1950ء کی دہائی: گورنمنٹ کالج لائل پور میں میرے اساتذہ کرام


1974ء میں میری دکان جلائے جانے کے چند ہفتہ بعد فیصل آباد میں شاید ایڈیشنل میجسٹریٹ تعینات ہوئے تو دیر تک بیٹھے افسوس کرتے رہے اور جب تک وہاں متعین رہے کبھی کار کے کسی کام کے مشورہ کے لئے یا کبھی ویسے گزرتے آ کے چائے کے کپ پر گپ شپ کرتے شفقت بانٹتے رہے

اب محترم استاد مکرم شمس التوحید صاحب کو کچھ ذکر۔ چند روز قبل فیس بک پر کسی دوست نے فیصل آباد کے معروف سیاستدان میاں زاہد سرفراز کا ذکر کر دیا۔ فوراً مجھے گورنمنٹ کالج کے اپنے فرسٹ ائر کے آخری دنوں (اوائل 1957ء) میں شاید نہر سوئیز پر برطانوی قبضہ اور کالج میں ہڑتال اور ساتھ ہی یہ انتہائی سخت مزاج اور اکھڑ پن کی شہرت رکھنے والے اکنامکس کے یہ استاد نہ صرف یاد آئے بلکہ یہی اس مضمون کے لکھنے کا باعث ہوئے۔
اس روز صبح کالج جاتے ہی فضا کشیدہ اور برطانیہ کے خلاف غم و غصہ سے بھر چکی تھی۔ دوسرے پیریڈ کے شروع ہوتے ہی سٹوڈنٹ لیڈر کلاسوں میں آتے اساتذہ کو کلاس چھوڑنے کا یا طلبا کو چھوڑ آنے کا کہتے۔ ہم کلاس چھوڑ آئے تو دیکھا لان میں درخت کے نیچے ایک کلاس لگی ہے اور استاد چھوڑ نہیں رہے کہ چند منٹ پیریڈ میں باقی ہیں۔ دیکھتے دیکھتے لیڈرز کا گروپ مشتعل ہو گیا اور استاد کو دھکا دے گرایا اور نیچے سے کرسی کھینچ لی۔ تب پتہ چلا کہ یہی شمس التوحید ہیں اور کرسی کھینچنے والے کا نام زاہد سرفراز اور ساتھی آغا افضال اور آغا ناصر (بعد میں پاکستان ٹیلیویژن سے شہرت یافتہ) اور چند دوسرے ہیں۔ اپنی تربیت کے مطابق ہمارے لئے یہ گھٹیا ترین حرکت تھی۔ ادھر قدرت خدا کی اس کے بعد سوائے ضیا دور کی وزارت کے اس “مشہور” سیاست دان کی ساری زندگی مخالفین کے نیچے سے کرسی کھینچنے کی تگ و دو میں گزری۔ تھرڈ ائر میں اکنامکس کلاس میں گئے تو استاد شمس التوحید تھے۔ سٹی گم ہو گئی۔ پابندی وقت کی سختی، ہوم ورک مکمل چیک کرنا۔ اس کا الزام ان کے ابھی تک کنوارا ہونے پہ لگتا۔ اب پیریڈ بھی ان کا پہلا ہی ہوتا۔
جوں جوں دن گزرتے گئے یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کو اپنے فرض سے لگاؤ ہے اور وہ طالبعلم کو اسی شوق سے علم حاصل کرتا دیکھنا چاہتے ہیں جس شوق سے وہ پڑھاتے ہیں۔ جو طالب علم چار پانچ منٹ لیٹ آتا اس کی غیر حاضری لگتی۔ ایک طالبعلم مکمل دیہاتی سا ہفتہ میں دو تین مرتبہ لیٹ ہوتا۔ جھڑ کیوں اور غیر حاضریوں کے باوجود یہی معمول تھا۔ اس دوران کاروباری طور ہمارا کچھ تعلق کالٹیکس آئل کمپنی کے ڈپو تک ہو چکا تھا۔ چھٹیوں کے دوران میں ایک مرتبہ وہاں گیا تو دیکھا کہ گیٹ پر چوکیدار کی وردی میں وہی لڑکا کھڑا ہے۔
مجھے دیکھ منہ چھپانے کی کوشش کی۔ مگر میں عزت اور چاہت سے ملا اور گپ شپ میں پتہ چلا کہ ڈپو مینیجر نے کالج کے دنوں میں اس سے یہ شفقت کی ہوئی ہے کہ رات کی ہی شفٹ اسے ملتی ہے جو صبح آٹھ بجے ختم ہوتی ہے اور پیریڈ سوا آٹھ شروع ہوتا ہے۔ اگلی ڈیوٹی والا بھی اس پہ مہربان ہے اور چند منٹ پہلے آ جاتا ہے اور اس دن تو وہ وردی بدل بھاگم بھاگ وقت پہ پہنچ جاتا ہے۔ مگر جس روز وہ پورے وقت پہ آئے یا دو چار منٹ لیٹ ہو تو وہ بھی لیٹ ہوجاتا ہے۔
چھٹیوں کے بعد کالج کھلا تو دوسرے روز ہم بھی ہوم ورک پورا نہ کرنے کے جرم میں کھڑے تھے۔ باری آنے پہ عرض کی کہ سارا دن دکان پہ گزرتا اور شام کھانے کے بعد بھائی کے ایک ٹرانسپورٹر دوست کا بس کا اکاؤنٹ لکھتا ہوں لہذا کچھ کمی رہ گئی۔ ان کی آنکھوں کا غصہ واضح دھیما ہو چکا تھا۔ بس اتنا کہا لیکچر بہت توجہ سے سنا سمجھا کریں۔ اس فقرہ میں بہت کچھ تھا۔ کوئی دو دن بعد وہ طالب علم پھر کوئی دس منٹ لیٹ تھا۔ کلاس میں بیٹھنے کی اجازت تو دے دی مگر روایتی برہم مزاجی چہرے پہ عیاں تھی۔
کلاس ختم کر کے نکلے تو نہ جانے کیسے ہمت کرتے ان سے دو منٹ کی استدعا کی اور اس لڑکے کا مسئلہ بیان کرتے غیر حاضری لگتے اس کے لیکچر کم ہو جانے کے خوف کا ذکر کیا۔ ان کی آنکھوں میں نمی تھی۔ ان کا لہجہ بدل چکا تھا۔ مجھے کہا۔ اسے کہو کہ رول نمبر یاد رکھے۔ اس کا خانہ خالی چھوڑ کر بعد میں لگا دیا کروں گا لیکن ہفتہ کے آخر میں کسی کو بتائے بغیر سٹاف روم میں آ کر حاضری درست کروا لیا کرے۔ ہاں جان بوجھ لیٹ نہ ہونا شروع جائے۔ اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ اس سخت مزاج، بد دماغ اور مغرور کہلانے والے استاد کا اصل روپ شاید کبھی کسی نے دیکھنے کی کوشش ہی نہیں۔
اسی کلاس میں چند ہفتہ اعتزاز احسن بھی اپنے والد بزرگوار کی شاید بہت مختصر تعیناتی کے دوران ہمارے کلاس فیلو رہے۔ زیادہ تعارف ہونے سے قبل جا چکے تھے مگر اپنی ذہنیت اور قابلیت تاثر کے ساتھ اپنا نام بھی ہمارے دل میں چھوڑ گئے تھے، کہ ہم نے چودہ سال بعد اپنے بیٹے کا نام اعتزاز احمد رکھتے خوشی محسوس کی۔
انیس سو ستر میں اہل خانہ کے ساتھ مری کی مال روڈ پر گھومتے اچانک سامنے سے وہی خوش لباس کاؤ بوائے ہیٹ پہنے ویسے ہی سگار ہاتھ میں لئے پروفیسر شمس التوحید آتے نظر آئے۔ تعارف کرانے پر گرم جوشی سے ملے۔ اندر سے اس ہمدرد پر شفقت دل رکھنے والے پروفیسر شمس التوحید کو دیکھنے والے کو وہی اکڑ فوں نظر آ رہی تھی۔ وہ ابھی تک کنوارے بھی تھے۔
گورا چٹے دراز قد خوبصورت جوان مکرم احمد حسن صاحب نئے نئے پولیٹیکل سائٹس پڑھانے پہ مامور ہوئے تھے اور ابھی لہجہ میں وہ پختگی نہ تھی اور نہ آواز میں روایتی استاد والا دبدبہ۔ مگر علم بانٹنے کا بھر پور جذبہ۔ اسی کلاس میں ہمارے ساتھ جھنگ سے ایف اے کر آنے والا جیون خاں آن شامل ہوا۔ جو شکل سے ہی ایک عام دیہاتی گھر کا باسی لگتا اور کتابوں میں ڈوبا رہتا۔ تھوڑی بہت دوستی رہی۔ اگلے سال یونین کا صدر منتخب کروایا۔ بعد میں جے کے مہر اور پھر دوبارہ مہر جیون خان کے نام بیوروکریسی کے اعلی مقام تک پہنچا۔ استاذی مکرم کے پیریڈ میں مضمون کے کورس سے متعلق موضوعات پر اظہار رائے آزادی سے ہوتا۔ اور اختلاف رائے میں صائب دلیل کو سراہتے۔ کوئی بیس بائیس سال بعد لاہور ایک عزیزہ بچی کی شادی میں بارات کے ساتھ آئے اور تعارف کرانے پر پرانی یادوں کی جگالی ہوئی۔ تعلیم کا شعبہ چھوڑ کر کسی اونچی پوسٹ پہ تھے مگر ذہن سے اتر گئی۔
اس درس گاہ کو چھوڑے اکسٹھ برس ہونے کو آئے۔ لائل پور اب فیصل آباد ہو گیا ہے۔ اپنی اس معاشی جدوجہد کے ساتھ کالج کی پڑھائی کا دور اور ساتھی طلبا اور دوستیاں اور خوشگوار یادیں اور شفیق علم بانٹنے کا جذبہ رکھنے والے اساتذہ کی یادیں شمع زندگی بنتی اور دل شاد کرتی ہیں

انیس سو چھپن میں کالج داخل ہوئے تو محترم پروفیسر نامدار خان پرنسپل تھے۔ جلد ہی محترم عطا محی الدین تشریف لائے اور پھر ہم نے سید کرامت حسین جعفری جیسے پھلجھڑیاں بکھیرنے۔ ہنستے رہنے اور ہنساتے رہنے کے ساتھ نظم و ضبط کی مکمل پابندی کروانے والے پرنسپل کے زیر سایہ وقت گزارتے اپنے تعلیمی دور کے یادگار لمحات پاکستان کی دو نابغۂ روزگار ہستیوں سید کرامت حسین جعفری کے خطبۂ استقبالیہ اور عزت مآب جسٹس رستم کیانی کے قہقہے بکھیرتے خطبۂ صدارت کے بعد ڈگری وصول کر کے امر کیے۔
کاش پاکستان کے اس تعلیمی دور اور آج کے بلکہ پچھلے 50-55 سال کے تعلیمی معیار (استاد و شاگرد دونوں) کا موازنہ کرتے ہوئے آج بھی دل شاد ہوتا۔ دل صد چاک سے نوحہ برآمد نہ ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3