اعلیٰ عہدوں والے معصوم لوگ


کبھی کبھی اگر بیٹھ کے سوچوں تو یوں لگتا ہے کہ اسلام آباد کا شہر شاید چند لوگوں کی ملکیت ہے جن کا سکہ ہر جگہ چلتا ہے۔ یہ شہر جو فطرت کی خوبصورتی سے مالامال ہے یہاں غریبوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

ایک دن پہلے اپنی یونیورسٹی فیس بک پیج پر ایک کولیگ رضا حسن فاروق جو شعر و شاعری کا ذوق بھی رکھتے ہیں ، ان کا ایک شعر ملاحظہ کیا جو کہ موجودہ صورتحال کی عکاسی کر رہا ہے ، عرض کرنا چاہوں گی۔

ناپاک چھپے بیٹھے ہیں تطہیر کے پردے میں
تقدیس پریشاں ہے، اور سخت پریشاں ہیں

تو جناب میرے نزدیک شہر اقتدار کا یہی حال ہے۔ میری ذاتی رائے کے مطابق یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے۔ اگر ماضی کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس شہر میں غریبوں کو جب بھی کچلا گیا ، ان کے ورثاء انصاف کے منتظر نظر آئے اور مجرموں کو ان کے عہدوں نے بچا لیا۔

چاہے وہ 2018 میں امریکی سفیر کی گاڑی کی زد میں آ کر جاں بحق ہونے والا عتیق ہو یا آج کی وفاقی محتسب برائے ہراسانی کشمالہ طارق کے قافلے کی زد میں آنے والے مانسہرہ کے جوان محمد انیس، حیدر علی، محمد عادل اور فاروق ہوں۔

اس کے بعد بے حسی اور نا انصافی کی انتہا دیکھیے کہ مجرم ابھی تک آزاد ہے اور وفاقی وزیر کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ یہ معمول کا حادثہ ہے اور میرا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ میں اس بات سے متفق ہوں کہ حادثات تو روزانہ ہوتے رہتے ہیں لیکن جناب ان حادثات کے مجرموں پر قانون کی گرفت مضبوط ہوتی ہے۔ مظلوم کو انصاف کے لئے دردر کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑتیں۔ لیکن اس حادثے میں مجرم چونکہ اعلیٰ عہدیدار ہیں ، اس لئے مقتولین کے ورثاء کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے ان کی جانب سے ایک دکھ بھری داستان سنا دی جاتی ہے کہ وہ تو بے قصور ہیں۔

خدارا اگر آپ کسی کے غم میں شریک نہیں ہو سکتے تو اس پر نمک چھڑکنے سے گریز کیجیے۔ پہلے ہی وہ خاندان جہاں ماؤں کی گود اجڑ گئی، جہاں والد کا سہارا چھن گیا، بہنوں کے مان ٹوٹ گئے، بھائیوں کے ساتھی چھوڑ گئے اور نہ جانے دوستوں کی تو کتنی محفلیں بے رونق ہو گئی ہیں ، بڑا دکھ سہہ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ مانسہرہ پر تو غم کے بادل چھائے ہوں گے۔ جس شہر نے چار جوانوں اور وہ بھی قریبی دوستوں کے جنازوں کا بوجھ ایک ہی دن اٹھایا ہو وہاں غم ہی کا بسیرا تو ہو گا۔ اس موقع پر خود کو بچانے کے لئے اس طرح کی تقریریں کر کے انہیں مزید دکھی نہ کریں۔

ہمارے ملک میں انصاف کے بڑے بڑے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر صاحب اقتدار بے گناہ ہی ٹھہرتے ہیں۔ غلطی ان جوانوں کی ہوتی ہے جو شہر اقتدار میں تلاش معاش کے لیے آتے ہیں اور اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھنے والوں کی گاڑیوں کی زد میں آ کر بہت سی آنکھوں میں ادھورے خواب چھوڑ جاتے ہیں۔

اب ان سادہ لوح مقتولین کے خاندان والے شاید اعلیٰ قانون دانوں تک رسائی تو حاصل نہ کر سکیں لیکن یاد رکھیے گا کہ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ انصاف تو ضرور ہو گا۔ خیر اس معاملے پر طویل بات کرنا میرا مقصد نہیں ہے۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا ہے لیکن اب سب سے اہم ذمہ داری عدالتوں کے کندھوں پہ ہے کہ کیا وہ دکھ اور غم میں گھرے ان خاندانوں کو انصاف فراہم کرتے ہیں یا طاقتور کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ چونکہ ہمیں اکثر مظلوم انصاف کے لیے ٹھوکریں کھاتے ہی نظر آتے ہیں اور کوئی بھی ادارے کسی اعلیٰ عہدیدار کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرتا۔ یہاں ایک شعر یاد آتا ہے۔

اے موج حوادث ان کو بھی دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل پر، طوفان کا نظارہ کرتے ہیں

میری ذاتی رائے کے مطابق اگر آج اس معاملے میں انصاف ہوتا ہے تو مستقبل میں یقیناً ہمارے شہر اقتدار سمیت سبھی شہروں میں بیٹھے ملکی اور غیر ملکی سبھی سیاست دان اور اعلیٰ عہدیداران سڑکوں اور سبھی عوامی مقامات کو اپنی جاگیر نہیں سمجھیں گے ، انہیں معلوم ہو گا کہ ان کے غیر ذمہ دارانہ رویے اب مزید معاف نہیں کیے جائیں گے۔ انہیں اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہو گا اور یوں معاشرہ انصاف کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).