غیرت آباد کا موضع عزت پورہ


جوتے اتار کر دونوں آمنے سامنے بستر پر بیٹھ گئے تو میراں نے ایک حسرت ویاس بھری نگاہ ساجی پر ڈالتے ہوئے سوال کا جواب دیا۔

’پتا ہے ساجی۔ جس رات تیری بارات واپس حویلی پہنچی، وہ پوری رات اکھیوں میں ہی کٹ گئی۔‘
’وہ کیوں؟‘ ساجی کا فکرمندانہ سوال آیا۔

’میرے ذہن میں جیسے ہی یہ منظر بنتا کہ آج میری جگہ میرے ساجی کے ساتھ کوئی اور ہے تو دل میں ہول سے اٹھتے تھے۔‘ میراں نے وجہ بتائی تو ساجی پیار سے میراں کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر مخاطب ہوا۔

’کملیے! تو پھر ذرا سوچ کہ جب میرے ذہن میں یہی خیال تیرے اور خیر دین کے بارے میں آتا ہے تو مجھ پہ کیا گزرتی ہے؟‘

’مگر ساجی! یہ سب تو تیری اپنی مرضی سے ہوا تھا۔ یاد کر تو  نے ہی کہا تھا کہ وڈے ملک صاحب کبھی  ہم کمہاروں کے ہاں رشتہ جوڑنے پر راضی نہیں ہوں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ میں خیرے کی ڈولی میں بیٹھ جاؤں۔ بعد کی بعد میں دیکھیں گے۔‘ میراں نے یاد دہانی کروائی تو ساجی تسلی دینے والے انداز میں گویا ہوا۔

’دیکھ بھلیے لوکے! اس وقت تو بھی زہر کھانے کی دھمکیاں دے رہی تھی اور ابا جی کا بھی مجھے پتا تھا۔ اس لیے جو اپنے اور تیرے حق میں بہتر سمجھا وہی کرنے کو کہا۔ تو اس وقت جیسی بھی ہے، جس حالت میں ہے کم از کم زندہ ہے مجھے مل تو لیتی ہے نا۔‘

’تیرے بغیر کیسا زندہ رہنا اور پھر آخر کب تک ہم یوں چوری چھپے ملتے رہیں گے؟ آخر کوئی نہ کوئی حل تو ڈھونڈنا ہے نا ہمیں۔‘ آخری جملہ کہتے ہوئے میراں نے آرام سے ٹھوڑی کے نیچے سے ساجی کا ہاتھ ہٹایا تو ساجی کے چہرے پر پریشانی کے سائے لہرانے لگ پڑے۔

’تو پریشان نہ ہو۔ یہ ویاہ ابا جی کی ضد تھی جو میں نے پوری کر دی۔ اب جلد ہی کوئی منصوبہ بنا کر تیری خیرے سے جان چھڑاتا ہوں۔ پھر تجھے ووہٹی بنا کر شہر کسی کوٹھی میں اپنے پاس رکھوں گا۔ بس تھوڑا اور انتظار کر۔‘ ’لیکن ساجی! جو کرنا ہے جلدی کر۔ وہ کیا ہے نا کہ۔‘

اس سے قبل کہ ساجی کی تسلی کے جواب میں میراں اپنی اصل پریشانی کا ذکر کرتی، ساجی کے موبائل فون پر گھنٹی بجنے لگی۔ جیب سے فون نکال کر سکرین پر ایک نظر پڑی تو انگلی سے میراں کو چپ رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے ساجی نے سکرین پر سے کال موصول کی۔ وقفے وقفے سے ہونے والی بات چیت میں ساجی کی آواز کچھ اس ترتیب سے آ رہی تھی۔

’جی وعلیکم السلام روبی صاحبہ!‘
’ارے نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ بس آج زمینوں پر پانی کی باری تھی۔ اس لیے ذرا مصروف ہوں۔‘

’نہیں نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ کیا ہے نا کہ نوکروں کے سر پر بیٹھ کر ان سے کام نہ کرواؤ تو پھر من مانی کرتے ہیں۔‘

’ہاں آپ پریشان نا ہو۔ میں آج رات ادھر ڈیرے پر ہی ہوں۔ فجر کے وقت تک آ جاؤں گا۔ پھر اس کے بعد ہمارا سارا وقت آپ کے لیے ہی تو ہے۔ آپ بس آرام سے سو جاؤ۔‘

’ٹھیک ہے بیگم صاحبہ۔ شب بخیر۔‘

اس ساری گفتگو میں میراں منہ بسورے لاتعلق سی بیٹھی رہی۔ فون بند کر کے ساجی نے سامنے جو دیکھا تو مسکرا اٹھا۔

’لگتا ہے پھر غصہ آ گیا تجھے۔ ارے! حویلی کی اس مہارانی کو بھی تو سمجھا بجھا کر سلانا تھا نا۔ اور پھر اسے شک نہ ہو اس لیے ایسے بات کرنا ضروری تھا۔‘

میراں شاید کسی اور ہی خیال میں غوطہ زن تھی۔ پتا نہیں کیا سوچ کر اس کی ہرنی جیسی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ گال پر ٹپک پڑا جسے کمال مستعدی سے ہاتھ کی ہتھیلی سے صاف کیا اور نم اکھیوں سے یوں بات کا دوبارہ آغاز کیا۔

’دیکھ ساجی! تو جس سے مرضی، جس طریقے سے بھی بات کر تیری مرضی۔ مگر رب کا واسطہ ہے میری مجبوری کو بھی سمجھ۔ میری سجاول کا تیسرا سال شروع ہو چکا ہے۔ جیسے جیسے وہ بڑی ہو رہی ہے اس کے نین نقش تیری صورت میں ڈھلتے جا رہے ہیں۔ تو تو مرد ہے تیری خیر ہے، لیکن اگر کل کلاں کو اس معصوم کی حقیقت کھل گئی تو مجھے اور میری بچی کو برادری والے زندہ مار دیں گے۔ ہم کمی کمین ضرور ہیں لیکن غیرت کے نام پر آج بھی ہمارے مرد کس حد تک جا سکتے ہیں، یہ سوچ کر ہی مجھے ہول سے اٹھتے ہیں۔‘

’تو پریشان نہ ہو۔ میں ملک ساجی ایسا موقع آنے ہی نہیں دوں گا۔‘ یہ کہتے ہوئے ساجی نے آگے بڑھ کر میراں کے پورے وجود کو اپنے بازوؤں کے حصار میں باندھ کر سینے سے لگا لیا۔ میراں کا سر جو ساجی کے سینے پر آیا تو ضبط کا بندھن بھی ٹوٹ گیا۔ اشکوں کے اس ریلے پر ساجی کی نگاہ پڑی تو سر پر ایک بوسہ ثبت کرتے ہوئے تسلی آمیز لہجے میں کہنے لگا۔ ’ارے پگلی! اب بس بھی کر۔ کہا ہے نا کہ جلد ہی کچھ بندوبست کرتا ہوں۔ تو پریشان نہ ہو۔ آج اتنے عرصے بعد ہم دونوں ملے ہیں اور تو ہے کہ ملن کی اس گھڑی کو رو دھو کر گزار دے گی؟‘

میراں تو محبت محبت کے اس کھیل میں پہلے ہی خود کو اپنے پورے وجود سمیت ساجی کے حوالے کر چکی تھی۔ ساجی نے بھی مہینے بھر کی اس تکلیف دہ دوری کے بعد قربت کے ان لمحات میں یک لخت ہی سارے فاصلے ختم کر دیے۔ ابن آدم اور بنت حوا حلال و حرام کی تمیز سے بالاتر ہو رہے تھے۔ اے سی کی ٹھنڈک پر خاکی خمیر کی گرمائش حاوی تھی۔

جانے کب رات کے کس پہر قربتوں کا یہ سفر تمام ہوا۔ اچانک ہی کسی خیال کے تحت میراں نے اپنے کپڑوں سمیت اپنی عزت کی چادر کو سنبھالا۔

’میرا خیال ہے مجھے اب چلنا چاہیے۔‘

’آج رات ادھر ہی رہ لے۔ اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ سویر ہونے سے پہلے تجھے گھر کے پاس چھوڑ آؤں گا۔‘ ساجی نے میراں کا بازو پکڑ کر اسے مزید روکنا چاہا لیکن میراں کو کوئی اور ہی خدشہ ستا رہا تھا۔

’نہیں ساجی۔ میں مزید نہیں رک سکتی۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں سجاول نیند سے جاگ نہ جائے۔ آج خالی پیٹ ہی سو گئی تھی۔‘

’اچھا چل۔ جاتے جاتے یہ تو بتا دے کہ پھر کب ملے گی؟‘ ساجی اگلی ملاقات کا وقت طے کرنا چاہتا تھا کہ میراں نے پیار سے اس کے گال چھوتے ہوئے اسے ایک اور عندیہ دے دیا۔

’پیارے ساجی! اگلی ملاقات تو اب تیرے اوپر منحصر ہے کہ کب تو اپنا وعدہ وفا کرتا ہے۔ سو بس آج کے لیے خدا حافظ۔‘ یہ کہہ کر میراں اٹھی ہی تھی کہ ساجی نے شرارت سے لپک کر چادر کا سرا پکڑ لیا۔ میراں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ساجی کے لب ہلے۔

’فی امان اللہ۔ ساجی کی جان‘

میراں کے جاتے ہی کچھ دیر بعد ساجی نے اپنے کپڑوں سمیت ظاہری حالت کو بہتر کیا اور اے سی بند کر کے کمرے سے باہر نکل آیا۔ کچھ دیر یوں ہی باہر ٹہلتا رہا، یہاں تک کہ نذیرا ماچھی واپس آ گیا۔

’ملک صاحب! آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں۔ کمرے میں آرام کر لیتے۔‘

’نہیں۔ میں تو بس تیرا انتظار کر رہا تھا۔ اب تو آ گیا ہے تو میں حویلی ہی چلتا ہوں۔ اباجی بھی شہر گئے ہوئے ہیں اور تیری ملکانی بھی گھر اکیلی ہے۔ رب راکھا۔‘ ساجی نے سرسری سا جواب دیا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔

’رب سوہنڑے دے حوالے۔ ملک صاحب۔‘ ہولے سے لب ہلاتے ہوئے نذیرے نے دعا دی۔

تیسرا اور آخری حصہ یہاں پڑھیں

اعتزاز حسن کہوٹ
Latest posts by اعتزاز حسن کہوٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3