پیپلز پارٹی کے لیے پی ٹی آئی کی دور بین نگاہیں


آصف علی زرداری نے لاڑکانہ میں بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر، پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کچھ ایسے اشارے دیے ہیں، جن کے تجزیے سے نئی سوچیں جنم لیتی ہیں۔ ان کی پہلی توجہ طلب بات یہ تھی کہ ”پی ڈی ایم کے جتنے دوست بیٹھے ہوئے ہیں، عوام یہ ہیں۔ عوام کے نمایندے یہ ہیں۔ مینگل صاحب بلوچستان کے نمایندے ہیں، اچکزئی صاحب بلوچستان کے نمایندے ہیں، اے این پی کے پی کے کی نمایندہ جماعت ہے۔ ساحلوں، سمندروں سے، آئی لینڈ سے لے کے جناح پوسٹ تک، جو کہ آخری چوکی ہے کشمیر کی، وہاں تک پیپلز پارٹی کا جھنڈا ہے“ ۔

اس بیان کو غور سے ڈی کوڈ کریں تو معلوم ہو گا کہ آصف علی زرداری نے بلوچستان، کے پی کے، سندھ اور آزاد کشمیر سمیت تمام صوبوں اور علاقوں کے نام لیے، لیکن اگر نہیں لیا تو اس حوالے سے پنجاب کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے بلوچستان، کے پی کے، سندھ اور آزاد کشمیر کی بڑی سیاسی جماعتوں کے نام لیے اور اگر نہیں لیا تو مسلم لیگ نون کے قائدین اور پارٹی کا نام نہیں لیا، جس کی پنجاب میں اکثریت ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ماضی میں اندرون سندھ، پنجاب کو گالی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ استعمال کرنے والوں میں، وہاں کی قوم پرست جماعتیں اور کسی حد تک خود پیپلز پارٹی بھی شامل تھی۔

اگر آج آصف علی زرداری پنجاب کی تعریف میں کچھ کلمات ادا کر دیتے تو ممکن ہے انہیں مستقبل میں سندھ کارڈ کے استعمال میں مشکلات پیش آتیں۔ مزید یہ کہ مسلم لیگ نون کا نام نہ لینے کی ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی کے مد مقابل جماعت ہے۔ ہو سکتا ہے آصف علی زرداری کو خیال گزرا ہو کہ اگر انہوں نے مسلم لیگ اور ان کے قائدین کا شکریہ ادا کیا، تو اندرون سندھ، عوام پیپلز پارٹی کے سابق سخت رویے میں موجودہ نرمی دیکھ کر کہیں مسلم لیگ کی طرف متوجہ ہونا نہ شروع ہو جائیں۔

اس کے برعکس مریم نواز نے کھلے دل کے ساتھ اور علانیہ طور پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو سراہا اور پیپلز پارٹی کی جد و جہد کی تعریف کی۔ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے مزاروں پر جا کر پھول بھی رکھے۔ مریم نواز نے سیاسی فراخ دلی کی نئی مثال قائم کرتے ہوئے مسلم لیگ کے قائد اور اپنے والد نواز شریف کی قربانیوں کو اجاگر کرنے کی بجائے صرف پیپلز پارٹی کی قربانیوں کو اس موقع پر خاص طور پر دہرایا۔

مریم نواز نے کہا کہ اگر پھانسی ہوتی ہے تو سیاست دانوں کو، اگر سینوں میں گولیاں اترتی ہیں تو سیاست دانوں کے۔ یہ دونوں مثالیں پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے لیے تھیں۔ دیکھا جائے تو مریم نواز یہاں تیسرے جملے میں کہہ سکتی تھیں کہ اگر دیس نکالا ملتا ہے تو سیاست دانوں کو جس سے مراد مسلم لیگ نون کے قائد اور ان کے والد نواز شریف ہوتے، لیکن مریم نواز نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ کے قائد اور اپنے والد نواز شریف کا اس طرح ذکر نہیں کیا۔

دوسری توجہ طلب بات یہ ہے کہ آگے چل کر آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں کسی رہنما کا نام لیے بغیر وارننگ کے انداز میں کہا کہ ”آج بھی میری کوشش ہے کہ پورے پاکستان کی سیاسی پارٹیاں ایک پیج پہ ہو جائیں، ایک سوچ پہ آ جائیں، مگر ایک دوسرے کو ہم مت بتائیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ کچھ ہم سے بھی سیکھ لو، کچھ ہماری بھی سن لو۔ ہو سکتا ہے میں نے یہ کام پہلے کیے ہوں۔ میں نے ایک جنرل کو پریزیڈنٹ ہوتے ہوئے مکھی کی طرح دودھ سے نکال دیا، عمران خان کیا چیز ہے۔ نیازی کو ہم نکال سکتے ہیں، مگر ہمیں سوچ بدلنی ہو گی، ہمیں اپنا طریقہ بدلنا ہو گا، ہم نے جیلیں بھرنی ہوں گی”۔

آصف علی زرداری کے اس بیان کو غور سے ڈی کوڈ کریں تو معلوم ہو گا، کہ انہوں نے اپنا یہ سیاسی زعم مسلم لیگ نون کو جتلایا ہے کہ وہ سیاست میں استاد اعظم ہیں۔ انہوں نے جنرل کو نکالنے کی جو مثال دی ہے، اس کے ذریعے وہ مسلم لیگ کو بیک گراؤنڈ میں ممکنہ طور پر چل سکنے والی ڈیل کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے کا اشارہ دے رہے تھے اور یہ بات آصف علی زرداری ہی بتا سکتے ہیں کہ نکالنے سے مراد، کیا واقعی عمران نیازی ہی تھے؟

انہوں نے پی ڈی ایم کا طریقہ بدلنے کی جو تلقین کی ہے، اس سے مراد کیا یہ نہیں لیا جا سکتا کہ آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم کو چلانے کے لیے مسلم لیگ نون کا طریقہ مسترد کر دیا ہے؟ آصف علی زرداری کے مسلم لیگ کو ڈاؤن کرنے کے مذکورہ رویے کی جھلک، پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا میں بھی فوری طور پر نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر لاڑکانہ کے موجودہ جلسے کے فوراً بعد ہی پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا پر یہ گفتگو شروع ہو گئی کہ پیپلز پارٹی کے زیرانتظام پی ڈی ایم کے کراچی، ملتان اور لاڑکانہ کے جلسے بڑے اور پر جوش تھے، جب کہ مسلم لیگ نون کے زیر انتظام پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ اور لاہور کے جلسے زیادہ بڑے اور زیادہ پر جوش نہیں تھے۔

جب سے پی ڈی ایم قائم ہوئی ہے یہ پہلی بار ہے کہ پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا پر مسلم لیگ نون کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اوپر کے دلائل کا تجزیہ کریں، تو کچھ سوالات ذہن میں آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ آصف علی زرداری کا مسلم لیگ اور پنجاب کے حوالے سے مندرجہ بالا رویہ محض سندھ کارڈ کو بچانے کی چال تھی یا آصف علی زرداری کی دور بین نگاہیں مستقبل قریب میں عام انتخابات کو دیکھ چکی ہیں، جس کے باعث وہ الیکشن موڈ میں جانے کی اطلاع دے رہے ہیں۔ کیوں کہ پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں، بلکہ صرف موجودہ پی ٹی آئی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا پلیٹ فارم ہے۔

لہٰذا جب بھی عام انتخابات ہوں گے، پی ڈی ایم کی جماعتیں اپنے منشور اور اپنی سوچ کے مطابق انتخابات میں حصہ لیں گی۔ یعنی پی ڈی ایم کی اس وقت شیر و شکر جماعتیں عام انتخابات میں ایک دوسرے کی مخالف ہوں گی اور اس ماحول میں ایسی ہی آوازیں آئیں گی، جن کی گونج لاڑکانہ کے جلسے میں آصف علی زرداری کی تقریر میں سنائی دی۔ دوسرا سوال یہ کہ پی ٹی آئی والوں کو یقین ہے کہ پیپلز پارٹی کسی ایشو پر اختلاف کر کے مسلم لیگ نون سے راہیں جدا کر لے گی۔ تو کیا پیپلز پارٹی کے لیے پی ٹی آئی کی دور بین نگاہیں درست ہیں؟ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ نئے سال میں پاکستان کے عوام انحطاط پذیر اولڈ سیاسی مائنڈ سیٹ ہی کو جگہ دیتے ہیں، یا جواں سال نئے سیاسی مائنڈ سیٹ مریم نواز اور بلاول بھٹو کو پسند کرتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).