اپنے نیرو سے کچھ باتیں


مولانا روم، شیخ سعدی اور حافظ شیرازی ان مشاہیر ادب میں سے ہیں جن کا اثر وقت گزرنے کے ساتھ ماند نہیں پڑتا بلکہ ہر زمانے میں ان کے خیالات کی نئی نئی پرتیں وا ہوتی ہیں۔ خواجہ محمد شمس الدین حافظ شیرازی سلطنت فارس کے شاعر بے بدل تھے۔ ان کا عہد چودھویں صدی تھا تاہم وہ آج تک آسمان سخن پر منور و تاباں ہیں۔ گرچہ انہوں نے مختلف اصناف سخن کی عزت افزائی کی تاہم ان کی غزل اس قدر دلنشیں ہے کہ بطور استعارہ استعمال ہوتی ہے۔ حافظ نے مزاج بھی شاعرانہ پایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ زیر عتاب رہے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کو اتنا ہی کافی ہو گا کہ جب امیر تیمور سروں کے مینار بناتا اور خون کی ندیاں بہاتا شیراز کو فتح کرنے میں کامیاب ہوا تو اس نے حافظ شیرازی کو سندیسہ دے کر بلوایا اور استفسار کیا، حضرت یہ شعر آپ کا ہے؟

اگر آن ترک شیرازی بہ دست آرد دل ما را
بہ خال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را
ترجمہ: اگر وہ شیرازی معشوق ہمارا دل تھام لے، تو اس کے دل فریب تل کے عوض میں سمر قند و بخارا بخش دوں

اثبات میں جواب ملنے پر امیر تیمور نے کہا، آپ جانتے ہیں سمرقند و بخارا میں نے کس مشکل سے فتح کیے؟ اور آپ محبوب کے تل پر یہ دونوں شہر صدقے واری کیے بیٹھے ہیں؟ خواجہ شیرازی نے جواب دیا حضور یہی دریا دلی تو اس حالت کو لے آئی ہے۔

شعر تو دلکش ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ جڑا مکالمہ اس قدر دل نشیں اور فکر انگیز ہے کہ شعر و مکالمہ دونوں تاریخ میں امر ہو گئے۔

اے عصر حاضر کے حافظ! جس کی بدولت کئی گھر اجڑ گئے، ہمارا ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ کم از کم ستر ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ پڑوسی ممالک سے دشمنی بڑھا لی۔ معیشت کی چولیں ہل گئیں۔ دنیا بھر میں نہ صرف تنہا رہ گئے بلکہ مشکوک ٹھہرائے گئے۔ آپ اس شخص کو مقدس ایوان میں بطور کپتان اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہوئے شہادت کا سرٹیفکیٹ عطا فرما رہے تھے تو کس قدر مسرور تھے۔ آپ کا حسن کرشمہ ساز جو چاہے کرتا پھرے، آپ سے کب کس نے تعرض کیا ہے؟

ہاں مگر جان کی امان نا بھی پاؤں تو بھی پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ منفی چھ ڈگری سینٹی گریڈ میں جوان بیٹے کی لاش لیے آپ کے منتظر، بوڑھے باپ اور بلکتی بہن، جس کے گھر میں اب لاشیں اٹھانے کو کوئی مرد نہیں بچا، ان کو کیا پیغام دیا جائے؟ آپ کا ذاتی نظریہ تو واضح ہو گیا، کیا ریاست ماں بھی مارنے والے کو شہید اور ذبح ہونے والے کو بلیک میلر کا سرٹیفکیٹ عطا کرے گی۔ سرائیکی کہاوت ہے کہ اپنا مارے تو کم ازکم سائے میں ڈال دیتا ہے۔

حضور! اب آپ کنٹینر سے اتر آئیں کیوں کہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، جو بھی معجزہ ہوا بہرحال اب آپ اس مملکت خداداد کے والی ہیں، یہ سب آپ کے اپنے ہیں۔ چند برس پیشتر آپ کینیڈا و برطانیہ کے وزرائے اعظم کی مثالیں دیا کرتے تھے شاید وہ تو آپ کو یاد نہ ہوں لیکن عرض کرتا چلوں کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم بلیک میل ہو گئی تھیں۔ اشک شوئی نہ سہی نمک پاشی تو نہ کریں۔ آج کے اطالیہ کی مثالیں دیتے ہوئے آپ کو یاد رہنا چاہیے کہ سلطنت روما میں ایک نیرو نام کا شہنشاہ بھی ہو گزرا ہے کہیں آپ اسی کے تعاقب میں تو نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).