فریڈی فیگرز: کوڑے دان کے قریب چھوڑا گیا لاوارث بچہ جو ٹیکنالوجی کی دنیا میں کروڑ پتی بنا


فریڈی فیگرز

تازہ اعداد و شمار کے مطابق فریڈی فیگرز کی کمپنی کی مالیت اب چھ کروڑ 20 لاکھ ڈالر ہے اور مارکیٹ میں یہ بات مشہور ہے کہ انھیں اتنی کامیابی اپنی صلاحیت اور لوگوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی بدولت ملی ہے۔

فریڈی کا بچپن عام بچوں جیسا نہیں تھا۔ جب وہ پیدا ہوئے تھے تو انھیں امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک کوڑے دان کے پاس اکیلا مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔

بی بی سی آؤٹ لُک کو دیے ایک انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں تھوڑا بڑا ہوا تو دوسرے بچے میرے ماضی کی وجہ سے میرا مذاق اڑاتے تھے۔ وہ مجھے ’کچرے والا بچہ‘ کہہ کر چھیڑتے تھے۔ وہ کہتے تھے تمھیں کوئی پسند نہیں کرتا اور یہ کہ تم گندے ہو۔‘

’مجھے یاد ہے جب میں سکول کی بس سے اُترتا تھا تو کچھ بچے مجھے زبردستی پکڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیتے اور پھر مجھ پر ہنستے تھے۔‘

فریڈی کہتے ہیں کہ ’ایسی صورتحال پیدا ہو گئی تھی کہ میرے والد (جنھوں نے مجھے گود لیا تھا) کو بس سٹاپ پر میرا انتظار کرنا پڑتا تاکہ وہ مجھے باحفاظت گھر لے جا سکیں۔ پھر بچے مجھے مزید تنگ کرتے اور مذاق اڑاتے۔ میرے والد کے حوالے سے وہ کہتے کہ اس بوڑھے آدمی کو دیکھو جس کے ہاتھ میں چھڑی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

دنیا کے امیر ترین شخص کی کامیابی کے چھ راز

گیراج سے کام شروع کرنے والے الیکٹرک کار کے موجد جنھیں کہا گیا ’خواب دیکھنا چھوڑ دو‘

شہرزاد: خالی ہاتھ کینیڈا آئیں اور ویڈیو کمپنی کی مالک بن گئیں

برطانوی موجد جس نے 200 برس قبل اہم کاروباری چال چلی

فریڈی کے والد نیتھن کی عمر 74 سال اور ان کی والدہ بیٹی مے کی عمر 66 سال تھی جب انھوں نے فریڈی کو گود لیا۔

ان کے اپنے بچے بھی تھے اور انھوں نے گزرتے برسوں کے ساتھ درجنوں دنیا میں اکیلے رہ جانے والے بچوں کو گود لیا تھا۔ ان میں سے کئی بچوں کے والدین جیلوں میں قید تھے۔ فریڈی کو گود لینے سے قبل اگرچہ نیتھن اور بیٹی نے سوچا تھا کہ اب انھیں رُک جانا چاہیے اور مزید بچوں کو گود نہیں لینا چاہیے کیونکہ اُن کی عمر کافی زیادہ ہو چکی ہے۔

لیکن پھر اچانک اُن کی زندگی میں فریڈی آ گئے۔ کوئی بھی فریڈی کو گود لینا نہیں چاہتا تھا تو اس لیے وہ فریڈی کے لے پالک والدین بن گئے اور ان کی دیکھ بھال کرنے لگے۔

جب فریڈی تھوڑے بڑے ہوئے تو انھوں نے اپنے نئے ماں بات سے سوالات پوچھنے شروع کر دیے۔ اور پھر نیتھن نے انھیں بتایا کہ ’میں بیباک ہو کر کہوں گا کہ آپ کی اصل والدہ نے آپ کو اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ میں اور بیٹی آپ کو یتیم خانے میں بھیجنا نہیں چاہتے تھے اس لیے ہم نے آپ کو گود لیا۔‘

ابتدا میں فریڈی کو یہ بات بہت بُری لگی لیکن نیتھن نے انھیں بس اتنا کہا کہ ’اس پر کبھی مایوس مت ہونا۔‘

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’میرے ان والدین نے مجھے کافی محبت سے پالا پوسا۔ انھوں نے میرے لیے وہ سب کیا جو وہ کر سکتے تھے۔ مجھے کبھی اپنے اصل والدین کو ڈھونڈنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ بیٹی اور نیتھن میرے لیے سب کچھ تھے۔ میں ان سے محبت کرتا تھا۔‘

’انھوں نے مجھے دیانتداری سکھائی، یہ سکھایا کہ ہمیشہ صحیح راستے پر چلنا ہے۔ انھوں نے یہ بھی سکھایا کہ کبھی اپنی بنیادیں مت بھولنا۔ میں نے دیکھا کہ میرے والد ہمیشہ لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ وہ راستے میں رُک کر کسی اجنبی کی مدد کر دیا کرتے تھے اور بے گھر افراد کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔۔۔ وہ کمال کے لوگ تھے اور میں ان جیسا بننا چاہتا تھا۔‘

کچرے کنڈی سے خزانے کا سفر

نیتھن خود دو نوکریاں کرتے تھے۔ وہ ایک مینٹیننس ورکر تھے جبکہ بیٹی کھیتی باڑی کرتی تھیں۔ ان دونوں کے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے لیکن نو سال کی عمر میں فریڈی کو ایک ایسا تحفہ ملا جس نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔

یہ تحفہ ایک میکنٹوش کمپیوٹر۔۔۔ لیکن انتہائی خراب حالت میں۔

فریڈی بتاتے ہیں کہ ’ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران میں اور میرے والد کچرے میں چیزیں تلاش کرنے جایا کرتے تھے۔ وہ آس پاس کے مختلف علاقوں میں جا کر پھینکی ہوئی چیزیں ڈھونڈتے تھے۔‘

’جیسے ایک محاورہ ہے کہ ایک ہی چیز کسی کے لیے کچرا اور کسی کے لیے خزانہ ہوتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے شروع سے ہی کمپیوٹرز کا شوق تھا۔ میری خواہش تھی کہ میرا بھی ایک گیٹ وے کمپیوٹر ہو لیکن ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔‘

ان کے والد انھیں ایک سیکنڈ ہینڈ سامان کی دکان پر لے گئے تھے۔ انھوں نے وہاں ایک سیلز مین کو منا لیا کہ وہ انھیں ایک پُرانا، خراب کمپیوٹر محض 24 ڈالر میں فروخت کر دیں۔

’میں اس پر بہت خوش تھا۔ یہ کمپیوٹر چلتا نہیں تھا۔ میں نے اسے کھول کر دیکھا کہ ایک پرزہ خراب تھا اور اس طرح مجھے قدرتی طور پر سب سمجھ میں آتا رہا۔ میرے والد مینٹیننس کا کام کرتے تھے تو ان کے پاس کافی چیزیں آتی رہتی تھیں، جیسے ویلڈنگ کے اوزار، ریڈیو اور گھڑیاں۔‘

’میں نے کلاک ریڈیو میں سے کچھ پرزے نکالے اور انھیں جوڑ دیا۔ قریب 50 مرتبہ ناکام ہونے کے بعد میں نے کمپیوٹر کو چلا ہی لیا۔ یہ وہ لمحہ تھا کہ جب مجھے احساس ہوا کہ میں نے زندگی میں کیا کرنا ہے۔‘

فریڈی کہتے ہیں کہ ’اس کمپیوٹر نے میرے دل میں موجود لوگوں کے بُرے رویوں کا درد مٹا دیا تھا۔ جس وقت مجھے سکول میں تنگ کیا جاتا تھا تو میرے ذہن میں بس ایک چیز ہوتی تھی۔ میں کب گھر جا کر اپنے کمپیوٹر پر کھیلوں گا۔‘

’جب میری عمر 10 یا 11 سال تھی تو میں نے کوڈنگ کرنا سیکھ لی تھی۔ میں بنیادی پروگرام لکھ لیتا تھا۔ اس طرح میں مزید آگے بڑھتا گیا۔‘

نوکری کا جذبہ

فریڈی نے جیسے ہی کمپیوٹر کی زبانیں سیکھنا شروع کیں تو انھیں ان کی پہلی نوکری مل گئی۔ اس وقت ان کی عمر صرف 12 سال تھی۔

’میں سکول کے بعد ایک پروگرام کا حصہ بنا ہوا تھا اور اس کی وجہ سے میں کمپیوٹر لیب میں وقت گزار سکتا تھا۔‘

’لیب میں کوئی کمپیوٹر ٹیکنیشن نہیں تھا۔ جب کوئی مشین کام کرنا چھوڑ دیتی تھی تو وہ اس کی تار نکال کر اسے دیگر خراب کمپیوٹرز کے ساتھ رکھ دیتے تھے۔ میں ایک ایک کر کے انھیں ٹھیک کرتا تھا، یعنی ان کے خراب پرزے نکال کر ان میں نئے پرزے ڈال دیتا تھا۔‘

کوئنسی شہر میں اس پروگرام کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر شہر کی میئر بھی تھیں۔ جب انھوں نے فریڈی کو دیکھا تو وہ حیران رہ گئیں۔ وہ فریڈی کو ان کے والدین کی اجازت کے بعد ٹاؤن ہال (ضلعی مرکز) لے گئیں۔

وہاں درجنوں خراب کمپیوٹرز تھے اور فریڈی سے کہا گیا کہ وہ سکول کے بعد آ کر انھیں ٹھیک کر دیا کریں۔ اس کام کے انھیں 12 ڈالر فی گھنٹہ ملتے تھے۔ ’یہ زیادہ پیسے نہیں تھے لیکن کام بہت مزے دار تھا۔‘

تین سال بعد 15 سال کی عمر میں بھی وہ ضلعی انتظامیہ کے لیے کام کر رہے تھے۔ ایک کمپنی نے انھیں پانی کے میٹروں کی نگرانی کے لیے نوکری کی پیشکش کی تھی۔ اس میں ان کی تنخواہ کافی بہتر تھی۔

حکام نے سوچا کے فریڈی اس پروگرام کو سمجھتے ہیں اور یہ وہی نوکری ہے جس کا کام فریڈی کم پیسوں میں کرتے رہے ہیں، اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ فریڈی کو ہی یہ نوکری دی جائے۔

اس موقع پر فریڈی نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس پر ان کے والدین ناخوش ہوئے۔ انھوں نے سکول سے بور ہو کر سوچا کہ وہ سکول چھوڑ کر اپنا کاروبار کریں گے۔

والد کے جوتے

فریڈی 17 سال کے تھے جب ان کے والد نیتھن الزائمر کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔

’مجھے یاد ہے ایک رات ہم کاؤ بوائے والی فلم دیکھنے کے بعد سونے چلے گئے۔ رات دو بجے انھوں نے مجھے نیند سے جگا دیا۔ ان کے ہاتھ میں بندوق تھی۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ فلم کے ہیرو ہیں۔‘

’میں نے ان سے یہ بندوق واپس لی اور انھیں بستر پر لیٹنے کو کہا۔ اگلی صبح وہ گھر سے باہر نکل چکے تھے۔‘

’گھر سے نکلتے وقت وہ کبھی کبھار اپنی پینٹ یا شرٹ پہننا بھول جاتے تھے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ وہ کبھی اپنے جوتے پہننا نہیں بھولتے تھے۔‘

’میں نے ان کے جوتے کھول کر ان میں مائیک، سپیکر اور سرکٹ لگا کر اسے اپنے لیپ ٹاپ سے جوڑ دیا۔

’یہ اس وقت کی بات ہے جب ایپل یا گوگل میپس نہیں ہوا کرتے تھے۔ جب بھی میرے والد لاپتہ ہوتے تو میں اپنے کمپیوٹر پر ایک بٹن دبا کر ان سے پوچھ لیا کرتا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔‘

’وہ جواب میں مجھے کہتے تھے کہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ میں کہاں ہوں۔ جیسے ہی وہ کچھ بولتے تھے تو میں سمجھ جاتا تھا کہ وہ کھڑے ہیں، بیٹھے ہیں یا زمین پر لیٹے ہوئے ہیں۔‘

فریڈی نے ایک ایسا جی پی ایس نیٹ ورک تشکیل دیا تھا جس سے وہ پتا لگا سکتے تھے کہ نیتھن کہاں ہیں۔

وہ وقت بھی آ گیا جب خاندان نے زور دیا کہ نیتھن کو ایک نرسنگ ہوم میں داخل کیا جانا چاہیے۔ فریڈی نے اس کی سخت مخالف کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔ میں بھی انھیں اکیلا چھوڑنے والا نہیں تھا۔‘

نوجوان اور الگ تھلک

کچھ سال بعد فریڈی کی بنائی ہوئی سمارٹ ٹیکنالوجی، جسے انھوں نے اپنے والد نیتھن کی دیکھ بھال کے لیے بنایا تھا، 20 لاکھ سے زیادہ ڈالر میں فروخت ہوئی۔ اسی دوران نیتھن کی صحت مزید خراب ہوئی اور انھوں نے دم توڑ دیا۔

فریڈی کو یہ دُکھ رہا کہ وہ انھیں ایک نئی گاڑی اور مچھلیاں پکڑنے کے لیے کشتی خرید کر نہیں دے سکے، جس کا انھیں بہت شوق تھا۔

’میں نے اس وقت پیسوں کی اصل قدر سمجھی۔ میرے والد نے امیر ہوئے بغیر بہت سے لوگوں کی مدد کی تھی۔‘

اس دوران فریڈی نے اپنی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی بنانے کا خیال آیا۔ بڑی کمپنیاں دیہی علاقوں میں زیادہ سرمایہ کاری نہیں کرتی تھیں۔ وہ شمالی فلوریڈا یا جنوبی جارجیا جیسے علاقوں میں انٹرنیٹ کی تیز رفتار سروس دینا چاہتے تھے۔

فریڈی نے اپنی ٹیکنالوجی کے ذریعے دوسروں کی مدد کرنے کو ترجیح دی

فریڈی نے اپنی ٹیکنالوجی کے ذریعے دوسروں کی مدد کرنے کو ترجیح دی

اکثر لوگ انٹرنیٹ کے لیے ڈائل اپ کونیکشن استعمال کرتے تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ 394 مرتبہ ناکامی کے بعد ایف سی سی نے انھیں لائسنس دیا تھا۔

امریکہ میں ایف سی سی ایک آزاد ادارہ ہے جو ریڈیو، انٹرنیٹ، وائرلیس نیٹ ورک، ٹیلی فون، سیٹلائٹ اور کیبل کی نگرانی کرتا ہے۔ اس میں انٹرنیٹ کے ذریعے رابطے اور سینسرشپ بھی شامل ہے۔

21 سال کی عمر میں فریڈی کو ٹیلی کمیونیکیشن آپریٹر کا لائسنس مل چکا تھا۔ وہ سب سے کم عمر اور پہلے افریقی نژاد امریکی شہری تھے جسے یہ لائسنس ملا۔

فریڈی نے خود سے فائبر آپٹک کیبل لگانا شروع کی اور اپنے ٹیلی فون ٹاور بھی لگائے۔ ان کی کمپنی فیگرز کمیونیکیشن لاکھوں ڈالر مالیت کی ہو گئی۔

لیکن آپ اپنی آمدن سے کیا کرتے ہیں، یہی آپ کو سب سے الگ بناتا ہے۔

احسان کرنے کا سلسلہ

امریکہ میں فیگرز فاؤنڈیشن سیاہ فام طلبہ کو سکالرشپ دیتی ہے اور قدرتی آفات کے دوران مدد فراہم کرتی ہے۔ عالمی وبا کے دوران اس ادارے نے حفاظتی لباس سپلائی کیے اور غربت کا شکار بچوں کو ڈیجیٹل ہنر سکھائے۔

اپنے والد کے لیے سمارٹ شو کے بعد سے فریڈی صحت کے شعبے میں مختلف چیزیں ایجاد کرتے رہے ہیں۔

ان کی ایجاد کردہ ایک اور چیز بھی زندگی کے ایک بُرے تجربے سے متاثرہ ہے۔ جب وہ آٹھ سال کے تھے تو وہ بیٹی کی رشتہ دار کی تیمارداری کے لیے ان کے گھر گئے تھے۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ وہ ذیابیطس سے بےہوش ہونے کے بعد دم توڑ چکی ہیں۔

14 سال بعد انھوں نے ایک پروگرام بنایا تاکہ ایسی اموات کو روکا جا سکے۔

’میں نے ایک گلوکو میٹر بنایا جو تمام معلومات فون، ڈاکٹر، رشتہ دار اور انشورنس کمپنی تک پہنچاتا ہے۔ کسی غیر معمولی صورتحال میں یہ سب کو الرٹ بھیج دیتا ہے۔‘

ان کی والدہ بیٹی مے اب بھی زندہ ہیں۔ لیکن وہ بھی الزائمر کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ’انھیں مجھ پر بہت فخر ہے حالانکہ وہ کبھی سمجھ نہیں پائیں کہ میں کمپیوٹرز کے ساتھ کیا کام کرتا ہوں۔۔۔ انھیں لگتا ہے کہ میں وی سی آر پر کام کرتا ہوں۔‘

فریڈی سب کو ایک ہی مشورہ دینا چاہتے ہیں: ’حالات کی وجہ سے خود کو محدود نہ ہونے دیں اور دوسرے لوگوں کو بھی مواقع فراہم کریں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp