شہنشاہ جہانگیر کی زنجیر عدل سے جسٹس فائز عیسیٰ کے اختلافی نوٹ تک



ابن انشاء نے ایک کتاب ”اردو کی آخری کتاب“ تحریر کر کے مفت ٹیکسٹ بک بورڈ والوں کو ارسال کی۔ ان کا جواب یہ تھا کہ یہ کتاب طلباء کو باقی سب نصابی کتب سے بے نیاز کرنے کی کوشش ہے۔ خدشہ ہے کہ اسے پڑھ کر طلباء اساتذہ اور اساتذہ طلباء بن جائیں گے۔ اس لئے ٹیکسٹ بک بورڈ اس کتاب کو مسرت کے ساتھ مسترد کرتا ہے۔

اس کتاب میں تاریخ کے ایک باب کا عنوان ہے ”جہانگیر اور بے بی نور جہاں“ ۔ کہتے ہیں کہ شہنشاہ جہانگیر اتنا عادل تھا کہ اس نے محل کے باہر ایک ”زنجیر عدل“ لٹکائی ہوئی تھی۔ جس پر ظلم ہو اسے ہلائے اور عالم پناہ کے انصاف سے مستفید ہو۔ اس کے بارے میں ابن انشاء لکھتے ہیں

” جہانگیر کی بیوی کے علاوہ اس کا عدل بھی مشہور ہے۔ اس نے محل کے باہر ایک زنجیر اور زنجیر سے ایک گھنٹہ لٹکا رکھا تھا۔ پاس ہی دربان بٹھا دیے تھے کہ کوئی فریادی نزدیک آنے کی کوشش کرے تو اس کے ڈنڈا رسید کریں۔ پھر بھی کوئی شخص گھنٹہ بجانے میں کامیاب ہو جاتا اور بادشاہ کو بے وقت جگاتا تھا۔ اس کی سزا بھی پاتا ہو گا۔“

اس کے ساتھ ایک کارٹون بھی درج ہے جس میں ایک مفلوک الحال شخص اوندھے منہ گرا ہوا ہے اور ایک ڈنڈا بردار چوکیدار کہہ رہا ہے۔ ”خو۔ زنجیر کھینچتا ہے؟ تمہارے باپ کا زنجیر ہے؟“

خیر یہ تو ہمارا تابناک ماضی تھا۔ آج کل محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے ایک اختلافی نوٹ کی خبر گرم ہے۔ باوجود تمام کم علمی کے ہمیں بھی اس کو اور اسی مقدمے کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے قانونی نکات پر تو قانون دان بحث کریں گے اور کر بھی رہے ہیں۔ اس کالم میں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہو کہ جب میرا جیسا کم علم آدمی اس فیصلے کو اور جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کے اختلافی نوٹ کو پڑھتا ہے تو اس کے ذہن میں کیا سوالات پیدا ہوتے ہیں؟

اس مقدمے کا پس منظر یہ تھا کہ وزیر اعظم صاحب نے اچانک اعلان کیا کہ تمام اراکین اسمبلی کو اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لئے فی کس پچاس پچاس کروڑ روپیہ دیے جائیں گے۔ اہم سیاسی مواقع پر ممبران اسمبلی کو قوم کی ترقی کی طرف متوجہ کرنے کا یہ مجرب نسخہ جنرل ضیاء الحق صاحب کے دور سے استعمال ہو تا آیا ہے۔ جس طرح آپ نے تاریخی ناولوں میں پڑھا ہو گا کہ جب بادشاہ کسی پر خوش ہوتے تھے تو اس کا منہ موتیوں سے بھر دیتے تھے۔ اس کے بعد اس شخص پر منحصر ہوتا تھا کہ وہ ان موتیوں کو کن ترقیاتی کاموں پر صرف کرتا ہے۔

لیکن اس مرتبہ اس شاہانہ طریقہ کار میں رکاوٹ یہ تھی کہ 2014 میں سپریم کورٹ نے اس طریقہ کار کو روکنے کے لئے ایک فیصلہ سنا دیا۔ کیونکہ آئین کی نمبر 80 سے 84 تک کی شقیں یہ کہتی ہیں کہ حکومت تمام خرچوں کے لئے پہلے بجٹ منظور کرانا پڑے گا۔ اور اگر کوئی اضافی اخراجات کرنے ہوں تو اس کے لئے ضمنی بجٹ منظور کرانا پڑے گا۔ اس عمل سے گزرے بغیر وزیر اعظم یا کوئی اور عہدیدار اس قسم کی شاہانہ جود و سخا کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔

جب اس ماہ کے شروع میں وزیر اعظم عمران خان صاحب جب یہ اعلان کیا کہ ہر ممبر کو اپنے حلقے میں ترقیاتی پروگراموں کے لئے پچاس پچاس کروڑ رو پے دیے جائیں گے، تو سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے اس مقدمے کو سننا شروع کیا۔ اور یہ آرڈر جاری کیا کہ اگر حکومت کی طرف سے جمع کرائے گئے جوابات تسلی بخش نہ ہوئے کہ حکومت کا یہ فعل آئین کے مطابق ہے تو پھر معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کی خدمت میں پیش کیا جائے گا کہ وہ ایک بنچ تشکیل کریں جو اس معاملے کی سماعت کرے کہ حکومت کا یہ اعلان آئین کے مطابق ہے کہ نہیں۔ ابھی دو رکنی بنچ کی کارروائی ختم نہیں ہوئی تھی کہ چیف جسٹس گلزار احمد صاحب نے اس معاملے کی سماعت کے لئے اپنی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بنچ تشکیل دے دیا۔ اور دو رکنی بنچ کے ایک رکن مکرم جسٹس باقر صاحب اس بنچ میں شامل نہیں کیے گئے۔

دو رکنی بنچ کے دوسرے رکن محترم جسٹس فائز عیسیٰ صاحب جو نئے بنچ میں بھی شامل تھے، نے دس فروری کو مکرم چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ جب دو رکنی بنچ 3 فروری کو یہ آرڈر جاری کر چکا تھا کہ کہ اگر دو رکنی بنچ نے یہ طے کیا کہ حکومت کا قدم آئین کے مطابق نہیں ہے تو چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں درخواست کی جائے گی وہ اس کی سماعت کے لئے بنچ تشکیل فرمائیں تو فوری طور پر نئے بنچ کے بنانے کی کیا ضرورت تھی؟

یہاں یہ بحث نہیں کہ مکرم جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کے تحفظات درست تھے کہ نہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر فرمایا ہے کہ انہیں اس خط کا جواب تک نہیں دیا گیا۔ یقینی طور پر مکرم چیف جسٹس صاحب اپنے تمام اقدامات کے حق میں بہت سے دلائل دے سکتے ہیں لیکن اگر سپریم کورٹ کے معزز جج کو بھی اپنے اٹھائے ہوئے سوال کا جواب نہیں ملا تو پاکستان کے باقی شہری کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟

جب نئے پانچ رکنی بنچ نے سماعت شروع کی تو ایک اور ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کو ایک نامعلوم نمبر سے واٹس اپ پر اس معاملے کے بارے میں کچھ دستاویزات کی کاپیاں موصول ہوئیں۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ کم از کم قومی اسمبلی کے حلقہ 65 میں وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق 28 کروڑ روپوں کے پراجیکٹ منظور بھی کر لیے گئے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ صاحب نے اس اقرار کے ساتھ کہ مجھے یہ کاپیاں موصول ہوئی ہیں اور میرے علم میں نہیں کہ یہ دستاویزات درست ہیں کہ نہیں، ان کی کاپیاں اس بنچ کے فاضل ججوں اور اٹارنی جنرل صاحب کے سپرد کر دیں۔ اور اٹارنی جنرل صاحب سے کہا کہ وہ اس بات کی تصدیق یا تردید کریں کہ یہ دستاویزات درست ہیں کہ نہیں؟

اٹارنی جنرل صاحب کا یہ موقف تھا کہ اس کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کی حیثیت ایک شکایت کنندہ کی ہو گئی ہے۔ اس لئے انہیں اس مقدمے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس صاحب نے بھی فوری طور پر اٹارنی جنرل صاحب کی رائے سے اتفاق کیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ صاحب نے اپنے نوٹ پر اس نکتے کا تفصیلی قانونی تجزیہ کیا ہے کہ اس قدم سے وہ قانون کی رو سے شکایت کنندہ نہیں بن جاتے۔

لیکن اگر ہم یہ پہلو نظر انداز بھی کردیں تو اس سوال کا جواب اب تک کیوں نہیں دیا گیا کہ کیا وہ کاپیاں درست تھیں یا جعلی تھیں۔ کم از کم پاکستان کے عوام کو یہ تو بتایا جائے کہ سپریم کورٹ کے جج کو جن دستاویزات کو دکھانے کی بنا پر ایک شکایت کنندہ بنا دیا گیا وہ دستاویزات درست تھیں کہ نہیں۔ اور 11 فروری کو چیف جسٹس صاحب نے عدالت میں اعلان کیا کہ آئین کی رو سے وہ اس مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتے اور عدالت سے چلے گئے۔ اسی روز عدالت کا ایک تحریری آرڈر یا فیصلہ جاری کر دیا گیا۔

اور بنچ کے ایک رکن جسٹس فائز عیسیٰ صاحب نے نہ تو یہ فیصلہ دیکھا تھا اور نہ ہی اس پر رائے دی تھی۔ انہیں میڈیا سے علم ہوا کہ عدالت نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ اس پر انہوں نے استفسار کے لئے اگلے روز سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو خط لکھا۔ اس مرتبہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے بھی ان کے خط کا جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔

یقینی طور پر چار ججوں کو یہ حق تھا کہ وہ اکثریتی فیصلہ جاری کرتے۔ لیکن کیا یہ مناسب تھا کہ پانچویں جج کو ٹی وی سے خبر ملے کہ فیصلہ تو اسے دکھائے بغیر جاری کر دیا گیا ہے۔ می لارڈ! یہ بحث نہیں کہ قانونی طور پر کس کا موقف درست ہے؟ قابل فکر بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت ہے۔ اگر خود ایک فاضل جج کو بھی اس کے سوالات کے جوابات نہیں مل رہے تو پھر پاکستان کے عوام کے لئے کیا اسی سلوک کی امید رکھیں جو شہنشاہ جہانگیر کی زنجیر عدل کے قریب بیٹھا ڈنڈا بردار ان کے ساتھ کرتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments