بارود کے شعلوں سے امن کی فاختہ


ایک تھا الفریڈ نوبل جو 1833 میں ملک سویڈن میں پیدا ہوا۔ اور 1896 میں اٹلی میں فوت ہوا۔ الفریڈ کی دلچسپی سائنس کے شعبے سے رہی۔ خاص طور پر دھماکا خیز مواد اسے بہت دلچسپی بھی تھی اور تجسس بھی۔ باپ انجنیئر تھا اس لیے بنیادی معلومات اسے حاصل کرنا مشکل نہ لگا۔ اپنے باپ کی فیکٹری میں کام بھی کیا جو ملٹری کے کام آنے والی مصنوعات تیار کرتی تھی۔

الفریڈ نوبل اپنے کام میں بہت مگن رہا اور ایک دن اس نے ڈائنامائٹ دریافت کر لیا۔ کہتے ہیں کہ دریافت اتفاقی تھی لیکن یہ بات یقینی ہے کہ الفریڈ کو دھماکا خیز مواد کی لگن سی تھی اور وہ کوئی ایسی ہی چیز بنانا چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی اس دریافت سے دنیا کا بھلا ہو گا۔ لوگ پہاڑوں کو توڑ کر راستے بنائیں گے، زمین ہموار کر کے وہاں گھر بنیں گے۔ اور لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ آسان ہو جائے گا۔ اس بات کا اسے گمان بھی نہ تھا کہ اس کی یہ دریافت جنگ و جدل کے لیے استعمال ہو گی وہ تو اسے امن کی نشانی سمجھ رہا تھا۔ 1880 میں پورے یورپ میں اس کی فیکٹریوں کا نیٹ ورک سا بن گیا۔ اس کا اب بھی یہ خیال تھا کہ اس کی اس دریافت سے دنیا متمدن ہو جائے گی ساری جنگیں ختم ہو جایں گی اور ایک پائیدار امن ہمیشہ کے لیے قائم ہو جائے گا۔ لیکن اس نے جلد ہی یہ بھانپ لیا کہ دنیا اس کی اس دریافت سے غلط قسم کے فائدے اٹھائے گی۔ نوبل عالمی جنگیں دیکھنے سے پہلے ہی دنیا سے چلا گیا۔ اور یہ پشیمانی بھی ساتھ لے گیا کہ اس دریافت کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور امن کے بجائے مزید خون خرابے کا باعث بن رہا ہے۔ اس کا ایک بھائی فرانس میں مرا تو ایک اخبار کو غلط فہمی ہوئی کہ وہ الفریڈ نوبل ہے اور اس نے سرخی لگائی ’موت کا سوداگر مر گیا‘ الفریڈ کی نظر سے سے یہ خبر گزری تو اسے ایک دھچکا لگا کہ کیا دینا اسے اس طرح یاد کرے گی؟ اس کا دل ٹوٹ گیا اور کچھ اچھا کرنے کا سوچنے لگا۔ اور یہی وہ وقت تھا جب اس نے نوبل انعامات دینے کا فیصلہ کیا۔ دولت الفریڈ کے پاس بہت تھی۔ شادی کی نہیں اولاد بھی نہیں تھی۔ اس نے اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ ان انعامات کے لیے وصیت کر دیا۔ سائنس سے اس کی دلچسپی اور وابستگی تھی اسی لیے اس نے فزکس، کیمسٹری، اور میڈیسن کے لیے بہترین کام کرنے والوں کے لیے انعامات رکھے۔ ان کے علاوہ ادب اور امن کے لیے بھی انعام رکھا گیا۔ بعد میں سویڈن نے اس میں اکنامکس کو بھی شامل کر لیا۔

Alfred Nobel

پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کو 1979 میں ان کی کوانٹم تھیوری پر دیا گیا۔ اسی تھیوری کو بنیاد بنا کر آج بھی تحقیق ہو رہی ہے۔

الفریڈ نوبل سویڈیش تھا اور ظاہر ہے یہ انعامات سویڈن ہی کو ہی دینا تھے۔ الفریڈ نے وصیت میں بھی یہی لکھا۔ لیکن اس نے امن کے انعام کی ادائیگی کی ذمہ داری ناروے پر ڈالی۔ جس کی اس نے کوئی وجہ تو نہیں بتائی لیکن قیاس ہے کہ وہ ناروے کی امن پسندی سے متاثر تھا اور ناروے کی اسمبلی اور حکومت کی عالمی امن کی تگ و دو سے واقف تھا۔ یا شاید یہ وجہ تھی کی اس نے وصیت پیرس کے سویڈیش، نارویجین کلب میں بیٹھ کر لکھوائی۔ سویڈن کو یہ بات پسند تو نہ آئی لیکن انہوں کے اسے چیلنج نہیں کیا اور ناروے نے امن کا نوبل انعام دینے کا فریضہ نبھانا شروع کر دیا۔

1895 میں ناروے کی امن انعام کی کمیٹی قیام میں آئی اور 1914 سے لے کر 1916۔ تک پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے کہ تقسیم نہیں ہوئی لیکن 1917 میں ریڈ کراس کو انعام دیا گیا۔ انعام کی رقم دس ملین نارویجین کراون ہے۔ کہا یہی جاتا ہے کہ یہ انعام اسے ملے گا جس نے اس سال امن کے قیام میں متاثر کن کوششیں کیں۔ دعوی بھی یہی کیا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ سیاست سے پاک اور خالص میریٹ پر جاتا ہے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ کچھ دیے گئے انعامات کافی متنازعہ رہے اور لوگوں نے اس پر آواز بھی اٹھائی۔

پچھلے چند برسوں میں ناروے کی نوبیل انعام کی کمیٹی نے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کو مزاح فراہم کر دیا ہے۔

2009

امریکی صدر باراک اوباما جنہیں ابھی صدارت سنبھالے نو ماہ ہی ہوئے تھے امن کے سب بڑے انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ دنیا تو حیران ہوئی ہی اوباما خود بھی حیران رہ گئے۔ ابھی تو انہوں نے امن کے لیے کچھ کیا ہی نہیں۔ کمیٹی کے صدر یاگ لاند پر شدید نکتہ چینی ہوئی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کہ ان سے کہا جا رہا ہو دیکھو ہمیں تم سے بہت امیدیں ہیں۔ جارج بش سے مختلف ثابت ہونا۔ اوباما نے انعام وصول کیا اور اسی دن واپس روانہ ہو گئے۔ اگلے دن کا ڈنر اور کنسرٹ بھی اٹینڈ نہیں کیا کہ انہیں امن قائم کرنے کی جلدی تھی۔ اور اسی سال فروری میں سترہ ہزار مزید فوجی افغانستان روانہ کر دیے۔

1994

اس سال فلسطینی لیڈر یاسر عرفات، اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر خارجہ میں یہ انعام تقسیم کیا گیا۔ اس پر بہت تنقید ہوئی۔ کیونکہ اس وقت بھی نہ کوئی امن تھا نہ کوئی کوشش۔ تینوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے تھے۔ یہاں بھی بس ایک امید کو سہارا بنا کر یہ انعام دیا گیا کہ بھئی اب تو صلح صفائی کر لو۔ کمیٹی کے ایک ممبر نے اختلاف کرتے ہوئے بطور احتجاج استعفی دے دیا۔ فلسطین آج بھی لہو لہان ہے۔

1973 – ہنری کسینجر

یہ ایک ظالمانہ مذاق تھا۔ ہنری کسینجر کے ہاتھ ہی نہیں پیراہن بھی بے گناہ ویتنامیوں کے خون سے رنگا ہوا تھا۔ کچھ توازن برقرار رکھنے کے لیے ویت نام کے لیو ڈیوک تھو کو بھی انعام میں شریک کیا گیا جو اس نے ٹھکرا دیا۔ جس وقت انعام کا اعلان ہوا اس وقت بھی ہنری کسینجر ویت نام پر بمباری کروا رہے تھے۔ کمیٹی کے دو ممبران نے احتجاج کیا اور مستعفی ہو گئے۔ کرسٹوفر ہیچنس نے ایک کتاب لکھی اور صاف صاف لکھا کہ وہ کسنجر وار کریمنل تھے۔

YITZHAK RABIN, SHIMON PERES AND YASSER ARAFAT

2002 – جمی کارٹر

کہا جاتا ہے کہ جمی کارٹر کی امن کی کاوشوں کا سلسلہ ربع صدی پر پھیلا ہوا ہے۔ ایران اور وسطی ایشیا کے رہنے والے شاید اتفاق نہ کریں۔ کارٹر کے انعام کا اعلان کرتے ہوئے ایک کمیٹی ممبر نے کہا کہ اس انعام کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ موجودہ ایڈمنسٹریشن پر تنقید کی جائے جو جنگ میں مبتلا ہیں۔ اس سے پہلے بھی امن کے انعامات سیاست کے پردے میں ہوتے رہے لیکن اس بار تو کافی حد تک سیاست سامنے آ گئی۔

2010 – لیو ژابو

یہ چین کے ایکٹویسٹ تھے۔ اور دبنگ بھی تھے۔ اپنی حکومت پر شدید تنقید کرتے اور اکثر جیل جاتے۔ جس سال انہیں امن کا انعام ملا اس سال بھی وہ جیل ہی میں تھے جہاں وہ گیارہ سال کی سزا کاٹ رہے تھے۔ انعام کی تقریب میں ان کی خالی کرسی تھی۔ وہ یقینی طور پر انعام کے حقدار رہے ہوں گے لیکن اس انعام نے ان کی زندگی مزید مشکل کر دی۔ چینی حکومت تنقید سننے کی عادی نہیں اور اس اعلان نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا۔ لیو بیمار ہو گئے اور وفات پا گئے۔ لیو اسلام کے خلاف بھی بولتے اور لکھتے رہے تھے۔ جارج بش نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو لیو نے اس کی حمایت کی۔ چینی حکومت نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور کچھ تجارتی معاہدے ناروے سے ترک کر دیے۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ انعام بھی سیاسی عینک لگا کر دیا گیا ہے۔ مقصد شاید امریکہ کو خوش کرنا تھا یا چین کو نشانہ بنانا تھا۔ کوئی بھی وجہ رہی ہو خمیازہ لیو ژابو نے بھگتا۔

2019

اور یہ تو ابھی پچھلے سال ہی بات ہے جب لوگ چونک سے گئے کہ ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابیے احمد علی کو امن کے انعام کا حقدار قرار دیا گیا جنہیں اقتدار سنبھالے ابھی سال ہی ہوا تھا۔ ایتھوپیا کا اپنے ہمسایہ ملک ایریٹریا کے ساتھ لمبا جھگڑا چل رہا تھا اور جنگ کی سی حالت تھی۔ اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں سے ہزاروں شہریوں نے ترک وطن کیا۔ اور علی احمد نے دونوں ملکوں کا قضیہ نمٹانے کی کوششیں کیں اور اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ بعد ہی ایریٹریا کا ایک شہر جس پر ایتھوپیا نے قبضہ کر لیا تھا واپس کر دیا۔ اور کمیٹی کو ان کی یہی ادا بھا گئی۔ دونوں ملکوں نے بیس سال پرانی دشمنی بھلا کر ایک امن معاہدہ بھی کر لیا۔ دونوں میں تجارت بحال ہوئی۔ لیکن اب سال بھر بعد صورت حال پھر بگڑ گئی ہے۔ جنگ کے بادل پھر چھا گئے ہیں اور علی احمد شدید تنقید کے نشانے پر ہیں۔

1991- آن سان سوشی

اس لسٹ میں سب سے بڑا نام آن سان سوشی کا ہے۔ وہ اپنے ملک کے آمر حکمرانوں کے خلاف مسلسل جد و جہد میں لگی رہی۔ میانمار جو پہلے برما کہلاتا ہے یہ سیاسی حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہیں۔ نظر بند رہیں اور اپنی فیملی سے دوری برداشت کی۔ نوبل کا امن انعام بھی انہیں اپنی نظربندی کے دوران ہی ملا۔ ان کا ہدف ملک کا صدر یا وزیراعظم بننا تھا۔ لیکن کچھ ایسے اصول تھے جن کی وجہ سے وہ اس عہدے کی حقدار نہیں ہو سکتی تھیں۔ ان کے لیے ایک اور عہدہ بنایا گیا اسے اسٹیٹ کاونسلر کا نام دیا گیا۔ اس کے اختیارات صدر اور وزیراعظم سے بھی زیادہ تھے۔ برسوں کی قید تنہائی اور نظربندی کے بعد وہ آزاد ہوئیں اور سیاست میں عملی حصہ لیا۔ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں جو ظلم ڈھائے اس کی داستانیں باہر آنے لگیں۔ گو سوشی انکار کرتی رہیں لیکن شواہد موجود تھے۔ دنیا میں آوازیں اٹھنے لگیں کہ سوشی کو امن انعام سے محروم کیا جائے۔ لیکن نوبل انعام ایک بار دے دیا جائے تو واپس نہیں لیا جا سکتا۔ کمیٹی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ یہ انعام سوشی کو ان کی امن کی کوششوں پر دیا گیا تھا۔ انعام حاصل کرنے کے بعد وہ جو کرتی ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سوشی کے دونوں ہاتھ روہنگیا مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہیں۔

امن کا یہ سب سے بڑا انعام کتنا غیر سیاسی ہے اندازہ لگایئے۔

1939 میں ایڈلف ہٹلر کو نامزد کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ ایک سویڈیش قانون ساز نے یہ مذاق کیا تھا۔ یہ ایک نہایت بھونڈا مذاق تھا۔ امریکہ کے سابق نائب صدر الگور کو ماحولیات پر ایک ڈاکیومنٹری بنانے پر انعام سے نواز دیا گیا۔ اس کا امن کی کوششوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دلائی لاما کو 1989 میں انعام دیا گیا۔ یہاں بھی عالمی امن کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ ہاں ان کا پیغام ضرور ہے دوستی اور بھائی چارے کا۔ اب بات کرتے ہیں ملالہ یوسفزئی کی۔ سترہ سالہ ملالہ کو 2012 میں ایک ساٹھ سالہ بھارتی کیلاش ستھیارتی کے ساتھ دیا گیا جو برسوں سے بچوں کے حقوق پر کام کر رہے ہیں۔ ہمیں فخر تو بہت ہے کہ ہماری ایک بچی کو اتنے بڑے انعام سے نوازا گیا لیکن سوال اٹھتے ہیں کہ کیا ملالہ نے امن کی کوششیں کی تھیں؟ اس کا کون سا کارنامہ ہے جسے بنیاد بنا کر کہا جائے کہ وہ امن قائم کر رہی تھی؟ اور کیا وہ پاکستان آ کر کچھ ایسا کرے گی جس سے وہ خود کو اس انعام کی واقعی صحیح حقدار ثابت کر سکے؟ ناروے کی نوبل امن کمیٹی نے کئی انعام بنا کسی میرٹ پر بانٹ ڈالے۔ سویڈن کو بھی ان سے اختلاف رہا اور وہ چاہتا ہے کہ نوبل کا یہ انعام بھی سویڈن کے حوالے کر دیا جائے۔

گاندھی پانچ بار انعام کے لئے نامزد ہوئے اور انہیں نہیں ملا۔ جس سال ملنے کی توقع تھی گاندھی وفات پا گئے۔ یہ انعام بعد از مرگ نہیں دیا جا سکتا۔

اب ایک اور ستم ظریفی ملاحظہ فرمایئے۔ امریکہ کے ایک قانون ساز لیوک میسیر نے جن کا تعلق انڈیانا سے ہے صدر ٹرمپ کو نامزد کیا ہے کہ انہوں نے کوریا کے ساتھ امن قایم کرنے میں نمایاں کارکردگی دکھائی ہے۔

افراد کے علاوہ امن کا انعام آرگنایزیشنز کو بھی دیا گیا۔ ریڈ کراس ایک سے زیادہ دفعہ انعام پا چکی ہے۔ اس کے علاوہ یو این ایچ سی آر، یونیسیف۔ ڈاکٹرز وید آؤٹ بارڈرز اور یورپین یونین کو بھی امن کے انعام سے نوازا گیا۔ اس سال ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کو یہ انعام دیا گیا ہے۔

امن کے اس انعام کی نامزدگی کوئی پیچیدہ کام نہیں۔ کسی بھی ملک کا کوئی بھی اسمبلی ممبر، حکومتی افسر، ملک کا سربراہ کسی کو بھی نامزد کر سکتا ہے۔ بس آپ خود کو نامزد نہیں کر سکتے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ باہمی صلح مشورے سے ایک دوسرے کو نامزد کیا گیا۔ سنا ہے پاکستان کے عبدالستار ایدھی صاحب کا نام کئی بار تجویز ہوا لیکن شاید باقاعدہ نامزدگی نہ ہو سکی۔

امن شاید کبھی بھی پائیدار نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں جنگیں ہوتی رہیں گی، ظلم روا رکھے جایں گے۔ نا انصافیاں بھی کم نہ ہوں گی۔ مگر امن کی کوششیں ضرور ہوتی رہنی چاہیں۔ کسی لالچ کے بغیر۔ اور انعام دینے والے بھی ذرا انصاف سے کام لیں۔ دنیا کا اعتبار اب نوبل امن انعام سے اٹھ سا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).