں اور نہ ہی نوکریاں۔

تاپم وزیراعظم کے اس بیان پر ان کی اتحادی جماعتوں سمیت حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی تحفظات کا اظہارکیا تھا۔

ممتاز صحافی مظہر عباس کے مطابق ماضی میں پاکستان کی حکومت اور خود بنگالیوں نے ایک بار کوشش کی تھی کہ وہ بنگلہ دیش چلے جائیں۔ مگر بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ ہمارے شہری نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بچہ آج سے 30 سال قبل پاکستان میں پیدا ہوا ہوگا، اس نے افغانستان یا بنگلہ دیش تو نہیں دیکھا مگر اس نے پاکستان ہی دیکھا ہے۔ لیکن اس کے والدین جو یہاں رہتے ہیں، وہ اب بھی افغان شہری ہیں۔

ان کے بقول اس مسلئے کے حل کے لیے ملک میں اتفاقِ رائے بہت ضروری ہے۔

قوم پرست جماعتوں کے تحفظات

ایسے لوگوں کو شہریت دیے جانے میں ایک اور رکاوٹ بعض قوم پرست جماعتوں کی جانب سے بھی اس عمل کی شدید مزاحمت کرنا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ عمل ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہے اور ایسے لوگوں کو شہری تسلیم کیے جانے سے یہاں رہنے والی قومیتوں کے حقوق متاثر ہوں گے۔

سندھ میں برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی ماضی میں ایسے افراد کو شہریت دینے سے اختلاف کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ انسانی ہمدردی پر ایسے لوگوں کو شہریت دیے جانے سے ملک میں مہاجرین کا سیلاب آسکتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa