ڈاکٹر خالد سہیل کی نثری تخلیقات: لفظیات، ترکیبات اور نظریات


معلوم نہیں کس طرح عجب ڈھنگ سے باذوق خواتین کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ پرنٹ گل احمد کا ہے، کھاڈی کا ہے، ست رنگی کاہے یا ریپلیکا ہے ، اس کی بنت کیسی ہے اور دوسرے کے ہاتھ میں پکڑا بیگ گوچی کا ہے یا اچھرے کی عام دکان سے نقلی مہر کے ساتھ خریدا گیا ہے۔

جیسے ایک لاہور میں رہنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ کوزی حلیم رائل پارک سے کھانی ہے، مزے دار مچھلی سردار کی ہے اور پائے بس پھجے کے ہی لذت کام و دہن کا سامان کریں گے ، بالکل ایسے ہی ایک باذوق قاری کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں ہوتا کہ کوئی شعر کوئی جملہ یا کوئی متن کس شاعر اور ادیب کا ہے اور اس کا لحن کیا ہے۔

صاحب طرز ادیب کی شناخت اس کا اندازِسخن ہے۔ شعر و ادب میں دلچسپی رکھنے والا ہر قاری جانتا ہے کہ میر کے مصرعے میں لب کی نازکی کو اس ادا سے بیان کرنا میر تقی میر ہی کا کام ہے اور غالب کا انداز بیاں اور ہے، ابن انشا کے گیتوں میں جب آتا ہے ”سجنی سے کرو گے بہانہ کیا“ تو نبض کیسے رکتی ہے، ناصر کاظمی کے اشعار میں اداسی کیسے بال کھولے سو رہی ہوتی ہے۔

شعر وسخن اورادب کا یہ احسان ہے کہ زندگی کو دو آتشہ حسن عطا کرتا آیا ہے۔ بہت سے شعرا میں میرے پسندیدہ شاعر ابن انشاء ہیں کیونکہ ان کے ہاں سوز رنگ بدل کے لطافت میں بدل جاتا ہے۔ اپنے محبوب شاعر ’ابن انشاء‘ کو سنتے ہوئے مجھے محسوس ہوا جیسے صحرا میں کسی نے بانسری کے سُر چھیڑ دیے ہوں۔ وہ اپنے گیتوں میں ہندی زبان کے بہت سے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ابن انشاء جی کی من موہنی، نسائیت کے حسن سے جگمگاتے حروف سے مرصع و مسجیع شاعری ندرت جمال کا حسین اظہار ہے۔

سجنی، نگری، دیپک، پیت، بنجارہ، سب مایا ہے، سپنا، جوگی، جگ، دھرتی، آشا، جوت، جیون، نار، گوری، کٹیا، سانجھ سمے، بتیوں کے موتیوں سے شاعری کی گیت مالا سجی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے اندھیری رات میں تارے دمکتے ہوں۔

میر کی غزل جب انشاء کے گیتوں میں ڈھلتی ہے تو اس کی لے ہرنی کے بانکپن سے نکل کر بلبل کے نالے میں ڈھلتی ہوئی، روح کے محل سرا میں ہوا کی جھانجھریں بجاتی کہیں لاہوت میں نکل جاتی ہے۔ ان کے لفظوں کی کوملتا احساس کے آبخوروں میں رس بھرتی ہے۔

مجھ جیسے طالبعلم کو بھی مزاح میں پطرس بخاری اور بعد میں آنے والوں میں سے ممتاز مفتی صاحب کی نثر پہچاننے میں دیر نہیں لگتی ، میں سینکڑوں تحریروں میں ان کے انداز تحریر کو پہچان سکتی ہوں۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ہر بڑا ادیب قلم سے اپنا چہرہ تصویر کرتا ہے، الفاظ ، تراکیب اور لہجے سے اس میں رنگ بھرتا ہے اور اپنے اعلیٰ منفرد اسلوب سے شاہراہ ادب پر اپنے فن پاروں کے نقوش چھوڑتا جاتا ہے ۔ اپنے نادر اور اچھوتے انداز سے تخلیق کے دامن میں ادب کے جواہر پارے تراشتا ہے اور اپنی وسعت فکر و نظر اور خون جگر سے آبیاری کرتا ہوا قارئین کے دلوں میں امر ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل بھی ایسے ہی صاحب طرز ادیب ہیں اور لگ بھگ نصف صدی پر مشتمل فن وادب کے لیے ان کی وسیع تر خدمات پڑھنے والوں کے سامنے ہیں۔ روز بروز ان کی کاوشیں نئے سے نئے رنگ میں نمو پارہی ہیں۔ ”فیملی اف دی ہارٹ“ اور ’’گرین زون‘‘ کی صورت خوشحال، پرسکون اورصحت مند زندگی کی طرف سات قدم کی روشنی پھیلتی جا رہی ہے۔ وہ انفرادی اور اس کے ساتھ ساتھ سماجی صحت میں بہتری اور عالمی امن کے خواب کی تعبیر کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔

انہوں نے اردو ادب کو بہت سے نئے الفاظ  و تراکیب عطا کی ہیں، جو ان کے باذوق پڑھنے والوں میں بہت مقبول ہوئیں۔ وہ نہ صرف ادیب ہیں بلکہ ادیب ساز اور ادب نواز بھی ہیں۔ وہ لکھنے اور پڑھنے والوں کی بہت خلوص سے رہنمائی فرماتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل کے شہ پارے پڑھے تو مجھے یاد آیا۔ یہ نوجوانی کا دور تھا ، اس وقت میں فرسٹ ائیر کی طالبہ تھی ، میں نے کچھ سوالات اپنی ڈائری میں لکھے تھے۔
خودی کا فلسفہ کیا ہے؟
بے خودی کسے کہتے ہیں؟
ذوق یقین کی منازل کیسے طے کی جاتی ہیں؟ یہ کیسے پیدا ہوتا ہے؟
یہ وہ دور تھا جب سوالات کی فصل پک رہی تھی۔

پھر یہ سوالات کسی ’خضر راہ‘ کی عدم دستیابی سے دھندلا گئے۔ نصابی سرگرمیوں نے موقع ہی نہ دیا کہ سوالات کے جوابات کی کھوج کر سکتی یہاں تک کہ گردش ایام نے عملی میدان میں لا پھینکا۔ زندگی کا وہ دور ، جہاں اپنی ذات کی بجائے ایک خاندانی نظام کی نشو و نما میں تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانا عموماً مردوں اور عورتوں کے لیے ضروری ہو جاتا ہے۔

اس دوران ہلکا پھلکا مطالعہ ہی ممکن ہوا۔ مجھے ممتاز مفتی کی تحریروں میں ایک زندہ انسان کا دل دھڑکتا نظر آیا۔ ان میں سادگی تھی، سچ تھا، تحریک تھی۔

کچھ عرصے سے ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کے کالم اور کہانیاں پڑھیں تو احساس ہوا ڈاکٹر خالد سہیل کی نثر نگاری سہل ممتنع کی بہترین مثال ہے۔ اس کی انفرادیت کچھ ایسے ہے کہ ان کے موضوعات عملی زندگی سے متعلق ہیں، ایک عرصہ پہلے کے کیے خودی اور بے خودی جیسے مشکل سوالات کے جوابات عام فہم طریقے سے مل گئے۔

میں ان کی لفظیات کا ذکر کروں گی، مگر پہلے ان کے کالم کے عنوانات جو منفرد طرز تخاطب کا نمونہ ہیں، قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔

ان کے کالمز کے عنوانات قاری کو اپنی طرف بلاتے ہیں ”کیا آپ سے“ اکثر عنوان شروع ہوتے ہیں۔
کیا آپ دوستی کے راز سے واقف ہیں؟
کیا آپ کی بہن آپ کی دوست ہے؟
کیا آپ کا خاندان نفسیاتی مسائل کا شکار ہے؟

ایسے ہی بے شمار فکری احساسات سے بھرے کالمز سے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو چھو کر وہ افراد کی علمی اور عقلی نشوونما میں غیر مرئی طریقے سے حصہ ڈال رہے ہیں۔

ان کے ہاں لفظ تخلیق سے متعلق الفاظ کا ایک وسیع ذخیرہ ملے گا۔
جیسے کہ تخلیقی بارش، تخلیقی جھرنا،  تخلیقی بارشیں، تخلیقی ہم سفر یا اردو ادب کے ذریعے تخلیقی اقلیت جو من کی پگڈنڈی پر چلتے ہیں اور روایتی اکثریت جو روایتی شاہراہ پر سفر کرنے والے افراد ہیں۔ وہ ایسے تصورات متعارف کرواتے ہیں جن سے نفسیات اور سماجیات کے مضامین سے دلچسپی رکھنے والوں کو انسانوں کے انفرادی، گروہی، سماجی رویوں اور نظام کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

وہ دلچسپ تراکیب کا استعمال کرتے ہیں جیسے دہریہ درویش، سیکولر دعا، رومانوی معراج اور دیگر بہت سے جیسے ادبی محبت نامے، ادبی ہمسفر، ان کے ہاں نوجوان، مرد، عورت کا لفظ بار بار استعمال ہوتا ہے۔ دراصل دیکھنے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ ان کو الگ الگ کر کے ایک نام یا عنوان دے دیا جائے جیسے آرائش گیسو کرتے سمے بالوں کو حصوں میں تقسیم کر لیا جاتا ہے تاکہ سلجھانے اور بنانے میں آسانی ہو۔

ان کے مضامین پڑھتے ہوئے لفظ ”دانائی“ کی ایسی تکرار ملتی ہے کہ ایک عام انسان بھی خود کو دانا اور دانشور سمجھنے لگے۔ تخلیقی عمل سے دلچسپی پیدا کرنے کے لیے اور تخلیق کار میں اپنی تخلیق کے لیے احساس محبت اوراحساس ذمہ داری کو جگانے کے لئے کے کہانی مضمون اور کتاب کی تخلیق کو زچگی کے تجربے سے ملاتے ہیں ، اس کے بہت سے مراحل کو پہلے انگریزی میں ، بعد ازاں اردو ترجمے کے ساتھ جیسے کری اٹیو لیبر روم ۔ کری اٹیو مِس کیرج، گائناکالوجی، سائیکالوجی اور ادب کے امتزاج سے نئی نئی اصطلاحات سامنے لانا ان ہی کا وصف ہے۔ تخلیقی عمل کی اہمیت اور حساسیت کو سمجھانے کے لئے تخلیق کو ایک نومولود بچے کا درجہ دیتے ہیں اور اسی طرح ایک طفل مکتب کو رموز تخلیق کاری کے آداب سے آشنا کرتے ہیں۔

آپ کے جملے لوک ورثے کے محاورے جیسی دانائی کی مہک لیے ہوتے ہیں جیسے کہ
”خاموشی، تنہائی اور دانائی پرانی سہیلیاں ہیں،“
”زندگی دریا کی طرح ہے جو بہتا رہے تو بہتر ہے،“
”ہم اپنا پورا سچ کیوں نہیں لکھ پاتے“

اگر ان کی نثر کو پڑھیں تو جا بجا تین کی تکرار کی تکنیک استعمال ہوتی نظر آتی ہے جیسے ”تجربہ، مشاہدہ اور تجزیہ“ ، ”آرزو خواہش اور خواب“ ریاضت ، محنت اور مشقت ۔ آزاد خیال، آزاد فکر اور آزاد منش ایک ہی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے تین مترادف الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ کبھی صنعت تضاد سے کام لیتے ہیں جیسے پارسا اور پاپی۔

ان کی اہم مہارت مشکل فلسفوں کو سہل انداز سے پیش کرنا ہے۔ کبھی کسی مکالمے کی صورت ، کبھی کسی واقعے کی طرز پر قاری کے ذہن پر دستک دینے کی کوشش کرتے ہیں اور انداز ناصحانہ نہیں بلکہ اتنا لطیف ہے کہ بات پہنچ بھی جائے اور بری بھی نہ لگے ، شاید آرٹ اور فن اسی کا نام ہے۔

وہ اپنی تحریروں میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ایک مسکراتے ہوئے انسان ہیں اور خوش بخت ہیں کیونکہ انہوں نے نوجوانی میں کچھ خواب دیکھے جن کی تعبیر کے لیے انہوں نے جدوجہد کی اور انہیں پا کر اب وہ علم کی صورت بانٹ رہے ہیں۔ خود کو سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافر کی حیثیت سے سفر میں محسوس کرتے ہیں۔

وہ روایت ، بغاوت اور دانائی کے درمیان ایک منطقی تعلق قائم کرتے ہیں، اور ایک ایسے معاشرے ، جو برسوں کے جمود اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا شکار ہے، کے عوام و خواص سے گہری ہمدردی رکھتے ہیں۔ وہ نفسیاتی، انفرادی سماجی الجھنوں کی گرہیں سرعام کھول کر رکھ دینے کے علم سے واقف ہیں۔

سعادت حسن منٹو اور ممتاز مفتی کی طرح فرد کو اور سماج کو فقط آئینہ نہیں دکھاتے بلکہ ان کا عملی حل بتاتے ہیں۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں انسان انسان کا اعتماد کھو بیٹھا ہے اور دوستی کی فضا مشکوک ہے ، وہ بار بار یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہر شخص کو اپنا سچ کہنے کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ دوست بنانے چاہیے ، وہ دوست بنانے کا طریقہ بتاتے ہیں کہ اپنے اندر کے انسان کو کھوج کر اپنی صلاحیتوں اوردلچسپیوں سے جڑیں اور ہم ذوق افراد کا حلقہ احباب بنائیں تاکہ تنہائی جو اس دور کا سب سے بڑا المیہ ہے اس سے خود کو بچایا جائے تاکہ انسانوں میں مثبت سوچ پھیلے، تنہائی جو بہت سے نفسیاتی مسائل کی وجہ ہے ، ان کا نقطۂ نظر ہے کہ ایک انسان اس سے خود کو محفوظ کر لے جیسے انسان گھر بناتے ہیں تاکہ گرمی سردی سے محفوظ رہیں۔ ”فیملی آف دا ہارٹ“ کے نام سے ان کے اپنے دوستوں کا حلقۂ احباب اس کی مثال ہے۔

آدرش، خواب، آرزو، مشرقی محبوبہ، مغربی محبوبہ، ارتقا، میوس اور دھرتی ماں ان کے محبوب الفاظ ہیں جس کے معنی سے وہ اور ان کا قاری بخوبی واقف ہو جاتا ہے۔

فلسفہ، شاعری ، ادب ، نفسیات ، انسانی تاریخ کا ارتقاء جیسے مضامین ان کے پسندیدہ ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ مجھے میرے سوالوں کا جواب مل گیا۔ خودی اپنے اندر کسی مخفی صلاحیت سے جڑ جانے کا نام ہے۔

خودی کیا ہے؟ خودی سیلف اسٹیم ہے یعنی عزت نفس۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے یہ راز کھولتے ہیں کہ ہر فرد کو اپنی عزت نفس بڑھانے کے لئے کچھ راستے اختیار کرنے چاہییں ، جیسا کہ ایک راستہ خدمت خلق ہے۔سب کو معلوم ہے کہ خدمت خلق ایک اچھی بات ہے مگر اس کے محرکات سے پردہ یوں اٹھاتے ہیں کہ ہر فرد میں ایک ”گڈ می“ ہوتا ہے اور ”ایک بیڈ می“ ، جب ہم خدمت خلق سے جڑ جاتے ہیں تو ہمارا گڈ می ہمارے بیڈ می سے بڑا ہو جاتا ہے ، ہم اس کی بنیاد پر خود اپنی عزت کرنے لگتے ہیں اور جب ہم اپنی عزت خود کرنے لگتے ہیں تو باقی بھی ہماری عزت کرنے لگتے ہیں۔ خودغرضی کس طرح سیلف کیئر سے مختلف ہوتی ہے ، ان کے درمیان جو لکیر ہے اس کو واضح کرتے ہوئے سیلف کیئر (خود خیالی ) اپنانے پر زور دیتے ہیں۔

بے خودی کیا ہے؟

ایک ایسی حالت جو انسان کو اپنے موضوع میں اس قدر مستغرق کر دے کہ وہ ہر شے سے بے نیاز ہو جائے جیسے ایک خط یا مضمون لکھتے سمے ایک فرد پر یہ کیفیت غالب ہوتی ہے یا مجسمہ ساز پر مجسمہ بناتے وقت یا ایک دانشور پر اگر وہ سچ کا پرچار کرے۔ انسان کا اپنے لاشعور سے دوستی کر لینا سب باتوں سے اہم ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ”اختلاف الرائے اور دشمنی میں بہت فرق ہے۔“

احترام جمہوریت کی راہ کو ہموار کرتا ہے اور مکالمے کی فضا کے لیے سب سے اہم احترام ہے ، دوسرے کی رائے کا احترام، دوسرے کے سچ کا احترام۔

”کیا آپ اپنے بچوں کا احترام کرتے ہیں“ اس کالم میں جمہوریت اور آمریت کا فرق واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”میں نے ایک یونانی خاتون سے پوچھا کہ جمہوریت کی جو یونان میں پیدا ہوئی تھی، ایک جملے میں کیا تعریف ہو سکتی ہے‘‘

کہنے لگیں، جہاں ڈائیلاگ ہوتا ہے ، وہاں جمہوریت پائی جاتی ۔ جب ڈائیلاگ مونولاگ Monologue بن جاتا ہے تو وہ Sermon سرمن کا روپ ڈھال لیتا ہے۔ ”

بات ہو رہی تھی ڈاکٹر خالد سہیل کی ان اصطلاحات کی جو انہوں نے اپنے اس ادبی سفر میں استعمال کی ہیں لیکن ان کے موضوعات اتنے اہم ہوتے ہیں کہ میری نظر ان کے تصورات اور الفاظ سے ہٹ کے ان کے مقاصد کی طرف نکل جاتی ہے جیسے کہ وہ رقم طراز ہیں:

”ہمیں پورے انسان کی پوری کہانی لکھنی ہے اور یہ کام ہر دور اور ہر قوم کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی سماجی ذمہ داری ہے تاکہ انسانیت روایت ، بغاوت اور دانائی کی منزلیں طے کر کے ارتقا کا سفر طے کر سکے۔ ہمیں ایک دن اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم سب دھرتی ماں کے بچے ہیں اور ہمارے دشمن بھی ہمارے دور کے رشتے دار ہیں۔“

میری نظر میں آج کے گلوبل ویلیج یعنی عالمی گاؤں میں رہنے کی یہ طرز سب سے مناسب ہے اور پر امن ہے۔ ”معاشرے میں شاعر ادیب فنکار صوفی اور دانشور“ یہ بھی ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کے فنکارانہ جملے کے ابتدائی الفاظ ہیں جو ان کے پڑھنے والے بہت اپنائیت سے غیر شعوری طور پر استعمال کرنے لگتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ شاعروں، ادیبوں، فنکاروں، سنتوں، سادھوں، صوفیوں، سائنسدانوں اور دانشوروں کو ایک صف میں لا کھڑا کرنا بھی آپ کا ہی کام ہے۔

آپ مختلف انداز میں مختلف تصورات پیش کرتے ہیں اور ان میں ایک عملی رشتہ بنا کر تصور کو پختہ اور واضح بنا دیتے ہیں۔ آپ مشرق اور مغرب کی دانائی کے بیچ ایک پل بناتے ہیں اور لفظ ”پل“ بھی آپ ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ادب اور پاکستان کی سیاست سے ہٹ کے دیکھوں تو انفرا سٹرکچر میں شاہراہیں ، پگڈنڈیاں اور پل بھی اہم ہوتے ہیں ۔ اتنے ہی اہم جتنے اسکول ، کالج ، یونیورسٹیاں اور ہسپتال ہوتے ہیں ۔ دراصل زندگی کو پنپنے کے لئے سب ہی کچھ اہم ہے۔

مجھے یہ جملہ مکمل کرنا تھا کہ معاشرے میں شاعر ، ادیب ، فنکار ، صوفی اور دانشور ہر کوئی اہم ہے لیکن وہ انسان وہ ادیب اور اس کا کام سب سے اہم ہے جو فرد ، سماج اور انسانوں میں بلاتخصیص رنگ ،مذہب، نسل ،جنس ان کی صحت اور امن کی بات کرتا ہو اور ڈاکٹر خالد سہیل کا کام ادب برائے ادب یعنی ادب برائے حس جمالیات کی ابتدائی منازل سے نکل کر، ادب برائے انسان دوستی ، ادب برائے شفا اور ادب برائے امن کی نئی جہتوں کو چھو رہا ہے جو اس دور کی اہم ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).