فارن فنڈنگ کیس کیا ہے اور اس کے پاکستانی سیاست پر کیا ممکنہ اثرات ہو سکتے ہیں؟


ووٹ
پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کا حکومت مخالف اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)، آج (منگل) وفاقی دارالحکومت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مرکزی دفتر کے سامنے احتجاجی مارچ منعقد کر رہا ہے۔

یہ احتجاج الیکشن کمیشن کی جانب سے چھ سال سے زائد عرصے سے حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے خلاف مبینہ طور ممنوعہ ذرائع سے غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کے کیس کو زیر التوا رکھنے کے خلاف کیا جا رہا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ ان کی جاعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل نہیں کیے بلکہ تمام حاصل ہونے والے فنڈز کے دستاویزات موجود ہیں۔

ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گیے ایک حالیہ انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ دو ملکوں نے انھیں انتحابات میں مالی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول نہیں کی تھی۔

عمران خان نے ان دو ملکوں کے نام یہ کہہ کر نہیں بتائے کہ ان کے نام بتانے سے پاکستان کے ان ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہو جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

فارن فنڈنگ کیس: ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟

فارن فنڈنگ کیس: الیکشن کمیشن کیوں اور کس کے کہنے پر گھبرا رہا ہے، نواز شریف کا سوال

’غیر ملکی فنڈنگ پر ہر سیاسی جماعت کو حساب دینا ہوگا‘

اگرچہ وفاقی حکومت نے ان سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کرنے کی اجازت دے دی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ اگر قانو ن کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی گئی تو پھر ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

واضح رہے کہ عمران خان نے بھی سنہ 2013 کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کی قیادت کی تھی۔ اسی احتجاج کے دوران عمران خان نے اس وقت کے الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس پر اُنھیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا اور بعد ازاں عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سے معذرت کی تھی۔

پاکستان میں سیاسی جماعتیں فنڈز کیسے اکھٹا کر سکتی ہیں، متعلقہ قوانین کیا ہیں، اگر الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو کیا پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے اور اس کیس کے پاکستان کے سیاسی مستقبل پر کیا اثرات ہوں گے، یہ سب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ کیس کب اور کیسے شروع ہوا۔

غیر ملکی فنڈنگ کیس کیا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں کوئی سیاسی مخالف جماعت نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اپنے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر سنہ 2014 میں لے کر آئے تھے۔

اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہا کہ مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ اُنھوں نے سنہ 2011 میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے سامنے اٹھایا تھا اور یہ کہا تھا کہ پارٹی کے ایک اور رکن جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس معاملے کو دیکھے لیکن اس پر عمران خان کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی بنا پر وہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر گئے۔

اکبر ایس بابر کے مطابق امریکہ اور برطانیہ میں جماعت کے لیے وہاں پر رہنے والے پاکستانیوں سے چندہ اکھٹے کرنے کی غرض سے لمیٹڈ لائبیلیٹیز کمپنیاں بنائی گئی تھیں جن میں آنے والا فنڈ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیا گیا۔

اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقم پاکستان تحریک انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کا الیکشن کمیشن میں اس درحواست کو لے کر جانے کا مقصد کسی جماعت پر پابندی لگوانا نہیں اور نہ ہی کسی کی عزت کو اُچھالنا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والے فنڈز سے ملکی سلامتی پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔

الیکشن کمیشن میں اس درخواست کا کیا بنا؟

جب اکبر ایس بابر کی طرف سے یہ درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی تو اس پر کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے یہ معاملہ مختلف اوقات میں چھ مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے جایا گیا اور یہ مؤقف اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کے اکاونٹس کی جانچ پڑتال کا اختیار نہیں۔

ایک مرتبہ حکم امتناع ملنے کے بعد جب عدالت عالیہ نے مزید حکم امتناع دینے سے انکار کیا تو پھر اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی سکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار اور مبینہ طور پر اسے کام کرنے سے روکنے کے لیے بھی حکم امتناع حاصل کیے گئے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹری فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ کسی جماعت کو دستیاب قانونی آپشن استعمال کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

واضح رہے کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی نے جب موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تو اس کے ساتھ ایک متفرق درخواست فارن فنڈنگز کے حوالے سے بھی دی گئی تھی جس پر سپریم کورٹ نے سنہ 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمشن کو سنہ 2009 سے 2013 کے دوران اس جماعت کو جتنے بھی فنڈز ملے اس کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تھا۔ سنہ 2014 سے لے ک 2018 تک یہ معاملہ مختلف عدالتی فورمز پر زیر بحث رہا ہے۔

الیکشن کمیشن

پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف

پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فرخ حبیب کے مطابق اس وقت پاکستان اور دنیا بھر میں ان کی جماعت کے 40 ہزار سے زیادہ ڈونرز ہیں جو ان کی جماعت کو چندہ دیتے ہیں۔ ان کے بقول ان تمام ڈونرز کی فہرست الیکشن کمیٹی کی سکروٹنی کمیٹی کے حوالے کی جا چکی ہیں۔

کافی عرصے تک پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف رہا ہے کہ اُنھوں نے بیرون ممالک سے جتنے بھی فنڈز اکھٹے کیے ہیں وہ قانون کے مطابق ہیں لیکن گذشتہ دنوں حکمراں جماعت کی طرف سے جو بیان سکروٹنی کمیٹی کو پیش کیا گیا اس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ اگر بیرون ممالک سے حاصل ہونے والے چندے میں کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ اس ایجنٹ پر عائد ہوتی ہے جس کی خدمات اس کام کے لیے لی جاتی ہیں۔

اسی جواب کو بنیاد بناتے ہوئے حزب مخالف کی جماعتوں نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کیے ہیں۔

الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والے وکیل شاہ خاور کا کہنا ہے کہ سکروٹنی کمیٹی کے ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ اگر ایجنٹس نے پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی غیر ملکی کمپنی یا شخص سے کوئی چندہ حاصل کیا ہے تو اس کی ذمہ داری ان کی جماعت پر نہیں ہوگی بلکہ اس کی ذمہ داری ان ایجنٹس پر ہوگی اور مقامی قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

تاہم جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر کسی ایجنٹ نے قانون کے خلاف ورزی کرتے ہوئے جو رقم اکٹھی کی ہے کیا وہ فنڈز پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئے ہیں تو تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ پارٹی کے پاس جو بھی فنڈز آئے ہیں ان کا آڈٹ کروایا گیا ہے۔

اُنھوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے اس الزام کو تسلیم کیا ہے کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے چندہ اکھٹا کیا ہے۔

عمران خان

ایک حالیہ انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ دو ملکوں نے انھیں انتحابات میں مالی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول نہیں کی تھی

نواز لیگ اور پیپلز پارٹی پر ممنوعہ فنڈنگ کے کیا الزامات ہیں؟

اگرچہ پی ٹی آئی کا معاملہ تو سلجھا نہیں مگر اسی دوران پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے اثانوں کی چھان بین اور مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ سنہ2017 میں الیکشن کمیشن میں آ گیا اور یہ کیس حکمراں جماعت کے رکن قومی اسمبلی فرخ حبیب لے کر آئے تھے۔

مسلم لیگ نون پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ جماعت برطانیہ میں بطور ’ایل ایل سی‘ رجسٹرڈ ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں روحیل ڈار نامی شحص اس جماعت کے لیے فنڈز اکھٹا کرتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ مختلف بین الاقوامی کمپنیوں نے اس جماعت کو فنڈز فراہم کیے ہیں اس کے علاوہ اس جماعت پر 70 کروڑ روپے چندہ میڈیا گروپ کو دینے کا بھی الزام ہے۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ نواز سے بھی فنڈز کی تفصیلات طلب کر رکھی ہیں۔

اسی طرح حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے فنڈز کی جانچ پڑتال کرنے کا معاملہ بھی سنہ 2017 میں الیکشن کمیشن میں آیا۔ اس جماعت پر الزام عائد کیا گیا کہ سنہ 2008 کے عام انتحابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آ کر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک امریکی شہری مارک سیگل جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے امریکہ میں لابنگ کرتے ہیں ان کے ذریعے مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم پاکستان پیپلز پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے۔ اس جماعت پر یہ بھی الزام ہے کہ بعض غیر ملکی کمپنیوں نے انھیں انتخابات کے لیے فنڈز دیے تھے۔

مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی شاہنواز رانجھا کے مطابق اُن کی جماعت پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کے الزامات نہیں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کی جماعت بیرون ممالک سے چندہ جمع ہی نہیں کر رہی۔

نواز شریف

پاکستان مسلم لیگ نون پر یہ الزام ہے کہ مختلف بین الاقوامی کمپنیوں نے اس جماعت کو فنڈز فراہم کیے ہیں اس کے علاوہ اس جماعت پر 70 کروڑ روپے چندہ میڈیا گروپ کو دینے کا بھی الزام ہے

انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت کے لیے چندہ پاکستان سے ہی جمع کیا جاتا ہے اور اس چندے میں زیادہ تر حصہ ارکان پارلیمنٹ اور ارکان صوبائی اسمبلیوں کا ہوتا ہے۔

شاہنواز رانجھا نے دعوی کیا کہ ان کی جماعت نے فنڈنگز سے متعلق تمام تفصیلات سکروٹنی کمیٹی کو جمع کروا دی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ حکمراں جماعت نے حزب مخالف کی بڑی جماعتوں کے خلاف بیرون ممالک سے فنڈز اکھٹا کرنے کے معاملے کی تحققیات کے لیے درخواست اس لیے دی تاکہ اس معاملے کو طول دیا جا سکے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم سے متعلق ان کی جماعت کے خلاف کوئی شواہد سکروٹنی کمیٹی کو فراہم نہیں کیے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کی تشکیل ہوئے 53 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چلا ہے اور آج تک ان کی جماعت پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کے الزامات نہیں لگائے گئے۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کی جماعت کو جو بھی فنڈز ملتے ہیں ان کی تمام تر تفصیلات الیکشن کمیشن میں باقاعدگی سے جمع کروائی جاتی ہیں۔

زرداری، بلاول

پیپلز پارٹی پر الزام ہے کہ سنہ 2008 کے عام انتحابات کے بعد اس جماعت نے اقتدار میں آ کر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز جمع کیے ہیں

سیاسی جماعتیں بیرون ممالک سے فنڈ کیسے اکھٹا کرتی ہیں؟

پاکستان کی محتلف سیاسی جماعتوں نے بالخصوص امریکہ اور برطانیہ سمیت مختلف ترقی یافتہ ملکوں میں لمیٹیڈ لائبلیٹیز کمپنییاں بنا رکھی ہیں جس کے انچارج اس ملک میں مقیم ایسے پاکستانی ہوتے ہی جس کے پاس دوہری شہریت ہوتی ہے۔

ان ذمہ داران یا ایجنٹس کی تقرری فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے۔

یہ نمائندے ان ملکوں میں موجود دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں یا جن کے پاس نائیکوپ کارڈ ہے، سے اپنی جماعت کے لیے فنڈز اکھٹے کرتے ہیں اور پھر اُنھیں پاکستان بھجواتے ہیں۔ ان ایجنٹس کو پارٹی کا منشور بھیجا جاتا ہے اور یہ ہدایات بھی دی جاتی ہیں کہ پاکستانیوں کے علاوہ کسی غیر ملکی حکومت، شخصیت یا ادارے سے پارٹی کے لیے فنڈز حاصل نہ کریں۔

ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟

الیکشن کمیشن ایکٹ سنہ 2017 کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نینشل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔

اس ایکٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانی یا جن کو نینشل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی نے نائیکوپ کارڈ جاری کیا ہے، ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ سیکشن 204 کے سب سیکشن چار کے تحت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں تو جتنی بھی رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے اس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن ایکٹ سنہ2017 جو کہ پارلیمنٹ میں موجود پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر پاس کیا تھا، میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بنائے گیے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ سنہ 2002 کی دفعات 204 سے لے کر 212 تک کو شامل کیا گیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ تمام دفعات سیاسی جماعتوں کی فارن فنڈنگز سے متعلق ہیں۔

الیکشن کمیشن

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کنور دلشاد نے کہا کہ اس قانون کے آرٹیکل 210 کے تحت اگر کسی جماعت پر ممنوعہ ذرائع سے بیرون ممالک سے چندہ حاصل کرنے کے ثبوت مل جائیں تو الیکشن کمیشن اس وقت کی حکومت کو اس جماعت کے خلاف ریفرنس بھیجے گا جس پر عمل درآمد کرنا حکومت وقت کے لیے لازم ہو گا۔

اُنھوں نے کہا کہ الیکشن کمشن ایکٹ سنہ2017 کی شق 212 کے تحت ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے فنڈز کی پاداش میں الیکشن کمیشن اس سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے وفاقی حکومت کو لکھے گا اور وفاقی حکومت 15 روز میں یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھییجے گی۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ ایسی سیاسی جماعت کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس کو درست مانتی ہے تو ایسی صورت میں سیاسی جماعت ختم ہو جائے گی۔

کنور دلشاد کے مطابق ایسا ہونے کی صورت میں اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمٹنٹ کے علاوہ ارکان صوبائی اسمبلی حتیٰ کہ لوکل گورنمنٹ کے نمائندے بھی نااہل ہو جائیں گے۔

پاکستانی تاریخ میں صرف ایک سیاسی جماعت پر پابندی عائد ہوئی

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر مختلف ادوار میں یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ اُنھیں فلاں دشمن ملک یا ایسا ملک مالی معاونت فراہم کر رہا ہے جس کا پاکستان میں کوئی مفاد ہوں لیکن ملکی تاریح میں الیکشن کمیشن نے صرف ایک سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی تھی جس پر الزام ثابت ہو گیا تھا کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے پارٹی چلانے کے لیے فنڈز اکھٹے کیے ہیں۔ یہ جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی۔

نیشنل عومی پارٹی ایک پراگریسو سیاسی جماعت تھی اور اس کی بنیاد سنہ 1958 میں اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں عبدالمجید خان باشانی نے رکھی تھی۔

اس جماعت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اپنا کردار ادا کیا جس کے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس جماعت پر غداری اور انڈیا سے فنڈز حاصل کرنے کے الزامات عائد ہونے کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔

اس کے بعد سے لیکر اب تک کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد نہیں ہوئی۔

سپریم کورٹ

سکروٹنی کمیٹی

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اکبر ایس بابر کی درخواست کو لے کر پاکستان تحریک انصاف کی فارن فنڈنگز کے حوالے سے تحققیات کے لیے مارچ سنہ 2018 میں الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل لا کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور وزارت خزانہ کا ایک نمائندہ بھی اس سکروٹنی کمیٹی کا حصہ ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اب یہ معاملہ صرف پاکستان تحریک انصاف تک ہی محدود نہیں بلکہ حکمراں جماعت نے حزب مخالف کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اثاثوں کی چھان بین کے لیے بھی الیکشن کمیشن کو درخواستیں دے دیں اور اب یہ سکروٹنی کمیٹی ان جماعتوں کو بھی بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے ملنے والی امداد کی چھان بین کر رہی ہے۔

اس سکرونٹی کمیٹی کے کام کرنے کے طریقہ کار کو بھی واضح کر دیا گیا اور اسے اس معاملے کو نمٹانے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا۔

جب مقرہ مدت میں کام پورا نہ ہوا تو اس سکروٹنی کمیٹی کو مزید دو ماہ دیے گئے اور پھر اس کو تحققیات کرتے کرتے اب تک ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا لیکن ابھی تک کام مکمل نہیں ہوا۔

اس سکرونٹی کمیٹی نے گذشتہ سال اگست میں جب الیکشن کمیشن کو رپورٹ بھجوائی تو الیکشن کمیشن کے حکام نے اس رپورٹ کو نامکمل قرار دے کر واپس کر دیا اور اس کے ساتھ یہ حکم بھی دیا کہ کم از کم ہفتے میں تین دن سکروٹنی کمیٹی کا اجلاس ہو تاکہ اس معاملے کو جلد از جلد نمٹایا جا سکے۔

یہ کمیٹی اگر کسی ایکسپرٹ یا کسی ادارے کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

سٹیٹ بینک نے اس سکروٹنی کمیٹی کو پاکستان تحریک انصاف کے مختلف بینکوں میں 23 اکاؤنٹس کی تفصیلات دی ہیں جن کے بارے میں درخواست گزار اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ ان اکاونٹس میں بیرون ممالک سے حاصل ہونے والی رقم آتی رہی ہے۔

الیکشن کمیشن میں سب سے زیادہ اس درخواست پر سماعتیں ہوئیں جبکہ اس سکرونٹی کمیٹی کے اب تک 75 سے زیادہ اجلاس ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک معاملہ حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا۔

درخواست گزار اکبر ایس بابر نے بھی اس سکروٹنی کمیٹی کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں اور الزام عائد کیا ہے کہ سکرونٹی کمیٹی اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں تاخیری حرنے استعمال کر رہی ہے اور بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کمیٹی میں شامل ارکان پر حکمراں جماعت کا دباؤ ہے۔

الیکشن کمیشن میں ہونے والی سرگرمیوں کی کوریج کرنے والے صحافی عدیل جاوید ورائچ کا کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن کے پاس اس طرح کا معاملہ آیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ابھی تک کسی بھی جماعت کی طرف سے اصل دستاویزات اس سکروٹنی کمیٹی کے سامنے نہیں رکھی گئیں بلکہ ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کی طرف سے فارا کی ویب سائٹ سے دستاویزات ڈاؤن لوڈ کر کے پیش کی جا رہی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ جس طریقے سے یہ سکرونٹی کمیٹی کام کر رہی ہے اس سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ سکروٹنی کمیٹی اپنا کام جلد مکمل کرے گی کیونکہ اصل دستاویزات کے حوالے سے جن ممالک سے مبینہ طور پر ممنوعہ فنڈز حاصل کیے ہیں وہاں کے محکموں کی تصدیق ہونا بھی ضروری ہے۔

عدیل ورایچ کے مطابق سکرونٹی کمیٹی اپنا معاملہ مکمل کرنے کے بعد اپنی سفارشات الیکشن کمیشن کو بھجوائے گی اور چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ ارکان اس معاملے پر فریقین کا مؤقف سنیں گے جس کے لیے بھی ایک وقت درکار ہو گا۔

اُنھوں نے کہا کہ شروع میں پاکستان تحریک انصاف اس معاملے کو طول دینے کی پالیسی پر عمل پیرا تھی لیکن اب ان کی باڈی لینگویج سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی ان درخواستوں پر جلد فیصلہ ہونے پر راضی ہے کیونکہ جو بھی فیصلہ ائے گا وہ ملک کی دیگر دو بڑی جماعتوں پر بھی لاگو ہو گا۔

عدیل وڑائچ کے مطابق جب سے پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بھی الیکشن کمیشن میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں اس کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے حکم امتناعی حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع نہیں کیا گیا۔

سکروٹنی کمیٹی کی کارروائی اگرچہ ان کیمرہ ہوتی ہے لیکن کارروائی ختم ہونے کے بعد وہاں پر موجود سیاسی جماعتوں کے نمائندے الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا کے نمائندوں کے سامنے ایک دوسرے کی جماعت کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔

میڈیا کے سامنے ہر جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ سکروٹنی کمیٹی نے جتنی بھی دستاویزات مانگیں تھیں وہ فراہم کر دی گئی ہیں لیکن حقیقت شاید اس سے مختلف ہے۔

الیکشن کمیشن اس معاملے پر اپنا فیصلہ سنانے کے بعد ریفرنس وفاقی حکومت کے پاس بھیجے گی تاہم مبصرین کے مطابق اگر فیصلہ حکمراں جماعت کے خلاف ہی آیا تو پھر وہ کیسے اپنے ہی خلاف ریفرنس بنا کر سپریم کورٹ کو بھیجے گی؟ تو یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب فی الحال شاید کسی کے پاس نہیں۔

سیاست پر ممنوعہ فنڈنگ کیس کے ممکنہ اثرات

تجزیہ نگار سہیل ورائچ کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کے الزمات ثابت ہو گئے تو اس کے ملکی سیاست پر بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگی تو پھر ملک میں افراتفری پھیلنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

اُنھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں پر الزامات لگتے رہے ہیں جس کا مقصد سیاسی جماعتوں کو بدنام اور جمہوریت کو کمزور رکھنا تھا۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ جس طرح سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے سوئس اکاؤنٹس کا پتہ چلا اور اس کے بعد میاں نواز شریف کے لندن میں فلیٹس اور بینک اکاؤنٹس کو سامنے لا کر ان جماعتوں کی عوام میں ساکھ خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ اسی طرح اب پاکستان تحریک انصاف، جو کہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے، کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوتا نظر آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp