عالی جی اک کوی رسیلے، دھنک سے جن کو پیار


(20 January 1925 – 23 November 2015: نوابزادہ مرزا جمیل الدین احمد خان‎)

”وہ پلنگڑی پر گاؤ تکیے کے سہارے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ اور چاروں طرف فرش پر کوئی پچاس شاگرد، بیچ میں ایک مٹھائی کا خوان رکھا تھا اور خوشبویات اور ہار پھول وغیرہ۔ داروغہ دیوان خانے سے بار بار باہر جاتا اور مغلانی بڑے دروازے کی چلمن ہٹا کر چائے کی کشتیاں بڑھاتی جاتیں“

قارئین آپ کو یہ منظر نامہ پرانی مغلئی تہذیب کا کوئی منظر معلوم ہو رہا ہو گا لیکن یہ تحریر خود عالی صاحب کی ہے۔ آگے چل کر فرماتے ہیں۔

”یہ 1939ء کی بات ہے۔ میں دسویں جماعت میں تھا۔ میرے بڑے بھائی مرزا اعتزاز الدین شاہد۔ جہلم سے دہلی آئے ہوئے تھے۔ میری والدہ ان کی سوتیلی ماں تھیں مگر وہ سلام کو ضرور آتے تھے۔ اس بار وہ شب کو بارہ بجے پہنچے تو معلوم ہوا کہ میں بارہ دری خواجہ میر درد میں مشاعرہ سننے گیا ہوں۔ صبح کو میری پیشی ہوئی اور کافی زجر و توبیخ کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے شاعر بننا ہی ہے تو شریفوں کی طرح بنوں اور چچا سائل صاحب کی شاگردی اختیار کروں۔ اسی دن انہوں نے مٹھائی کا انتظام کیا۔ میرے ہیڈ ماسٹر کو بلا کر تنبیہ کی اور میرے پرائیویٹ ٹیوٹر کو برخاست کردینے کی دھمکی دے کر جہلم چلے گئے۔

میں دوسرے دن چچا سائل دہلوی کے ہاں بڑے اہتمام سے حاضر ہوا۔ جب فارغ الاصلاح شاگرد بھی آ کر قرینے سے بیٹھ گئے تو چچا جان نے مسکرا کر مجھے دیکھا۔ میں سب کے بیچ میں دو زانو بیٹھا تھا۔ میری پوتھ کی شیروانی گرمی میں میرا بدن جلائے دے رہی تھی۔ سر پر چوگوشی مخملی ٹوپی نے میرا بھیجا جھلسا دیا تھا۔ سامنے رکھی مٹھائی مجھے زہر معلوم ہو رہی تھی، یا اللہ یہ شاعری ہے یا عذاب ”۔

” ہاں تو مرزا صاحب غزل ارشاد ہو“ وہ ملائمیت سے بولے۔ وہ مذاقاً مجھے مرزا صاحب کہتے تھے۔ میں جھجھکا۔ مجھے سخت غصہ آ رہا تھا۔ لیکن میں اس ماحول کی ہیبت اور شاگردی کے ہیجان میں مبتلا ضرور تھا۔ میں نے جی کڑا کر کے مطلع پڑھا۔

تیری دوری کے سبب دل بھی خفا ہوتا ہے
مدتوں کا مرا ساتھی یہ جدا ہوتا ہے

چچا جان نے ایک لمحے توقف کیا۔ پھر انہوں نے جھک کر قاب میں سے مٹھائی کی ڈلی اٹھائی گویا اب مجھے کھلانے والے ہیں۔ ”یوں کرو“ ۔ انہوں نے فرمایا

”مدتوں کا مرا ہمسایہ جدا ہوتا ہے“

”بھئی میں مضمون نہیں بدلا کرتا۔ پہلے زبان دیکھتا ہوں، یوں ے کا تنافر دور ہو جائے گا“ شاگردوں نے واہ واہ کا ڈونگرا برسا دیا۔ انہوں نے مٹھائی کی ڈلی مجھے عنایت فرمائی۔ اور دعا کو ہاتھ اٹھائے۔ مگر میں جیسے بپھر گیا۔ ہٹئے۔ میں نے ایک دم کہا۔ ان کے ملے ہوئے ہاتھ کھل گئے۔ ہم تو نہیں بدلتے۔ میں اٹھلایا۔ لئے دیے کیا ہوتا ہے۔ اتنا اچھا مطلع تو کہا ہے ہم نے۔ کچھ اور طرح ٹھیک کیجئے۔ ہم زبان وبان نہیں مانتے چچا جان۔ شاگرد سن ہو گئے۔ نہال سیوہاروی ہی ہی کرنے لگے۔ میں گھبرانے لگا تھا کہ چچی جان کی کڑاکے دار آواز گونجی۔ ”اے مرزا سراج الدین، فرخ مرزا کی اولاد ہے نا۔ امین الدین خانی“

میرا جی تو چاہتا ہے کہ عالی صاحب کا تحریر کردہ یہ خاکہ بعنوان ”سراج الدین خان سائل“ ماہنامہ ”ہم قلم“ 1961ء، ایک ایک سطر آپ تک پہنچاؤں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کی شام اگر میں صرف ”امین الدین خانی“ کی ترکیب یا اصطلاح کی تشریح کرنے بیٹھوں تو ایک شام اس کے لئے بھی ناکافی ہوگی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عالی صاحب کی پانچ دہائیوں پر پھیلی ہوئی شاعری، جس میں غزلیں، نظمیں، دوہے، گیت، ہر صنف اپنی جگہ اپنا الگ مزاج اور مقام رکھتی ہے۔ ان کی طویل کالم نگاری جو تاریخ صحافت کے علاوہ تاریخ ادب میں بھی اپنا درجہ رکھتی ہے۔ ان کے قومی و ملی نغمے، ان کے سفر نامے اور ان سب کے ساتھ دیگر بے شمار علمی و ادبی خدمات جو ان کے روز و شب کا حصہ ہیں، ان سب کو چھوڑ کر میں نے اس خاکے ہی کا انتخاب کیوں کیا جو انہوں نے اپنے خاندان کے ایک بزرگ شاعر سائل دہلوی کے بارے میں اب سے پینتیس برس پہلے تحریر فرمایا تھا جب کہ ان کی ”امین الدین خانی“ انا یا افتاد طبع کی بدولت ان کے اور سائل صاحب کے درمیان استادی اور شاگردی کا رشتہ بھی قائم نہ ہوسکا تھا۔ پھر میں نے اسی مضمون کا انتخاب کیوں کیا؟

تو اس کے لئے ایک بات تو میں یہ کہوں گی کہ کچھ تحریریں ایسی الہامی کیفیت میں لکھی جاتی ہیں کہ وہ ہمیشہ زندہ اور تازہ رہتی ہیں اور کبھی کبھی ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ عالی صاحب کی سائل دہلوی صاحب سے متعلق تحریر انہی میں سے ایک ہے۔

اور دوسری بات میں یہ کہوں گی کہ عالی صاحب کی باغ و بہار شخصیت اور رنگا رنگ شاعری کے گلستان سے گزرتے ہوئے اس ”امین الدین خانی“ کی اصطلاح میں میرا دامن ایسا الجھا ہے کہ آگے بڑھنا مشکل ہو گیا ہے۔ گلابوں کی باڑھ کی طرح مہکتی ہوئی تہذیب جس کے دامن میں کانٹے بھی ہیں۔ میرے خیال میں تہذیب کے مطالعے کے بغیر فرد کا مطالعہ ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے آپ کو میں اپنے ہمراہ اس تہذیبی پس منظر میں لے جانا چاہتی ہوں جس کے سحر سے میں بھی باہر نہیں ہوں۔

اور میں ہی کیا اردو کے ممتاز نقاد محمد حسن عسکری ”غزلیں، دوہے، گیت“ کے دیباچے میں لکھتے ہیں ”عالی نے غزل، دوہے، گیت، نظم معریٰ، سبھی کچھ لکھا۔ لیکن انہوں نے اپنی مرزائی شان ہر جگہ برقرار رکھی“ ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ اسے ”کج کلاہی کی شان“ کا نام دیتے ہیں۔ اور ممتاز مفتی کے الفاظ میں اسے ”نوابی کی خو“ ۔ کہتے ہیں۔ لکھتے ہیں ”عالی کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ اونچے خاندان کا فرد ہے۔ ان کے والد ریاست لوہارو کے نواب تھے۔ والد عالی کو ریاست تو نہ دے سکے البتہ نوابی کی خو دے گئے“ ۔

ذکر آیا نوابی کی خو کا تو دیکھئے خود عالی صاحب تحریر فرماتے ہیں۔ ”اس وقت آسودہ حال لوگ اور ہوتے بھی کیا۔ خراب ہوئے تو بری صحبت میں پڑے، جوا کھیلا، تکلیں اڑائیں اور ڈگریاں کرا کے بیٹھ گئے۔ اچھی صحبت پائی تو عالم ہو گئے یا شاطر، شہسوار اور شاعر۔“ تو والد سے نوابی کی خو پانے والے عالی صاحب میں بھی وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اچھی صحبت پانے والے رؤسا میں ہوتی تھیں۔ یعنی وہ عالم بھی ہیں، شاعر بھی اور شہسوار بھی۔ شہسوار وہ میدان ادب کے ہیں۔ ان معنوں میں کہ انہوں نے ہر صنف ادب میں اس صنف کے مزاج کے چیلنج کو قبول کر کے شاعری کی ہے۔ غزل میں مرزائی تیکھا پن دیکھئے کہ

تجھ میں کیا بات ہے جو مجھ میں نہیں ہے ظالم
ہاں مگر تیرے لئے میرا پریشاں ہونا
رہا یہ قصہ کہ کب کون کس کو کیا مانے
تو کون جانے، ازل جانے یا ابد جانے
بہ ایں فسردہ دلی کیا غضب ہے اے عالی
مجھے دیے چلی جاتی ہے زندگی آواز

اور یہ کہ

کرب ہو کہ لذت ہو زندگی غنیمت ہے
اے شرارہ بے تاب بس یہی غنیمت ہے
اور غزل ہی کے دو اشعار اور دیکھئے
نا کوئی اس سے بھاگ سکے اور نا کوئی اس کو پائے
آپ ہی گھاؤ لگائے سمے اور آپ ہی بھرنے آئے
آؤ تمہیں اک بات بتائیں مطلب جانو آپ
بھنور سے نیچے جاکر دیکھا پانی تھا چپ چاپ

اور دوہوں والے عالی جی کا لہجہ دیکھئے گا تو یہاں سادھوؤں اور بھگتوں کے مزاج کی سادگی اور درویشی ملے گی

بول ہزاروں روپ بھرے پر دھرم ہے میرا پیت
نا مری بانی غزل ہے پیارے نا دوہے نا گیت

جب عالی جی یہ کہتے ہیں کہ ان کا دھرم پیت ہے تو یہ اس بات کی گواہی ہے کہ ورثے میں انہوں نے اقلیم سخن ہی نہیں اقدار کا خزانہ بھی پایا ہے۔ دراصل ان کی یہ تحریر اسی خزانے کی ایک جھلک ہے۔ اسی تہذیبی پس منظر کی ایک تصویر اور میرے نزدیک تہذیب وہ طاقتور شے ہے جو ہر عقیدے اور ہر رنگ کو نگل کر اپنے رنگ میں سمو لیتی ہے۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں جو کہ بحیرہ عرب کے ریتلے ساحلی شہر کراچی میں پروان چڑھنے والی نسل کا فرد ہونے کے باوجود اور اپنے خمیر میں اجداد کی طرف سے پورب کی مٹی کا خمیر رکھنے کے باوجود امین الدین خانی تہذیب کے سحر سے باہر نہیں نکل پا رہی ہوں۔ اس کے جواب کے لئے آئیے میں آپ کو اپنے ہمراہ ان محفلوں میں لئے چلتی ہوں۔

حسن اتفاق سے یہ بھی مئی کی ایک شام ہے۔ انیس سو اسی اکیاسی کا کراچی ہے۔ (یہ ادبی محفلوں میں میری باقاعدہ شرکت کا ابتدائی زمانہ تھا) عالی صاحب کی رہائش گاہ کا سبزہ زار ہے۔ تقریباً سو ڈیڑھ سو افراد کا اجتماع ہے۔ لوگ محو گفتگو ہیں۔ جگہ جگہ چاندی کے سے خاص دانوں میں پان اور اس کے لوازمات اور ساتھ ساتھ بیلے اور موتیا کے بھیگے ہوئے پھول کٹوریوں میں مہک رہے ہیں۔ لان میں تخت پر بیٹھے ہوئے اس شام کے دولہا کنور مہندر سنگھ بیدی سحر صاحب بسنتی پگڑی سفید کرتے اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ ان کی اور عالی صاحب کی شگفتہ نوک جھونک، برجستہ جملے، محفل کو زعفران زار بنائے ہوئے ہیں۔ محفل پر طائرانہ نظر ڈالتے ہی ایک خاص شائستگی کا احساس ہوتا ہے۔

دوسری جانب سفید غرارے پر زعفرانی کرتے اور دوپٹے میں ملبوس باوقار اور دراز قامت خاتون اپنی مخصوص روشن مسکراہٹ کے ساتھ مہمانوں کا استقبال کر رہی ہیں۔ وہ مجھے بڑھ کر گلے لگاتی ہیں تو ایک انوکھی خوشبو مجھ سے بغلگیر ہوتی ہے۔ میں چونک کر خوشبو کا سراغ لگاتی ہوں۔ مگر وہاں تو بیلے کی دو تازہ کلیاں ہی کانوں میں پروئی ہوئی ہیں۔ صرف دو کلیاں اور اس قدر خوشبو! میں آگے بڑھ جاتی ہوں کوئی مجھ سے سرگوشی کرتا ہے۔ ”بی بی دیکھے تم نے دلی والے!“ ۔ یہ محمد میاں ہیں جو کہ خود بھی خالص دلی والے ہیں۔ آکسفورڈ میں پڑھاتے تھے۔ کراچی کے عشق میں درویش ہو گئے۔ محمد میاں پھر سرگوشی کرتے ہیں۔ ”یہ جو عالی ہیں نا۔ یہ تو ہیں ذرا نرم خو۔ یہ تو شاعر ہیں اس لئے تھوڑے خراب ہو گئے لیکن ہماری طیبہ بھابی نری اور کھری دلی والی ہیں۔ وہی مغلائی تیور، وہی تیکھا پن مزاج میں بھی اور ابرؤوں پر بھی۔ مسکراہٹ میں بھی ترک بچی کے چہرے کا جلال دیکھتی ہو۔“ !

یہ تو ذکر کر رہی تھی میں مئی سن اسی اکیاسی کی ایک شام کا۔ اور حسن اتفاق سے اسی حوالے سے ایک اور شام مجھے یاد آ رہی ہے۔ انیس سو پچاسی کے موسم بہار کی ایک شام جب میں آگرے والوں کی بہو بن کر ہندوستان رخصت ہو رہی تھی۔ عالی صاحب کی مرزائی شان نے جوش مارا۔ یہ امین الدین خانی انا کا تو مسئلہ تھا کہ بیگم و عالی صاحب کھڑے ہو گئے اور کہا کہ ”سردار بھائی یہ لڑکی آپ کی بہو بعد میں ہے اور ہماری بیٹی پہلے۔ بیٹی باپ کے گھر سے چالے کے بغیر کیسے چلی جائے گی۔“

یہ شاید گلی قاسم جان اور محلہ بلی ماراں کی تہذیب کا پرتو تھا۔ یہ ڈیوڑھی خواجہ میر درد اور کوچہ چیلان ہی کے تمدن کی برکتیں تھیں جنہوں نے اس شام کی ایک ایک ساعت کو میرے وجود کی کتاب میں یا تاریخ ادب کے کسی باب میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔ بلا شبہ چالے کی یہ تقریب میری شادی کی اصل تقریب سے بھی بڑی اور یادگار ثابت ہوئی۔ آج سے گیارہ برس پہلے کی وہ تاریخی شام عصمت چغتائی، ادا جعفری، سردار جعفری، پروین شاکر اور بے شمار ادیبوں اور شاعروں اور عمائدین شہر کے وجود سے جگمگاتی ہوئی شام۔ اس شام جس قدر خوبصورت رسومات کی چھاؤں میں اور محبت کی جس خوشبو میں غرق کر کے مجھے رخصت کیا گیا تھا وہ خوشبو شاید مرتے دم تک مجھے مشکبار رکھے گی۔

میں خیال کی رو میں کہاں سے کہاں نکل گئی لیکن یقین جانیے اگر آپ نے عالی صاحب کی رہائش گاہ پر برپا ہونے والی وہ محفلیں دیکھی ہیں جہاں پروفیسر رالف رسل خوش گپیوں میں مصروف ملیں اور کنور مہندر سنگھ بیدی کی میزبانی ان کے شایان شان ہوتی رہی ہو۔ تو مجھے ”مرزائی شان“ ، ”نوابی خو“ ، اور ”امین الدین خانی“ تہذیب کی وضاحت کے لئے الفاظ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ الفاظ ویسے بھی تہذیب کا احاطہ نہیں کر سکتے۔

آئیے میں واپس آپ کو عالی صاحب کی تحریر کی جانب لے چلتی ہوں۔ فرماتے ہیں

” اس وقت کی دلی، لکھنؤ اور حیدر آباد میں سائل دہلوی ایک خوش گو اور قادرالکلام شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ لیکن میری نظر کبھی ان کی شاعری کی طرف نہ گئی۔ میں بیٹھا گھنٹوں ان کے کرتوں اور ان کی بیلوں اور چوگوشی ٹوپیوں پر قیتون کی ڈوری سے زنجیرے کا کام دیکھا کرتا۔ ان کے قلم کھٹا کھٹ بجاتا اور بیاضیں، کاغذ کی جلدیں اور ان کے بے مثال خط میں لکھی ہوئی وصلیاں اور قرابادینیں پڑھا کرتا۔ ایک بار میں نے ایک قرابادین میں ذہانت کا کوئی نسخہ پڑھا۔ اس میں مشک کا ذکر تھا۔ مشک ان کے پاس ہمیشہ رہتا تھا اور ان کی بیاضوں سے لے کر ان کے کمرے، دالان اور آنگن تک مہکیں آتیں۔ آخر میں نے وہ نسخہ پڑھ کر تھوڑا سا چرا لیا اور بے نسخہ بنائے چائے میں ڈال کر پی گیا۔ جب طبیعت خراب ہوئی اور تفتیش کی گئی تو راز کھلا۔ چچا جان کو خبر ہوئی تو پورا نافہ لے کے رکشے پر آئے اور عنایت فرما گئے۔ وہ مشک آج بھی میرے پاس ہے مگر اس میں وہ پہلی سی مہک نہیں رہی۔ وہ مہک شاید مشک والے کی اپنی تھی۔ وہ مہک شاید صدیوں کی مہک تھی۔ ان اقدار کی جنہوں نے سائل دہلوی کو جنم دیا تھا۔

کبھی کبھی میں اپنے کسی ملنے والے کو وہ نافہ اپنے ڈرائنگ روم میں لگی شیشے کی الماری سے نکال کر دکھاتا ہوں اس کمرے میں میرے والد کی تصویر بھی لگی ہے۔ یہ مشک نافہ ہمارے ہاں مدتوں سے ہے۔ میں اسے بن کہے امپریس کرتا ہوں کہ بھئی ہم بڑے پرانے خاندانی لوگ ہیں۔ میں انکسار سے آنکھیں نیچی کر لیتا ہوں۔

”خوب خوب کیا ہے یہ؟“ ۔ پوچھنے والا پوچھتا ہے۔
”مشک نافہ“
”اچھا یہ بو سی کیوں آتی ہے اس میں سے یار“
یہ مشک نافہ ایسا ہوتا ہے؟
”کیوں فنٹی بازی کر رہے ہو یار۔“ ہی ہی ہی، ہی ہی ہی اخترالایمان بھی کرتا تھا۔

”ابے مشک کھا گیا تھا تو اور وہ بھی سائل دہلوی کے پاس کا رکھا ہوا تو شاعر کیسے ہو سکتا ہے!“ ۔ وہ میرا مذاق اڑاتا ہے۔ وہ سائل دہلوی کے خلاف نہیں تھا مگر وہ ”گرداب“ کا مصنف تھا۔ شاید اس نے سچ کہا تھا۔ شاید یہ بھی سچ ہو کہ سائل دہلوی بڑے شاعر نہیں تھے مگر یہ سچ میرا موضوع نہیں ہے۔ ”

لکھتے ہیں ”یہ نسل نہیں جانتی کہ ڈاکٹر عبداللہ، مولوی عبدالحق اور مولانا مہر سے محبت کیوں کی جائے۔ اور نہ یہ جانے گی کہ سائل دہلوی کے کردار نے انہیں کتنا سکون اور اطمینان بخش رکھا تھا۔ سائل دہلوی جو میٹھا سوچتے اور میٹھا بولتے تھے۔ اور جو عمر بھر کسی سے نفرت نہ کرسکے۔ اور جن کا دیا ہوا مشک نافہ اب بھی میرے پاس رکھا ہے۔“

آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں کہ۔ ”ان بنتی اور مٹتی قدروں کے پاٹ میں ایک پوری نسل کس طرح پس گئی۔ یہ نسل جو بہت خوش قسمت ہے اور بہت بد قسمت۔ یہ نسل جس نے ایک عظیم جنگ دیکھی۔ اور قوموں کو آزاد ہوتے اور نئے سرے سے غلام ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ جو ملکی اور نسلی اور جغرافیائی قومیتوں کی کشمکش سے دوچار ہے۔ جس کے لئے سچ اور جھوٹ اور اچھائی اور برائی کے جامد اصول میننگ آف میننگ کی آنچ میں تپ تپ کر پگھلتے جاتے ہیں۔“

دیکھئے یہ عالی صاحب جیسے اپنے عہد کے ساتھ قدم ملا کر چلنے والے حوصلہ مند اور تازہ بیان شاعر ہی کا کمال ہے کہ ایک سادہ سے سوانحی خاکے کو اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں کہ نہ صرف تاریخ کا ایک باب معلوم ہوتا ہے بلکہ آنے والے عہد کی پیشین گوئی بھی۔ در اصل یہ ایک خاکہ ہی نہیں مٹتی اور بنتی تہذیب کے نقوش ہیں۔ ابھرتی ہوئی نسل کی عادات و اخلاق کے خد و خال ہیں۔ 1947ء سے 1961ء تک دو دہائیوں پر پھیلی ہوئی شکست و ریخت کی تصویریں ہیں۔ مٹتی ہوئی اقدار کا نوحہ ہے اور دوسرے لفظوں میں آنے والے مسائل کی نشاندہی۔ یہ ان کی تاریخی بصیرت کا واضح ثبوت ہے کہ وہ 1961ء کے پاکستان میں جو بے چینی، انتشار اور کشمکش دیکھ رہے تھے وہ آج ایک سنگین حقیقت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

ایک جگہ لکھتے ہیں ”میں نے 1947 سے اب تک دلی کا ذکر تک نہیں کیا۔ دلی میرے لئے چودہ اگست کو مر گئی تھی۔ جب میں نے کراچی کا رخ کیا۔“

یہ کہنے کا حق بلاشبہ عالی صاحب جیسے ہی پاکستان کے عاشق کو جاتا ہے۔ ان کے قومی و ملی نغمے یگانگت، محبت اور اخوت کے ایسے گیت ہیں کہ پاکستان کے وجود سے انہیں قیامت تک جدا نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن مجھے عالی صاحب سے صرف اتنا کہنا ہے کہ دلی کبھی نہیں مرتی۔ دلی ہر اس بستی کا نام ہے جو دل والے بساتے رہیں گے۔ اور جہان محبت اور اقدار کی پاسداری بھی ہوگی۔ میں بھی اپنی ایک دلی چھوڑ کر آئی ہوں۔ بحیرہ عرب کے ریتلے ساحل پر بیلے اور موتیا کے پھول کھلا کر بسائی جانے والی دلی۔ آنگنوں میں آم کے پیڑ لگا کر بسائی جانے والی دلی۔ کراچی کہہ کر پکاری جانے والی دلی۔ روشنیوں میں نہائی ہوئی دلی جو اب اپنے لہو میں نہا رہی ہے۔ مگر دلی مر نہیں سکتی یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ دیکھئے اس کا دائرہ پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ کراچی سے لاہور تک۔ سکھر سے چترال تک جہاں جہاں آپ کے گیتوں میں دلوں کی دھڑکنیں شامل ہوتی جاتی ہیں اور جہاں تک دل والے آپ کے محبت بھرے نغموں کی لے پر رقص کرتے چلے جاتے ہیں۔ دلی آباد ہوتی چلی جاتی ہے۔ بحیرہ عرب سے ٹیکساس کے اس ریتیلے ساحلی شہر ہیوسٹن تک، جہاں میں آج آپ سے مخاطب ہوں عرض کرنا چاہوں گی کہ جب تک آپ کے نانا میر درد اور آپ کے بزرگوار مرزا غالب کے اشعار زندہ ہیں، (جو کہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ) اور جب تک آپ کے جد امجد علا الدین خان علائی اور والد فرخ مرزا کے نام غالب کے مشک بو خطوط تاریخ کے اوراق کو مہکاتے رہیں گے، دلی زندہ رہے گی، ہماری تہذیب میں اور ہمارے لہجے میں۔

اور مجھے عالی صاحب سے یہ بھی کہنا ہے کہ، خبر نہیں کہ پانچ دہائیوں سے ان کے دیوان خانے میں شیشے کی الماری میں محفوظ مشک نافہ نئی نسل کے ہاتھوں چوری ہوتا رہا ہو اور اس نئی نسل کی شاعری اسی مشک نافہ کا معجزہ ہو۔ میری دعا ہے کہ خدا میرے چچا عالی جی کا سایہ سلامت رکھے کہ جو مشک نافہ انہوں نے ہماری نسل کو عطا کیا ہے وہ نسل در نسل یونہی منتقل ہوتا رہے۔ اور اس کی خوشبو یونہی بڑھتی اور پھیلتی رہے۔ اقدار کی خوشبو کی طرح۔ مٹی کی خوشبو کی طرح، دوہوں گیتوں اور زمین سے محبت کی خوشبو کی طرح اور آخر میں انہی کا ایک شعر یوں کہ

ایک ہی حرف محبت لکھوں
اپنی مٹی سے عقیدت لکھوں

(4 مئی 1996 ء کو ”ایک شام عالی جی کے نام“ کے موقع پر ہیوسٹن میں پڑھا گیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).