ڈاکٹر امجد ثاقب امید کا روشن ستارہ



سیاسی منظر نامہ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔

‎انتخابات جمہوری نظام کی بنیاد اور اساس ہوتے ہیں جمہوریت کا حسن کہلاتے ہیں اور پاکستان میں یہی انتخاب جمہوریت کا منہ کالا کر رہے ہیں۔ کیا عجب معاملہ آن پڑا ہے کہ پارلیمانی نظام کو ہی داؤ پر لگا دیا گیا ہے اور آزمودہ کار سیاستدان بگڑے بچوں کی طرح ریت کے گھروندے بنانے اور گرانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔

‎ایوان بالا یعنی سینیٹ کا انتخاب کھیل تماشا بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے ۔

‎ضمنی انتخاب میں خاص طور پر ڈسکہ میں جو رسوائی اور خاک اڑائی گئی ہے ، اس سے جمہوریت سرنگوں ہو گئی اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ دھاندلی کی آڑ میں جناب نواز شریف لندن میں بیٹھے دھول اڑائے جا رہے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کے نام برے بھلے جاری جمہوری نظام کو داؤ پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں کہ حالات کا رخ بدل جائے اور وہ بیرونی بنکوں میں چھپائی جانے والی قومی دولت کے انبار بچانے میں کامیاب ہو جائیں۔

اور جناب عمران خان جان بوجھتے پہلی بار مصلحت سے کام لے رہے ہیں ۔ گندے انڈوں کے خلاف بلا دھڑک راست اقدام کی بجائے حالات کا جائزہ لیے جا رہے ہیں۔

‎ویسے یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جمہوریت کے جان نثار پرویز رشید کو منافقانہ حیلہ جوئی، اور چالاکی سے ایوان بالا سے باہر رکھا جائے اور نون لیگ خود اس کھیل کا حصہ بن جائے اور چھچھورا واؤڈہ اس مقدس ایوان میں پہنچنے کے لئے پر تول رہا ہو ۔ہمارے نام نہاد احباب دانش کا یہ عالم ہے کہ نہایت ڈھٹائی سے شفافیت لانے کے لیے سینیٹ میں ”اوپن ووٹ“ کی مخالفت میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں ، ایسی ایسی آئینی و قانونی نظیریں ڈھونڈی جا رہی ہیں۔ ایسی ایسی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں کہ شرم و حیا منہ چھپائے پھر رہی ہے۔

‎مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں اور دجل و فریب اور جھوٹ کے کاروبار، ایک شخص مینارہ نور بن کر نمودار ہو رہا ہے۔ ڈاکٹرامجد ثاقب۔ جو قحط الرجال میں قوم کی امیدوں کا مرکز بن چکے ہیں۔ ‎جن پر ساری قوم عملاً متفق ہو چکی ہے۔ شہباز نواز شریف سے وزیراعظم عمران خان تک سب صرف ان پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کرتے رہے ہیں۔

‎ڈاکٹر امجد ثاقب پر اندھے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ شہباز شریف نے پنجاب میں فروغ تعلیم کا اربوں روپے کا منصوبہ ڈاکٹر صاحب کے سپرد کیے رکھا جسے انہوں نے کامیابی سے چلا کر دکھایا۔  اسی طرح اب وزیراعظم عمران خان بھی غریبوں کو 50 لاکھ گھر بنا کر دینے کے منصوبے میں ڈاکٹر امجد ثاقب کی خدمات حاصل کر چکے ہیں۔

‎وطن عزیز کو اپنے ہاتھوں سے خود پیداکردہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے آگے بڑھنا ہو گا ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے آزمودہ فرزند قوم کے ہوتے ہوئے ‎ہمیں کسی اجنبی معین قریشی کا تجربہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‎قابل قبول فرزندان قوم کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی ، ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے نیک دل اور دیانت دار سیوا کاروں کو آگے لانا ہو گا۔

اس معاملے میں عدالت عظمیٰ سے بھی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے جس کا آئینی طریق کار صدارتی ریفرنس کی شکل میں موجود ہے۔

اس وقت معیشت کی بحالی ترجیح اول ہونی چاہیے ، بے لاگ اور یکساں احتساب سے کون انکار کر سکتا ہے۔ اس دو نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد سے مختصر عرصے میں قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ کوئی مقبول عوامی رہنما سیاسی مہم جوئی کر کے حالات سدھارنے کی اس دردمندانہ کوشش کی کھلے بندوں مخالفت نہیں کر سکتا ہے کہ اس کی مقبولیت چشم زدن میں خاک میں مل جائے گی۔

‎ویسے بھی مدتوں پہلے ڈاکٹر صاحب نے خواہش ظاہر کی تھی ”اخوت“ پاکستان کی سب سے بڑی خدمت گار تنظیم بن جائے اور ہم کھلی آنکھوں سے یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے دیکھ رہے ہیں کہ اخوت بلا سود چھوٹے قرضہ جات کی فراہمی میں دنیا کا سب سے بڑا ادارہ بن چکی ہے۔

‎زمینی حقائق یہ ہیں کہ عظیم الشان اخوت یونیورسٹی کا منفرد خواب حقیقت میں بدل چکا ہے۔ جس کی بنیاد یہ اچھوتا خیال تھا کہ غربت ذہانت کو قتل نہ کر سکے،  ذہین نوجوان مفت تعلیم حاصل کریں اور جب اس قابل ہوں تو اخراجات اپنی مادر علمی کو واپس کر دیں تاکہ کوئی اور اس چشمے سے فیض یاب ہو۔

اخوت یونیورسٹی کے لاہور اور چکوال کیمپس پوری طرح فعال ہیں، چاروں صوبوں سے آنے والے ذہین طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، اخوت یونیورسٹی اقامتی درس گاہ ہے جہاں طلبہ کی رہائش و جملہ ضروریات بلا معاوضہ بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔

معاشرے کے ستائے، دھتکارے اور اذیتوں کے مارے خواجہ سراؤں کی دست گیری بھی اخوت کے مقدر میں آئی۔ اخوت کا صحت کلینک ناداروں کے لئے ایک اور خدمت ہے۔ دولاکھ پینسٹھ ہزار مستحق مریضوں کا مفت علاج ہو رہا ہے۔ اخوت فوڈ بنک کی صورت مستحق افراد کے لئے کھانا فراہم کرنے کی خدمت الگ ہے۔ اخوت کے رضاکاروں کی تعداد سات ہزار پینتالیس اور عطیات دینے والوں کی تعداد نوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس سے فیض یاب ہونے والوں کی تعداد 29 لاکھ 23 ہزار سے زائد ہے۔اور یہ سب کچھ خاموشی سے جاری و ساری ہے۔

‎ڈاکٹر امجد ثاقب نے بین الاقوامی ہیبت ناک مالیاتی ٹھگوں کو کھلے مقابلے میں پچھاڑ دیا ہے۔  سوال یہ کہ اگر ڈاکٹر صاحب اپنی لگن اور پاکستان سے عشق کو بروئے کار لا کر عالمی سطح پر ناممکن کو ممکن بنانے کا معجزہ دکھا سکتے ہیں تو سیاسی میدان میں الجھی ہوئی ڈوریں کیوں نہیں سلجھا سکتے ۔ اگر عالمی مالیاتی ٹھگوں کو شکست دی جا سکتی ہے تو مقامی ٹھگوں کی ان کے سامنے اوقات ہی کیا ہے۔ یہ قوم بانجھ نہیں ہے، ان گنت فرزندان قوم خدمت کے لئے حاضر اور موجود ہیں۔

‎پولیس سروس کے نمایاں افسران ڈاکٹر شعیب سڈل، ذوالفقار چیمہ، رزاق چیمہ، الاستاذ سلیم منصور خالد، عالمی براڈکاسٹر افضل رحمن دیگر شعبوں میں ارشاد کلیمی، شمشاد احمد خان، ایمبیسڈر باسط صاحب ، سیف و قلم بریگیڈئیر صولت رضا، پاکستان میں مواصلاتی انقلاب کے خالق میاں محمد جاوید اور دیگر بزرگ احباب کی صلاحیتوں اور تجربات سے استفادہ جا سکتا ہے۔

اور تازہ صورت احوال کچھ یوں ہے سینیٹ الیکشن اور ضمنی انتخابات نے حضرت مولانا ”آئین کے تناظر“ کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے ، وہ قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کا گھن چکر چلا رہے تھے اور برے بھلے جاری پارلیمانی نظام کو منہ کے بل گرانے پر تلے ہوئے تھے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری اور جناب نواز شریف اپنے مقاصد کے تناظر میں انہیں ہلا شیری دے رہے تھے ، کہتے ہیں کہ جناب زرداری نے بگڑے بچے کی طرح آمادۂ فساد حضرت مولانا کی راہ کھوٹی کر دی اور نواز شریف کو سمجھایا کہ نعرے بازی برسر زمین مریم بی بی خوب کر رہی ہیں اور خوب رش پکڑ رہی ہیں لیکن آپ زمینی حقائق کو مدنظر رکھیں، حضرت مولانا چونکہ خود پارلیمان سے باہر ہیں اس لئے نظام کا دھڑن تختہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

پنجاب میں سینیٹ منڈی باہمی افہام و تفہیم سے بند کرا دی ہے جس کا کریڈٹ پنجاب اسمبلی کے مرنجاں مرنج چودھری پرویز الٰہی کو جاتا ہے ۔ اس کالم نگار کے دو بزرگ دوست اور مہربان ایوان بالا میں پہنچ چکے ہیں۔  دھیمے سروں میں بات کرنے نواز شریف کی آتشیں تقریروں کے خالق الاستاذ عرفان صدیقی اور ہم دم دیرینہ اعجاز چودھری ایوان بالا میں خوب رونقیں لگایا کریں گے۔ وہ کسی حد تک مرحوم مشاہداللہ خان کی کمی پوری کریں گے۔ ماضی قریب میں بلند آہنگ اور شعلہ بیان اعجاز چودھری کا پسندیدہ اسلوب بغاوت ہوتا تھا۔ عدیم ہاشمی ان کے پسندیدہ شاعر ہوتے تھے اور چودھری صاحب جا بجا یہ رجز الاپتے رہتے تھے۔
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے

بلوچستان میں سینیٹ کے الیکشن کا گول چکر ملاحظہ فرمائیں
”میں عبدالقادر ہوں“ ، پی ٹی آئی نے عبدالقادر کو بلوچستان سے سینیٹ کا ٹکٹ دیا، بلوچستان سے پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے اعتراض کیا کہ عبدالقادر ایک دن پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں، نوٹوں کی بوریاں لیے گھوم رہے ہیں، میڈیا میں شدید تنقید ہوئی اور ٹکٹ واپس ہو گیا ، اب ٹکٹ ظہور آغا کو مل گیا۔ عبدالقادر نے دوبارہ بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے اور ان سے سینیٹ کا ٹکٹ واپس لے لیا۔

پی ٹی آئی نے اپنا بلوچستان سے واحد سینیٹ امیدوار عبدالقادر کے حق میں دست بردار کروا لیا اور اب عبدالقادر پی ٹی آئی کے ووٹوں سے باپ کے ٹکٹ پر سینٹر منتخب ہوں گے۔ ویسے پی ٹی آئی عمران خان کی رہنمائی میں پیسوں کی سیاست کے خلاف ”جہاد“ کر رہی ہے۔

حرف آخر یہ کہ ہفتہ 27 فروری کو محترم راؤ منظر حیات کا کالم ”منظم طریقے سے انار کی پھیلائی جا رہی ہے؟“ دوبارہ پڑھ لیں تو آپ کو سنگین معاملات سمجھنے میں مزید آسانی ہو جائے گی۔ پاکستان کے چوٹی کے ایک دانشور نے ڈاکٹر امجد ثاقب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”امجد ثاقب ان شخصیات میں سے ہیں جن پر صرف پاکستان نہیں ساری مسلم امہ کو آنے والی کئی صدیاں تک فخر کرنا چاہیے۔

پاکستان کی سول سروس کا قد کاٹھ باقی تمام اداروں سے اس لیے زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے کہ اس کے دامن میں امجد ثاقب کا وجود آفتاب تازہ کی طرح جگمگاتا ہے۔ ڈاکٹر امجدثاقب کی اخوت کا کمال یہ ہے کہ جس وقت پوری دنیا ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے عالمی مالیاتی نظام کے ہشت پا شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی، دنیا کے مفلوک الحال، پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کو جال میں پھانسنے کے لئے سود کی غلاظت میں لتھڑا ہوا مائیکرو کریڈٹ نظام نافذ کر رہی تھی، جن کی شرح سود 26 فیصد سے لے کر 75 فیصد تک جا پہنچتی تھی، اور قرض ادا کرتے کرتے غریب کے بیل، سونے کا زیور اور زمین تک قرق ہو جاتی تھی، ایسے میں اخوت نے 2001 میں چند ہزار کی سرمایہ کاری سے بلا سود قرضہ دینے کا اعلان کیا اور آج وہ 19 سال بعد اس وقت 40 لاکھ غریبوں اور مسکینوں کو چھوٹے کاروبار کے لئے ایک سو دس ارب روپے کے قرضے دے چکی ہے۔

یہ جدید انسانی تاریخ میں کسی بلا سود قرضے کی سب سے بڑی مثال ہے۔ چھوٹے لوگوں کو سودی قرضے (مائیکروکریڈٹ) دینے کا آغاز ورلڈ بینک نے اپنے سرمائے سے بنگلہ دیش کے محمد یونس کے گرامین بنک سے کیا تھا اور پھر اسے دیگر پروردہ لوگوں کی طرح نوبل انعام بھی عطا کیا گیا اور اس پروگرام کو دنیا کے غریب ملکوں میں بھی پھیلایا گیا۔ یہ ایک خالصتاً کاروباری ساہوکارانہ قرضے کا تصور تھا جس میں امیر سرمایہ کاری کرتے تھے اور غریبوں کو معمولی سودی قرضے میں پھنسا کر ان کے پاس موجود کل کائنات بھی ہتھیا لی جاتی تھی۔ جبکہ امجد ثاقب کا بلا سودی قرضوں کا نظام اسلام کے زریں اصولوں پر مبنی ہے اور اس کی واپسی کی شرح تقریباً سو فیصد ہے۔ اسے کسی کی جائیداد قرق نہیں کرنا پڑتی۔ دوسری جانب ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ترقیاتی بنک کے پروگرام شکلیں بدل بدل کر پاکستان میں جاری کیا جاتا رہا ہے ”

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments