اور پھر نیا پاکستان بن گیا۔۔۔


ایک بے ثمر اور بد بخت الجھاؤ سے پہلے یہی ملک تھا جب دنیا کا سب سے بڑا اقتصادی منصوبہ (باون ارب ڈالر) کا سی پیک چین کے تعاون سے شروع کیا گیا اور گوادر کا دروازہ عالمی مارکیٹ کی طرف کھلنے ہی والا تھا۔ یہی ملک تھا جب شرح نمو پانچ اعشاریہ آٹھ کو چھونے کے قریب تھی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اور عالمی سرمایہ کا ر ہماری بلائیں لینے کو بے تاب رہتے تھے۔ یہی ملک تھا جب مہنگائی کی شرح تین فیصد تھی اور عام آدمی کی زندگی اتنی اجیرن بھی نہیں ہوئی تھی۔ یہی ملک تھا جب سٹاک ایکسچینج تریپن ہزار کا ہندسہ عبور کر کے ملائیشیا اور سنگاپور کے برابر آ چکا تھا۔ یہی ملک تھا جب چین کے ساتھ اقتصادی راہداری اور میگا پراجیکٹس اور روس کے ساتھ نئے معاہدوں پر دستخط ہونے لگے تھے، ہندوستان مذاکرات کی میز کی طرف بڑھنے لگا تھا، سعودی عرب نئی سرمایہ کاری کا متلاشی تھا اور امریکہ ڈو مور سے پیچھے ہٹنے لگا تھا۔

لیکن اب کیا ہے؟ بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ (کامیابی و ترقی) کس نے اور کیوں برباد کیا؟

ظاہر ہے اس ”خوفناک سوال“ کا جواب اتنا سادہ اور سہل نہیں سو فی الحال اس منظر نامے پر بات کرتے ہیں جو ملکی اور عوامی مفاد کے منافی ”منصوبے“ سے تخلیق پایا۔

لیکن ٹھہریے! گزشتہ اڑھائی سال میں ساڑھے 23 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لئے گئے۔ مالی خسارہ اور حکومتی اخراجات دونوں بڑھ گئے ہیں۔ سرکلر ڈیٹ 2300 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے شرح نمو منفی اور ایشیا میں سب سے کم اور مہنگائی سب سے زیادہ ہے۔ ریکوڈک پر متعلقہ کمپنی نے 5.7 ارب ڈالر کے جرمانے کی ادائیگی کے لئے برطانوی عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ سعودی عرب نے اپنا دو ارب ڈالر قرضہ واپس مانگا اور چین سے مہنگی ترین شرائط پر پیسے لے کر سعودی عرب کو قرض واپس کیا گیا۔ کشمیر قصہ پارینہ بن چکا۔ سی پیک اور گوادر ایک مذاق بن گئے ہیں اور اس سلسلے میں چین نئی ضمانتیں مانگ رہا ہے۔ آئین و قانون پارلیمان میڈیا کی آزادی اور نیب کے سیاسی مقتل کا تو ذکر ہی کیا۔

لیکن اسی منظر نامے سے ذرا پہلے کی بات ہے کہ جارحانہ بیانیے کے خالق اور اسٹیبلشمنٹ کے مشکل حریف نواز شریف ہی تھے جن کی وزارت عظمٰی کے دنوں میں آصف زرداری سے ملاقات طے ہو چکی تھی لیکن ملاقات سے چند گھنٹے پہلے آصف زرداری نے ایک جارحانہ تقریر میں اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی اور متنازع لہجہ اختیار کیا تو اداروں کے احترام میں وزیراعظم نواز شریف نے فوری طور پر ملاقات کو کینسل کر دیا۔

16 جون 2015 کو پانچ برس بھی نہیں گزرے لیکن اس مختصر عرصے میں بھی سوچ اور رویے کی تبدیلی ملاحظہ ہو کہ وہی نواز شریف اب نام لینے اور الزامات لگانے تک سے نہیں چوکتا۔ منطقی طور پر ایک مقبول اور طاقتور سیاسی لیڈر کی یہ ”جرات“ ظاہر ہے سیاسی اور عوامی سطح پر بہت تیز اور دور تک نفوذ کر گئی جس نے یقیناً ذمہ دار اور ہوش مند افراد کو ششدر بھی کر دیا اور پریشان بھی۔

مولانا فضل الرحمٰن دائیں بازو کے سب سے طاقتور اور جہاندیدہ لیڈر مانے جاتے ہیں وہ ایم آر ڈی سے اے آر ڈی تک ہر آمریت مخالف جمہوری تحریک کے صف اول میں رہے حتٰی کہ ضیاءالحق کے مارشل لاء میں قید و بند بھی کاٹتے رہے۔ وہ ہمیشہ آمریت کے شدید مخالف اور جمہوری جدوجہد کے پشتی بان رہے لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے بعض اوقات شدید تحفظات کے باوجود حساس اداروں کے حوالے سے احتیاط کا دامن نہ چھوڑا بلکہ بوقت ضرورت ”کمک“ بھی فراہم کرتے رہے ( ایل ایف او سے ثنا اللہ زہری حکومت تک ایک طویل سلسلہ ہے) لیکن اس دانا اور محتاط فضل الرحمٰن کو آخر کار کون سے عوامل جارحانہ طرز عمل کی طرف لے کر گئے۔ یہاں تک کہ بعض حساس منطقوں کے گھیراؤ کی دھمکی تک بھی دے ڈالی۔

1983ء میں سندھ میں علیحدگی کی لہر اٹھی تو بھٹو کی لاش وصول کرنے کے باوجود بھی یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے نہ صرف فیڈریشن کو ناسازگار حالات میں کمک فراہم کی بلکہ قوم پرستی اور علیحدگی کو سیاسی میدان میں اکھاڑ کر رکھ دیا جبکہ بے نظیر بھٹو کی لہو آلود لاش پر آصف علی زرداری کا کھڑے ہو کر پاکستان کھپے کا نعرہ لگانا دراصل اسی ذمہ دارانہ رویے کا تسلسل تھا لیکن آج بلاول کی ناراضگی اور تحفظات اسے یہاں تک لے گئے کہ لاکھوں کے مجمعے میں بھی ”پیغامات مت بھیجو“ تک کہہ دیتا ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی بقا اور سلامتی کے لئے مضبوط سیاسی قوتوں اور اداروں کے درمیان جس باہمی اعتماد اور مشاورت کی فضا کا ہونا ضروری ہے وہ بد قسمتی سے مکمل طور پر مفقود ہو چلی ہے جو بہرحال پاکستان دشمنوں کے سوا کسی کے بھی حق میں نہیں۔ موجودہ فضا سے فائدہ اگر کوئی اٹھا رہا ہے تو وہ یا تو بزنس کی آڑ میں وارداتیں کرنے والے گروہ ہے یا بدزبانی اور بہتان طرازی کو صحافت کہنے والے خائن یا گالم گلوچ کو ہنر بنا کر بیچنے والے تیسرے درجے کے سیاسی مشیر ہیں۔ لیکن نقصانات اٹھانے والا ہر وہ عام پاکستانی ہے جس کا تعلق مذکورہ گروہوں سے نہیں۔

کچھ اہم سوالات دانشور حلقوں میں تیزی کے ساتھ گردش کر رہے ہیں جو موجودہ تباہ کن حالات کے بطن سے پھوٹے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ موجودہ انتظام کے منصوبہ سازوں نے سیاسی اور معاشی حوالے سے غلط اندازے کیونکر لگائے؟ کیا فیصلہ ساز مراکز کو وژن اور بصیرت کے فقدان کا سامنا ہے اور کیا فیصلہ سازی پر ملکی اور قومی مفاد کی بجائے ذاتی خواہشات کا غلبہ رہا؟ کیا تمام سیاسی قوتوں کا بہاؤ منطقی طور پر ایک ہی رخ میں ہونے لگا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو فیصلہ ساز مراکز اور سیاسی قوتوں کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج اور تناؤ سے کون سے مسائل جنم لیں گے؟

کیا ارتقائی عمل اور تیزی کے ساتھ بدلتا ہوا منظرنامہ عدلیہ کے کردار پر اثر انداز ہوگا اور وہ (عدلیہ) دباؤ سے ہٹ کر آزادانہ فیصلوں کی طرف راغب ہو سکے گی؟

یہ اور اسی طرح کے بہت سے بنیادی سوالات اس افراتفری کے ماحول سے برآمد ہونے لگے ہیں جب ہر سو ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی روایتی حلیف سخت جان دینی قوتوں اور مدرسوں کی جگہ عمران خان کے جذباتی لیکن سیاسی حوالے سے غیر تربیت یافتہ اور عملی طور پر ناتواں پیروکار لے چکے ہیں جبکہ اول الذکر اب حلیف نہیں بلکہ حریف ہیں۔ سوشل میڈیا نے خبر پر پابندی کو اڑا کر رکھ دیا ہے اور یہی نئے منظرنامے کی تخلیق کا بنیادی جزو ٹھہرا۔

پنجاب پہلی بار غیر روایتی سیاست اور نئے بیانیے کے ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے جو کئی حوالوں سے ایک خطرناک اشارہ ہے۔ سو ایک بے ترتیبی اور بے بصیرتی سے پھوٹتا افراتفری کا ماحول اور فضا کی پراگندگی ہے جس میں وارداتیں کرنے والوں کی لاٹری نکل آئی ہے جبکہ سیاسی اور جمہوری عمل معاشی صورتحال آئین اور قانون پارلیمان ادارے اور پاکستانی عوام سب کے سب اس چکی میں برابر لیکن اپنے اپنے انداز سے پس رہے ہیں۔

اس افراتفری کی فضا میں کسی انہونی کا ڈر ہے کیونکہ احساس ذمہ داری اور اخلاص کی بجائے ہٹ دھرمی اور انا پرستی کا غلبہ ہے۔ اور سدا کا المیہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں ہم جیسوں کی بات سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).