جوتے کو عزت دو


کہتے ہیں کہ مرد کی شخصیت کا اندازہ کرنا ہو تو اس کی گھڑی اور جوتا دیکھنا چاہیے۔ اور عورت کی شخصیت اس کے لباس کے انتخاب سے جھلکتی ہے۔ بڑے بڑے سیاسی رہنما قیمتی گھڑیوں اور دلکش جوتوں سے اپنی شخصیت کو نکھارتے رہے ہیں، ان میں قائداعظم، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور موجودہ وزیراعظم بھی شامل ہیں۔ گو کہ موجودہ وزیراعظم اب بہت سادہ لباس پہنتے ہیں، پر جو بھی پہنتے ہیں انہیں بہت جچتا ہے۔ اور جو چپل وہ شلوار قمیض کے ساتھ پہنتے ہیں اس کا تو نام ہی کپتان چپل پڑ گیا ہے۔

جوتا بنیادی استعمال کی وہ چیز ہے جو ہر خاص و عام پہنتا ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق خرید کر پہنتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو جوتا خریدنے کو عار سمجھتا ہے، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں مشتاق یوسفی صاحب کہتے ہیں کہ ”کچھ لوگ اس قدر مذہبی ہوتے ہیں کہ جوتا پسند کرنے کے لئے بھی مسجد کا رخ کرتے ہیں“ اور ہر جمعے کو قریبی جامع مسجد میں لگے ”جمعہ بازار“ جا کر جوتا چھپائی کی یہ رسم ادا کرتے ہیں۔

جوتا چرانے کے بعد وہ غالباً چھپ جاتے ہیں ”سالے“ ، اس لیے جوتا چھپائی کی اصطلاح استعمال کی۔ شادی میں تو جوتا چھپائی کا فریضہ سالیاں سر انجام دیتی ہیں لیکن مساجد میں یہ کارروائی ”سالے“ سر انجام دیتے ہیں۔ ان سالوں کے پاس ”غائب“ کا علم بھی ہوتا ہے کیونکہ جوتا چرا کر ایسے غائب ہوتے ہیں کہ جیسے ہوا میں تحلیل ہو گئے ہوں۔

میں ایک پرہیز گار آدمی ہوں اور گو نماز روزے سے بھی کافی پرہیز کرتا ہوں لیکن پھر بھی جمعہ کی نماز کون کافر چھوڑتا ہے۔ بروز جمعہ میری کوشش ہوتی ہے کہ پہلی صف میں جا کر بیٹھوں تاکہ خشوع و خضوع سے عبادت کا موقع مل سکے۔ عمر شریف کے سٹیج ڈراموں کا مکالمہ یاد آ رہا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں ”کہ میں مسجد گیا اور جوتے اپنے سامنے رکھ کر ہی نماز پڑھنے لگا اور جب پڑھ چکا تو ایک بزرگ میرے پاس آئے اور کہا کہ میاں جوتے سامنے رکھنے سے نماز نہیں ہوتی تو میں نے بڑے میاں کو جواب دیا کی جوتے پیچھے رکھنے سے جوتے نہیں ہوتے“

میرے جوتے کم از کم دس بار مختلف مکاتب فکر کی مساجد سے چوری ہو چکے ہیں۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہے کہ تمام فرقوں کے چور اس رسم پہ متفق ہیں اور جوتا چوری کو عین اسلامی سمجھتے ہیں۔ اب ان دس مواقع پہ جب میرا جوتا چوری ہوا تو انسان کو عجیب خفت کا سامنا ہوتا ہے کہ اب کیا کرے، ننگے پاؤں گھر جائے، مسجد کے سپیکر پہ اعلان گمشدگی کروائے یا کسی اور کا جوتا پہن کر نکل لے۔

تو حضرات گرامی ایسے دس میں سے نو مواقع پہ میں بھی کسی اور کا جوتا پہن کہ نکل لیا، اب کون گھر تک ننگے پاؤں گرمی میں پیدل چلے۔ ایسے موقعوں پر ضمیر ملامت کرتا ہے تو بندہ اسے یہ کہہ کر چپ کروا دیتا ہے کہ میرا بھی تو کسی نے چوری کیا ہے اور میری چوری، چوری نہیں بلکہ اس چور کی چوری کا ردعمل ہے۔ بہر حال میں ان نو لوگوں سے معافی چاہتا ہوں جن کی چپلیں پہن کر میں گھر واپس آیا تھا۔

اچھا اب یہ ایسی چوری ہے جس کی ایف آئی آر بھی نہیں ہوتی ہو گی۔ اگر کسی نے جوتا چوری کی ایف آئی آر کروائی ہو تو یہ میرے لئے نئی معلومات ہو گی۔ (کچھ عرصہ قبل ایسی ایک ایف آئی آر کا سوشل میڈیا پر کافی چرچا ہوا تھا) بالفرض آپ تھانے رپٹ کروانے چلے جائیں تو جوتے ملنے کا تو امکان نہیں البتہ آپ کی تشریف پہ جوتے برسنے کا امکان زیادہ ہے۔ مان لیں کہ کوئی دیندار تھانیدار لگا ہوا ہے، آپ کے علاقے میں اور وہ ایف آئی آر لکھنے پہ رضامند بھی ہو جاتا ہے تو وہ پوچھے گا آپ کو کسی پہ شک ہے تو آپ یہی کہیں گے کہ جی یہ 300 بندہ نماز جمعہ پڑھنے آیا، مجھے ان سب پہ شک ہے کیونکہ جس کی چیز گئی، اس کا ایمان گیا کے مصداق اس کو تو سب پہ ہی شک ہوتا ہے۔

ایک مرتبہ عامر خان کی فلم PK دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں اسے مندر جاتے دکھایا گیا ہے۔ تو مندر جانے سے پہلے وہ اپنے جوتے اتار کر ان کو گیٹ کے ساتھ وائر لاک wire۔ lock لگا کر مقفل کر دیتا ہے۔ تو یہ دیکھ کر اندازہ ہوا اور خوشی بھی ہوئی بھی کہ یہ رسم بھی بارڈر کی دونوں اطراف میں یکساں ہے۔ شاید گرجا گھر وہ واحد عبادت گاہ ہے جہاں پہ جوتا چوری کے امکانات صفر ہیں کیونکہ چرچ جانے والے حضرات جوتا پہن کر ہی عبادت کرتے ہیں (پاکستان اور انڈیا میں جوتے اتار کر ہی چرچ میں عبادت کی جاتی ہے )

عالمی سطح پہ ایک جوتا کلب بنا ہوا ہے۔ اس کلب میں وہ متاثرین شامل ہیں جن پر کسی عوامی جلسے یا تقریب کے دوران جوتا اچھالا گیا۔ امریکی صدر جارج بش، آسٹریلوی وزیراعظم جان ہاورڈ، بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے لے کر ہمارے ہر دلعزیز میاں نواز شریف، سابق صدر جنرل پرویز مشرف، سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم شامل ہیں۔ یہ ایک غلط طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اختلاف رائے اور ناپسندیدگی کے اظہار کے لئے عدم برداشت کا رویہ ظاہر ہوتا ہے اس قسم کے اقدامات سے۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک بار ناصر باغ لاہور جلسے میں ٹرک پت سوار ہو کر آئے۔ قومی اتحاد کے لوگ ان کے سخت خلاف تھے کسی نے ان کے قریب جا کر دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے جوتے دکھائے، تو مشتعل ہونے کے بجائے بھٹو نے ازراہ مزاح یہ کہا کہ مجھے معلوم ہے جوتے بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔ دوسری بار حکومت ملی تو سب سے پہلے جوتے سستے کروں گا۔ یہ ہوتی ہے حاضر دماغی اور تدبر۔ لیکن افسوس اسی پیپلز پارٹی کے ایک کارکن نے ارباب غلام رحیم، سابق وزیر اعلیٰ سندھ کو 2008 میں جوتا دے مارا۔

نواز شریف صاحب کو جب جامعہ نعیمیہ، لاہور میں ایک جوتا پڑا تھا (جو کہ بہت ہی قابل مذمت قدم تھا) تو اس کے بعد عمران خان صاحب کو باخبر کیا گیا کہ اگلا شکار آپ بھی ہو سکتے ہیں تو اس کے جواب میں انہوں نے ایک عوامی جلسے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ جو مجھے جوتا مارنا چاہتے ہیں تو میں انہیں تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ ”میں ایک کرکٹر ہوں، کیچ بھی بہت اچھا کرتا ہوں اور تھرو اس سے بھی اچھی کرتا ہوں“

خیر جوتے کو بہت گھما لیا ہے، مسجد، مندر، چرچ سے ہوتا ہوا جوتا ہماری سیاست میں داخل ہوا اور ابھی تک وہیں منڈلاتا پھر رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جوتے کو اس کے اصل مقام یعنی پاؤں میں ہی رہنے دیا جائے اور دلیل کا جواب دلیل سے دینا چاہیے۔ کسی کو جوتا مارنے سے انسان قد آور نہیں ہو جاتا اور نہ ہی آپ کا موقف درست ثابت ہو جاتا ہے۔ سیاست میں جوتے کی بجائے تدبر، برداشت، معاملہ فہمی اور خوش اخلاقی کو فروغ دینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).