طلبہ یونین پر پابندی کی چار دہائیاں، کیا بحالی ممکن ہے؟


پاکستان میں ہر سال نو فروری کو مختلف شہروں میں طلبہ مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں۔ اس احتجاج کا مقصد تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کی بحالی ہوتا ہے۔

رواں برس سال تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر پابندی کو 37 برس ہو گئے ہیں۔ یہ پابندی نو فروری 1984 کو اس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران لگائی گئی تھی۔ اس کے بعد کئی جمہوری ادوار بھی آئے۔ لیکن طلبہ یونینز پر پابندی برقرار رہی۔

اس بارے میں صحافی اور سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ جب پابندی لگائی گئی تو اس کی وجہ طلبہ یونینز میں تشدد کا بڑھتا رجحان بتایا گیا تھا۔ ان کے بقول کسی حد تک یہ درست بات تھی۔ لیکن ان پر پابندی کا فیصلہ سر اسر زیادتی تھی۔ کیوں کہ اصل ہدف اس وقت بھی اختلاف رائے کو دبانا تھا۔

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر لگائی گئی پابندی کو بعد میں قانونی شکل دی گئی تھی جس نے تعلیمی اداروں کا نقشہ ہی بدل دیا۔

طلبہ یونینز پر پابندی کے خلاف 2019 میں لاہور میں سمیت ملک کے بڑے شہروں میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے سڑکوں پر آ کر یونینز کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ اس وقت پابندی کے خلاف ہونے والی مظاہروں کے حق میں آواز اٹھانے والے استاد عمار علی جان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ یونینز پر لگی پابندیوں نے طلبہ کو بہت نقصان دیا ہے۔

عمار علی جان کے مطابق وہ تعلیمی اداروں میں گرتے ہوئے معیارِ تعلیم اور عدم برادشت کی بڑھتی ہوئی فضا کا ذمہ دار طلبہ یونینز پر پابندی کو سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جن مشکلات کا سامنا آج طلبہ کر رہے ہیں ان کی آواز کو منظم طریقے سے آگے لے کر جانے والا کوئی نہیں ہے۔

'یونین سازی طلبا کا آئینی حق ہے'

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ بات صرف یہاں ختم نہیں ہو جاتی کہ طلبہ یونینز نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے نتیجے میں صحت مند مباحثے اور مکالمے کا کلچر بھی ختم ہو گیا ہے۔ صحت مند سرگرمیوں کے فقدان کی وجہ سے طلبہ میں نشے جیسے رجحانات بڑھ رہے ہیں۔

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ تکینیکی طور پر پابندی تعلیمی اداروں میں صرف طلبہ یونینز پر لگائی گئی تھی۔ جب کہ طلبہ تنظیموں پر پابندی نہیں تھی۔ اس پابندی سے بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں زیادہ متاثر ہوئیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے بطور تنظیم کام جاری رکھا۔ یوں تعلیمی اداروں میں دائیں بازو کی سوچ کو تقویت ملی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مقابلے پر اور کوئی نظریہ موجود ہی نہیں تھا۔

لاہور میں دو سال قبل ‘طلبہ یکجہتی مارچ’ میں نمایاں رہنے والی طالبہ عروج اورنگزیب نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ طلبہ پلیٹ فارمز سے اٹھنے والے مطالبات بالکل معقول تھے۔ طلبہ اپنے مسائل اجاگر کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں یونین سازی کا حق مانگ رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یونینز کی عدم موجودگی کی وجہ سے طلبہ معاشرتی سرگرمیوں سے کٹ جاتے ہیں۔ یہی طلبہ کل کو ملک کی سیاست میں کوئی کردار ادا کر سکیں۔ اس کے لیے طلبہ یونینز کی بحالی ضروری ہے۔

طلبہ تنظیموں کی جہد و جہد کا ذکر کرتے ہوئے عروج اورنگزیب کا کہنا تھا کہ دو سال قبل سیاسی جماعتوں نے طلبہ کے مطالبات کے حق میں بات ضرور کی۔ لیکن عملی طور تعلیمی اداروں میں یونینز کی بحالی کے ضمن میں اب تک کچھ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ طلبہ یونینز کے نہ ہونے سے طالبات کو زیادہ نقصان ہوا ہے۔ کیوں کہ ان کی نمائندگی تعلیمی اداروں میں سرے سے ہی کہیں نہیں رہی۔

واضح رہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر 1984 میں لگائی گئی پابندی بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں 1989 میں ختم کر دی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے 1993 میں اس پر دوبارہ پابندی عائد کر دی تھی۔

سندھ حکومت نے صوبائی کابینہ میں دسمبر 2019 میں طلبہ یونینز سے پابندی ہٹانے کی منظوری دی۔ لیکن اس قانونی ڈرافٹ کی سندھ اسمبلی سے منظوری اب تک باقی ہے۔

عمار علی کا کہتے ہیں کہ یہ پابندیاں اب زیادہ دیر نہیں چل سکیں گی۔ کیوں کہ طلبہ متحرک ہو چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments