پیارے بھائی ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی کی یاد میں


5 جنوری 2021ء کو ایک ایسا شخص دنیا سے رخصت ہوا جس نے جہانیاں منڈی کے علاقہ 99 / 10۔ آر کی ایک چھوٹی سی نواحی بستی ظفر آباد میں اس علاقے کی معروف شخصیت مرحوم سید ابراہیم مشہدی گھڑیالوی جو شاہ صاحب کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے ہاں آنکھ کھولی جنہوں نے اس کا نام احمد فاروق رکھا جو بعد میں پروفیسر ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی کے نام سے جانے گئے۔ دنیا کے لیے ان کی ابدی رخصتی روٹین کا ایک واقعہ تھا مگر ہمارے خاندان اور ان کے چاہنے والوں کے لئے ایک بڑے صدمے کا باعث۔

اس دن جب ہم واپڈا ٹاؤن فاروق بھائی کے گھر پہنچے تو ہر چہرہ اداس تھا۔ چند دن پہلے تک ہی تو میری فاروق بھائی سے ملاقات ہوئی جب میری طبیعت خراب ہونے پر وہ اور بھابھی میرے ہسپتال پہنچنے سے پہلے وہاں موجود تھے۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ جیتا جاگتا انسان یوں اچانک رخصت ہو جائے گا۔ ہر بار ہمارے جانے پر مسکرا کر استقبال کرنے والے فاروق بھائی آج اسی ٹی وی لاؤنج میں ابدی نیند سو رہے تھے۔ نومبر میں انہوں نے مجھے اسی ٹی وی لاؤنج میں آخری تحفہ پروفیسر رشید احمد انگوی کی کتاب ”میری معلمانہ زندگی کی تلخ وشیریں یادیں“ دی تھی اور کہا تھا ایک کتاب میں نے اسحاق کے لئے بھی رکھی ہے۔ معلوم نہیں دے سکے یا نہیں۔ ان کے ایک استاد ڈاکٹر نجیب جمال کے بقول ”وہ اپنی ذات میں منفرد شخص تھا وہ اس دنیا کا شخص تھا ہی نہیں، نمود و نمائش سے بالکل پاک ایک خوبصورت شخص تھا“ ۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کی شخصیت نمود و نمائش سے بالکل پاک تھی۔ علم و ادب کا یہ مینارہ بس اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔

فاروق بھائی کا نمبر ہم پانچ بہن بھائیوں میں دوسرا تھا۔ بہن بہت بچپن میں ہی اللہ کو پیاری ہو گئی تو ہم چار بھائی رہ گئے۔ وہ ہمارے تو بھائی تھے، ہماری ان سے محبت، پیار اور عقیدت فطری امر ہے مگر وہ اپنے اساتذہ، اپنے شاگردوں اور اپنے ساتھیوں کے لئے بھی ایک نادر انسان تھے۔ اردو ادب میں ایم اے کرنے والے اس مثالی انسان کے لیے ان کے استاد ڈاکٹر انوار احمد کا یہ کہنا کہ ”اس جیسا طالب علم شعبۂ اردو میں آیا نہ کوئی آئے گا۔

“ بہترین خراج عقیدت ہے۔ بظاہر دھیمے اور دبلے پتلے اس محنتی اور انتھک طالب علم نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول 99 / 10۔ R اور ہائی سکول جہانیاں سے میٹرک کیا۔ ایف اے، بی اے، ایم اے (گولڈمیڈلسٹ) ملتان یونیورسٹی اور پھر سکالرشپ پر انگلستان سے ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی، نوائے وقت اخبار میں نوکری، رحیم یار خان میں لیکچرشپ، زکریا یونیورسٹی میں لیکچرشپ اور پھر وہاں بطور چیئرمین کئی برس کام کرنا اور 21 ویں گریڈ میں اعزاز سے ریٹائر ہونا اس کی محنت، لگن، دیانت، اپنے کام سے عشق کا یہ ثبوت ہے کہ ان کا دھیما پن ان کے کسی تدریسی یا انتظامی عمل میں رکاوٹ نہیں بنا بلکہ ان کا یہی سٹائل ہی ان کی پہچان بن گیا۔

ان کے شاگرد میرے اس مشاہدے سے اتفاق کریں گے کہ عام حالات میں زبان و بیان میں دھیما بولنے والے فاروق بھائی کا کلاس روم میں زبان و بیان کا انداز بالکل مختلف، منفرد اور جداگانہ تھا۔ وہ پڑھاتے ہوئے ہر لفظ کی ادائیگی ٹھہر کر، سمجھانے کے انداز میں، تلفظ کا پوری طرح خیال رکھتے ہوئے کرتے تھے۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں انہیں مکمل دسترس تھی۔ لکھتے ہوئے وہ رموز و اوقاف (Punctuation) کا بے حد خیال رکھتے۔

میرا یہ گمان ہے کہ ان کا لیکچر اگر توجہ سے سن لیا جاتا تو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کا اتفاق 1994ء میں مجھے اس وقت ہوا جب ان کی کمر کا آپریشن ہوا تھا۔ میں یونیورسٹی والے گھر میں ان کے ساتھ رہا، میں ان دنوں بی ایڈ کا طالب علم تھا اور کسی وجہ سے اس برس امتحان دینے کا ارادہ ترک کر دیا تھا جو اچانک امتحان دینے میں بدل گیا۔ داخلہ میں نے بھیجا ہوا تھا مگر تیاری نہیں تھی۔

ایجوکیشن چونکہ فاروق بھائی کا مضمون تھا۔ وہ لیٹے لیٹے مجھے لیکچر دیتے جو میں سنتا، نوٹس لکھتا رہتا اور اگلے دن پیپر دے آتا۔ رزلٹ آیا تو بہت اچھے نمبر آئے۔ اسی قسم کے تأثرات کا اظہار شعبۂ اردو کی ایک سابق طالبہ محترمہ راشدہ قاضی نے بھی اپنے تعزیتی پیغام میں کیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے اردو ادب کی کلاس میں ناصر کاظمی اس طرح پڑھایا کہ ہمیں پڑھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ ناصر کاظمی ان کا پسندیدہ شاعر تھا، ان کا تحقیقی کام بھی ناصر کاظمی پر ہی تھا جو ”اجنبی مسافر، اداس شاعر“ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔

ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی

وہ کئی حوالوں سے میرے باقاعدہ استاد تھے۔ جب وہ یونیورسٹی پڑھتے تھے اور پھر رحیم یار خان میں لیکچرر تھے تو میں انہیں خط لکھتا تھا جس کا جواب وہ کم دیتے تھے ، بس اباجی کے خط میں ہی سب کا حال پوچھ لیتے تھے۔ حالانکہ عمومی زندگی میں وہ خط کا جواب دیتے تھے۔ وقت کی پابندی کرتے تھے، وعدے کے پکے انسان تھے مگر معلوم نہیں کیوں میرے خط کا جواب کم دیتے تھے؟ میں نے انہیں ایک دھمکی آمیز خط لکھا کہ اگر اس بار آپ نے جواب نہ دیا تو میں آپ کو خط لکھنا چھوڑ دوں گا۔

میں نے لکھا کہ ’’یہ خط میں سکول میں تفریق کے وقت لکھ رہا ہوں۔‘‘ میں اس وقت پرائمری سکول کا طالب علم تھا۔ میری دھمکی نے کام دکھایا، فوراً جواب آیا۔ معذرت کی اور اصلاح بھی کی کہ لفظ تفریق نہیں تفریح (بریک) ہوتا ہے اور دونوں کا فرق بھی سمجھایا۔ یہ میرا ان سے دوسرا سبق تھا۔ پہلا سبق تختی پر لکھ کر دینا تھا۔ اب تو تختی لکھنے کا سلسلہ ہی ختم ہو گیا۔ وہ بہت خوبصورت لکھتے تھے۔ ان دنوں قلم اور سیاہی سے تختی پر لکھا جاتا تھا۔

ہم ان سے تختی کی اوپر والی لائن لکھواتے تھے جسے اصلاح کہا جاتا تھا اور باقی لائنیں ان کی طرح لکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور ان کی لکھی لائن پر خالی قلم پھیرا کرتے تھے تاکہ ان کی طرح لکھنا آ جائے۔ اس وقت قلم، دوات اور تختی کے بغیر پرائمری سکول کی تعلیم کا تصور ہی نہیں تھا۔ چوتھا سبق جب میں نے اپنی کتاب بلاوا (سفرنامہ حجاز) لکھ کر انہیں ”ایک نظر“ دیکھنے کے لئے دی تو اس ”ایک نظر“ میں انہوں نے صفحوں کے صفحے نکال دیے۔

پانچواں سبق میرے ایم فل کے تھیسس پر بھی ”ایک نظر“ ڈالی اور اس میں سے غیر ضروری اور غیر معیاری چیزیں نکال دیں۔ ان کے شاگرد جانتے ہیں کہ ان کا سرخ قلم بڑی بے رحمی سے چلتا تھا جو دراصل بدصورت تحریر کو خوبصورت بنانے کے لئے چلتا تھا۔ پاکستان کے نظام تعلیم اور معیار سے مطمئن نہیں ہوتے تھے۔ بالخصوص طالب علموں کے معیار سے، اس کا ذکر جناب پروفیسر نسیم شاہد نے بھی اپنے کالم میں کیا ہے۔

ان کے شاگرد ہی ان سے محبت نہیں کرتے، شعبۂ اردو کے ان کے اساتذہ ڈاکٹر خواجہ زکریا، ڈاکٹر اے بی اشرف، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر اسلم انصاری، پروفیسر افتخار حسین شاہ (مرحوم) ان سے بے حد پیار کرتے۔ ایک بار گورنمنٹ ایمرسن کالج میں جناب اسلم انصاری، پروفیسر حفیظ الرحمان، اردو کے کچھ اور پروفیسرز اور پروفیسر افتخار شاہ صاحب مرحوم کے ساتھ مجھے ملنے کا اتفاق ہوا۔ شاہ صاحب مرحوم میرے بھی استاد تھے۔

کہنے لگے ”یہ طارق، فاروق مشہدی کا بھائی ہے مگر اس کی طرح لائق نہیں۔“ ایک استاد کی طرف سے ان کے لئے یہ بہترین خراج تحسین تھا۔ فاروق بھائی جب پی ایچ ڈی کے لئے انگلستان گئے تو ماں باپ، بھائیوں، رشتہ داروں کے لئے جہاں فخر کا باعث بنا وہیں ماں، باپ کے لیے اداسی کا سبب بھی تھا۔ اس وقت آج کی طرح ٹیلی فون نہ موبائل فونز۔ رابطے کا بڑا ذریعہ خط تھا جو وہ لکھتے رہتے تھے۔ مرحومہ امی جان سے ایک بار ان کی ایک سہیلی ماسی منیرہ مرحومہ نے پوچھا کہ جب بیٹا یاد آتا ہے تو کیا کرتی ہو؟ مامتا کا جواب تھا کہ فاروق کی ایک قمیص اپنے سونے والے کمرے میں کھونٹی پر لٹکائی ہے اسے دیکھ کر تصور کر لیتی ہوں کہ فاروق کھڑا ہے۔ ان کی محبت بیٹے کی اعلیٰ تعلیم میں رکاوٹ نہیں بنی مگر محبت میں کبھی کمی بھی نہیں آئی۔

پڑھنے والوں کو ایسا محسوس ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں فراز ہی ہیں، نشیب نہیں یعنی مسائل نہیں آئے۔ ان کی زندگی نشیب و فراز کا مجموعہ ہے۔ غالباً 1975ء میں ان پر سکول کے کمرے کی چھت گر گئی، ایف ایس سی کے عین امتحان کے دنوں میں شدید بیمار ہوئے کہ امتحان نہ دے سکے۔ پی ایچ ڈی کے لئے انگلستان گئے تو شروع میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کمر درد کی وجہ سے کمر کا آپریشن، ٹانسلز کی وجہ سے گلے کا آپریشن۔ لیکن رب تعالیٰ کے خاص فضل سے ان کی زندگی کا پیشہ وارانہ، تخلیقی اور خاندانی سفر خوش اسلوبی سے جاری رہا۔ ان کی زندگی محبت، کوشش، امید، اپنے کام سے لگن سے بھرپور رہی۔ وہ اونچی آواز نہیں بلکہ دلیل سے بات بتانے والے اور منوانے والے تھے۔ وہ بیک وقت ایک بہترین استاد، کامیاب منتظم، مثالی شوہر، عظیم باپ، منفرد نثرنگار، غم جاناں، غم دوراں کے خوبصورت شاعر، اعلیٰ ظرف دوست اور پیارے بھائی تھے۔ ریٹائرمنٹ سے اب تک کسی حد تک زکریا یونیورسٹی کے ساتھ منسلک تھے۔

اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھانے والے فاروق بھائی نے اپنے سفر آخرت سے پہلے ایک خوبصورت گھر بنوایا، دونوں بچوں حسن اور زنیرا کے گھر بسائے، گزشتہ کچھ عرصہ میں وہ اردو ادب کی طرف واپس آئے اور لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اپنی طبیعت، لباس اور گفتگو میں نفاست سے بھرپور فاروق بھائی اپنے ان مضامین میں بھی انفرادیت کا رنگ دکھاتے نظر آئے۔ مگر زندگی نے اچانک بے وفائی کی چادر اوڑھ لی اور ہم سب کی آنکھوں کا تارا، ہمارے خاندان اور علاقے کا فخر اور تعارف، اپنے چاہنے والوں کی آنکھوں میں آنسو دے کر 5 جنوری 2021ء کو کفن کی سفید چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے۔ رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنی شان کے مطابق اپنے اس بندے کو رحمتوں کے سائبان میں جگہ دے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments