محبوب تابش کی کتاب ”اقبال:خوش گمانیاں، غلط بیانیاں“۔


’’کسی بھی معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک مفکر یا دانشور کے افکار کو ابدی اور آفاقی بنا کر اسے تنقید سے بالاتر کر دیتے ہیں۔ عہد وسطیٰ نے ارسطو کے فلسفے کو عیسائیت میں ڈھال کر ہزار برس تک تعلیم کا حصہ بنا کر نئے خیالات کو روکے رکھا۔ جب اسے چیلنج کیا گیا تو نئے خیالات و افکار امڈ امڈ پڑے۔

پاکستان میں بھی اقبال اور ان کے افکار کو اس ذہن کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ ہر دور میں معاشرے کی رہنمائی کریں گے۔ اقبال کی پرستش نے نئے نظریات اور افکار کی راہیں بند کر دی ہیں۔ محبوب تابش نے بڑی جرأت کے ساتھ اقبال پر لکھی اپنی کتاب میں اقبال پرستی کو چیلنج کیا ہے اور اس سے سماج کے مختلف شعبوں پر ہونے والے اثرات پر بے لاگ بحث کی ہے۔‘‘

یہ تبصرہ ہے ڈاکٹر مبارک علی صاحب کا محبوب تابش کی کتاب ”اقبال خوش گمانیاں، غلط بیانیاں“ پر جو اقبال پرستی سے پردے اٹھاتی ایک جامع کتاب ہے۔ اس کتاب میں اقبال کو سب سے پہلے بطور سیاست دان پیش کیا گیا ہے۔ اقبال اپنی عملی سیاست میں اس مسلم لیگ کے رہنما رہے جس کا ایک مقصد بقول پارٹی جنرل سیکرٹری نواب وقار الملک ”اگر ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس کوئی تدبیر ہندوستان میں رہنے اور بچنے کی ہے تو وہ یہی ہے کہ انگریز کی حکومت ہندوستان میں قائم رہے اور ہمارے حقوق کی حفاظت تب ہو سکتی ہے جب ہم حکومت کی حفاظت پر کمر بستہ ہوں۔ ہماری موجودہ گورنمنٹ کا وجود لازم و ملزوم ہے“ تھا اور اقبال کی سیاست دانی اپنی نمائندہ سیاسی جماعت کے ایسے اقوال پر مکمل خاموش نظر آتی ہے۔

ویسے تو اقبال درسی کتب میں انگریز مظالم اور ان کی کھوکھلی تہذیب کی شاعری کی حد تک بڑی مخالفت کرتے ہیں مگر عملاً نہیں۔

سنہ  1914ء میں جنگ عظیم اول شروع ہوئی تو اقبال کی سیاست نے چپ سادھ لی۔ اسی طرح جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے حکم پر دس منٹ میں سینکڑوں افراد مارے اور بارہ سو زخمی کر دیے جاتے ہیں تو اقبال جیسا سیاست دان ایک مذمتی بیان بھی نہیں دیتا بلکہ ذمہ داروں جنرل ڈائر اور مائیکل ایڈوائرہر دو کی شان میں اقبال نے قصائد لکھے اور تقریب میں جا کر پڑھے۔ 1917ء میں شاہ آباد اور آرہ میں مسلم ہندو فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کے کئی گاؤں تباہ و برباد ہو گئے، مگر اس عظیم مفکر کو ان حالات میں بھی حیدر آباد میں ہاشم بلگرامی کی وفات سے خالی ہونے والی ہائی کورٹ کے جج کی آسامی کی فکر کھائے جا رہی تھی۔

جب سینکڑوں جید علمائے کرام نے سرکاری اعزازات کے خلاف فتویٰ دیا تو حضرت اقبال کو دربار فرنگی کا سرکاری خطاب واپس کرنا تو یاد نہ رہا مگر جب ترکی کے عثمانی ملوک سے اقتدار چھن گیا تو اس کا نوحہ 1922ء میں نظم کی صورت میں لکھنا نہ بھولے۔ حالانکہ یہ ترک عثمانی آمر مطلق اور عوام دشمن بادشاہ تھے۔ عام مسلمانوں کو خودی کا درس دینے والے حضرت اقبال خود 1925ء میں معمولی سے انگریز افسر کی سفارش سے کشمیر کی ریاستی مجلس میں ملازمت کے حصول کے لئے خط لکھتے ہیں (پورا خط کتاب میں شامل ہے ) ۔

اقبال کی سیاست کا سب سے بڑا کارنامہ خطبہ الہ آباد گردانا جاتا ہے۔ محبوب تابش صاحب نے کتاب میں اقبال کے خطبے کا مکمل متن شامل کیا ہے۔ اقبال نے کہیں بھی مسلمانوں کے لئے الگ ریاست کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے واضح انداز میں آل انڈیا فیڈریشن کے اندر ہی مسلمانوں کے لئے ان کے اکثریتی علاقے میں Residuary Power سمیت حقوق دیے جانے کی بات کی تھی۔ اس خطبے کے تھوڑے عرصہ بعد چوہدری رحمت علی کی ”سکیم پاکستان“ منظر عام پر آئی، بڑے بڑے مسلمان رہنماؤں نے اسے اہمیت نہ دی تو آہستہ آہستہ ہندوؤں اور انگریزوں نے اس سکیم کو اقبال کے خطبے کی پیش رفت کہنا شروع کر دیا۔

اس طرح کے فکری ڈانڈے ملانے والوں میں ایک قابل ذکر نام آئی۔ جے۔ تھامپسن کا تھا۔ اقبال نے اس پرتھامپسن کو 1934ء میں ایک وضاحتی خط بھی لکھا تھا۔ جس میں وہ لکھتے ہیں، ”آپ نے ایک غلطی کی ہے جس کی میں فوراً نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ یہ ایک فاش غلطی ہے۔ آپ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس سکیم کا حامی ہوں جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میری سکیم نہیں ہے، میں نے اپنے خطبے میں جو سکیم پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبے کے بارے میں تھی جو شمال مغربی ہندوستان کی مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری سکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا حصہ ہو گا۔ پاکستان سکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔“

اقبال کے اپنے انکار کے بعد بھی انہیں مسند مصور پاکستان اور خالق پاکستان پر براجمان کرنے والے غور فرمائیں۔

اقبال کی مدح سرائی میں ان کے کچھ ”شاہین“ اس حد تک چلے جاتے ہیں جیسے اقبال اپنے دور کا کوئی ”ولی کامل“ تھا۔ اپنے شاہینوں کو خودی کا درس دینے والے اقبال زندگی بھر عملاً سرکار، دربار اور بادشاہوں کے قصیدہ خواں رہے۔ 1914 میں اقبال نے اپنے فلسفۂ خودی کی تشریح کرنے والی کتاب ”اسرار خودی“ کو سر علی امام کے نام سے معنون کیا، جس پر شدید تنقید ہوئی کہ خود داری کا درس دینے والی کتاب کو ایسے شخص کے نام پر معنون کیا گیا جو خود انگریز حکومت کا خطاب یافتہ ہے۔ اقبال کہیں آل سعود کی مطلق العنان حکومت کی بنیاد رکھنے والے آمر تو کہیں نواب آف بھوپال سر حمیداللہ خان اور کہیں نادر شاہ کی مدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔

کتاب کے اگلے باب میں مصنف نے اقبال کے تصور قومیت یا ملت پر طویل علمی وفکری بحث کر رکھی ہے۔ ”اقبال اور جمہوریت“ پر بھی خاصی بحث موجود ہے۔ ایک باب ”شعر و فکر اقبال میں انگریزوں کا حصہ“ کے بارے میں ہے، جس میں بہت سی نظموں کے متعلق دعویٰ ہے کہ اقبال کی وہ نظمیں دراصل انگریز شاعروں کا ترجمہ ہیں۔ جیسا کہ اقبال کی نظم ”پیام صبح“ دراصل ”لانگ فیلو“ کی انگریزی نظم ”Day Break“ کا ترجمہ ہے، اقبال کی نظم ”ایک پہاڑ اور گلہری“ دراصل ”ایمرسن“ کی نظم ”The Mountain and the Squirrel“ سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح ان کی نظمیں ”گائے اور بکری“ ، ”بچے کی دعا“ اور ”ماں کا خواب“ بھی ماخوذ ہیں۔ اقبال کی نظموں کے ساتھ ساتھ بہت سے اشعار بھی چربہ ہیں۔ جیسا کہ اقبال کے یہ اشعار:؎

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

عمل سے بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

دراصل معروف پشتو شاعر خوشحال خان خٹک کے پشتو اشعار کا ترجمہ ہیں۔ اقبال کے بہت سے اشعار رحمان بابا، استاد ذوق، مولانا روم اور شیفتہ سے لیے گئے ہیں۔ ”اصل کا حوالہ نہ دینا“ اقبال کی یا ان کے بعد آنے والے شاہینوں کی علمی بد دیانتی ہے۔

ایک باب حضرت اقبال کی چند تلمیحات کے تاریخی تناظر بارے ہے۔ اقبال اپنے اشعار میں مجدد الف ثانی کا ذکر فخر سے کرتے ہیں، یہ شیخ احمد سرہندی کے نام سے مشہور ہیں۔ شیخ سرہندی کا اپنا دعویٰ ہے کہ، ”رسول کے ایک ہزار برس پورے ہو چکے ہیں اب اگلا ہزار حقیقی احمدی کا ہو گا یعنی احمد سرہندی کا۔“ ان کی کتاب ”مکتوبات ام ربانی“ بھی ایسے ہی نظریات سے بھرپور ہے۔ یہ شخص اقبال کی نظر میں ہیرو تھا۔ ہندوستان کی سرزمین کو متعدد بار لوٹنے والے افغان لٹیرے محمود غزنوی کا دعویٰ ہے کہ وہ بت شکن تھا مگر تاریخ کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ صرف ”دولت“ کا لالچی تھا، کیونکہ اس نے ان علاقوں پر بھی حملے کر کے لوٹا جہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور وہاں حکمران بھی مسلمان تھے۔

اس نے ملتان پر اس لیے حملہ کیا کہ وہاں کے مسلمان حکمران داؤد بن نصر کے دادا نے محمود غزنوی کے والد کو خراج دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ہندوستان کے چھوٹے مندروں کو چھوڑ کر بڑے مندر سے سونا چاندی لوٹ کر افغانستان لے جانے والے محمود غزنوی کو بھی شاعر مشرق داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ اپنے وطن میں رہ کر لڑتے ہوئے وطن کی خاطر جان دینے والے تو حضرت اقبال کو نظر نہ آئے مگر لاہور و دلی میں قتل عام کروا کے مسمار شدہ گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں کی آگ سے مکینوں کی لاشیں جلا نے والے نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی ہمارے ”قومی شاعر“ کے لاڈلے ٹھہرے۔

یہ عظیم مفکر و شاعر ”عورت“ کے بارے میں اتنے ہی تنگ نظر تھے، جتنا آج کا ملا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں : ”مجھے عورتوں پر کچھ زیادہ اعتماد نہیں ہے۔ عورت کو کمزور دماغ ملا ہے۔ اس لیے کہ جہاں تک اس کا تعلق ہے اس کی تخلیقی قوت دماغ کی بجائے رحم سے تعلق رکھتی ہے۔“

کتاب کے آخر میں حضرت اقبال کے موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں ، قادیانیوں اور شیطان کے حوالے سے جو خیالات بیان کیے گئے ہیں، وہ پڑھ کر اقبال کا کوئی بھی شاہین برملا چیخ اٹھے گا، ”نہیں! نہیں! یہ وہ حضرت اقبال نہیں ہو سکتے، یہ سیالکوٹ کے کسی دوسرے تیسرے محمد اقبال کا ذکر ہو رہا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments