ذوالفقارعلی بھٹو کا بیٹی بے نظیرکے نام خط


صاحبان علم و دانش کے مطابق عام لوگ مایوسی کے عالم میں اسیری اور جلاوطنی کی مذمت کرتے ہیں لیکن دانشور ان دونوں کو اپنی زیست کا حاصل قرار دیتے ہیں۔ تاریخ عالم میں کئی ایسے افراد کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے دوران اسیری معرکۃ الآراء کتابیں لکھیں، ایسے افراد میں جنوبی ایشیا کے دو عظیم سیاسی لیڈر بھی شامل ہیں جن کو دنیا پنڈت جواہر لعل نہرو اور ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے جانتی ہے۔

پنڈت جواہر لعل نہرو اور شہید ذوالفقار علی بھٹو خود بھی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے اور ان کے بعد ان کی صاحب زادیاں بھی۔ ان دونوں رہنماؤں نے اپنی بیٹیوں کو یہ خطوط بظاہر ان کی رہنمائی کے لیے لکھے تھے لیکن حقیقت میں یہ خطوط پاکستان اور ہندوستان کی عملی سیاست میں قدم رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایام اسیری میں اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو جو خطوط لکھے وہ ”Glimpses of world history“ (تاریخ عالم پر ایک نظر) کے نام سے کتابی شکل میں تین جلدوں میں شائع ہوئے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کوٹھڑی سے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو ”My dearest Doughter“ (میری سب سے پیاری بیٹی) کے عنوان سے جو خط لکھا وہ پاکستانی سیاسی تاریخ کی اہم دستاویز ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنے خطوط میں جن عنوانات پر قلم اٹھایا، ان میں پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی منظر نامے کا جائزہ، ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت، مذاہب کے سیاست پر اثرات، ایشیا اور برصغیر کی سیاست میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں پیش گوئی شامل ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے بے نظیر بھٹو کے نام جیل سے جو خط لکھا وہ پاکستانی سیاست کے اتار چڑھاؤ اور طرز حکمرانی کے تجزیے کا غماز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی عالمی سیاست پر گہری نظر کا اظہار بھی ہے۔ انہوں نے اپنے خط کے ذریعے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو ایک ممتاز سیاسی رہنما بننے کی ترغیب دی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اس خط میں بے نظیر بھٹو کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اگر وہ پاکستان کی ہر دلعزیز حکمران بننا چاہتی ہیں تو وہ عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے خط کے آغاز میں اپنی بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ”ایک سزا یافتہ قیدی کس طرح اپنی خوبصورت اور ذہین بیٹی کو اس کے یوم پیدائش پر تہنیت کا خط لکھ سکتا ہے جبکہ اس کی بیٹی (جو خود بھی مقید ہے اور جانتی ہے کہ اس کی والدہ بھی اسی کی طرح تکلیف میں مبتلا ہے ) اس کی جان بچانے کے لئے جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہ رابطے سے زیادہ بڑا معاملہ ہے، محبت و ہمدردی کا پیغام کس طرح ایک جیل سے دوسری جیل اور ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک پہنچ سکتا ہے؟“

ذوالفقار علی بھٹو کہتے ہیں ”پیاری بیٹی! میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں، یہ پیغام آنے والے دن کا پیغام ہے اور تاریخ کا پیغام ہے، صرف عوام پر یقین کرو، ان کی مساوات اور نجات کے لیے کام کرو، اللہ تعالی کی جنت تمہاری والدہ کے قدموں تلے ہے، سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے، برصغیر کی پبلک زندگی میں کچھ کامیابیاں میرے کریڈٹ پر ہیں لیکن میری یادداشت میں صرف وہ کامیابیاں انعام و کرام کی مستحق ہیں جن کے ذریعے مصیبت زدہ عوام کے تھکے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئی ہیں اور جن کے باعث کسی دیہاتی کی غم ناک آنکھ میں خوشی کی چمک پیدا ہو گئی ہے۔“

ذوالفقار علی بھٹو اپنی سنہری یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”دنیا کے عظیم لیڈروں نے جو خراج تحسین مجھے پیش کیا ہے ان کے مقابلہ میں اس موت کی کال کوٹھڑی میں، میں زیادہ فخر و اطمینان کے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک بیوہ کے الفاظ یاد کرتا ہوں جس نے مجھ سے کہا تھا کہ ’دقو واریاں سولا رسائیں‘ اس نے یہ الفاظ اس وقت کہے تھے جب میں نے اس کے کسان بیٹے کو ایک غیر ملکی وظیفے پر باہر بھیج دیا تھا۔“

ذوالفقار علی بھٹو لکھتے ہیں کہ ”پنڈت جواہر لعل نہرو نے اندرا کو جو خطوط لکھے تھے وہ Glimpses of world history کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع کر دیے گئے تھے۔“ ذوالفقار علی بھٹو کے مطابق ”میں نے 23 سال کی عمر تک اس کتاب کو چار مرتبہ پڑھا تھا، پنڈت جواہر لعل نہرو ہمارے زمانے کے انتہائی صاف ستھری انگریزی نثر لکھنے والوں میں سے تھے، ان کے الفاظ میں ایک قسم کا فیضان اور ترنم ہوتا تھا، وہ بھارتی عوام کے ایک عظیم لیڈر تھے، انہوں نے کیمبرج میں تعلیم پائی تھی، وہ اونچے سماجی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔“

ذوالفقار علی بھٹو اپنی اور نہرو کی جیل کے ایام کی زندگی کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”نہرو پر کسی کے قتل کا الزام تھا اور نہ ہی ریاستی بد عنوانی کا الزام، نہرو میری طرح لاڑکانہ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے شخص تھے اور نہ ہی وہ موت کی کال کوٹھڑی کی مشکلات سے دوچار تھے، نہرو کی قسمت کا فیصلہ میری طرح اس کی قوم کے حکمران ٹولے کے ہاتھ میں نہ تھا، میرے اور نہرو کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے۔“

ذوالفقار علی بھٹو کہتے ہیں کہ ”پنڈت جواہر لعل نہرو نے جب اپنی بیٹی (اندرا گاندھی) کو خط لکھا اس وقت وہ تیرہ سال کی تھی اور اسے سیاست کی مشکلات اور پیچیدگیوں کا کوئی علم نہیں تھا لیکن تم (بے نظیربھٹو) اس وقت آگ کے درمیان پھنسی ہوئی ہو اور یہ آگ نا مہربان فوجی حکمرانوں کی لگائی ہوئی ہے، یہ آگ تباہ کن اور ہولناک ہے، اس لیے بہت زیادہ فرق ہے، تم دونوں کا تقابل نہیں کیا جا سکتا، سچ تو یہ ہے کہ اندرا گاندھی بھارت کی وزیراعظم بن گئی اور گیارہ سال اس عہدے پر متمکن رہی، اسے اس وقت دیوی کہہ کر پکارا گیا جب اس نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لیا۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ میری بیٹی جواہر لعل نہرو کی بیٹی سے زیادہ عظیم ہے، میرا یہ تجزیہ جذباتی یا موضوعی نہیں ہے بلکہ یہ میری بے لاگ رائے ہے، تم میں اور اندرا گاندھی میں ایک شے قدر مشترک ہے کہ تم دونوں یکساں طور پر بہادر ہو، تم دونوں پختہ فولاد کی بنی ہوئی ہو یعنی تم دونوں کی قوت ارادی فولادی نوعیت کی ہے لیکن تمہاری صلاحیت اور ذہانت تمہیں کہاں لے جائیں گی؟

صاف ظاہر ہے کہ یہ تمہیں انتہا بلندی پر لے جائیں گی لیکن ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں تمہاری صلاحیت تمہاری مشکل بن جائے گی، ہمارے ہاں گھٹن کی شکار ناپسندیدہ صلاحیت کو ایک اثاثہ سمجھا جاتا ہے، میں اس جیل کی کوٹھڑی سے تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں جس میں سے میں اپنا ہاتھ بھی باہر نہیں نکال سکتا؟ میں تمہیں عوام کا ہاتھ تحفے میں دیتا ہوں، میں تمہارے لئے کیا تقریب منعقد کر سکتا ہوں؟ میں تمہیں ایک مشہور نام اور ایک مشہور یادداشت کی تقریب کا تحفہ دیتا ہوں، تم سب سے قدیم تہذیب کی وارث ہو، اس قدیم تہذیب کو انتہائی ترقی یافتہ اور انتہائی طاقتور بنانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرو۔

ترقی یافتہ اور طاقتور سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ معاشرہ انتہائی ڈراؤنا ہو جائے ایک خوفزدہ کرنے والا معاشرہ ایک مہذب معاشرہ نہیں ہوتا، مہذب کے معنی میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ وہ ہوتا ہے جس نے قوم کے خصوصی جذبے کی شناخت کرلی ہو، جس نے ماضی و حال سے، مذہب اور سائنس سے، جدیدیت اور تصوف سے، مادیت اور روحانیت سے سمجھوتا کر لیا ہو، ایسا معاشرہ ہیجان و خلفشار سے پاک ہوتا ہے اور کلچر سے مالا مال ہوتا ہے، اس قسم کا معاشرہ شعبدہ بازی کے فارمولوں اور دھوکہ بازی کے ذریعے معرض وجود میں نہیں لایا جا سکتا، وہ روحانی یا آفاقی اقدار اور تلاش کی گہرائی سے پیدا ہو سکتا ہے، دوسرے الفاظ میں ایک غیر طبقاتی معاشرہ کی تخلیق ہونی ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ مارکسسٹ معاشرہ ہو، مارکسسٹ معاشرے نے خود اپنا طبقاتی ڈھانچہ تخلیق کر لیا ہے، یورپ کے مارکسسٹوں نے کمیونزم سے انحراف کیا ہے اور انہوں نے ایسا موجودہ طبقاتی ڈھانچے سے سمجھوتہ کر کے کیا ہے ورنہ Enrico Berlinguer تاریخی سمجھوتہ کرنے کی کوشش نہ کرتا جو درحقیقت Aldo Moro کے قتل کا باعث ہوا۔ ”

ذوالفقار علی بھٹو نے بے نظیر بھٹو کے نام اس خط میں دنیا کے مختلف بر اعظموں کی سیاسی و سماجی صورتحال کا تفصیل سے تجزیہ کرتے ہوئے پاکستان کے حالات پر بھی تبصرہ کیا ہے، انہوں نے خط کے آخر میں لکھا ہے کہ ”میں جو کچھ لکھتا ہوں وہ کمزوریوں سے پر ہے، میں بارہ مہینے سے قید کی تنہائی میں ہوں اور تین مہینوں سے موت کی کوٹھڑی میں ہوں اور تمام سہولتوں سے محروم ہوں، میں نے اس خط کا کافی حصہ ناقابل برداشت گرمی میں اپنی ران پر کاغذ کو رکھ کر لکھا ہے، میرے پاس حوالے دینے کے لیے کوئی مواد یا کوئی لائبریری نہیں ہے، میں نے نیلا آسمان بھی شاذ و نادر ہی دیکھا ہے، حوالہ جات ان کتابوں سے لئے گئے ہیں جن کو پڑھنے کی مجھے اجازت تھی اور ان اخبارات سے لئے گئے ہیں جو تم یا تمہاری والدہ اس دم گھٹنے والی کوٹھڑی میں مجھ سے ہفتہ میں ایک بار ملاقات کرنے کے وقت ساتھ لے کر آتی ہو، میں اپنی خامیوں کے لئے بہانے نہیں تراش رہا ہوں لیکن اس قسم کے جسمانی اور ذہنی حالات میں گرتی ہوئی یادداشت پر بھروسا کرنا بہت مشکل ہوا کرتا ہے۔

میں پچاس سال کا ہوں اور تمہاری عمر میری عمر سے نصف ہے، جس وقت تک تم میری عمر میں پہنچو گی، تمہیں عوام کے لئے اس سے دوگنی کامیابی حاصل کرنی چاہیے، جس قدر کہ میں نے ان کے لئے حاصل کی ہے، میر غلام مرتضیٰ بھٹو جو میرا بیٹا اور وارث ہے وہ میرے ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی شاہنواز اور صنم میرے ساتھ ہیں، میرے ورثاء کے حصے کے طور پر اس پیغام میں ان کو بھی شریک کیا جائے۔

میر سائیں رابرٹ کینیڈی کے بیٹے کا قریبی دوست ہے، ہر نسل کا اپنا مرکزی مسئلہ ہوا کرتا ہے کہ آیا جنگ کو ختم کرنا ہے، نسلی نا انصافی کو مٹانا یا کارکنوں کی حالت کو بہتر بنانا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کل کے نوجوانوں کو انفرادی انسان کے وقار کی فکر ہے اور وہ ضرورت سے زائد اختیارات اور طاقت کی حد بندی کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ ایسی حکومت چاہتے ہیں جو اپنے شہریوں سے براہ راست اور دیانت داری کے ساتھ بات کرے، امکانات تو بہت زیادہ ہیں، داؤ پر بہت کچھ لگا ہوا ہے، میں آنے والی نسل کے لئے ٹینی سن کا مایوس کن لیکن ایک طرف سے پیغمبرانہ پیغام چھوڑتا ہوں کہ ”ارے پچاس سال کی عمر میں، میں کیسا ہو جاؤں گا؟ اگر قدرت نے مجھے زندہ رکھا جبکہ اس پچیس سال ہی کی عمر میں میں دنیا کو اس قدر تلخ پاتا ہوں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).