کنواری – کرشن چندر کا افسانہ


 

اب میگی اور پام اور ماسٹر جی (ماسٹر متین احمد) کا تگڈم بن گیا تھا۔ تینوں برآمدے کے دوسرے کونے میں الگ سے جا کر بیٹھتے تھے تاش کھیلتے تھے اور ہر وقت تین شریر بچوں کی طرح مسرور اور مگن نظر آتے تھے۔ آپس میں ان کی کیا باتیں ہوتی تھیں یہ تو ہم نہیں جان سکے۔ البتہ اتنا ضرور احساس ہونے لگا کہ ان تینوں میں گاڑھی چھن رہی ہے۔ ماسٹر جی جو پہلے صرف میگی پر اپنی پوری توجہ صرف کرتے تھے اب میگی کے اصرار کرنے پر پام پر بھی کسی قدر اپنی توجہ دینے لگے۔ آہستہ آہستہ یوں ہو گیا کہ تعلقات برابر کے ہو گئے۔ ماسٹر جی اپنی آدھی توجہ میگی اور آدھی توجہ پام کو دیتے تھے اور کسی طرف ڈنڈی نہ مارتے تھے۔ بہت دنوں تک یہ سلسلہ چلا پھر ہولے ہولے غیر شعوری طور پر پام کی طرف پلڑا جھکتا چلا گیا۔ کیونکہ پام ساٹھ برس کی تھیں اور میگی اسی برس کی۔ پام کے چہرے پر جھریاں بہت کم تھیں اور پام کسی قدر زندہ دل تھی، اور کیسے عمدہ لطیفے سناتی تھی۔ میگی کی روح بلاشبہ پام سے بہتر معلوم ہوتی ہے مگر جسم کو جدھر سے دیکھو ہڈیاں سی نکلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ اور پام تو بالکل گرم پانی کی بھری ہوئی ربڑ کی بوتل کی طرح آرام دہ معلوم ہوتی ہے اور شریر پام پلڑا اپنی طرف جھکتے دیکھ کر غریب ماسٹر کو اور بھی اکسانے لگی۔ اور اپنی سہیلی کی ساری خاطر و مدارت بھول کر اسے جلانے پر تل گئی۔

”بے حیا بلی“ میگی نے اپنے دل ہی دل میں سوچا، پہلے تو میگی نے طرح دی اور بار بار وہ طرح دیتی رہی۔ کبھی نگاہیں پھیر لیتی، جیسے اس نے کچھ دیکھا نہ ہو۔ پھر ذہنی طور پر یوں غائب ہو جاتی جیسے اس نے کچھ سنا نہ ہو۔ پھر جب دل خون ہونے لگتا اس وقت بھی یوں ہنس دیتی جیسے کچھ ہوا نہ ہو۔ مگر پلڑا جھکتا ہی گیا اور ہم دیکھتے ہی رہے اور ان تینوں سے دور ہی دور اپنے برج کی میز سے اس دلچسپ ڈرامے کو دیکھتے رہے جو اب معراج کو پہنچ رہا تھا۔

ایک مہکتی ہوئی نارنجی شام میں جب ہوا کی خنکی بڑھ گئی تھی اور ہم لوگ مسوری کلب جانے کی تیاری کر رہے تھے، عائشہ اور میں کالے سنگ مرمر کے شیروں والے چبوترے پر کھڑے سکینہ اور فاضل بھائی کا انتظار کر رہے تھے جو اپنے اپنے کمرے میں کپڑے بدلنے کے لئے گئے تھے۔ گئی تو عائشہ بھی تھی مگر اپنے کمرے سے جلدی نکل آئی تھی کیونکہ اس طرح سے ہم دونوں کو اکیلے میں ساتھ رہنے کے لئے چند منٹ مل جاتے تھے۔ اس وقت عائشہ ایک کالے شیر کی پیٹھ پر بیٹھی ہوئی تنک مزاجی سے بار بار اپنے دائیں پاؤں کا سینڈل ہلا رہی تھی اور قریب کے مرمریں ستون پر چڑھی ہوئی زرد گلاب والی بیل سے پھولوں کی کچی کلیاں توڑ توڑ کر میرے پاؤں پر پھینک رہی تھی۔ ایک کلی میری پتلون کی موہری میں جا اٹکی اور میں اسے نکالنے کے لئے جو جھکا تو مجھے عائشہ کا سرخ ہوتا ہوا چہرہ اور اس کے سینے کے تھرتھراتے ہوئے ابھار اپنے بہت قریب نظر آئے۔ عائشہ بہت قریب سے مجھے دیکھ رہی تھی۔

میں نے جھکے جھکے اس کی طرف ایک لمحے کے لئے دیکھا وہ میرے اس قدر قریب تھی کہ میں اس کے سانس کی آنچ اور اس کے حسن کی پگھلتی ہوئی لو کو اپنے رخساروں پر محسوس کر سکتا تھا۔ اس کے گلابی ہونٹ ذرا سے کھل گئے تھے اور بالکل منتظر تھے۔ ایسے میں سکینہ کو برآمدے کے اندر کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا میں نے جلدی سے پتلون کی موہری سے زرد گلاب کی کچی کلی کو نکالا اور سیدھا ہو کر اسے زور سے دور پھینک دیا۔

”بزدل“ عائشہ ناگن کی طرح پھنکاری۔ پھر سکینہ کو آتے دیکھ کر سنبھل گئی۔

میگی اور پام ور ماسٹر جی بھی تینوں باہر جا رہے تھے مگر کلب کو نہیں۔ نالے پر سیر کرنے کے لئے۔ کچھ دنوں سے یہ تینوں اکٹھے سیر کرنے کے لئے نالے کو جاتے تھے۔ آج سردی بڑھتی دیکھ کر میگی اپنے دبلے چھریرے بدن میں جھرجھری محسوس کر کے کانپ اٹھی۔ اس نے پام اور ماسٹر جی دونوں کی طرف دیکھ کر کہا، ”ٹھہرو۔ میں اندر سے اپنا اونی کوٹ پہن کر آتی ہوں۔“

”اونی کوٹ۔ گرمی کی رت میں۔“ پام نے تضحیک آمیز آواز میں سوال کیا۔ مگر میگی اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دے کر اندر چلی گئی۔

چند لمحوں تک تو پام چپ رہی، اور اپنے دونوں کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ادھرادھر ڈولتی رہی۔ پھر اس کی آنکھوں میں ایک شریر چمک نمودار ہوئی اور اس نے اشارے سے ماسٹر متین احمد کو اپنے پیچھے آنے کے لئے کہا۔ ماسٹر متین احمد نے چند لمحوں کے لئے توقف کیا، بہت بے چین نظر آئے ادھر ادھر دیکھا جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو پام کے پیچھے پیچھے ہو لئے۔ پام نالے کی سمت جا رہی تھی۔ ماسٹر متین احمد کو ساتھ لے کر۔

چند لمحوں میں وہ دونوں نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ جب نظر سے اوجھل ہونے لگے تو میں نے دیکھا ماسٹر جی پام کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں پام نے ان کے بازو کا سہارا لے لیا تھا۔ وہ بازو، جو اب تک صرف میگی کے لیے محفوظ تھا۔ ان کے جانے کے بعد ہی میگی گنگناتی ہوئی اپنا ہلکا گرے اونی کوٹ پہن کر باہر نکل آئی۔ جب اس نے دیکھا کہ ماسٹر جی اور پام نہیں ہیں تو وہ ایک بار ٹھٹھک گئی۔ اس کے چہرے کا رنگ اک دم اس کے کوٹ کی طرح گرے ہو گیا۔ زیرلب ہونٹوں کی گنگناہٹ اک دم رک گئی اس نے ادھر ادھر دیکھا جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو سکینہ سے پوچھا، ”یہ لوگ کہاں ہیں۔“

”چلے گئے۔“ سکینہ نے بے حس لہجے میں کہا۔

میگی کی ڈولتی ہوئی پتلیاں بڑی تیزی سے ادھر ادھر گھومیں۔ جیسے کوئی پرندہ اچانک زخمی ہو کر تڑپنے لگے۔ سکینہ ان آنکھوں اذیت کی تاب نہ لا سکی بڑے غصے سے بولی، ”میگی تمہیں ہوا کیا ہے؟ دیکھتی نہیں ہو۔ پام تم سے عمر میں کتنی کم ہے؟“

میگی نے ایک لمحے کے لئے ٹھٹھک کر سیدھا سکینہ کی آنکھوں میں دیکھا۔ پھر بڑی نخوت سے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولی، ”عمر کم ہے تو کیا ہوا۔ وہ میری طرح کنواری تو نہیں ہے؟“

پھر مس میگی ایلئیٹ عمر اسی سال، ایک عورت، اپنی ایڑی پر گھوم گئی اور اک نا قابل تسخیر غرور سے سر اٹھائے ہوئے برآمدے میں چلی گئی۔ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی دروازہ بند ہو گیا۔ ہم دیکھتے ہی رہ گئے یہ بھی سمجھ نہ آیا ہنسیں یا روئیں۔

سکینہ اک دم بہت سنجیدہ ہو گئی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں ہم سے چرا لی تھیں اور اب تیز تیز قدموں سے آگے چل رہی تھی۔ ان کے پیچھے پیچھے فاضل بھائی جلدی جلدی سے قدم بڑھانے لگے۔

عائشہ نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا۔ میں نے گلاب کی بیل سے ایک زرد کلی کو توڑ لیا اور اسے سونگھتے ہوئے بولا،

”نو بڈ پارٹنر۔“

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3