جھوٹا خواب اور سچی حقیقت


انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 1956 ء کے آئین کے بعض اہم انسانی حقوق سے متعلق نکات آئین کا حصہ بنیں گے لیکن پاکستان کو ایک مذہبی ملک نہیں بنایا جائے گا جہاں ملاؤں کی حکومت قائم کی جائے۔ پورے ملک میں مذہبی ملاؤں نے تیس سے زیادہ نشستیں نہیں حاصل کی ہیں۔ عوام نے انہیں بری طرح سے دھتکار دیا ہے۔ عوام اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو تعلیم ملے۔ انہیں روزگار ملے اور انہیں زندگی کی دیگر ضروریات بھی ملیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں خوشحالی آئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں بہاریوں کا مستقبل محفوظ ہے اور ان کے بھی وہی حقوق ہیں جو بنگالیوں کے ہیں۔ انہیں حق ہے کہ وہ اردو پڑھیں اور لکھیں، اردو کو بھی وہی تحفظ حاصل ہو گا جو تحفظ بنگلہ زبان کو دیا جائے گا۔

انہوں نے کشمیر کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ ہیں اور ان کی حق خودارادیت کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ایک وقت آئے گا جب وہ اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزار سکیں گے۔ اگر وہ پاکستان کا حصہ بنیں گے تو وہ بھی ہمارے چھ نکات کے مطابق اپنے صوبے کو مکمل خودمختاری کے ساتھ چلانے کے حق دار ہوں گے۔ عوام کے مطالبات کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔

پریس کانفرنس میں خوندکر مشتاق، تاج الدین، محمد منصور علی، سید نذر الاسلام اور عبدالصمد آزاد بھی موجود تھے۔ مشرقی پاکستان کے طلبا کے نمائندے طفیل احمد بھی پریس کانفرنس میں موجود تھے اور انہوں نے الیکشن میں مجیب اور بھٹو کی کامیابی کو طلبا کی کامیابی قرار دیا تھا۔ خوندکر مشتاق اور تاج الدین نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا تھا کہ عوامی لیگ کے تمام ممبر قومی اسمبلی شیخ مجیب الرحمان کے پیچھے کھڑے ہیں اور ان سب کی مکمل حمایت سے ایک ایسا آئین بنایا جائے گا جو دونوں صوبوں کے لیے قابل قبول ہو گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ مغربی پاکستان میں ون یونٹ کا خاتمہ حتمی ہو گا۔ ون یونٹ مشرقی پاکستان کے سیاست دان اور سابق وزیراعظم محمد علی بوگرہ اور مغربی پاکستان کے سیاست دان اور سابق وزیراعظم محمد علی چوہدری نے بنایا تھا جس کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ شیخ مجیب الرحمان کی پریس کانفرنس کو ساری دنیا کے پریس میں اہمیت دی گئی تھی۔ لندن کے اخبار گارجین اور امریکا کے نیویارک ٹائمز میں مجیب الرحمان نے خصوصی انٹرویو چھاپے گئے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان نے مجیب الرحمان کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ اتحاد کرے گی۔

لاہور میں کونسل مسلم لیگ کے سربراہ میاں ممتاز دولتانہ نے مذہبی اور دوسری ہم خیال جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک اجلاس بلایا تھا جس کے بعد ایک اعلامیہ میں اس بات پر زور دیا تھا کہ عوامی لیگ کے چھ نکات پاکستان کو توڑ دیں گے۔ آئین ساز اسمبلی کو نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام کی بنیاد پر بنایا گیا ہے اور اس کا اسلامی تشخص برقرار رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کی جماعت کے اراکین قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے اور کوشش کریں گے کہ جلد از جلد ایک آئین قرارداد مقاصد کے تحت بنا کر لاگو کیا جائے۔

بلوچستان اور سرحد سے الیکشن میں نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کے سربراہ مفتی محمود نے بھی ڈھاکہ کے اجلاس میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے جنرل یحییٰ خان کو صاف و شفاف الیکشن منعقد کرنے پر مبارکباد دی تھی اور اس اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ آئین کی منظوری کے بعد اقتدار عوام کے نمائندوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔

مسلم لیگ قیوم، کونسل مسلم لیگ اور جمعیت علمائے پاکستان کے نمائندوں نے لاہور اچھرہ میں مولانا مودودی سے ملاقات کی تھی۔ مولانا مودودی کے آفس سے نکلنے والے اعلامیے کے مطابق مولانا مودودی نے زور دیا تھا کہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنایا جائے کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔

ڈھاکہ مشرقی پاکستان میں وقت مقررہ پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تھا۔ عوامی لیگ کے بنائے گئے آئین پر بڑی شد و مد کے ساتھ بحث ہوئی تھی مگر مجیب الرحمان نے اپنے چھ نکات میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اس بات پر راضی ہو گئے تھے کہ ملک کا کرنسی نوٹ ایک ہی ہو گا مگر آئینی طور پر یہ ضمانت ہو گی کہ مشرقی پاکستان سے دولت مغربی پاکستان نہیں لائی جا سکے گی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی میں کئی تقریریں کی تھیں جس پر انہیں بہت سراہا گیا تھا۔ انہوں نے ڈھاکہ کے دھان منڈی میں پیپلز پارٹی کا آفس بھی بنا لیا تھا اور اپنی رہائش کے لیے ایک بڑا بنگلہ بھی خرید لیا تھا۔

ننانوے دن میں پاکستان کا آئین بن گیا تھا جسے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور بھی کر لیا گیا تھا۔

آئین کی منظوری کے بعد شیخ مجیب الرحمان نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ وہ چھ مہینے اسلام آباد اور چھ مہینے ڈھاکہ میں رہیں گے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کے دوران انہیں نائب وزیراعظم بننے کی دعوت دی تھی مگر بھٹو صاحب نے قائد حزب اختلاف بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ بہت جلد مشرقی پاکستان کے ہر شہر میں پیپلز پارٹی کی تنظیم سازی کریں گے۔ انہوں نے جے اے رحیم اور معراج محمد خان کو مشرقی پاکستان میں سیاسی ٹیم کا انچارج بنا دیا تھا۔

مصطفی کھر نے پنجاب میں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف لیا تھا جبکہ عبدالحفیظ پیرزادہ کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے سیاست دان محمود رضا قصوری، احمد رضا قصوری، مختار رانا، شیخ رشید اور معراج خالد اور حنیف رامے نے ذوالفقار علی بھٹو کے فیصلوں کو سراہا تھا اور کہا تھا کہ ملک میں جمہوریت بحال ہو گئی ہے۔

نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے عوامی لیگ سے اتحاد بنا کر مرکز میں وزارتیں حاصل کی تھیں اور صوبہ سرحد اور بلوچستان میں حکومتیں بنالی تھیں اور اعلان کیا تھا کہ بلوچستان اور صوبہ سرحد کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔

سچی حقیقت

مغربی پاکستان کے سیاست دانوں سے مشورہ کرنے کے بعد جنرل یحییٰ نے اسمبلی کا اجلاس منسوخ کر دیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ مشرقی پاکستان جانے والے اراکین قومی اسمبلی کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اور اسمبلی اجلاس منسوخ کرنے پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔

عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی آزادی کا اعلان کر کے اپنے آپ کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کر لیا تھا اور ہندوستان سے مدد مانگی تھی تاکہ بنگلہ دیش ایک آزاد ملک بن جائے۔

پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے خلاف بہاریوں اور چند بنگالی رضا کاروں کی مدد سے فوجی کارروائی شروع کر دی تھی جبکہ مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں بہاریوں کو اپنا نشانہ بنایا تھا اور پاکستانی فوج کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا تھا۔ کلکتہ میں ایک آزاد عبوری بنگلہ دیش کی حکومت بنائی گئی تھی جس کے وزیراعظم تاج الدین تھے۔ مجیب الرحمان کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لے جایا گیا تھا۔

مشرقی پاکستان آزاد ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تھا جہاں مجیب الرحمان نے آئین بنانے کے فوراً بعد تمام مخالف جماعتوں کے خلاف کارروائی کی تھی۔ ملک میں ایک پارٹی کی حکومت قائم کر دی گئی تھی۔ مجیب کے ایک بیٹے پر غیراخلاقی سرگرمیوں کے الزامات لگائے گئے تھے۔ مجیب الرحمان ایک مخصوص گروپ میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ چند نوجوان فوجیوں نے ان کے خلاف بغاوت کر کے ان کے سارے خاندان کو قتل کر دیا تھا (شیخ حسینہ اس وقت جرمنی میں تھیں ) خوندکر مشتاق کو ملک کا صدر بنایا گیا تھا جن کے حکم پر جیل میں تاج الدین، محمد منصور علی اور نذرالاسلام کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے آئین بنانے اور آئین کے لاگو ہونے کے چوبیس گھنٹوں میں آئین کے شخصی آزادی کے متعلق بنیادی نکات کو معطل کر دیا تھا اپنے قریبی ساتھی اور پارٹی کے جنرل سیکریٹری اے جے رحیم کو رات کے دو بجے تشدد کا نشانہ بنوایا تھا۔ معراج محمد خان اور دیگر کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ بلوچستان اور سرحد کی حکومتوں کا خاتمہ کر کے عبدالولی خان اور مفتی محمود کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ فوج، نوکر شاہی، تعلیمی نظام اور عدلیہ کے ججوں کی تقرری میں میرٹ اور سنیارٹی کا خاتمہ کر دیا تھا۔

جماعت اسلامی کے سربراہ میاں طفیل محمد کو جیل میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور بھٹو مخالف سیاست دانوں پر تشدد کیا گیا تھا۔

میرٹ اور سنیارٹی کے خلاف تقرر کیے گئے جنرل ضیاء الحق نے بغاوت کر کے فوجی حکومت قائم کر لی تھی، جماعت اسلامی اور دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کی مدد سے ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی فیصلے کے تحت قتل کر دیا تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments